دریائی کٹاؤ کی آفت اور حکومتی بے حسی
جہاں ایک ماہ پہلے تاحد نگاہ گنے کے لہلہاتے کھیت نظر آتے تھے اب وہاں ہر طرف دریا کا راج دکھائی دیتا ہے۔
ایک طرف اورنج لائن کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے تو دوسری طرف میگا پروجیکٹس کے نام پر اربوں روپے نچھاور ہوئے جارہے ہیں۔ کہیں میٹرو بس بنائی جا رہی ہے تو کہیں لاہور کو''تنہائی'' سے بچانے کیلئے ہر ممکنہ راستے کو موٹر وے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ کہیں اقتصادی ترقی کے اہداف کے حصول کی خاطر کروڑوں ڈالر کے انڈسٹریل اسٹیٹ قائم ہو رہے ہیں تو کہیں پاور جنریشن کے نام پر نندی پور جیسے کمزور پلانٹس میں اربوں روپے جھونکے جا رہے ہیں۔
کہیں دھرنا پارٹی جاری ہے تو کہیں ''نیا پاکستان'' بنانے کے پرانے منجن کو بیچنے کی مہم میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ لیکن اس سارے شور شرابے میں عوام اور عوامی مسائل کی آواز کہیں دب دبا سی گئی ہے۔ ایوانِ اقتدار کے ''خادمین اعلیٰ'' اور حزبِ اختلاف کے ''بلند عزموں'' کو خبر تک نہ ہوئی کہ ان کے اس شور شرابے میں شہر لاہور سے سینکڑوں میل دور جنوبی پنجاب کے شہر لیہ اور اس کے مضافاتی علاقوں سے گزرنے والے دریائے سندھ نے ہزاروں ایکڑ زرخیز اراضی کو کٹاؤ کے گھاؤ لگا لگا کرغریب کسانوں کی محنت اور ان کی امنگوں پر قیامت برپا کردی ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری اس شدید کٹاؤ نے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر دنیا کی زرخیز ترین اراضی کے ہزاروں ایکڑ اور ان پر موجود تقریباََ تیار فصلوں کو دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا۔
سال بھر کی محنت کے بعد گنے کی فصل سے اپنی روزی روٹی کی آس لگائے کسان اپنی خون پسینے کی کمائی اور ذریعہ کمائی کو اس بے بسی سے دریا برد ہوتا دیکھنے پر مجبور ہوجائیں گے، یہ شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ لیکن اس نا گہانی آفت کے دوران حکومت وقت کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ میگا پروجیکٹس کے سحر سے باہر آکر کچھ دیر کیلئے ان درد بھرے عوامی مسائل کی طرف بھی کچھ توجہ کرلے۔
اس''جذباتی تمہید'' کا پس منظر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر جاری وہ کٹاؤ ہے جس نے محض تین ہفتوں کے اندر اندر ضلع لیہ کے کچے کے علاقے کی ہزاروں ایکڑ زمین کو دریا بُرد کردیا ہے۔ اس زمین پر گنے کی فصل تقریباََ پک کر تیار ہوچکی تھی اور دو ماہ بعد اس کی کٹائی شروع ہونے والی تھی۔ ضلع لیہ کی دریائی پٹی پر تقریباََ 20 کلومیٹر لمبائی تک کٹاؤ کا عمل شدت اختیار کرچکا ہے، جس سے کم و بیش 3 ہزار فٹ کی چوڑائی تک زمین دریا کی نذر ہوچکی ہے۔ جہاں ایک ماہ پہلے تاحد نگاہ گنے کے لہلہاتے کھیت نظر آتے تھے اب وہاں ہر طرف دریا کا راج دکھائی دیتا ہے۔ وہ غریب کسان جس نے سال بھر کی کٹھن محنت کے بعد یہ امید لگائی تھی کہ اب کی بار گنے کی فصل بہت اچھی ہوگی اور وہ اس کی اچھے داموں فروخت کے ذریعے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرلے گا اس کی امیدوں پر دیکھتے ہی دیکھتے گنے کی کٹائی سے محض دو ماہ قبل دریائی کٹاؤ نے ایسا شب خون مارا کہ وہ بے یار و مددگار اپنی زمینوں اور ان پر کھڑی فصلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دریا میں ڈوبتے دیکھنے پر مجبور رہ گیا۔
سینکڑوں خاندان جو زراعت کے پیشے سے وابستہ ہونے کی بناء پر غربت میں ہی سہی پر ہنسی خوشی دریائی پٹی کے قریب برس ہا برس سے آباد تھے ان کی کئی بستیاں مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں، لیکن مجال ہے کہ مقامی انتظامیہ یا کوئی سیاسی حکومتی رکن ان آفت زدہ کسانوں کی مدد کو پہنچا ہو۔
دریائی کٹاؤ ایک ایسا عمل ہے جو ہائیڈرولوجیکل اور جیالوجیکل تبدیلیوں کے باعث پانی کے بہاؤ کا رخ تبدیل ہونے اوردریا کے کناروں پر بہاؤ کی رفتار تیز ہونے کے باعث شروع ہوتا ہے۔ کنارے کے قریب بہتا تیز پانی چند فٹ کی گہرائی پر زمین کے اندر ایک جھری سی بناتا چلا جاتا ہے اور پھرجوں جوں یہ جھری بڑھتی ہے اس پر موجود زمین مٹی کے بڑے بڑے تودوں کی صورت پانی میں گرنا شروع ہو جاتی ہے اور زمین پر موجود ہر چیز مٹی کے ساتھ دریا میں گرجاتی ہے اور یوں دریا کا پاٹ مزید وسیع ہوتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں شدید قسم کا مالی و جانی نقصان پیش آتا ہے۔ یہی عمل ضلع لیہ کی دریائی پٹی پر گزشتہ تین ہفتوں سے جاری ہے جس میں اب کافی تیزی آچکی ہے۔ لیکن مقامی یا صوبائی حکومت کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس ناگہانی آفت کو روکنے اور متاثرین کی امداد کیلئے کچھ اقدامات کر لے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ متاثرہ علاقے کے تقریباََ تمام منتخب نمائندوں کا تعلق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے لیکن ان میں سے کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اعلیٰ حکام تک اس مسئلے کی سنگینی کو پہنچائے اور حکومت کو ہنگامی اقدامات پر مجبور کرنے کی کوشش کرے۔ مقامی انتظامیہ نے بھی ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی کا کردار نبھانے کی ٹھان رکھی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اسسٹنٹ کمشنر نے علاقے کا دورہ کرنے کی زحمت تو کرلی لیکن عینی شاہدین کے بقول موصوف نے سرکاری گاڑی سے نیچے اتر کر حالات کا جائزہ لینا تک مناسب نہیں سمجھا۔ مقامی لوگوں اور متاثریں کے مطابق علاقے کے ایم پی اے صاحب نے آخرکار متاثرہ پٹی کا وزٹ تو ضرور کیا، لیکن صاحب یہ فرما کر چلتے بنے کہ اس وقت حکومت کے پاس فنڈز کی شدید قلت ہے لہذٰا ہم حکومت کی طرف سے کسی امداد کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے۔
اگر ممبر اسمبلی اور اسسٹنٹ کمشنر کے رویے کے بارے میں مقامی لوگوں کی زبانی بیان کی گئی بات واقعی سچ ہے تو یہ حکومتی اور سیاسی بے حسی کی حد ہے کہ حکومت کے پاس میگا پروجیکٹس اور اورنج لائن کیلئے تو اربوں روپے موجود ہیں لیکن دریائی کٹاؤ کے متاثرہ غریب کسانوں کی امداد کیلئے نہ تو ان کے پاس کوئی فنڈ ہیں اور نہ ہی دریائی کٹاؤ کو روکنے کیلئے کوئی منصوبہ۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباََ 4 ہزارایکڑ سے زائد زرخیز زمین دریا برد ہوچکی ہے جس کی مقامی قیمت اوسطً 20 لاکھ فی ایکڑ سے زائد ہے اور اس پر گنے کی فصل تقریباََ پک کر تیار ہوچکی ہے۔ یوں اگر حساب لگایا جائے تو تقریباََ 8 ارب روپے کی زمینیں اور کم و بیش 40 کروڑ کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اور یہ کٹاؤ اب بھی مسلسل جاری ہے بلکہ کچھ مقامات پر پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوتا جارہا ہے۔ جسے روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن فی الوقت حکومتی رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ شاید حکومت کے پاس اس کٹاؤ کو روکنے اور متاثرین کی امداد کیلئے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی فنڈز کیونکہ یہ دونوں چیزیں وہاں میسر ہوا کرتی ہیں جہاں عوامی فلاح حکومتی ترجیحات میں شامل ہوں۔
میں وفاقی حکومت اور بالخصوص صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ خدارا اس ناگہانی آفت کی طرف بھی کچھ توجہ دیجیے۔ اس دریائی کٹاؤ سے بچنے کا ایک طریقہ تو دریائی سپر بند کی تعمیر ہے، جسے چند مقامات پر ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس دریائی کٹاؤ کے مستقل بنیادوں پر روک تھام کیلئے حکومت کو چاہیئے کہ یو ای ٹی یا نسٹ کے سینئر سول انجینئرز اور جیالوجسٹس پر مشتمل ایک ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دے جو اس دریائی کٹاؤ کے ٹیکنیکل اسباب اور سدِباب کا تعین کرے اور پھر حکومت ان ہدایات کی روشنی میں مجوزہ اقدامات پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنائے وگرنہ دنیا کے انتہائی زرخیز خطوں میں سے ایک خطہ دریا برد ہونے کے باعث پاکستان کی معیشیت کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہزاروں متاثرہ کسانوں کے ریلیف کیلئے فوری طور پر ایک جامع منصوبہ تشکیل دے کر اس پر عمل درآمد شروع کرے کہ اس ملک پر اس کے کسان کا حق سب سے زیادہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کہیں دھرنا پارٹی جاری ہے تو کہیں ''نیا پاکستان'' بنانے کے پرانے منجن کو بیچنے کی مہم میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ لیکن اس سارے شور شرابے میں عوام اور عوامی مسائل کی آواز کہیں دب دبا سی گئی ہے۔ ایوانِ اقتدار کے ''خادمین اعلیٰ'' اور حزبِ اختلاف کے ''بلند عزموں'' کو خبر تک نہ ہوئی کہ ان کے اس شور شرابے میں شہر لاہور سے سینکڑوں میل دور جنوبی پنجاب کے شہر لیہ اور اس کے مضافاتی علاقوں سے گزرنے والے دریائے سندھ نے ہزاروں ایکڑ زرخیز اراضی کو کٹاؤ کے گھاؤ لگا لگا کرغریب کسانوں کی محنت اور ان کی امنگوں پر قیامت برپا کردی ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری اس شدید کٹاؤ نے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر دنیا کی زرخیز ترین اراضی کے ہزاروں ایکڑ اور ان پر موجود تقریباََ تیار فصلوں کو دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا۔
سال بھر کی محنت کے بعد گنے کی فصل سے اپنی روزی روٹی کی آس لگائے کسان اپنی خون پسینے کی کمائی اور ذریعہ کمائی کو اس بے بسی سے دریا برد ہوتا دیکھنے پر مجبور ہوجائیں گے، یہ شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ لیکن اس نا گہانی آفت کے دوران حکومت وقت کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ میگا پروجیکٹس کے سحر سے باہر آکر کچھ دیر کیلئے ان درد بھرے عوامی مسائل کی طرف بھی کچھ توجہ کرلے۔
اس''جذباتی تمہید'' کا پس منظر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر جاری وہ کٹاؤ ہے جس نے محض تین ہفتوں کے اندر اندر ضلع لیہ کے کچے کے علاقے کی ہزاروں ایکڑ زمین کو دریا بُرد کردیا ہے۔ اس زمین پر گنے کی فصل تقریباََ پک کر تیار ہوچکی تھی اور دو ماہ بعد اس کی کٹائی شروع ہونے والی تھی۔ ضلع لیہ کی دریائی پٹی پر تقریباََ 20 کلومیٹر لمبائی تک کٹاؤ کا عمل شدت اختیار کرچکا ہے، جس سے کم و بیش 3 ہزار فٹ کی چوڑائی تک زمین دریا کی نذر ہوچکی ہے۔ جہاں ایک ماہ پہلے تاحد نگاہ گنے کے لہلہاتے کھیت نظر آتے تھے اب وہاں ہر طرف دریا کا راج دکھائی دیتا ہے۔ وہ غریب کسان جس نے سال بھر کی کٹھن محنت کے بعد یہ امید لگائی تھی کہ اب کی بار گنے کی فصل بہت اچھی ہوگی اور وہ اس کی اچھے داموں فروخت کے ذریعے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرلے گا اس کی امیدوں پر دیکھتے ہی دیکھتے گنے کی کٹائی سے محض دو ماہ قبل دریائی کٹاؤ نے ایسا شب خون مارا کہ وہ بے یار و مددگار اپنی زمینوں اور ان پر کھڑی فصلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دریا میں ڈوبتے دیکھنے پر مجبور رہ گیا۔
سینکڑوں خاندان جو زراعت کے پیشے سے وابستہ ہونے کی بناء پر غربت میں ہی سہی پر ہنسی خوشی دریائی پٹی کے قریب برس ہا برس سے آباد تھے ان کی کئی بستیاں مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں، لیکن مجال ہے کہ مقامی انتظامیہ یا کوئی سیاسی حکومتی رکن ان آفت زدہ کسانوں کی مدد کو پہنچا ہو۔
دریائی کٹاؤ ایک ایسا عمل ہے جو ہائیڈرولوجیکل اور جیالوجیکل تبدیلیوں کے باعث پانی کے بہاؤ کا رخ تبدیل ہونے اوردریا کے کناروں پر بہاؤ کی رفتار تیز ہونے کے باعث شروع ہوتا ہے۔ کنارے کے قریب بہتا تیز پانی چند فٹ کی گہرائی پر زمین کے اندر ایک جھری سی بناتا چلا جاتا ہے اور پھرجوں جوں یہ جھری بڑھتی ہے اس پر موجود زمین مٹی کے بڑے بڑے تودوں کی صورت پانی میں گرنا شروع ہو جاتی ہے اور زمین پر موجود ہر چیز مٹی کے ساتھ دریا میں گرجاتی ہے اور یوں دریا کا پاٹ مزید وسیع ہوتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں شدید قسم کا مالی و جانی نقصان پیش آتا ہے۔ یہی عمل ضلع لیہ کی دریائی پٹی پر گزشتہ تین ہفتوں سے جاری ہے جس میں اب کافی تیزی آچکی ہے۔ لیکن مقامی یا صوبائی حکومت کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس ناگہانی آفت کو روکنے اور متاثرین کی امداد کیلئے کچھ اقدامات کر لے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ متاثرہ علاقے کے تقریباََ تمام منتخب نمائندوں کا تعلق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے لیکن ان میں سے کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اعلیٰ حکام تک اس مسئلے کی سنگینی کو پہنچائے اور حکومت کو ہنگامی اقدامات پر مجبور کرنے کی کوشش کرے۔ مقامی انتظامیہ نے بھی ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی کا کردار نبھانے کی ٹھان رکھی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اسسٹنٹ کمشنر نے علاقے کا دورہ کرنے کی زحمت تو کرلی لیکن عینی شاہدین کے بقول موصوف نے سرکاری گاڑی سے نیچے اتر کر حالات کا جائزہ لینا تک مناسب نہیں سمجھا۔ مقامی لوگوں اور متاثریں کے مطابق علاقے کے ایم پی اے صاحب نے آخرکار متاثرہ پٹی کا وزٹ تو ضرور کیا، لیکن صاحب یہ فرما کر چلتے بنے کہ اس وقت حکومت کے پاس فنڈز کی شدید قلت ہے لہذٰا ہم حکومت کی طرف سے کسی امداد کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے۔
اگر ممبر اسمبلی اور اسسٹنٹ کمشنر کے رویے کے بارے میں مقامی لوگوں کی زبانی بیان کی گئی بات واقعی سچ ہے تو یہ حکومتی اور سیاسی بے حسی کی حد ہے کہ حکومت کے پاس میگا پروجیکٹس اور اورنج لائن کیلئے تو اربوں روپے موجود ہیں لیکن دریائی کٹاؤ کے متاثرہ غریب کسانوں کی امداد کیلئے نہ تو ان کے پاس کوئی فنڈ ہیں اور نہ ہی دریائی کٹاؤ کو روکنے کیلئے کوئی منصوبہ۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباََ 4 ہزارایکڑ سے زائد زرخیز زمین دریا برد ہوچکی ہے جس کی مقامی قیمت اوسطً 20 لاکھ فی ایکڑ سے زائد ہے اور اس پر گنے کی فصل تقریباََ پک کر تیار ہوچکی ہے۔ یوں اگر حساب لگایا جائے تو تقریباََ 8 ارب روپے کی زمینیں اور کم و بیش 40 کروڑ کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اور یہ کٹاؤ اب بھی مسلسل جاری ہے بلکہ کچھ مقامات پر پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوتا جارہا ہے۔ جسے روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن فی الوقت حکومتی رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ شاید حکومت کے پاس اس کٹاؤ کو روکنے اور متاثرین کی امداد کیلئے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی فنڈز کیونکہ یہ دونوں چیزیں وہاں میسر ہوا کرتی ہیں جہاں عوامی فلاح حکومتی ترجیحات میں شامل ہوں۔
میں وفاقی حکومت اور بالخصوص صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ خدارا اس ناگہانی آفت کی طرف بھی کچھ توجہ دیجیے۔ اس دریائی کٹاؤ سے بچنے کا ایک طریقہ تو دریائی سپر بند کی تعمیر ہے، جسے چند مقامات پر ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس دریائی کٹاؤ کے مستقل بنیادوں پر روک تھام کیلئے حکومت کو چاہیئے کہ یو ای ٹی یا نسٹ کے سینئر سول انجینئرز اور جیالوجسٹس پر مشتمل ایک ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دے جو اس دریائی کٹاؤ کے ٹیکنیکل اسباب اور سدِباب کا تعین کرے اور پھر حکومت ان ہدایات کی روشنی میں مجوزہ اقدامات پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنائے وگرنہ دنیا کے انتہائی زرخیز خطوں میں سے ایک خطہ دریا برد ہونے کے باعث پاکستان کی معیشیت کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہزاروں متاثرہ کسانوں کے ریلیف کیلئے فوری طور پر ایک جامع منصوبہ تشکیل دے کر اس پر عمل درآمد شروع کرے کہ اس ملک پر اس کے کسان کا حق سب سے زیادہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔