راہِ وفا کے مسافر

پروردگار سے دعا ہے کہ تحریک کے شہداء کے درجات کو بلند فرمائے اور ہم تمام کارکنان اس مشن کو جاری و ساری رکھ سکیں۔

KARACHI:
معاشرے میں موجود ناانصافیوں کے خاتمے اور مظلوم پسے ہوئے عوام کے حقوق کے حصول کے لیے چلنے والی تحریکوں میں قربانیوں کا تصور بے مثال ہے۔ پاکستان جو ایک سادہ لوح معاشرہ ہے، جہاں پر عوام کو معمولی معمولی نعروں پر اپنی طرف راغب کر لیا جاتا ہے۔ ملک کے قیام کے ساتھ ہی اس ملک پر استحصالی طبقے نے قبضہ کیا اور غریب اور متوسط طبقوں کے حقوق غصب کرکے اپنے اقتدار کو دوام بخشا اور آج بھی یہ طالع آزما کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اپنے ہتھیار آزما رہے ہیں۔

نیکی اور بدی کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ حق کی تحریکوں کے مطمع نظر سماجی انصاف کا حصول ہوتا ہے، یہ دو لفظ پر مشتمل ایک ایسی ترکیب ہے کہ جس کے حصول کے لیے کٹھن جدوجہد اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کیے بغیر ہم اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ سیاسی اور سماجی جدوجہد میں اپنی جانیں نچھاور کرنے والے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔

بنیادی طور پر موت نے ان کی زندگی کا خاتمہ کیا اور بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ وہ ناکام ہوگئے ہیں لیکن جب بات نظریات کی ہوتی ہے تو فتح و شکست کا دارومدار اس بات پر نہیں ہوتا کہ کون زندہ رہا اور کون مر گیا، بلکہ فتح وشکست کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ کون کیا چاہتا تھا۔

اگر اس کا نظریہ آج زندہ ہے تو یہ بات ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ وہ آج بھی زندہ ہیں کیونکہ ان کی غیرموجودگی ان کی سوچ کا ڈنکا بج رہا ہے۔ یہی وہ کامیابی ہے جو بنیادی طور پر حقوق کے حصول کے لیے چلنے والی تحریکات کا اثاثہ ہوتی ہے۔ اس کامیابی کی بنیاد پر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر یہ قربانیاں نہ ہوتیں تو شاید تبدیلی کے لیے چلنے والی تحریکیں تھک ہار کر ختم ہوجاتیں۔

1978ء میں جنم لینے والے اس نظریے نے کم و بیش 35برس مکمل کر لیے ہیں لیکن یہ تحریک آج بھی اتنی ہی توانا ہے کہ جتنی روز اول تھی۔ اس کا سہرا ایک جرأت مند، بے باک قیادت کے سر جاتا ہے کہ جس نے اپنے خون کی قربانی دینا تو گوارا کر لیا لیکن استحصالی قوتوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ 19جون 1992کے ریاستی آپریشن کے دوران ہونے والی شہادتیں جلا وطنی ، دربدری، اس تحریک کے کارکنان کا مقدر بنا دی گئی۔


قیادت کا نام لینا جرم سمجھا گیا۔ لیکن سیاسی استقامت کی ایک مثال قائم ہوئی جس کی نظیر کم ازکم پاکستان کی تاریخ میں تو دستیاب نہیں۔ انھی قربانیوں کا یہ ثمر ہے کہ ان 35برسوں میں اس سوچ کو فروغ ملا اور آج ملک کے گوشے گوشے میں یہ نظریہ اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے۔ اس نظریے کا مقصد بنیادی طور پر اقتدار کا حصول نہیں بلکہ حقوق سے محروم پسے ہوئے طبقے کو اس حقیقت کی طرف مائل کرنا ہے کہ جب تک تم اپنے اندر سے ایسی قیادت نہیں نکالتے جو تمہارے مسائل کا نہ صر ف ادراک رکھتی ہو بلکہ ان کو حل کرنے کے لیے بھی سنجیدہ ہو، اس وقت تک ہم اپنے حقوق حاصل کرکے غریبوں کی حکمرانی کی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔

یہ اسی تحریک کا ذکر ہے جس نے پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے کے حقوق کے لیے استحصالی طبقے کے خلاف علی الاعلان علم بغاوت بلند کیا اور آج بھی اسی توانائی کے ساتھ اس علم کو تھامے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اس جدوجہد میں ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں دینا گوارا کیا لیکن نظریے اور قائد سے بے وفائی نہ کی۔ اسی بنیاد پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ حق کی اس راہ پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے شہید ہیں کیونکہ آج وہ دنیا میں نہیں ہیں لیکن جس مقصد کے لیے وہ جدوجہد کر رہے تھے۔

وہ جدوجہد آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور ان کا وہ عزم کہ ہم نہ ہوں، ہمارے بعد الطاف ، الطاف ، یہ صدائیں آج بھی گونج رہی ہیں۔ باالفاظِ دیگر ان کا نظریہ ان کی عدم موجودگی میں ان کی سچائی کی شہادت دے رہا ہے۔ حقوق کے حصول کی اس جدوجہد میں صرف کارکنان نے ہی اپنے خون کے نذرانے پیش نہیں کیے، بلکہ قائد تحریک الطاف حسین کو دبانے اور خریدنے کے لیے ان کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کو بھی اغوا کیا گیا اور بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔

یہی وہ امر ہے جس کی بنیاد پر آج یہ تحریک ایک کامیابی کی علامت بن کر غریب اور متوسط طبقے کی نجات کا ذریعہ بن چکی ہے اور پاکستان کے طول و عرض میں موجود 98فیصد حقوق سے محروم عوام کی آخری امید ہے۔ آج ہم 9دسمبر اس عہد کی تجدید کے ساتھ منا رہے ہیں کہ ہم اپنی پوری توانائیاں اس مقصدکے حصول کے لیے صرف کریں گے جس کے لیے کارکنان نے قربانیوں کا سنہرا باب رقم کیا۔

دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایسی مثالیں کم کم دستیاب ہوں گی جہاں معاشرے میں انصاف کے حصول ، دہرے نظام کے خاتمے اور اشرافیہ کلچر کے خاتمے کے لیے اتنی توانا تحریک چلی ہو۔ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ توانائی شہیدوں کے خون اور اسیروں کی قربانیوں کی مرہون منت ہے۔ پروردگار سے دعا ہے کہ تحریک کے شہداء کے درجات کو بلند فرمائے اور ہم تمام کارکنان کو استقامت عطا فرمائے کہ ہم اس مشن کو جاری و ساری رکھ سکیں جس کے لیے انھوں نے بے مثال قربانیاں دیں۔
Load Next Story