پاکستانی لیڈروں کے خواص
غرض کہنا یہ ہے کہ جمہوریت کی باتیں کرنیوالے اسٹوڈنٹس یونین بحال کرنے میں بالکل تیار نہیں ہیں
سن 30 کی دہائی تھی علامہ اقبال اپنا مشہور خطبہ الٰہ آباد دے رہے تھے۔ الٰہ آباد لکھنو کے بعد دوسرا بڑا شہر یوپی کا ہے جہاں یونیورسٹی اور کالج کی بھرمار تھی اور آج بھی ہے، البتہ پہلے چند لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔ اس شہر میں دریائے گنگا اور جمنا آکر ملتے ہیں جس کی وجہ سے اس کو سنگم بھی کہا جاتا ہے دونوں دریا جب مل کر بہتے ہیں تو ان کا نظارہ بھی خوب ہوتا ہے ۔
ہندوؤں کا مذہبی شہر بھی اور مسلمانوں کا مخصوص شہر اس کو سمجھتے۔ یہاں علامہ نے چند سو ممتاز مسلمانوں سے خطاب کیا اور خیال پاکستان کی گفتگو فرمائی جو آج تک خطبہ الٰہ آباد کے نام سے مشہور ہے۔ خیالوں کی یہ گفتگو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ تھا بلند خیال ادبا، شعرا فلسفی ان کے آہنگ کو آگے بڑھاتے رہے۔ مسلمانوں کے ہزار سال حکمرانی کا دور تھا جس پر ایک تیسری حکومت یعنی انگریز کی حکمرانی تھی، جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے اس لیے کوئی فساد اور بلوہ جو اکثریتی مذہب کے ماننے والوں سے ممکن تھا نہ ہوا اور یہ باتوں کی لہریں وسیع تر ہوتی گئیں اور آج تک تاریخ میں اس خطبے کا ایک مقام ہے۔ اسی بات پر علامہ کو مصور پاکستان کہا جاتا ہے۔
اس خطبے کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ حسرت موہانی نے اس جلسے میں شرکت کی اور بعض ہندو زعما بھی شریک ہوئے تاکہ روز روز کے ہندو مسلم جھگڑے کا خاتمہ ہو مگر نہ بھرپور مسلمانوں کا انخلا بھارت سے ہو اور نہ ہی پاکستان سے ہندوؤں کا تقریباً 50 فیصد لوگوں کی ہجرت ہوئی ۔ اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو 13 اگست کو یہ کہنا پڑا کہ آج سے آپ آزاد ہیں اپنی مساجد اور اپنے گرجا گھروں میں اپنے مندروں میں جاسکتے ہیں۔ سب پاکستانی ہیں کوئی ہندو مسلم سکھ عیسائی نہیں سب کے مساوی حقوق ہیں۔
تاریخ کا سفر آگے بڑھتا گیا تو سیاسی حالات تبدیل ہوتے رہے، پنڈت جواہر لعل نہرو آزاد خیال سیکولرلیڈر تھے اور یہی گاندھی جی کا مگر پنڈت نہرو کے دل میں ایک پنڈت موجود تھا چونکہ ان کے پڑوس میں چین آزاد ہوا تھا اور وہاں جاگیرداری یکسر ختم کردی گئی تھی، لہٰذا اسی شور شرابے میں اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو خوش کرنے کے لیے بعدازاں ان کا مطالبہ بھی منظور کرلیا گیا تھا ۔ پنڈت جی نے زمینداری کو آتے ہی ختم کردیا کیونکہ 45 فیصد مسلمان 60 فیصد زمینداریوں کے مالک تھے ۔
اس کے علاوہ لکھنو سے ہندوستان کی بیوروکریسی نے بھی پاکستان کا رخ کیا وزیر خزانہ محمد شعیب پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے گورنر ۔ کراچی چونکہ دارالسلطنت تھا یہاں کے کمشنر جو سارے ملک کے کمشنروں کے ہیڈ تھے وہ جونپور (UP) سے آئے تھے بیوروکریسی کا ایک گھرانہ جو لکھنو سے کراچی آیا ان میں سید ہاشم رضا جنھوں نے قائد اعظم کے مزارکی زمین پسند کی اور فاطمہ جناح مادر ملت کو اسی صحن سے کچھ فاصلے پر دفن کیا گیا اور بعدازاں قائد ملت لیاقت علی خان کو بھی اسی احاطے میں دفن کیا گیا۔ یہ بھارت سے آئی ہوئی بیوروکریسی اور قیادت ملک پر 4 سال تک حکمراں رہی پھر ایوب خان نے کراچی کی کلیدی پوزیشن ختم کردی۔ فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن لڑا اور ون یونٹ کے فلسفے کے تحت ان کو شکست دے دی، ان دنوں مشرقی پاکستان کی آبادی 7 کروڑ تھی اور مغربی پاکستان کی 5 کروڑ مگر اسمبلی کے B/D بی ڈی کی سیٹیں 500 مشرقی پاکستان کی تھیں اور 500 ہی مغربی پاکستان کی ۔
اس کے علاوہ 1964 تک ایوب خان بھارت سے آئی ہوئی بیوروکریسی کو اتھل پتھل کرچکے تھے اور کھلے عام وہ حرکتیں کرتے تھے جس میں بھارت سے آئی بیوروکریسی، سندھی قوم پرستی کے خلاف عمل جاری رکھے ہوئے تھے مگر ایوب خان کی موجودگی میں کراچی کے سندھیوں اور این ایس ایف کے کارکنوں نے ون یونٹ کے خلاف مہم چلائی اور پہلی مرتبہ یہ عمل جئے سندھ کے ہمراہ تھا جس میں این ایس ایف نے نعرہ لگایا ون یونٹ نامنظور اور جئے سندھ نے ون یونٹ نہ کھپن مگر کراچی کے لڑکوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ ون یونٹ 1969 میں خاتمے کے بعد جو کوٹہ سسٹم رائج ہوگا اس کی کوئی حد نہ ہوگی۔ ادھر مشرقی پاکستان کے المیے سقوط ڈھاکا نے کراچی کی ڈیموگرافی بدل ڈالی اور ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جن کا مقابلہ بنگالی نوجوانوں سے تعلیمی ماحول میں ہوا ۔ بہرحال بھارت سے جو راجے مہاراجے، خان بہادر جو چلے تھے وہ اس گھمنڈ میں تھے کہ یہاں کے حاکم بنیں گے مگر ان کا یہ خیال ایوب خان کی دوغلی پالیسی نے ختم کردیا۔
ترقی پسندوں کا عمل ایک طرف مگر دوسری طرف نسلی تعصب بڑھنے لگا۔ چارسدہ سے ولی خان نے آکر اس فتنے کو ختم کیا ورنہ اسی دور میں مہاجر فیکٹر کا احیا ہوجاتا، یہ کراچی کے ترقی پسندوں نے نسلی فساد کو مٹادیا مگر بنگلہ دیش کی تخلیق اور پاکستان کے نام پر قربانی دینے والوں کی آمد نے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ موجودہ حکمرانوں کا جائزہ لیں تو ملک میں سب سے زیادہ کاریں اور موٹرسائیکلیں کراچی میں ہیں یعنی 70 فیصد گاڑیاں موٹرسائیکلیں اور ٹیکس بھی اسی حساب سے جمع ہوتا ہے پٹرول بھی ۔ مگر 4 برس سے سڑکیں نہ بن رہی ہیں نہ مرمت ہو رہی ہیں اور نہ کوڑا اٹھایا جا رہا ہے۔
یہی حال سکھر، روڑی، سیہون شریف بلکہ سیہون شریف پر تو موٹر سروس چلائی جاسکتی ہے اور وہ منافع بخش ہوگی۔ روانگی 8 بجے صبح واپسی 8 بجے رات اس طرح رات گھر پر گزاری جاسکے گی اور وہ لوگ جو راستے کی تکلیف کی وجہ سے نہیں جاسکتے کہ کس طرح ساڑھے چھ گھنٹے بیٹھے رہیں ان کا کام آسان ہوجائے گا۔ صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ اگر یہ قدم اٹھائیں تو یہ ایک بڑا قدم ہوگا عام طور جو وزیر اعلیٰ کراچی آئے اور صوبہ سندھ کی وزارت سنبھالی انھوں نے صفائی ستھرائی اور عوام کی مشکلات کا خیال نہ رکھا۔
ان لیڈروں کے مابین اگر اختلاف ہے تو اس لیے نہیں کہ کوئی عوامی مسئلہ ، تعلیم، بسوں یا سواریوں کا مسئلہ، کم ازکم اجرت کا مسئلہ، ملک کی 80 فیصد آبادی کا مسئلہ، بے گھر زمینوں کا مسئلہ، رہائشی عوامی اسکیم کا مسئلہ جھگڑا ہے تو حکمرانی نواز شریف کیوں کر رہے ہم کیوں نہیں کر رہے لوگوں کو ہم جمع کرکے ان کے گھر کا گھیراؤ کریں گے لیکن ان کو یہ پتا لگ گیا کہ فوج اس غیر جمہوری عمل کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھے گی لہٰذا اب اس پر اب اختلاف عمل ہوچکا ہے۔ عمران خان جو اپنے چاہنے والوں کو آمادہ خیال کرچکے تھے اب وہ بھی سوفٹ ایکشن لیں گے اور طاہر القادری جو اس روز قصاص کی کال لاہور میں دے چکے تھے اور اپنے عوام سے جاتی امرا کی تائید کرچکے تھے اب وہ بھی ڈھیلے ڈھیلے نظر آرہے ہیں مگر لب و لہجہ تند تھا اس دو راہوں پر چلنے کی صورت میں اور لوگ جو اقتدار کی لالچ میں چل رہے تھے وہ بھی دبے پاؤں خاموشی کی راہ پر چل رہے ہیں ۔
غرض کہنا یہ ہے کہ جمہوریت کی باتیں کرنیوالے اسٹوڈنٹس یونین بحال کرنے میں بالکل تیار نہیں ہیں کیونکہ اس طریقے سے پارٹیوں میں الیکشن کی راہ پر چلانے والے آگے آئیں گے اور عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں گے اب تو پاکستان میں بس یہ نعرہ ہے تم نہیں ہم حاکم بنیں گے اور پشتینی جمہوریت چلانا چاہتے ہیں چاہے وہ کسی قابل ہوں یا نہ ہوں پاکستانی لیڈر اصولوں کی سیاست نہیں کرنا چاہتے صرف تم نہیں ہم اسی لیے کئی بار ملک میں فوجی مداخلت ہوئی، جاگیرداری اور جمہوریت کا کیا واسطہ کوئی حکومت پاکستان میں ہاریوں کو منظم کیوں نہیں کرنا چاہتی کیونکہ حکومتیں شہروں اور دیہاتوں کے حالات بدلنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں وہ آپس کے ذاتی معاملات میں دلچسپی رکھ سکتی ہیں عوام کی پریشانی کی ان کو فکر نہیں۔
ہندوؤں کا مذہبی شہر بھی اور مسلمانوں کا مخصوص شہر اس کو سمجھتے۔ یہاں علامہ نے چند سو ممتاز مسلمانوں سے خطاب کیا اور خیال پاکستان کی گفتگو فرمائی جو آج تک خطبہ الٰہ آباد کے نام سے مشہور ہے۔ خیالوں کی یہ گفتگو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ تھا بلند خیال ادبا، شعرا فلسفی ان کے آہنگ کو آگے بڑھاتے رہے۔ مسلمانوں کے ہزار سال حکمرانی کا دور تھا جس پر ایک تیسری حکومت یعنی انگریز کی حکمرانی تھی، جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے اس لیے کوئی فساد اور بلوہ جو اکثریتی مذہب کے ماننے والوں سے ممکن تھا نہ ہوا اور یہ باتوں کی لہریں وسیع تر ہوتی گئیں اور آج تک تاریخ میں اس خطبے کا ایک مقام ہے۔ اسی بات پر علامہ کو مصور پاکستان کہا جاتا ہے۔
اس خطبے کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ حسرت موہانی نے اس جلسے میں شرکت کی اور بعض ہندو زعما بھی شریک ہوئے تاکہ روز روز کے ہندو مسلم جھگڑے کا خاتمہ ہو مگر نہ بھرپور مسلمانوں کا انخلا بھارت سے ہو اور نہ ہی پاکستان سے ہندوؤں کا تقریباً 50 فیصد لوگوں کی ہجرت ہوئی ۔ اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو 13 اگست کو یہ کہنا پڑا کہ آج سے آپ آزاد ہیں اپنی مساجد اور اپنے گرجا گھروں میں اپنے مندروں میں جاسکتے ہیں۔ سب پاکستانی ہیں کوئی ہندو مسلم سکھ عیسائی نہیں سب کے مساوی حقوق ہیں۔
تاریخ کا سفر آگے بڑھتا گیا تو سیاسی حالات تبدیل ہوتے رہے، پنڈت جواہر لعل نہرو آزاد خیال سیکولرلیڈر تھے اور یہی گاندھی جی کا مگر پنڈت نہرو کے دل میں ایک پنڈت موجود تھا چونکہ ان کے پڑوس میں چین آزاد ہوا تھا اور وہاں جاگیرداری یکسر ختم کردی گئی تھی، لہٰذا اسی شور شرابے میں اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو خوش کرنے کے لیے بعدازاں ان کا مطالبہ بھی منظور کرلیا گیا تھا ۔ پنڈت جی نے زمینداری کو آتے ہی ختم کردیا کیونکہ 45 فیصد مسلمان 60 فیصد زمینداریوں کے مالک تھے ۔
اس کے علاوہ لکھنو سے ہندوستان کی بیوروکریسی نے بھی پاکستان کا رخ کیا وزیر خزانہ محمد شعیب پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے گورنر ۔ کراچی چونکہ دارالسلطنت تھا یہاں کے کمشنر جو سارے ملک کے کمشنروں کے ہیڈ تھے وہ جونپور (UP) سے آئے تھے بیوروکریسی کا ایک گھرانہ جو لکھنو سے کراچی آیا ان میں سید ہاشم رضا جنھوں نے قائد اعظم کے مزارکی زمین پسند کی اور فاطمہ جناح مادر ملت کو اسی صحن سے کچھ فاصلے پر دفن کیا گیا اور بعدازاں قائد ملت لیاقت علی خان کو بھی اسی احاطے میں دفن کیا گیا۔ یہ بھارت سے آئی ہوئی بیوروکریسی اور قیادت ملک پر 4 سال تک حکمراں رہی پھر ایوب خان نے کراچی کی کلیدی پوزیشن ختم کردی۔ فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن لڑا اور ون یونٹ کے فلسفے کے تحت ان کو شکست دے دی، ان دنوں مشرقی پاکستان کی آبادی 7 کروڑ تھی اور مغربی پاکستان کی 5 کروڑ مگر اسمبلی کے B/D بی ڈی کی سیٹیں 500 مشرقی پاکستان کی تھیں اور 500 ہی مغربی پاکستان کی ۔
اس کے علاوہ 1964 تک ایوب خان بھارت سے آئی ہوئی بیوروکریسی کو اتھل پتھل کرچکے تھے اور کھلے عام وہ حرکتیں کرتے تھے جس میں بھارت سے آئی بیوروکریسی، سندھی قوم پرستی کے خلاف عمل جاری رکھے ہوئے تھے مگر ایوب خان کی موجودگی میں کراچی کے سندھیوں اور این ایس ایف کے کارکنوں نے ون یونٹ کے خلاف مہم چلائی اور پہلی مرتبہ یہ عمل جئے سندھ کے ہمراہ تھا جس میں این ایس ایف نے نعرہ لگایا ون یونٹ نامنظور اور جئے سندھ نے ون یونٹ نہ کھپن مگر کراچی کے لڑکوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ ون یونٹ 1969 میں خاتمے کے بعد جو کوٹہ سسٹم رائج ہوگا اس کی کوئی حد نہ ہوگی۔ ادھر مشرقی پاکستان کے المیے سقوط ڈھاکا نے کراچی کی ڈیموگرافی بدل ڈالی اور ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جن کا مقابلہ بنگالی نوجوانوں سے تعلیمی ماحول میں ہوا ۔ بہرحال بھارت سے جو راجے مہاراجے، خان بہادر جو چلے تھے وہ اس گھمنڈ میں تھے کہ یہاں کے حاکم بنیں گے مگر ان کا یہ خیال ایوب خان کی دوغلی پالیسی نے ختم کردیا۔
ترقی پسندوں کا عمل ایک طرف مگر دوسری طرف نسلی تعصب بڑھنے لگا۔ چارسدہ سے ولی خان نے آکر اس فتنے کو ختم کیا ورنہ اسی دور میں مہاجر فیکٹر کا احیا ہوجاتا، یہ کراچی کے ترقی پسندوں نے نسلی فساد کو مٹادیا مگر بنگلہ دیش کی تخلیق اور پاکستان کے نام پر قربانی دینے والوں کی آمد نے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ موجودہ حکمرانوں کا جائزہ لیں تو ملک میں سب سے زیادہ کاریں اور موٹرسائیکلیں کراچی میں ہیں یعنی 70 فیصد گاڑیاں موٹرسائیکلیں اور ٹیکس بھی اسی حساب سے جمع ہوتا ہے پٹرول بھی ۔ مگر 4 برس سے سڑکیں نہ بن رہی ہیں نہ مرمت ہو رہی ہیں اور نہ کوڑا اٹھایا جا رہا ہے۔
یہی حال سکھر، روڑی، سیہون شریف بلکہ سیہون شریف پر تو موٹر سروس چلائی جاسکتی ہے اور وہ منافع بخش ہوگی۔ روانگی 8 بجے صبح واپسی 8 بجے رات اس طرح رات گھر پر گزاری جاسکے گی اور وہ لوگ جو راستے کی تکلیف کی وجہ سے نہیں جاسکتے کہ کس طرح ساڑھے چھ گھنٹے بیٹھے رہیں ان کا کام آسان ہوجائے گا۔ صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ اگر یہ قدم اٹھائیں تو یہ ایک بڑا قدم ہوگا عام طور جو وزیر اعلیٰ کراچی آئے اور صوبہ سندھ کی وزارت سنبھالی انھوں نے صفائی ستھرائی اور عوام کی مشکلات کا خیال نہ رکھا۔
ان لیڈروں کے مابین اگر اختلاف ہے تو اس لیے نہیں کہ کوئی عوامی مسئلہ ، تعلیم، بسوں یا سواریوں کا مسئلہ، کم ازکم اجرت کا مسئلہ، ملک کی 80 فیصد آبادی کا مسئلہ، بے گھر زمینوں کا مسئلہ، رہائشی عوامی اسکیم کا مسئلہ جھگڑا ہے تو حکمرانی نواز شریف کیوں کر رہے ہم کیوں نہیں کر رہے لوگوں کو ہم جمع کرکے ان کے گھر کا گھیراؤ کریں گے لیکن ان کو یہ پتا لگ گیا کہ فوج اس غیر جمہوری عمل کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھے گی لہٰذا اب اس پر اب اختلاف عمل ہوچکا ہے۔ عمران خان جو اپنے چاہنے والوں کو آمادہ خیال کرچکے تھے اب وہ بھی سوفٹ ایکشن لیں گے اور طاہر القادری جو اس روز قصاص کی کال لاہور میں دے چکے تھے اور اپنے عوام سے جاتی امرا کی تائید کرچکے تھے اب وہ بھی ڈھیلے ڈھیلے نظر آرہے ہیں مگر لب و لہجہ تند تھا اس دو راہوں پر چلنے کی صورت میں اور لوگ جو اقتدار کی لالچ میں چل رہے تھے وہ بھی دبے پاؤں خاموشی کی راہ پر چل رہے ہیں ۔
غرض کہنا یہ ہے کہ جمہوریت کی باتیں کرنیوالے اسٹوڈنٹس یونین بحال کرنے میں بالکل تیار نہیں ہیں کیونکہ اس طریقے سے پارٹیوں میں الیکشن کی راہ پر چلانے والے آگے آئیں گے اور عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں گے اب تو پاکستان میں بس یہ نعرہ ہے تم نہیں ہم حاکم بنیں گے اور پشتینی جمہوریت چلانا چاہتے ہیں چاہے وہ کسی قابل ہوں یا نہ ہوں پاکستانی لیڈر اصولوں کی سیاست نہیں کرنا چاہتے صرف تم نہیں ہم اسی لیے کئی بار ملک میں فوجی مداخلت ہوئی، جاگیرداری اور جمہوریت کا کیا واسطہ کوئی حکومت پاکستان میں ہاریوں کو منظم کیوں نہیں کرنا چاہتی کیونکہ حکومتیں شہروں اور دیہاتوں کے حالات بدلنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں وہ آپس کے ذاتی معاملات میں دلچسپی رکھ سکتی ہیں عوام کی پریشانی کی ان کو فکر نہیں۔