دلفریب ہنزہ گزشتہ سے پیوستہ

میں نے کسی رہائشی بستی میں پھلدار پودوں کی اسقدر بہتات نہیں دیکھی جتنی ھنزہ میں دیکھنے کو ملتی ہے

zulfiqarcheema55@gmail.com

میں نے کسی رہائشی بستی میں پھلدار پودوں کی اسقدر بہتات نہیں دیکھی جتنی ھنزہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ گھروں کے صحن خوبانیوں سے اَٹے ہوئے ہیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ اورپگڈنڈیوں کے دونوں طرف پھلوں سے لدے ہوئے پودے نظر آتے ہیں، اس لحاظ سے ہنزہ کی وادی ایک دلفریب چمنستان ہے ۔

ہوٹل کے برآمدے میں کھڑے ہوکرنیچے دیکھیں تو سبز پوش وادی ہے جسکے بیچوں بیچ دریائے ہنزہ بہہ رہا ہے، اوپر دیکھیں تو پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں ہیں۔ جن سے مقامی لوگ پوری طرح متعارف ہیں جو ہمیں اشاروں سے بارباربتاتے رہے کہ ''وہ راکا پوشی کی چوٹیاں ہیں، وہ نانگا پربت کے پہاڑ ہیں، وہ چوٹیاں سیون سسٹرز کہلاتی ہیں''۔ چوٹیوں کو دیکھکر لگتا تھا قبائلی عورتوں نے سفید چادریں اوڑھ رکھی ہیں اوردیو ہیکل پہاڑ دیکھیںتو لگتا تھا کسی قبائلی سردار نے سفید پگڑی باندھ رکھی ہے۔

صبح کے وقت سورج کی طلائی کرنوں کے لمس سے برف پوش پہاڑسنہری رنگ کے ہو جاتے ہیں۔ حسنِ قدرت کے مبہوت کردینے والے نظارے اتنے روح پرور ہیں کہ دل چاہتاہے انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ادھر ہی رہ جائے انھی نظاروں میں کھو جائے اور انھی کا حصہ بن جائے۔ یہ سب قدرت کے معجزات ہیں۔ ھنزہ میں شاہ بلوط اور پاپلر کے درختوں کی بہتات ہے اگر یہاںپائن کے درخت بھی لگائیںجائیں تو وادی کے حسن میں بے پناہ اضافہ ہوجائیگا۔

ہنزہ میں آباد ہونے والے ابتدائی قبیلوں میں ھُن بھی تھے جن کے نام پر پوری وادی کا نام ہنزہ مشہور ہوگیا۔ ملک کے باقی حصّوں میں عام تاثّر یہ ہے کہ ہنزہ کے لوگ بڑے پرامن اور Docileقسم کے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے یہاں کے لوگ امن پسند ضرور ہیں مگر یہ بڑے بہادر اور جری ہیں اور فوج اور پولیس میں رہ کر انھوں نے جرأت و بہادری کے کئی باب رقم کیے ہیں، اسی علاقے کا ایک بہادر سپوت لالک جان نشانِ حیدر بھی حاصل کرچکا ہے۔ پاکستان سے یہ ٹوٹ کر محبتّ کرتے ہیں اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔

ہنزہ کی آبادی ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ ستانوے فیصد لوگ اسماعیلی ہیں، تین فیصد اہل تشیعہ اور چندگھرانے سُنیوں کے ہیں ۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے بعد قراقرم ایریا ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (KADO) اور CIQAMبھی مقامی آبادی کی معاشی اورسماجی زندگی میں بہترئی لانے میں متحّرک ہیں۔

ہنزہ پہنچ کر ہم نے اپنی باگیں اے کے آر ایس پی والوں کو تھمادی تھیں ، جنہوں نے کئی فنّی ادارے دکھائے، زیرِ تربیّت نوجوانوں سے ملوایا ، آغا خان ہائی اسکول کے معیار اور طالبات کی خود اعتمادی اور ذہانت نے حیران کردیا۔ بچیوں کی ایک کلاس میں جاکر ہم نے پوچھا کہ'' یہ اگست کا مہینہ ہے اس مہینے کی کیا خاص اہمیت ہے؟ "ایک بچی نے پورے اعتماد سے کہا "اس مہینے میں میری سالگرہ ہے" ہم نے کہا "آپکو سالگرہ مبارک ہو مگر اسی مہینے میں ایک اورسالگرہ بھی ہے وہ کس کی ہے؟" اس پر بہت سی بچیوں نے بلند آواز میں جواب دیا "ہمارے پیارے پاکستان کی سالگرہ ہے" پاکستان کے بانیوں قائد اعظمؒ ، علامہ اقبالؒ اور پاکستان کے بارے میںکئی سوالات پوچھے گئے جنکے انھوں نے صحیح جوابات دیے ،یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں پوچھے گئے سوالوں کے صحیح جواب دیں اور انھیںمیری طرف سے نقد انعام نہ ملے۔

ھنزہ کی خواتین جیسی خوداعتماد ی ملک کے کسی اورحصے میںنظر نہیں آتی۔ بڑے شہروں کی زیادہ تراین جی اوز توخواتین کے حقوق کا نام بیچ کر ڈالر بٹورنے میں مصروف رہتی ہیں جب کہ Women empowermentکا عملی مظاہرہ ہنزہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ CIQAMکے سیف اﷲبیگ ہمیں لکڑی کی ایک بہت بڑی ورکشاپ میں لے گئے وہاں یہ دیکھکر ہم حیران رہ گئے کہ لکڑی کاٹنے اور اسے مختلف شکلیں دینے والے ترکھان (Carpenter)مرد نہیںبلکہ خواتین تھیں جو آروں اور تیشوںسے لکڑی کے بڑے بڑے تختے اور تنے کاٹ رہی تھیں، اس ورکشاپ میںوہ لکڑی کا فرنیچر بناتی ہیں۔ وہاں سے نکل کر ہم لنچ کے لیے ایک ریستوران میں پہنچے وہ بھی مکمل طور پر خواتین چلارہی تھیںاور نئی لڑکیوں کو تربیّت بھی دی رہی تھیں۔


ھنزہ میں سرینا نام کاایک ہوٹل بھی ہے ۔مگر ایگل نیسٹ (شاہین کا گھونسلہ) اپنی اونچائی کے سبب سب سے بہترین لوکیشن پر واقع ہے۔ ایگل نیسٹ کے مالک علی مدد نے ہمیں کہا کہ مجھے سو کے قریب تربیّت یافتہ ویٹر درکار ہیں۔ ہم نے اس سے وعدہ کیا کہ ہم کئی سو نوجوانوں کو ٹریننگ دیں گے تاکہ یہاںہوٹلوں کو ٹرینڈ ویٹر مل سکیں۔ ایک وعدہ ہم نے اس سے بھی لیا کہ وہ ہوٹل کو upgrade کریگا۔ ایسا ہوگیا تو سیاّحوں کو ھنزہ میں PCبھوربن کی طرح کا ایک اورہوٹل مل جائیگا۔ اگر حکومت ہوٹل تک جانے والی سڑک کو مزیدچوڑا کرادے تو ایگل نیسٹ غیرملکی سیاحوں کو کھینچنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

ہنزہ سے پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو پرہم عطا آباد جھیل دیکھنے بھی گئے۔ پانچ سال پہلے جب پہاڑی تودوں سے دریا بند ہوگیا، کئی دیہات دریا برد ہوگئے قراقرم ہائی وے بھی دریا کے نیچے آگئی اورٹریفک کے لیے بند کردی گئی ،چین سے تجارت بھی ختم ہوگئی تواس بہت بڑے بحران کا حل بھی چینی بھائیوں نے ہی نکالا ۔ چینی انجینئرز کی ذہانت اور مہارت نے معجزہ کردکھایا ۔ انھوں نے پندرہ کلومیٹر تک پہاڑوں کو کاٹ کر پانچ سرنگیں بنائیں اور کے کے ایچ کو پھر سے جوڑدیا ، اس سے پاکستان اور چین کی تجارت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔

عام طور پر لوگ گلگت، ھنزہ اور اسکردو سے ہی متعارف ہیں مگر شمالی علاقہ جات میں ان کے علاوہ بھی درجن بھرانتہائی دلفریب اور روح پرور مقامات ہیں جہاں سیاح فیمیلیز کے ساتھ دس پندرہ روز قیام کرکے فطرت کے لازوال حسن سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اس کے لیے حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ان مقامات کو Developeکرے اور وہاں صاف ستھرے واش روم فوری طور پر تعمیر کرائے۔

ہنزہ پہنچے ہی تھے کہ ڈی آئی جی انعام الرحمن نے فون کرکے انسپکٹر جنرل پولیس کا پیغام پہنچایا کہ ''کل رات کا ڈنر اُنکی طرف سے ہوگا اور کھانے سے پہلے گلگت میں تعینات پولیس افسروں سے خطاب بھی کرنا ہوگا''۔ شام چھ بجے سینٹرل پولیس آفس میں آئی جی ظفر اقبال اعوان اور ان کی ٹیم نے ریسیو کیا ، یادگارِ شہداء پر پھول چڑھانے اور دعا کرنے کے بعد پولیس افسران سے بھرے ہوئے کانفرنس روم میں پہنچے اور ان سے کھل کر باتیں ہوئیں مگر جو بات زور دیکر کی گئی وہ یہ تھی کہ ''کئی صوبوں کی پولیس نے بہت قربانیاں دی ہیں مگر عوام کا اعتماد اورسب سے زیادہ نیک نامی موٹروے پولیس کے حصّے میں آئی ہے اس لیے کہ اس کے افسران ایماندار اورخوش اخلاق ہیں اور ضرورت پڑنے پر مسافروں کی مدد کرتے ہیں ۔

اس سے واضح طور پر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے رزقِ حلال کھانا، عوام کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا اور بغیر کسی لالچ اور مفاد کے ان کی مدد کرنا کتنا اہم ہے۔گلگت بلتستان پولیس میں بھی موٹروے پولیس کیطرح عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا Potentialاور صلاحیّتیں موجود ہیں، ان کی عمومی شہرت بھی اچھی ہے اگرجی بی پولیس بھی موٹروے پولیس کے اوصاف اپنی بنیادی اقدار (Core Values)کیطرح اپنالے،یعنی ایمانداری ان کا ایمان، خوش اخلاقی ان کی پہچان اور عوام کی مدد ان کی شان بن جائے تو یہ بھی موٹروے پولیس کی طرح عوام کا محبوب اور مقبول ادارہ بن سکتا ہے ''۔

مینگو پارٹی

راقم نے پچھلے دنوںاپنے گاؤں میں کچھ خاص مہمانوں کو مدعو کیا اور ان کے اعزاز میں ایک مینگو پارٹی کا اہتمام کیا ۔ جسکا لطف ابھی تک کم نہیں ہوا۔ قارئین کا خیال ہوگاکہ راقم کے مہمان کوئی وزیر،سفیریااعلیٰ سرکاری افسران ہوں گے۔۔ نہیں ایسا نہیں۔ ۔ اگرچہ ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں وزراء ، سفراء ، وزرائے اعلیٰ اور وزیرِ اعظم قدم رنجہ فرما چکے ہیں ،مگر اس بار میرے معزز مہمان ملک کے اہم ترین مقتدرافراد نہیں تھے،بلکہ میرے مہمانان ِگرامی ہمارے گاؤں کے یتیم بچے، بیوگان، معذور اور بیماران تھے جنکے لیے مہنگائی کے سبب دو وقت کی روٹی کا بندو بست بھی محال ہے۔ فروٹ کھانا تو ایک خواب ہے مگر خالقِ کائنات کی یہ مخلوق بھی خدا کی پیدا کردہ نعمتوں سے مستفیض ہونے کی حقدار ہے۔

انھوں نے کبھی آم کھایا بھی ہے تو نچلے درجے کا غیر معیاری اور وہ بھی ریڑھیوں سے خریدا ہوا نیم گرم ۔ میرے مہمان فریج میں لگے ہوئے ٹھنڈے اور میٹھے آموں سے شاید ہی کبھی لطف اندوز ہوئے ہوں لہٰذاہم نے پانی سے بھرے ہوئے بہت بڑے ٹب میں برف ڈال کر اسے ٹھنڈا کیا اور اسمیں اعلیٰ درجے کے چونسہ آم ڈالے اور جب آم ٹھنڈے یخ ہو گئے تو راقم انھیں کاٹ کاٹ کر اپنے مہمانوں کو پیش کرتا رہا۔ بڑی دعوتیں کی ہیں مگر ایسا لطف و سرور پہلے کسی میزبانی میں حاصل نہیں ہوا۔آئیندہ سردیوں میں انھی مہمانوں کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کیا جائیگا ۔ دوستوں سے بھی کہونگا کہ وہ بھی ایسی دعوت کرکے دیکھیں اسکاسرور اور سرشاری مدتوں قائم رہیگی۔
Load Next Story