پارلیمنٹ ہائوس کا توسیعی منصوبہ 9 سال بعد بھی تعطل کاشکار
مشرف دور میں تعمیر کا کام شروع کیا گیا تھا، مختلف ادوار میں مختلف رکاوٹیں آتی رہیں.
موجودہ پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت اتنے بڑے ایوان بالا اور زیریں کے سامنے چھوٹی پڑگئی جبکہ پارلیمنٹ ہائوس کا توسیعی منصوبہ بھی عرصہ9 سال گزرنے کے باوجود عملاً تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت جو 1973میں معرض وجود میں آئی، ماضی میں سینیٹ کے 100 اور قومی اسمبلی کے 272 ارکان کے لیے پوری تھی لیکن اب جبکہ سینیٹ کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 105 اور قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 342 ہو گئی ہے اور دونوں ایوانوں میں قائمہ کمیٹیاں بھی بڑی تعداد میں فعال ہیں وہاں پارلیمنٹ کی موجودہ عمارت پارلیمنٹیرینز اور ان کے ساتھ فرائض انجام دینے والے عملے کے لیے ناکافی ہو گئی ہے ۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں توسیعی انتظامی بلاک کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تھا۔ مختلف ادوار میں مختلف اذہان کارفرما رہے اور کبھی رقم کی کمی کا مسئلہ آڑے آیا تو کبھی مختلف چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی کی تبدیلی سامنے آگئی۔
معلوم ہوا ہے کہ یہ توسیعی منصوبہ 9 سال قبل بنایا گیا ، اس کا نقشہ بھی بنایا گیا پھر 5 سال قبل سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک کے دور میں اس منصوبے میں کچھ تیزی آئی لیکن اس کے بعد اس منصوبے کی تکمیل میں آئی ایس آئی اور آئی بی آڑے آگئی ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ کیو نکہ ایوان صدر سے بالکل ملحق ہے اور جو سیکیورٹی نقطہ نگاہ سے ایک رسک ہے اس لیے اسے منظور نہ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں جب منصوبے کی چیف ایگزیکٹو اسباق حسن سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ منصوبہ 9 سال سے تعطل کا شکار ہے۔ مزید یہ کہ اسٹاف اورکارپارکنگ کی گنجائش نہ ہو نے کی وجہ سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے دفاتر کو ئی پرانی یو ایس ایڈ بلڈنگ اور کو ئی نئی نادرا بلڈنگ میں بیٹھ کر فرائض انجام دینے پر مجبور ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت جو 1973میں معرض وجود میں آئی، ماضی میں سینیٹ کے 100 اور قومی اسمبلی کے 272 ارکان کے لیے پوری تھی لیکن اب جبکہ سینیٹ کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 105 اور قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 342 ہو گئی ہے اور دونوں ایوانوں میں قائمہ کمیٹیاں بھی بڑی تعداد میں فعال ہیں وہاں پارلیمنٹ کی موجودہ عمارت پارلیمنٹیرینز اور ان کے ساتھ فرائض انجام دینے والے عملے کے لیے ناکافی ہو گئی ہے ۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں توسیعی انتظامی بلاک کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تھا۔ مختلف ادوار میں مختلف اذہان کارفرما رہے اور کبھی رقم کی کمی کا مسئلہ آڑے آیا تو کبھی مختلف چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی کی تبدیلی سامنے آگئی۔
معلوم ہوا ہے کہ یہ توسیعی منصوبہ 9 سال قبل بنایا گیا ، اس کا نقشہ بھی بنایا گیا پھر 5 سال قبل سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک کے دور میں اس منصوبے میں کچھ تیزی آئی لیکن اس کے بعد اس منصوبے کی تکمیل میں آئی ایس آئی اور آئی بی آڑے آگئی ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ کیو نکہ ایوان صدر سے بالکل ملحق ہے اور جو سیکیورٹی نقطہ نگاہ سے ایک رسک ہے اس لیے اسے منظور نہ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں جب منصوبے کی چیف ایگزیکٹو اسباق حسن سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ منصوبہ 9 سال سے تعطل کا شکار ہے۔ مزید یہ کہ اسٹاف اورکارپارکنگ کی گنجائش نہ ہو نے کی وجہ سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے دفاتر کو ئی پرانی یو ایس ایڈ بلڈنگ اور کو ئی نئی نادرا بلڈنگ میں بیٹھ کر فرائض انجام دینے پر مجبور ہیں۔