سیاستدانوں اور صحافیوں کی دوستی
یہ ایک خاص دماغی کیفیت ہے جس میں لوگ حکومتیں بدلنے اور ملک کی کایا پلٹنے کے اختیارات بھی خود کو تفویض کردیتے ہیں۔
عرصہ ہوا میں کراچی سے ایک جریدہ شایع کرتا تھا اور خود ہی اس کا ایڈیٹر بھی تھا، ان دنوں ایک بار میں تمام پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود اشتہار حاصل کرنے کے لیے چلا گیا۔ اس کے نتیجے میں اچھی خاصی بے عزتی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بلکہ رہ گئی کیا، میرا خیال ہے کہ ہو بھی گئی ہوگی جو اب تک مجھے یاد ہے۔ خیر...! اس کا ذکر ذرا آگے کروں گا، فی الوقت تو یہ ہوا ہے کہ میں جب یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو میرے موبائل فون پر کچھ پیغامات ابھر کے آئے ہیں۔
انھیں میں نے چیک کیا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کا پیغام ہے ''میں اس وقت بہاولپور سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ میں پھنسی ہوئی ہوں، شوگر مل کو جانے والی گنّے کی ٹرالیوں نے سڑک بلاک کر رکھی ہے۔'' اس کے فوراً بعد ہی ایک اور پیغام آیا ''گنّے کی ٹرالیوں کو سڑک کے ایک کنارے پر قطار بنا کے کھڑا ہونا چاہیے، کچھ نے قطار بنائی بھی ہے، لیکن اکثر کا حال وہی ہے جو ہمارے کھیلوں کے بورڈز کا ہے۔ ہر طرف بدنظمی۔'' پیغام کے ساتھ ہی ڈاکٹر مزاری نے کار کی پچھلی سیٹ سے لی گئی ایک تصویر بھی چپکائی ہوئی ہے جس میں دروازے کے شیشے سے ٹرالیاں دکھائی دے رہی ہیں۔
یہ پیغامات ''ٹوئٹر'' پر آرہے ہیں۔ آپ بھی یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جب کوئی اسے دیکھنا شروع کرے تو پھر خاصا وقت اسی میں لگا رہتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے پیغام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں خرم دستگیر، فرح ناز اصفہانی، شفقت محمود، ملالہ یوسفزئی، ماروی میمن، فاطمہ بھٹو، فواد حسین اور احسن اقبال کے ارشاداتِ گرامی بھی فون کی اسکرین پر جھلملانے لگے۔ ابھی میں ان سے فیض حاصل کر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک کھڑاگ ہوا اور اوپر تلے عمران خان کے تین میسیجز نمودار ہوگئے۔
آپ اس بات پر سخت غصے میں تھے کہ پیپلز پارٹی نے اصغر خان کیس میں سیاستدانوں کے خلاف تفتیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ''میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ان دونوں میں مک مکا ہوچکا ہے، یہ پبلک میں ایک دوسرے پر چیختے ہیں، لیکن اندر سے ملے ہوئے ہیں، اگر پیپلز پارٹی نے عدالت کا فیصلہ نافذ نہ کیا تو ہم سپریم کورٹ جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔'' وغیرہ وغیرہ۔سوشل میڈیا میں ''فیس بُک'' افراد کے رابطوں کو حدود کے اندر رکھتی ہے۔ بلا اجازت آپ کسی کی گفتگو میں شریک نہیں ہوسکتے، لیکن ''ٹوئٹر'' ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ اس میں آپ کی پہنچ دنیا کی کسی بھی شخصیت کے پیغامات تک ہوتی ہے۔
بالکل آزادانہ۔ امریکی صدر سے لے کر انجلینا جولی اور لیڈی گاگا تک۔ ان پیغامات کو پڑھتے وقت آپ بالکل یہی محسوس کرتے ہیں کہ جیسے آپ ان کی محفل میں بیٹھے ہیں اور گفتگو کے ایک ایک لفظ سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ یہ پیغامات سنجیدہ بھی ہوسکتے ہیں، دلچسپ بھی، بور بھی اور معصومانہ بھی۔چند دن ہوئے شام کا وقت تھا کہ میں نے ''ٹوئٹر'' کھولا تو جمائما خان کا ایک میسج تھا ''کوئی ہے جو مجھے بتائے کہ کسی بہت نایاب، پرانے اور قیمتی صوفے پر کافی گر جائے تو اس کا دھبہ کیسے مٹایا جاسکتا ہے؟ ایمرجنسی ہے، فوری مدد چاہیے'' مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں نے کیا جواب دیا، لیکن کوئی دس منٹ کے بعد دیکھا تو جمائما خان کا ایک نیا پیغام موجود تھا ''میں لیموں اور سرکے سے صوفے کو دھو رہی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ رو بھی رہی ہوں۔'' یہ ایک بہت ہی معصومانہ سا سلسلہ تھا۔ میرے دل میں اچھائی کا احساس ابھرا اور دیر تک مسکراہٹ نے میرے چہرے پر بسیرا کیا۔
اب ایسے پیغامات کوئی اس طرح پیش کرے کہ یہ سب پیغامات اسے ذاتی طور پر بھیجے جارہے ہیں اور برطانوی وزیر اعظم سے لے کر ملا عمر تک اس کے ذاتی مراسم ہیں تو اسے آپ کیا نام دیں گے؟ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو یہی کام کر رہے ہیں، میرا آج کا موضوع بھی یہی ہے۔
اب آئیے اس واقعے کی طرف جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ میں نے رسالہ جاری کیا تو میرے ایک بینکر دوست نے مجھ سے کہا کہ فلاں مشہور کمپنی کے مالک سے میری گہری دوستی ہے۔ تم میرے ساتھ چلو تو تمہیں چار پانچ سال کے لیے ان کے اشتہارات کا کنٹریکٹ دلوا دوں گا۔ میں نے کہا یہ اچھا نہیں لگتا، تم بس فون کردو، باقی کام ہمارے اشتہارات کے انچارج صاحب کرلیں گے۔ وہ بولا ''ارے یار! میری اتنی گہری دوستی ہے کہ ملیں گے تو مزہ آجائے گا اور کام بھی چٹکی بجانے میں ہوجائے گا۔''
بہرحال جب ہم ان کے دفتر میں پہنچے تو کمپنی کے مالک اور میرے بینکر دوست نے جپھیاں ڈالنی شروع کردیں اور خوب چیخے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اشتہار کی بات ہوئی تو وہ انگلی فضا میں بلند کرکے بولا ''دیکھ صدیقی! اشتہار کا معاملہ ہماری اشتہاری ایجنسی ہی دیکھتی ہے، میں دخل نہیں دیتا اور ویسے بھی سچی بات یہ ہے کہ تمہاری میری دوستی مطلب کی دوستی ہے، تم بینکر نہ ہوتے اور مجھے تم سے کام نہ ہوتا تو پھر کیا تم، کیا تمہاری دوستی۔ ہم لوگ تو اتفاقاً۔۔۔۔۔!'' میں ''ایکسکیوزمی '' کہہ کے کسی بہانے سے اٹھا اور کھسک کے واپس آگیا۔ اس دن کی رکی ہوئی سانس آج تک سینے میں اٹکی ہے اور اس اٹکی ہوئی سانس نے ہمیشہ کے لیے میرا قبلہ سیدھا کردیا ہے اس کے بعد سے میں دوستیوں اور تعلقات کے باب میں کبھی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوا، اسی لیے اب میں جب بھی لوگوں کی بے سمت دوستیوں کو دیکھتا ہوں تو میری ہنسی نکل جاتی ہے۔
میڈیا اور سیاست اب اتنے اک مک ہوچکے ہیں کہ ان کا دن رات کا ساتھ ہے۔ گھر، دفتر، ٹی وی، اخبار، ٹوئٹر، ایس ایم ایس، فون، کلب، تقریبات اور سیاسی ہنگامے۔ ہر جگہ ان کا ٹاکرہ ہوتا ہے، آزادانہ گفتگو ہوتی ہے، بے تکلفیاں بڑھتی ہیں اور بظاہر یہ تعلقات دوستیوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کا اظہار سیاستدانوں کی گفتگو اور میرے ساتھیوں کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ ضرورتوں کے مارے دونوں بڑھ چڑھ کے جپھے مارتے ہیں۔ مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب لوگ ان ''کاروباری'' تعلقات کے نتیجے میں زمین سے چھ انچ اوپر چلنا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند ماہ قبل وزیر اعظم کے ایک امریکی وزٹ کو کور کرنیوالے ایک دوست نے اس دورے کا ذکر ''میں جب اقوام متحدہ کا اجلاس اٹینڈ کرنے گیا'' کہہ کر کیا تھا اور آگے چل کے لکھا تھا ''اس دن صدر اوباما سے 'ہماری' ملاقات طے تھی، میں روانہ ہونے لگا تو میں نے اپنے ہمراہ فلاں وزیر اور فلاں سینیٹر کو بھی لے لیا۔''
مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی ایسی باتوں پر ہنسی آتی ہوگی۔ یہ ایک خاص دماغی کیفیت ہے جس میں لوگ حکومتیں بدلنے اور ملک کی کایا پلٹنے کے اختیارات بھی خود کو تفویض کردیتے ہیں۔ صدر اور وزرائے اعظم کو مشورے دیتے ہیں۔ ان سے آف دی ریکارڈ دوستیاں اور بے تکلفیاں بیان کرتے ہیں اور پھر ان کی سرپرستی بھی شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی دوستی ووستی نہیں ہوتی۔ اپنے مرکز سے ہٹ کر دیکھیں تو دوستی کی اوقات سمجھ میں آجاتی ہے۔ ویسے بھی ہر کوئی چوہدری شجاعت یا آصف زرداری نہیں ہوتا کہ شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّوں کی بھی قدر کرے اور انھیں گلدانوں میں سجاتا پھرے۔
انھیں میں نے چیک کیا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کا پیغام ہے ''میں اس وقت بہاولپور سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ میں پھنسی ہوئی ہوں، شوگر مل کو جانے والی گنّے کی ٹرالیوں نے سڑک بلاک کر رکھی ہے۔'' اس کے فوراً بعد ہی ایک اور پیغام آیا ''گنّے کی ٹرالیوں کو سڑک کے ایک کنارے پر قطار بنا کے کھڑا ہونا چاہیے، کچھ نے قطار بنائی بھی ہے، لیکن اکثر کا حال وہی ہے جو ہمارے کھیلوں کے بورڈز کا ہے۔ ہر طرف بدنظمی۔'' پیغام کے ساتھ ہی ڈاکٹر مزاری نے کار کی پچھلی سیٹ سے لی گئی ایک تصویر بھی چپکائی ہوئی ہے جس میں دروازے کے شیشے سے ٹرالیاں دکھائی دے رہی ہیں۔
یہ پیغامات ''ٹوئٹر'' پر آرہے ہیں۔ آپ بھی یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جب کوئی اسے دیکھنا شروع کرے تو پھر خاصا وقت اسی میں لگا رہتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے پیغام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں خرم دستگیر، فرح ناز اصفہانی، شفقت محمود، ملالہ یوسفزئی، ماروی میمن، فاطمہ بھٹو، فواد حسین اور احسن اقبال کے ارشاداتِ گرامی بھی فون کی اسکرین پر جھلملانے لگے۔ ابھی میں ان سے فیض حاصل کر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک کھڑاگ ہوا اور اوپر تلے عمران خان کے تین میسیجز نمودار ہوگئے۔
آپ اس بات پر سخت غصے میں تھے کہ پیپلز پارٹی نے اصغر خان کیس میں سیاستدانوں کے خلاف تفتیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ''میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ان دونوں میں مک مکا ہوچکا ہے، یہ پبلک میں ایک دوسرے پر چیختے ہیں، لیکن اندر سے ملے ہوئے ہیں، اگر پیپلز پارٹی نے عدالت کا فیصلہ نافذ نہ کیا تو ہم سپریم کورٹ جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔'' وغیرہ وغیرہ۔سوشل میڈیا میں ''فیس بُک'' افراد کے رابطوں کو حدود کے اندر رکھتی ہے۔ بلا اجازت آپ کسی کی گفتگو میں شریک نہیں ہوسکتے، لیکن ''ٹوئٹر'' ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ اس میں آپ کی پہنچ دنیا کی کسی بھی شخصیت کے پیغامات تک ہوتی ہے۔
بالکل آزادانہ۔ امریکی صدر سے لے کر انجلینا جولی اور لیڈی گاگا تک۔ ان پیغامات کو پڑھتے وقت آپ بالکل یہی محسوس کرتے ہیں کہ جیسے آپ ان کی محفل میں بیٹھے ہیں اور گفتگو کے ایک ایک لفظ سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ یہ پیغامات سنجیدہ بھی ہوسکتے ہیں، دلچسپ بھی، بور بھی اور معصومانہ بھی۔چند دن ہوئے شام کا وقت تھا کہ میں نے ''ٹوئٹر'' کھولا تو جمائما خان کا ایک میسج تھا ''کوئی ہے جو مجھے بتائے کہ کسی بہت نایاب، پرانے اور قیمتی صوفے پر کافی گر جائے تو اس کا دھبہ کیسے مٹایا جاسکتا ہے؟ ایمرجنسی ہے، فوری مدد چاہیے'' مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں نے کیا جواب دیا، لیکن کوئی دس منٹ کے بعد دیکھا تو جمائما خان کا ایک نیا پیغام موجود تھا ''میں لیموں اور سرکے سے صوفے کو دھو رہی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ رو بھی رہی ہوں۔'' یہ ایک بہت ہی معصومانہ سا سلسلہ تھا۔ میرے دل میں اچھائی کا احساس ابھرا اور دیر تک مسکراہٹ نے میرے چہرے پر بسیرا کیا۔
اب ایسے پیغامات کوئی اس طرح پیش کرے کہ یہ سب پیغامات اسے ذاتی طور پر بھیجے جارہے ہیں اور برطانوی وزیر اعظم سے لے کر ملا عمر تک اس کے ذاتی مراسم ہیں تو اسے آپ کیا نام دیں گے؟ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو یہی کام کر رہے ہیں، میرا آج کا موضوع بھی یہی ہے۔
اب آئیے اس واقعے کی طرف جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ میں نے رسالہ جاری کیا تو میرے ایک بینکر دوست نے مجھ سے کہا کہ فلاں مشہور کمپنی کے مالک سے میری گہری دوستی ہے۔ تم میرے ساتھ چلو تو تمہیں چار پانچ سال کے لیے ان کے اشتہارات کا کنٹریکٹ دلوا دوں گا۔ میں نے کہا یہ اچھا نہیں لگتا، تم بس فون کردو، باقی کام ہمارے اشتہارات کے انچارج صاحب کرلیں گے۔ وہ بولا ''ارے یار! میری اتنی گہری دوستی ہے کہ ملیں گے تو مزہ آجائے گا اور کام بھی چٹکی بجانے میں ہوجائے گا۔''
بہرحال جب ہم ان کے دفتر میں پہنچے تو کمپنی کے مالک اور میرے بینکر دوست نے جپھیاں ڈالنی شروع کردیں اور خوب چیخے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اشتہار کی بات ہوئی تو وہ انگلی فضا میں بلند کرکے بولا ''دیکھ صدیقی! اشتہار کا معاملہ ہماری اشتہاری ایجنسی ہی دیکھتی ہے، میں دخل نہیں دیتا اور ویسے بھی سچی بات یہ ہے کہ تمہاری میری دوستی مطلب کی دوستی ہے، تم بینکر نہ ہوتے اور مجھے تم سے کام نہ ہوتا تو پھر کیا تم، کیا تمہاری دوستی۔ ہم لوگ تو اتفاقاً۔۔۔۔۔!'' میں ''ایکسکیوزمی '' کہہ کے کسی بہانے سے اٹھا اور کھسک کے واپس آگیا۔ اس دن کی رکی ہوئی سانس آج تک سینے میں اٹکی ہے اور اس اٹکی ہوئی سانس نے ہمیشہ کے لیے میرا قبلہ سیدھا کردیا ہے اس کے بعد سے میں دوستیوں اور تعلقات کے باب میں کبھی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوا، اسی لیے اب میں جب بھی لوگوں کی بے سمت دوستیوں کو دیکھتا ہوں تو میری ہنسی نکل جاتی ہے۔
میڈیا اور سیاست اب اتنے اک مک ہوچکے ہیں کہ ان کا دن رات کا ساتھ ہے۔ گھر، دفتر، ٹی وی، اخبار، ٹوئٹر، ایس ایم ایس، فون، کلب، تقریبات اور سیاسی ہنگامے۔ ہر جگہ ان کا ٹاکرہ ہوتا ہے، آزادانہ گفتگو ہوتی ہے، بے تکلفیاں بڑھتی ہیں اور بظاہر یہ تعلقات دوستیوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کا اظہار سیاستدانوں کی گفتگو اور میرے ساتھیوں کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ ضرورتوں کے مارے دونوں بڑھ چڑھ کے جپھے مارتے ہیں۔ مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب لوگ ان ''کاروباری'' تعلقات کے نتیجے میں زمین سے چھ انچ اوپر چلنا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند ماہ قبل وزیر اعظم کے ایک امریکی وزٹ کو کور کرنیوالے ایک دوست نے اس دورے کا ذکر ''میں جب اقوام متحدہ کا اجلاس اٹینڈ کرنے گیا'' کہہ کر کیا تھا اور آگے چل کے لکھا تھا ''اس دن صدر اوباما سے 'ہماری' ملاقات طے تھی، میں روانہ ہونے لگا تو میں نے اپنے ہمراہ فلاں وزیر اور فلاں سینیٹر کو بھی لے لیا۔''
مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی ایسی باتوں پر ہنسی آتی ہوگی۔ یہ ایک خاص دماغی کیفیت ہے جس میں لوگ حکومتیں بدلنے اور ملک کی کایا پلٹنے کے اختیارات بھی خود کو تفویض کردیتے ہیں۔ صدر اور وزرائے اعظم کو مشورے دیتے ہیں۔ ان سے آف دی ریکارڈ دوستیاں اور بے تکلفیاں بیان کرتے ہیں اور پھر ان کی سرپرستی بھی شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی دوستی ووستی نہیں ہوتی۔ اپنے مرکز سے ہٹ کر دیکھیں تو دوستی کی اوقات سمجھ میں آجاتی ہے۔ ویسے بھی ہر کوئی چوہدری شجاعت یا آصف زرداری نہیں ہوتا کہ شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّوں کی بھی قدر کرے اور انھیں گلدانوں میں سجاتا پھرے۔