پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ فائر بیک ہو سکتا ہے امریکی ماہرین
اجلاس میں شریک ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امریکا کی پاکستان کے ساتھ شراکت داری اب بھی بامقصد ہے
امریکی ارکان کانگریس کو ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والی ریاست قرار دے کر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بیک فائر ہو سکتا ہے، میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں پاکستان امریکا تعلقات کے حوالے سے ہونے والی بحث کا مسودہ جاری کردیا گیا، چیئرمین کمیٹی باب کورکر نے اپنے بیان میں افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپس کو شکست دینے میں پاکستان کے مبینہ طور پر عدم تعاون پر مبنی رویے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کورکر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر بین کارڈن نے اجلاس کے شرکا سے پوچھا کہ پاکستان کو تعاون پر مجبور کرنے کے لیے امریکی ارکان کانگریس کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں، اجلاس میں شریک جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل مارکی نے کمیٹی کو بتایا کہ کانگریس کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسے اقدامات بیک فائر کر سکتے ہیں اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے، ڈینیئل مارکی نے کہا کہ موجودہ صدر باراک اوباما کے مقابلے میں نیا آنے والا امریکی صدر پاکستان کے حوالے سے پہلے سے زیادہ جابرانہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے، ہمیں پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کرنے کے بجائے اس میں کمی اور تشکیل نو پر غور کرنا چاہیے۔
کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے شریک ڈائریکٹر توبی ڈیلٹن نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام میں پیشرفت نہ کرے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ماضی میں پابندیوں اور مراعات کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں؟، سی آئی اے کے اسلام آباد میں تعینات رہنے والے سابق اسٹیشن منیجر روبرٹ ایل گرینیئر نے کمیٹی کو بتایا کہ 1993 اور 1994 میں پاکستان ان ممالک کی امریکی فہرست میں تقریباً شامل ہو ہی چکا تھا جنھیں امریکا نے دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک قرار دیا تھا تاہم امریکی قومی مفادات کی وجہ سے واشنگٹن اس وقت یہ فیصلہ نہیں لے سکا۔ سینیٹر باب کورکر نے دعویٰ کیا کہ شدت پسند تنظیم حقانی نیٹ کے رہنما پاکستان میں موجود ہیں اور حکومت پاکستان یہ جانتی ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں تاہم انکے خاتمے کے لیے وہ امریکا کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔
اجلاس میں شریک ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امریکا کی پاکستان کے ساتھ شراکت داری اب بھی بامقصد ہے۔ انھوں نے کہا کہ11 ستمبر2001 سے اب تک پاکستان کو دیے جانے والے 19 ارب ڈالر میں سے صرف 8 ارب ڈالر سیکیورٹی مقاصد کے لیے تھے،11 ارب ڈالر انسانیت کی فلاح کے لیے دیے گئے، پروفیسر مارکی نے بتایا کہ پاکستان کودی جانے والی امریکی امدادکو تین کیٹیگریزمیں تقسیم کیاجائے، پروفیسر مارکی نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ شراکت داری چاہتے ہیں،اسی لیے ہم نے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے تاہم اتنا ضرور کیا کہ جو کام وہ نہیں کررہے اسے کے پیسے بھی نہیں دے رہے۔
ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کورکر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر بین کارڈن نے اجلاس کے شرکا سے پوچھا کہ پاکستان کو تعاون پر مجبور کرنے کے لیے امریکی ارکان کانگریس کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں، اجلاس میں شریک جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل مارکی نے کمیٹی کو بتایا کہ کانگریس کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسے اقدامات بیک فائر کر سکتے ہیں اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے، ڈینیئل مارکی نے کہا کہ موجودہ صدر باراک اوباما کے مقابلے میں نیا آنے والا امریکی صدر پاکستان کے حوالے سے پہلے سے زیادہ جابرانہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے، ہمیں پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کرنے کے بجائے اس میں کمی اور تشکیل نو پر غور کرنا چاہیے۔
کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے شریک ڈائریکٹر توبی ڈیلٹن نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام میں پیشرفت نہ کرے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ماضی میں پابندیوں اور مراعات کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں؟، سی آئی اے کے اسلام آباد میں تعینات رہنے والے سابق اسٹیشن منیجر روبرٹ ایل گرینیئر نے کمیٹی کو بتایا کہ 1993 اور 1994 میں پاکستان ان ممالک کی امریکی فہرست میں تقریباً شامل ہو ہی چکا تھا جنھیں امریکا نے دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک قرار دیا تھا تاہم امریکی قومی مفادات کی وجہ سے واشنگٹن اس وقت یہ فیصلہ نہیں لے سکا۔ سینیٹر باب کورکر نے دعویٰ کیا کہ شدت پسند تنظیم حقانی نیٹ کے رہنما پاکستان میں موجود ہیں اور حکومت پاکستان یہ جانتی ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں تاہم انکے خاتمے کے لیے وہ امریکا کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔
اجلاس میں شریک ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امریکا کی پاکستان کے ساتھ شراکت داری اب بھی بامقصد ہے۔ انھوں نے کہا کہ11 ستمبر2001 سے اب تک پاکستان کو دیے جانے والے 19 ارب ڈالر میں سے صرف 8 ارب ڈالر سیکیورٹی مقاصد کے لیے تھے،11 ارب ڈالر انسانیت کی فلاح کے لیے دیے گئے، پروفیسر مارکی نے بتایا کہ پاکستان کودی جانے والی امریکی امدادکو تین کیٹیگریزمیں تقسیم کیاجائے، پروفیسر مارکی نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ شراکت داری چاہتے ہیں،اسی لیے ہم نے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے تاہم اتنا ضرور کیا کہ جو کام وہ نہیں کررہے اسے کے پیسے بھی نہیں دے رہے۔