عید مبارک

میں ان دنوں لاہور شہر کی سڑکوں گلیوں میں چھوٹے چھوٹے معصوم بکروں سے لے کر دیوقامت اونٹوں تک کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں

Abdulqhasan@hotmail.com

میں ان دنوں لاہور شہر کی سڑکوں گلیوں میں چھوٹے چھوٹے معصوم بکروں سے لے کر دیوقامت اونٹوں تک کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے منہ مسلسل ہل رہے ہیں اور وہ کچھ نہ کچھ چبا رہے ہیں۔ شاید اپنے ساتھیوں کے ہار سنگھار کو بھی دیکھتے ہوں اور خوش ہوتے ہوں گے یا تعجب کرتے ہوں گے کہ اچانک یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ اسی شہر میں ان کی زندگی گزر گئی لیکن وہ خود اور ان کے ساتھی نارمل ہی دکھائی دیے۔

کسی ہارسنگھار کے بغیر اور کسی بہتر کھانے سے حسب معمول محرومی کی صورت میں ہی ان کی زندگی بسر ہوتی رہی لیکن ادھر کچھ دنوں سے ان کے لباس اور کھانے بدل گئے۔ ایسا نہ جانے کیوں ہوا لیکن ان جانوروں کو اس تبدیلی کا علم نہیں۔ یہ سب آنے والی عید کی وجہ سے ہوا جس میں ان ہنسنے کھیلنے، چمکنے مہکنے والی زندگی کے دن کم رہ گئے ہیں اور بس دو ایک دنوں میں وہ موت کا ذائقہ چکھ لیں گے یا اب تک چکھ چکے ہوں گے پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ نہ ہنستی کھیلتی زندگی اور نہ آراستہ پیراستہ زیب وزینت، انسانی زندگی کا یہ ایک معمول ہے جو ہر سال سامنے آتا ہے اور اپنے پیچھے کشتوں کے پشتے لگا کر گزر جاتا ہے۔

مسلمانوں کے ہاں ان کے عزیز ترین جاندار حیوانوں کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ یہ ان کے ایک پیغمبر کی سنت ہے اور ایک بڑا کار ثواب۔ اس عید کا نام ہی قربانی کی عید ہے۔ لوگ اپنی توفیق سے بڑھ کر جاندار خریدتے ہیں یا اس مقصد کے لیے گھر میں پہلے سے موجود جانوروں کو بھی خوب پال پوس کر اس دن ذبح کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی پرورش کا مقصد ہی ان کی یہ قربانی ہوتی ہے جس سے ان کی پرورش کرنے والے سرخرو ہوتے ہیں۔

چنانچہ قربانی کی عید گزر گئی اور اہل اسلام نے خوب سیر ہو کر گوشت کھایا اور جس کے لیے وہ زیادہ ہوا اور فریج وغیرہ میں بھی سما نہ سکا وہ انھوں نے غرباء میں بانٹ بھی دیا۔ ہم غریبوں فیقروں کے لیے ہمیشہ فالتو سامان ہی مخصوص رکھتے ہیں اور اسے ان کے سپرد کر دیتے ہیں مگر وہ بھی محتاط ہو کر کہ کوئی اچھی بوٹی یا ٹانگ وغیرہ غلطی سے چلی نہ جائے کیونکہ یہ واپس نہیں ہو سکتی اور عین ممکن ہے اس کی تقسیم میں کوئی غلطی ہو جائے۔ جیسے ایک خاتون کے میکے میں دو ٹانگیں پہنچ گئیں اور ان کے گھر میں ایک کہرام برپا ہو گیا مگر جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔ نہ تو یہ ٹانگیں واپس آ سکتی ہیں اور نہ ہی یہ خاتون اتنی ہمت کر سکتی ہے کہ انھیں واپس منگوا لے۔ تحفوں کو واپس لینا ممکن ہی نہیں ہے۔ تحفہ تقدیر کا تیر ہے چل گیا تو چل گیا، یہ لوٹ نہیں سکتا۔


قربانی کی عید حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت ہے اور مسلمان اس دن قربانی کر کے اس کی خوشی مناتے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی جاندار ذبح ہو جاتے ہیں مگر افسوس کہ کسی بھی گھر میں اس گوشت کو محفوظ کرنے کا معقول بندوبست نہیں ہوتا۔ تھوڑا بہت ہر گھر میں ہوتا ہے مگر بہت کہ تر و تازہ گوشت ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ دانے دانے پر جس کی مہر ثبت ہے وہ اس کو مل جاتا ہے۔

یہ گوشت بھی قسمت کا کھیل ہے اور جس کی قسمت میں جیسا لکھا ہے اسے اتنا ہی مل جاتا ہے۔ اس کی قسمت کا لکھا اسے مل کر ہی رہتا ہے، نہ اسے روکا جا سکتا ہے نہ چھینا جا سکتا ہے۔ قسمت کا یہ چھوٹا سا کھیل عبدالاضحی پر گھر گھر میں کھیلا جاتا ہے۔ کچھ لوگ جو گوشت جیسی مہنگی شے کو ترستے رہتے ہیں اس عید کے انتظار میں دیکھے جاتے ہیں اور خوشحال لوگ بھی ان میں شامل ہوتے ہیں جو اپنی قربانی کا پسندیدہ حصہ خود رکھ لینا چاہتے ہیں اور شرعاً اس کی اجازت بھی ہے۔

اگر یہ تیسرے حصے سے زائد نہ ہو چنانچہ ان کا تیسرا حصہ فالتو قسم کا نہیں ہوتا قربان ہونے والے جانوروں کے جسم کا بہترین حصہ۔ قدرت نے سال میں ایک دن ہر ایک کے لیے رکھ دیا ہے جب وہ اپنی مرضی کا کھانا کھاتا اور کھلاتا ہے اگر کوئی اس عید پر بھی کنجوسی کرتا ہے تو وہ اسلامی روایات کا احترام نہیں کرتا۔ اسلام کھلے دل اور مزاج کے لوگوں کا مذہب ہے۔ اس میں فضول خرچی ضرور گناہ ہے لیکن ایک حد سے بڑھی ہوئی کنجوسی بھی گناہ ہے جو عام سلمانوں کو ان کے جائز حصے سے روکتی ہے۔

اگر مسلمان کھلے دل سے اپنے تہوار کریں تو شاید ہی کوئی مسلمان محروم رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اب بھی اتنی دولت دے رکھی ہے اور ان کے گھر ساز وسامان بھرے ہوئے ہیں کہ اگر وہ دل کھلا کریں تو مسلم معاشرے میں غربت یا احساس غربت ختم ہو جائے۔ دراصل یہ کام ہماری مسلمان حکومتوں کا ہے جو لوگوں کے دلوں میں سے کنجوسی ختم کر دیں لیکن اس کے لیے ہمارے بے حد دولت مند حکمرانوں کو دل کھلا کرنا پڑے گا۔ ایک پرانی عربی مثل یاد آ رہی ہے کہ ''الناس علی دین ملوکہم'' کہ عوام اپنے حکمرانوں کے طور طریقوں پر چلتے ہیں اور حکمرانوں کی پیروی کرتے ہیں۔ تمام قارئین کو عید قربان مبارک۔
Load Next Story