معاشی ترقی سماجی بہتری سے منسلک ہونی چاہیے

کوئی شبہ نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے پاکستان میں بہت خوشحالی آئے گی

کوئی شبہ نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے پاکستان میں بہت خوشحالی آئے گی۔ غیر ہنرمند، ہنرمند افراد کو، پروفیشنلز کو چھوٹے بڑے صنعتکاروں، تاجروں، خدمات فراہم کرنیوالے افراد کوکام کے لیے نئے مواقعے دستیاب ہونگے۔ سڑک تو ویسے بھی لوگوں کے لیے سہولت، روزگارکے فروغ اور معاشی ترقی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

کسی ملک کی ترقی کے لیے ذرایع نقل وحمل یعنی بندرگاہ، سڑکیں، ریلوے،ایئرپورٹس، ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی دیگرسہولیات، ذرایع مواصلات، توانائی پروجیکٹس میں جدت ناگزیر ہیں۔ مذکورہ بالا سب شعبے CPEC میں شامل ہیں۔یہ راہداری بلوچستان،خیبر پختون خوا، سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے لیے بھی تیزی سے ترقی اورخوشحالی حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کرے گی۔اس اقتصادی راہداری کی تعمیر پر پاکستانی قوم متحدومتفق ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور پاک فوج CPEC کی تعمیراورتحفظ کے لیے یکسو ہیں۔ ہر محب وطن پاکستانی چاہتا ہے کہ یہ منصوبہ بروقت مکمل ہو۔

سڑکیں اوررابطے ترقی اورخوشحالی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کی تعمیرقومی وسائل سے ہوتی ہے۔ قوموں کے اجتماعی وسائل اوراجتماعی کوششوں سے حاصل ہونے والی خوشحالی کو محض چند افراد یا چند طبقات کے لیے دولت کے حصول کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔قوم کی مالی خوش حالی کو سماج کی بہتری اور معاشرتی ارتقاء کا سبب بنانا چاہیے۔ سماجی خرابیوں کو دورکیے بغیر معاشی خوشحالی دور رس فوائد نہیں لاتی۔

ہمیں اپنے وطن پاکستان میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ ان میں کم شرح خواندگی اور غیرمعیاری تعلیم، صحت کی سہولتوں حتیٰ کہ صاف پانی تک سے بھی کروڑوں لوگوں کی محرومی،خواتین کے ساتھ امتیازاور تنگ نظری، مزدوروں اور کسانوں کی حق تلفی اوردیگر مسائل شامل ہیں۔ تعلیم کے معاملے میں ہی دیکھ لیجیے۔ بہت کم شرح خواندگی، سرکاری اسکولوں کی خراب یا صفر کارکردگی، غیر معیاری نصاب، گورنمنٹ اسکولز میں پرائمری اورسیکنڈری اسکول ٹیچرز کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے زیر اہتمام مرتب کردہ نصاب وقت کی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہ نصاب طالبعلموں کو پاکستانی سماج کی کئی اعلیٰ خصوصیات سے واقف نہیں کرواتا۔ اس نصاب کے ذریعے نئی نسل ہماری تاریخ، روایات، ہماری کئی اعلیٰ سماجی اقدار سے واقف نہیں ہورہی۔ یہ نصاب پاکستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح متعارف کروانے میں کامیاب نہیں ہے۔

یہ صورتحال پاکستان اسٹڈیز، اردو اور پاکستان کی دیگر بڑی زبانوں کے علم و ادب کے حوالے سے ہی نہیں ہے۔ اکنامکس و فنانس، انجینئرنگ و ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس اور دیگر شعبوں میں بھی تعلیمی نصاب زیادہ تر روایتی انداز میں ترتیب دیے گئے ہیں۔آیندہ بیس تیس برسوں میں سوشل سائنسز، اکنامکس، انجینئرنگ، میڈیسن، کمپیوٹرسائنس اور دیگر شعبوں میں پاکستان کی ضروریات کیا ہوں گی۔ مستقبل کی ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہماری یونیورسٹیز،کالجز، ٹیکنیکل اداروں اوراسکولز میں کیا تیاریاں کی جارہی ہیں، اس موضوع پر آج حکومت کے زیراہتمام کوئی تحقیق اورکوئی انتظام میرے علم میں نہیںہے۔

ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بڑے شہروں اور دیہات میں دی جانیوالی تعلیم کے معیار میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اب ایک طرف تو ہمارا تعلیمی نظام دنیا کے کئی ممالک کی نسبت بوسیدہ اور فرسودہ ہے۔ دوسرا یہ کہ دیہی علاقوں میں تعلیم کا حال اور زیادہ خراب ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی نظام نئے دورکے تقاضوں سے ساٹھ سال پیچھے ہے۔

ملک کے لیے پالیسیاں بناتے ہوئے نصاب کو قومی مقاصد اور قومی امنگوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق بنانا ضروری ہے۔ اس جدیدنصاب کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ اسکول کے اساتذہ کو تربیت دینے اور ان کی گرومنگ کے لیے اقدامات پر بھی ساتھ ہی غورکرنا چاہیے۔

پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے۔ ایسی حالت میں جب کہ کئی ممالک پاکستان میں دہشت گردی اور بد امنی پھیلانے کے لیے فنڈنگ کر رہے ہوں، ملک میں بجلی اورگیس کی قلت ہو، صنعتکاروں اورکسانوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہو، اس کے باوجود پاکستان میں زرعی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور ملکی صنعتوں نے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ جاری رکھا۔

اس کا زیادہ ترکریڈٹ پاکستان کے صنعتکاروں اورکسانوں کو جاتا ہے۔ ایک طرف ہماری فوج، سیکیورٹی کے دیگر ادارے، پولیس کے افسر اور جوان پاکستان میں غیر ملکی سازشوں سے ہونے والی دہشتگردی کی لہر سے ملک وقوم کی سلامتی کا اہتمام کررہے ہیں دوسری طرف حالت جنگ کے باوجود پاکستان کے کسان، صنعتکار اور تاجر ملکی معیشت کوسنبھالے ہوئے ہیں۔


اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستانی قوم کتنی بہادر، پُرعزم اور باصلاحیت ہے۔ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری بھی پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔حکومت، فوج اورعوام اس راہداری کی تعمیر کے لیے پُرعزم اور یکسو ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ راہداری کی تعمیرکے ساتھ ساتھ اپنے کئی سماجی مسائل حل کرنے کے لیے بھی اقدامات شروع کردیے جائیں۔

معاشی ترقی کے ساتھ سماجی بہتری اور ترقی بھی ضروری ہے۔ سماجی بہتری کا ایک مطلب یہ ہے کہ ملک میں معیاری تعلیم عام ہو۔ صرف امیر یا اپر مڈل کلاس ہی نہیں بلکہ لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقات کے بچوں کے لیے بھی ان کی رہائش کے قریب اسکول موجود ہوں۔ ان اسکولوں میں تعلیم کسی درخت کے نیچے یا برآمدے میں بیٹھ کر نہ دی جائے بلکہ پہلی تا پانچویں ہر جماعت کے لیے اسکول کی عمارت میں علیحدہ کلاس روم اور ہرکلاس کے لیے کم از کم ایک ٹیچر لازماً اسکول کے باقاعدہ اسٹاف میں شامل ہو۔

CPEC کا ایک بڑا حصہ بلوچستان سے گزر رہا ہے۔ بلوچستان زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ بلوچستان کے عوام کا حق ہے کہ ان کی ترقی کے لیے خصوصی منصوبے بنائے جائیں۔ نہ صرف CPEC کے قریبی علاقوں بلکہ اس سڑک سے دوردراز واقع علاقوں میں بھی تعلیم پر زیادہ انوسٹمنٹ کی جائے۔

پاکستان کے ہر صوبے کے دیہی علاقوں میں گورنمنٹ پرائمری اور سیکنڈری اسکولزکی حالت بہتر بنانے اور پیشہ ورانہ تعلیم کے فروغ پر بھی خصوصی اور فوری توجہ دی جائے۔ پاکستان کے دیہی اور شہری عوام کی معاشی وسماجی بہتری کے لیے ایک ایسی جامع اور دور رس تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے جو آیندہ پچیس تیس برس کی صنعتی وتجارتی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تیارکی گئی ہو۔

پاکستان کے پاس دنیا کی نہایت محنتی اور باصلاحیت افرادی قوت ہے۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس افرادی قوت کو معیاری تعلیم اور ہنرکے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ اگر ملک کے کروڑوں غریب گھرانوں کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم اور جدید دورکے تقاضوں کے مطابق ہنر سیکھنے کے انتظامات نہ کیے گئے تو آیندہ برسوں میں شروع ہونے والے منصوبوں میں اکثر نوجوان صرف مزدوری کے قابل ہی نظر آئیں گے۔

.........

جسٹس (ر)خالد علی قاضی کا شکریہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس انورظہیر جمالی نے کراچی میں ایک تقریب میں شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونیورسٹی آف لا ء کے زیر اہتمام تیسرے بیچ میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات کو خوش آمدیدکہا اور ڈاکٹر عشرت العباد خان ریسرچ انسٹیٹیوٹ کاافتتاح کیا۔اس تقریب سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی خطاب کیا۔ اس سے ایک روز قبل یونیورسٹی سینیٹ کے پانچویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے اس یونیورسٹی کو صوبے کے لیے اعزاز قرار دیا۔ سینیٹ کے اجلاس میں گورنرکے پرنسپل سیکریٹری محمد حسین سید، مشیر تعلیم سید وجاہت علی، وائس چانسلرقاضی خالدعلی اور یونیورسٹیز کے سیکریٹری نوید احمد شیخ نے بھی شرکت کی۔

یونیورسٹی کی سطح پر قانون کی تعلیم کے لیے کراچی میں قائم کی جانے والی شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونیورسٹی آف لا ء پاکستان کی پہلی لا ء یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے قیام کا زیادہ تر کریڈٹ شعبہ قانون کے ایک محترم رکن، یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر جسٹس (ر) خالد علی قاضی کو جاتا ہے۔قاضی صاحب نے تصورکو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کئی سال تک دلجمعی سے کاوشیں کیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا ء کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں پاکستانی قوانین کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی جامعات میں مشترکہ ڈگری پروگرام میں داخلوں اور اسکالرشپ کی سہولتیں بھی موجود ہیں۔
Load Next Story