سوشل میڈیا انسانی زندگی کا ترجمان نظر آنے لگا ہے مسعود اشعر
اردو کانفرنس کےدوسرے دن پہلے اجلاس میں’’تحقیق وتنقیدکاعصری منظر نامہ‘‘،’’فیض اورمعاصر تنقید‘‘پرادیبوں کا اظہارخیال.
آرٹس کونسل کراچی میں جاری 4 روزہ پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز تین اہم اجلاس ہوئے جس میں پاکستان اور بھارت کے نامور ادیبوں، دانشوروں نے اظہار خیال کیا۔
پہلے اجلاس کا موضوع''تحقیق وتنقید کا عصری منظر نامہ تھا،اس موقع پر تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز ادیب مسعود اشعر نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں بہت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس کے بعد نوجوان نسل پر اسکے اثرات مرتب ہورہے ہیں،اہم شخصیات بھی اپنی بات اسٹیج پر کہنے کے بجائے انٹرنیٹ اور فیس بک کے توسط سے آگے تک پہنچا رہے ہیں یہ ایک آسان ہدف ہے کتابوں کے نئے ایڈیشن اب کتاب میں نہیں بلکہ آن لائن آرہے ہیں یہ جدید دور کی تبدیلی ہے ہماری خواہش ہے کہ اس دور کا نوجوان دور حاضر کی اس نئی تبدیلی میں ہماری رہنمائی کرے۔
کتاب ہمیشہ تنہائی کی ساتھی رہی ہے، موجودہ دور میں سوشل میڈیا انسانی زندگی پر اس حد تک اثر انداز ہوا ہے کہ ان کا ترجمان نظر آنے لگا ہے،سوشل میڈیا کے اچھے اور برے اثرات کا سامنا سب کو کرنا پڑے گا، معروف ادیب سید مظہر جمیل نے''فیض اور معاصر تنقید'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا موجودہ دور میں دنیا کے کئی ممالک سے بھی فیض احمد فیض پہ تنقید آرہی ہے سب سے پہلے تنقیدی جائزہ فیض کی شاعری پر ن م راشد نے پیش کیا جن کا کہنا تھا نقش فریادی رومان کے سنگم پر کھڑا ہے انھوں نے جو پہلی تنقید فیض کی شاعری پر کی تھی وہی باتیں مختلف اسلوب کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے دہرائی جا رہی ہیں،ترقی پسند اشخاص نے فیض کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا ہے۔
جس کی وجہ سے ایک بہت بڑا ذخیرہ سامنے آگیا ہے،ڈاکٹرمعین الدین عقیل نے کہا کہ امریکا اور مغرب نے بلا کسی تفریق کے ادب کے لیے کام کیا ہماری تحقیق کو فیض پہچانے والوں میں ان کا حصہ بھی شامل ہے جنھوں نے ہماری زبان پر کام کیا، مرزا حسین نے وہ کام کیا جو پہلے کسی نے نہیں کیا(تحفہ الہند) ہالینڈ کے پہلے شخص نے قواعد لکھی تھی، جونز شیکسپیئر نے اردو کی پہلی لغت جاری کی،ناصر عباس نیئرنے اپنے خطاب میں کہا کہ پہلے تنقید نگار کسی ایک رخ پہ تنقید کرتا تھا جیسے نفسیاتی ، سماجی اور روحانی رخ لیکن آج کا تنقید نگار امتزاجی تنقید کرتا ہے، یعنی سارے خارجی اور داخلی معاملات سے جڑ کر تخلیق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے،ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ نسائی ادب صرف عورتیں نہیں لکھتیں مرد بھی لکھتے ہیں جنس مرد و عورت کا امتیاز ہم نے خود قائم کیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ نسائی فیشن مغرب کا لایا ہوا ہے ان کے پاس ان کا جواز نہیں ہے ،خواتین کی آزادی بہت سی پابندیوں کے زیر اثر ہے۔
اس تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ضیا الحسن نے انجام دیے، علاوہ ازیں ممتاز شاعر، ادیب اور دانشور ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا نام آتے ہی ذہن میں کئی ایسی شخصیات آجاتی ہیں جو بہت قد آور اور جن میں کئی جہتیں ہوتی ہیں ''سلیم الزماں صدیقی'' کی ملک و قوم کے لیے بہت سی خدمات ہیں، انھوں نے گریجویشن فارسی اور فلسفے میں کیا پھر وہ برطانیہ چلے گئے،ان کی جہتیں انھیں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں،انھوں نے سائنس میں اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر ہندوستان واپس آگئے انھوں نے ہندوستان میں 5 بڑے سائنسی اداروں میں کام کیا، ان خیالات کا اظہار انھوں نے پانچویں اردو عالمی کانفرنس کے دوسرے روز''بیاد رفتگاں''کے اجلاس کے موقع پر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،قبل ازیں جلسے کا آغاز معروف ادیب اور شاعرصابرجعفری نے اپنے مقالے سے کیا اورجس کا موضوع ''اردو ادب کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آباد ی'' تھا،صابر جعفری نے کہا کہ نظیر اکبر آبادی کی انسان دوستی ان کا اصل جوہر ہے۔
کچھ ادیبوں نے انھیں شجر ممنوع قرار دے کر چھوڑ دیا، محمد ایوب شیخ نے شمشیر الحیدری کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کچھ اشعار سنا ئے انھوں نے کہا کہ صوبہ سندھ اردو ادب سے الگ نہیں اور یہاں کے ادب میں دکھ سکھ دونوں ساتھ ساتھ ملتے ہیں،معروف مصنف ڈاکٹر آصف فرخی نے اپنے موضوع (منٹو کے شور میں کرشن چندر) میں مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آوازوں کے شور میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی وہ ہے کرشن چندر کی آواز اور میں سوچتا ہوں کہ اس شور میں آواز کہاں گم ہو گئی، وہ بے گانگی کے سلوک کے مستحق نہیں کہ انہیں دیوار میں چن دیا جائے،کرشن چندر کے نام کے ساتھ ساتھ ایک اور نام منٹو اور عصمت چغتائی کا بھی برابر لکھا جاتا ہے ،کرشن چندرکا'' پشاور ایکسپریس ''اور عصمت چغتائی کا''جڑ میں''زیادہ متاثر نہیں کرتے کیونکہ دونوں میں خاص حد تک ہولناکی اور بربر یت بیان کی گئی۔
ممتاز ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے حمید اختر(مرحوم) کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی یادیں تازہ کیں، انھوں نے کہا کہ حمید اختر(مرحوم) اول سے آخر تک ڈرامہ کار تھے وہ اپنی تحریک کے آخری سپاہی تھے،وہ کسی بھی محفل یا جلسے میں یادوں کو تازہ کرنے کا موقع آسانی سے نکال لیتے تھے،جیسے داستاں گو کرتا ہے ممتاز موسیقار اور اداکارارشد محمود نے اپنے موضوع ''مہدی حسن ''سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں جب بھی اپنی زندگی میں گزارے عہد کے لمحات کے بارے میں سوچتا ہوں تو وہ نم ناک بھی اور خوش بھی ہوتا۔انھوں نے کہا کہ میں مہدی حسن بھی ایک تھے میں ان کا پرستار ہوں ، پاکستانی فلموں میں بھی مہدی حسن کے گیتوں کی مانگ بڑھ رہی تھی،مہدی حسن سے ملاقات کا سلسلہ ان کے آخری ایام تک جاری رہا۔
انھوں نے میٹرک سنسکرت میں پڑھی اور اردو پاکستان میں آکر سیکھی، محنت اور دشوار ترین دور میں بھی انھوں نے ریاض جاری رکھا، جب انھوں نے ''گلوں میں رنگ بھرے''تو اس غزل نے انھیں پورے بر صغیر میں انہیں بام عروج تک پہنچا دیا،انہیں اپنی میٹھی اور سریلی آواز میں کئی سروں اور راگوں پر عبور حاصل تھا،ان کی وفات نہ صرف اردوبولنے والوں کی ہے بلکہ موسیقی کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے،ممتاز افسانہ نگارزاہدہ حنا کا موضوع ''ہاجرہ مسرور''تھا،انھوں نے کہا کہ جب لڑکیاں نوعمری میں گڑیوں سے کھیلتی تھیں ہاجرہ مسروراس وقت کہانیاں لکھتی تھیں،انھوں نے پڑھنے والوں کو جس طرح چونکا یا تو یہ ان کی بڑی کامیابی تھی،تقریب کی صدارت بیگم لطف اﷲ خان نے کی جبکہ کمپئیرنگ کے فرائض آرٹس کونسل کراچی کی گورننگ باڈی کے رکن اقبال لطیف نے خوبصورتی سے انجام دیے۔
پہلے اجلاس کا موضوع''تحقیق وتنقید کا عصری منظر نامہ تھا،اس موقع پر تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز ادیب مسعود اشعر نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں بہت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس کے بعد نوجوان نسل پر اسکے اثرات مرتب ہورہے ہیں،اہم شخصیات بھی اپنی بات اسٹیج پر کہنے کے بجائے انٹرنیٹ اور فیس بک کے توسط سے آگے تک پہنچا رہے ہیں یہ ایک آسان ہدف ہے کتابوں کے نئے ایڈیشن اب کتاب میں نہیں بلکہ آن لائن آرہے ہیں یہ جدید دور کی تبدیلی ہے ہماری خواہش ہے کہ اس دور کا نوجوان دور حاضر کی اس نئی تبدیلی میں ہماری رہنمائی کرے۔
کتاب ہمیشہ تنہائی کی ساتھی رہی ہے، موجودہ دور میں سوشل میڈیا انسانی زندگی پر اس حد تک اثر انداز ہوا ہے کہ ان کا ترجمان نظر آنے لگا ہے،سوشل میڈیا کے اچھے اور برے اثرات کا سامنا سب کو کرنا پڑے گا، معروف ادیب سید مظہر جمیل نے''فیض اور معاصر تنقید'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا موجودہ دور میں دنیا کے کئی ممالک سے بھی فیض احمد فیض پہ تنقید آرہی ہے سب سے پہلے تنقیدی جائزہ فیض کی شاعری پر ن م راشد نے پیش کیا جن کا کہنا تھا نقش فریادی رومان کے سنگم پر کھڑا ہے انھوں نے جو پہلی تنقید فیض کی شاعری پر کی تھی وہی باتیں مختلف اسلوب کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے دہرائی جا رہی ہیں،ترقی پسند اشخاص نے فیض کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا ہے۔
جس کی وجہ سے ایک بہت بڑا ذخیرہ سامنے آگیا ہے،ڈاکٹرمعین الدین عقیل نے کہا کہ امریکا اور مغرب نے بلا کسی تفریق کے ادب کے لیے کام کیا ہماری تحقیق کو فیض پہچانے والوں میں ان کا حصہ بھی شامل ہے جنھوں نے ہماری زبان پر کام کیا، مرزا حسین نے وہ کام کیا جو پہلے کسی نے نہیں کیا(تحفہ الہند) ہالینڈ کے پہلے شخص نے قواعد لکھی تھی، جونز شیکسپیئر نے اردو کی پہلی لغت جاری کی،ناصر عباس نیئرنے اپنے خطاب میں کہا کہ پہلے تنقید نگار کسی ایک رخ پہ تنقید کرتا تھا جیسے نفسیاتی ، سماجی اور روحانی رخ لیکن آج کا تنقید نگار امتزاجی تنقید کرتا ہے، یعنی سارے خارجی اور داخلی معاملات سے جڑ کر تخلیق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے،ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ نسائی ادب صرف عورتیں نہیں لکھتیں مرد بھی لکھتے ہیں جنس مرد و عورت کا امتیاز ہم نے خود قائم کیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ نسائی فیشن مغرب کا لایا ہوا ہے ان کے پاس ان کا جواز نہیں ہے ،خواتین کی آزادی بہت سی پابندیوں کے زیر اثر ہے۔
اس تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ضیا الحسن نے انجام دیے، علاوہ ازیں ممتاز شاعر، ادیب اور دانشور ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا نام آتے ہی ذہن میں کئی ایسی شخصیات آجاتی ہیں جو بہت قد آور اور جن میں کئی جہتیں ہوتی ہیں ''سلیم الزماں صدیقی'' کی ملک و قوم کے لیے بہت سی خدمات ہیں، انھوں نے گریجویشن فارسی اور فلسفے میں کیا پھر وہ برطانیہ چلے گئے،ان کی جہتیں انھیں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں،انھوں نے سائنس میں اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر ہندوستان واپس آگئے انھوں نے ہندوستان میں 5 بڑے سائنسی اداروں میں کام کیا، ان خیالات کا اظہار انھوں نے پانچویں اردو عالمی کانفرنس کے دوسرے روز''بیاد رفتگاں''کے اجلاس کے موقع پر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،قبل ازیں جلسے کا آغاز معروف ادیب اور شاعرصابرجعفری نے اپنے مقالے سے کیا اورجس کا موضوع ''اردو ادب کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آباد ی'' تھا،صابر جعفری نے کہا کہ نظیر اکبر آبادی کی انسان دوستی ان کا اصل جوہر ہے۔
کچھ ادیبوں نے انھیں شجر ممنوع قرار دے کر چھوڑ دیا، محمد ایوب شیخ نے شمشیر الحیدری کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کچھ اشعار سنا ئے انھوں نے کہا کہ صوبہ سندھ اردو ادب سے الگ نہیں اور یہاں کے ادب میں دکھ سکھ دونوں ساتھ ساتھ ملتے ہیں،معروف مصنف ڈاکٹر آصف فرخی نے اپنے موضوع (منٹو کے شور میں کرشن چندر) میں مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آوازوں کے شور میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی وہ ہے کرشن چندر کی آواز اور میں سوچتا ہوں کہ اس شور میں آواز کہاں گم ہو گئی، وہ بے گانگی کے سلوک کے مستحق نہیں کہ انہیں دیوار میں چن دیا جائے،کرشن چندر کے نام کے ساتھ ساتھ ایک اور نام منٹو اور عصمت چغتائی کا بھی برابر لکھا جاتا ہے ،کرشن چندرکا'' پشاور ایکسپریس ''اور عصمت چغتائی کا''جڑ میں''زیادہ متاثر نہیں کرتے کیونکہ دونوں میں خاص حد تک ہولناکی اور بربر یت بیان کی گئی۔
ممتاز ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے حمید اختر(مرحوم) کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی یادیں تازہ کیں، انھوں نے کہا کہ حمید اختر(مرحوم) اول سے آخر تک ڈرامہ کار تھے وہ اپنی تحریک کے آخری سپاہی تھے،وہ کسی بھی محفل یا جلسے میں یادوں کو تازہ کرنے کا موقع آسانی سے نکال لیتے تھے،جیسے داستاں گو کرتا ہے ممتاز موسیقار اور اداکارارشد محمود نے اپنے موضوع ''مہدی حسن ''سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں جب بھی اپنی زندگی میں گزارے عہد کے لمحات کے بارے میں سوچتا ہوں تو وہ نم ناک بھی اور خوش بھی ہوتا۔انھوں نے کہا کہ میں مہدی حسن بھی ایک تھے میں ان کا پرستار ہوں ، پاکستانی فلموں میں بھی مہدی حسن کے گیتوں کی مانگ بڑھ رہی تھی،مہدی حسن سے ملاقات کا سلسلہ ان کے آخری ایام تک جاری رہا۔
انھوں نے میٹرک سنسکرت میں پڑھی اور اردو پاکستان میں آکر سیکھی، محنت اور دشوار ترین دور میں بھی انھوں نے ریاض جاری رکھا، جب انھوں نے ''گلوں میں رنگ بھرے''تو اس غزل نے انھیں پورے بر صغیر میں انہیں بام عروج تک پہنچا دیا،انہیں اپنی میٹھی اور سریلی آواز میں کئی سروں اور راگوں پر عبور حاصل تھا،ان کی وفات نہ صرف اردوبولنے والوں کی ہے بلکہ موسیقی کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے،ممتاز افسانہ نگارزاہدہ حنا کا موضوع ''ہاجرہ مسرور''تھا،انھوں نے کہا کہ جب لڑکیاں نوعمری میں گڑیوں سے کھیلتی تھیں ہاجرہ مسروراس وقت کہانیاں لکھتی تھیں،انھوں نے پڑھنے والوں کو جس طرح چونکا یا تو یہ ان کی بڑی کامیابی تھی،تقریب کی صدارت بیگم لطف اﷲ خان نے کی جبکہ کمپئیرنگ کے فرائض آرٹس کونسل کراچی کی گورننگ باڈی کے رکن اقبال لطیف نے خوبصورتی سے انجام دیے۔