پاک اسٹیل فولادی سے فریادی کارخانہ
پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل گزشتہ کئی سالوں سے شدید بدانتظامی اور مالی خسارے کا شکار ہے
پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل گزشتہ کئی سالوں سے شدید بدانتظامی اور مالی خسارے کا شکار ہے، اس ادارے کے براہ راست ملازمین کی تعداد 22 ہزار سے زائد تھی۔ اس ادارے کے قیام سے علاقے میں کاروباری و اقتصادی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی تھی، اطراف میں پورٹ قاسم کے علاوہ بہت سی صنعتیں قائم ہوئیں۔
اسٹیل ملز اپنی بجلی خود پیدا کرتا تھا اور اضافی بجلی کورنگی انڈسٹریل ایریا کو فراہم کی جاتی تھی۔ میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے اس کی گجوکنال سے اپنی نہر تھی، نیشنل ہائی وے اور سپرہائی وے پر لنک روڈ کی تعمیر سے اسٹیل ملز سے زیادہ آسانیاں اور سہولت اندرون ملک آنے جانے والی ٹریفک نے اٹھائیں۔
ادارے کی جانب سے اطراف کی آبادیوں اورگوٹھوں میں رفاہی و سماجی خدمات بھی کی جاتی تھیں جس کی وجہ سے علاقے میں بہت سی صنعتیں، کارخانے اور آبادیاں قائم ہوئیں اورکوڑیوں کی زمینیں کروڑوں سے تجاوز کرگئی، فولادی پیداوار سے پاکستانی صنعتوں کو فروغ ملا ملک کا اربوں روپے کا زرمبادلہ بچا اور ادارے نے بھی ٹیکسزکی مد میں اربوں روپے سالانہ حکومت کے خزانے میں جمع کروائے۔
اسٹیل ملز کی میٹالرجیکل سینٹر (Metallurgical Center) اور ہیومن ریسورسیز ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ (Human Resources Development Department)نے اپرنٹس شپ سے لے کر ڈپلومہ اور ماسٹر آف سائنس تک کی تعلیم و تربیت اور سرٹیفکیٹ، ڈپلومہ اور ڈگریوں کا اجرا کیا، بین الاقوامی ادارے نے پاکستان اسٹیل کے اس شعبے کو ایشیا میں Centre of Excellence کا خطاب دیا اور پاکستان اسٹیل کو دنیا کا صاف ترین پلانٹ بھی قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان اسٹیل کو منی پاکستان کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا یہاں ملک کے ہرکونے کے شہری ملازمتیں کرتے تھے، اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید جیسی آبادیاں کسی چھوٹے شہرکا نقشہ پیش کرتی تھیں یہاں لا تعداد اسکول، کالجز،کیڈٹ کالج، اسکول تھے، اسپتال، کھیل کے میدان، پارکس، جھیلیں، کرکٹ اسٹیڈیم اور آسٹروٹرف سے مزین ہاکی اسٹیڈیم، کنٹری کلب، مساجد، امام بارگاہ، چرچ اور مندر کے علاوہ تمام کے علیحدہ علیحدہ قبرستان تک تھے۔ روزانہ شہر کے تمام نامور تعلیمی اداروں اور مارکیٹوں تک طلبا اور ملازمین کو لانے لے جانے کا بندوبست تھا۔
غیر ملکیوں کے لیے علیحدہ گاڑیاں مختص تھیں۔ اسٹیل ٹاؤن پاکستانی اور رشین مارکیٹیں علیحدہ علیحدہ قائم تھیں، روسیوں کی تفریح کے لیے رشین بیچ بنایا گیا تھا بہت بڑے رقبے پر فروٹ فارم بنایاگیا تھا جہاں سے سستے نرخوں پر سبزیاں اور پھل ملازمین کو فروخت کرنے کے علاوہ مارکیٹ میں بھی فروخت کیے جاتے تھے۔ ریشم کے کپڑوں کا فارم اور ہرن و مورگارڈن بھی تھے۔ اسٹیل ملز میں زندگی 24 گھنٹے جاگتی تھی۔ رات کا منظر دن سے زیادہ خوبصورت لگتا تھا کسی پلانٹ میں سوئی بھی گرجائے تو نظر آتی تھی۔
آج اس ادارے کو اس حال تک پہنچادیا گیا ہے کہ اس کے تقریباً تمام پلانٹس بند کردیے گئے ہیں، شفٹیں ختم ہوچکی ہیں پلانٹس میں سانپوں، سور،گیدڑ اور دیگر موذی جانوروں کی آزادانہ آمد و رفت اور قیام گاہیں بن چکی ہیں جس کی وجہ سے ملازمین شدید خوف وہراس کا شکار ہیں۔ چوروں اور ڈاکوؤں کا راج ہے جو منظم طور پر پلانٹس سے قیمتی اشیا چرا کر لے جارہے ہیں ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ عید یا بقرا عید پر دو تین ماہ کی تنخواہیں ادا کردی جاتی ہیں جب ملازمین کا احتجاج بڑھتا ہے اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کی صورت حال ہوجاتی ہے تو کچھ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے واجبی سے بیانات بھی آجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں قائد اعظم گیٹ کے سامنے دھرنا زن ملازمین سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچنے والے عمران خان، شاہ محمود، جہانگیر ترین، اسد عمر اور عارف علوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ اسٹیل ملز پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ 18 ارب منافع دینے والا یہ ادارہ تیرہ ماہ سے بند پڑا ہے ملازمین کو 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے، چوری و کرپشن حکمران کرتے ہیں، قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے، مزدوروں کو اپنے بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔
ہمارے سیاست دان رسمی طور پر اخباری بیانات یا مظاہروں سے خطاب کی حد تک تو مزدور دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن ایوانوں میں ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ اس سے قبل اسٹیل ملز کے کرپشن و بد عنوانیوں کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے اپنی یونین کے صدر کے توسط سے ایک وائٹ پیپرتیارکرکے حکومت کو پیش کیا تھا اس کا کوئی مثبت نتیجہ تو دیکھنے میں نہیں آیا البتہ یونین کے صدر پاشا گل احمد کو دن دہاڑے قتل کردیاگیا، اسی طرح اسٹیل ملز کرپشن کیس کے گواہ سجاد حسین جو سابق چیئرمین پاکستان اسٹیل ملز بھی تھے ڈی ایچ اے کی شاہراہ پر قتل کردیاگیا۔
ادارے کے ایک اور ڈائریکٹر اعجاز ہارون کو پولیس کسٹڈی میں ایک بلڈنگ سے نیچے پھینک کر خودکشی کا رنگ دے دیا گیا۔ اس سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیل ملز کو لوٹنے والے مافیا یہ اور عناصرکتنے با اثر و بے خطر ہیں۔ پاکستان اسٹیل حکومت پاکستان اور بیوروکریٹس کی 30 سالہ جانفشانی وکاوشوں کے نتیجے میں قائم ہوا تھا جو صنعتوں کی ماں کا درجہ رکھتا ہے ۔ دنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کو مدر انڈسٹری کی حیثیت دی جاتی ہے۔
موجودہ حکومت جس کی ترجیحات راہداری منصوبہ نقل وحمل کے ذرایع تعمیر کرنا ہے اس میں اسٹیل اور سیمنٹ کی بڑی تعداد درکار ہے جب کہ اسٹیل ملز سے نہ صرف اسٹیل میسر آتا ہے بلکہ بائی پراڈکٹ ذیل پیداوار سے سلیگ اور ڈامر(کول تار) وغیرہ بھی میسر آتے ہیں لہٰذا وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اس صنعتی ٹائی ٹینک کو قومی افق سے غائب ہونے سے بچالے ورنہ یہ ایک عظیم سانحہ ہوگا، وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو اسٹیل ملز سپرد کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اگر سندھ حکومت اسٹیل ملز لے لیتی ہے تو یہ بھی اچھا اقدام ہوگا کیوں کہ پی پی پی اس منصوبے کی خالق ہونے کا دعویٰ بھی کرتی اور اسے اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد بلا شرکت غیر اور بلا مداخلت چلانے کی مجاز ہوگی اس پہلو پر وفاقی وصوبائی دونوں حکومتوں کو غوروخوض کرنا چاہیے۔
اسٹیل ملز اپنی بجلی خود پیدا کرتا تھا اور اضافی بجلی کورنگی انڈسٹریل ایریا کو فراہم کی جاتی تھی۔ میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے اس کی گجوکنال سے اپنی نہر تھی، نیشنل ہائی وے اور سپرہائی وے پر لنک روڈ کی تعمیر سے اسٹیل ملز سے زیادہ آسانیاں اور سہولت اندرون ملک آنے جانے والی ٹریفک نے اٹھائیں۔
ادارے کی جانب سے اطراف کی آبادیوں اورگوٹھوں میں رفاہی و سماجی خدمات بھی کی جاتی تھیں جس کی وجہ سے علاقے میں بہت سی صنعتیں، کارخانے اور آبادیاں قائم ہوئیں اورکوڑیوں کی زمینیں کروڑوں سے تجاوز کرگئی، فولادی پیداوار سے پاکستانی صنعتوں کو فروغ ملا ملک کا اربوں روپے کا زرمبادلہ بچا اور ادارے نے بھی ٹیکسزکی مد میں اربوں روپے سالانہ حکومت کے خزانے میں جمع کروائے۔
اسٹیل ملز کی میٹالرجیکل سینٹر (Metallurgical Center) اور ہیومن ریسورسیز ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ (Human Resources Development Department)نے اپرنٹس شپ سے لے کر ڈپلومہ اور ماسٹر آف سائنس تک کی تعلیم و تربیت اور سرٹیفکیٹ، ڈپلومہ اور ڈگریوں کا اجرا کیا، بین الاقوامی ادارے نے پاکستان اسٹیل کے اس شعبے کو ایشیا میں Centre of Excellence کا خطاب دیا اور پاکستان اسٹیل کو دنیا کا صاف ترین پلانٹ بھی قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان اسٹیل کو منی پاکستان کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا یہاں ملک کے ہرکونے کے شہری ملازمتیں کرتے تھے، اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید جیسی آبادیاں کسی چھوٹے شہرکا نقشہ پیش کرتی تھیں یہاں لا تعداد اسکول، کالجز،کیڈٹ کالج، اسکول تھے، اسپتال، کھیل کے میدان، پارکس، جھیلیں، کرکٹ اسٹیڈیم اور آسٹروٹرف سے مزین ہاکی اسٹیڈیم، کنٹری کلب، مساجد، امام بارگاہ، چرچ اور مندر کے علاوہ تمام کے علیحدہ علیحدہ قبرستان تک تھے۔ روزانہ شہر کے تمام نامور تعلیمی اداروں اور مارکیٹوں تک طلبا اور ملازمین کو لانے لے جانے کا بندوبست تھا۔
غیر ملکیوں کے لیے علیحدہ گاڑیاں مختص تھیں۔ اسٹیل ٹاؤن پاکستانی اور رشین مارکیٹیں علیحدہ علیحدہ قائم تھیں، روسیوں کی تفریح کے لیے رشین بیچ بنایا گیا تھا بہت بڑے رقبے پر فروٹ فارم بنایاگیا تھا جہاں سے سستے نرخوں پر سبزیاں اور پھل ملازمین کو فروخت کرنے کے علاوہ مارکیٹ میں بھی فروخت کیے جاتے تھے۔ ریشم کے کپڑوں کا فارم اور ہرن و مورگارڈن بھی تھے۔ اسٹیل ملز میں زندگی 24 گھنٹے جاگتی تھی۔ رات کا منظر دن سے زیادہ خوبصورت لگتا تھا کسی پلانٹ میں سوئی بھی گرجائے تو نظر آتی تھی۔
آج اس ادارے کو اس حال تک پہنچادیا گیا ہے کہ اس کے تقریباً تمام پلانٹس بند کردیے گئے ہیں، شفٹیں ختم ہوچکی ہیں پلانٹس میں سانپوں، سور،گیدڑ اور دیگر موذی جانوروں کی آزادانہ آمد و رفت اور قیام گاہیں بن چکی ہیں جس کی وجہ سے ملازمین شدید خوف وہراس کا شکار ہیں۔ چوروں اور ڈاکوؤں کا راج ہے جو منظم طور پر پلانٹس سے قیمتی اشیا چرا کر لے جارہے ہیں ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ عید یا بقرا عید پر دو تین ماہ کی تنخواہیں ادا کردی جاتی ہیں جب ملازمین کا احتجاج بڑھتا ہے اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کی صورت حال ہوجاتی ہے تو کچھ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے واجبی سے بیانات بھی آجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں قائد اعظم گیٹ کے سامنے دھرنا زن ملازمین سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچنے والے عمران خان، شاہ محمود، جہانگیر ترین، اسد عمر اور عارف علوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ اسٹیل ملز پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ 18 ارب منافع دینے والا یہ ادارہ تیرہ ماہ سے بند پڑا ہے ملازمین کو 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے، چوری و کرپشن حکمران کرتے ہیں، قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے، مزدوروں کو اپنے بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔
ہمارے سیاست دان رسمی طور پر اخباری بیانات یا مظاہروں سے خطاب کی حد تک تو مزدور دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن ایوانوں میں ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ اس سے قبل اسٹیل ملز کے کرپشن و بد عنوانیوں کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے اپنی یونین کے صدر کے توسط سے ایک وائٹ پیپرتیارکرکے حکومت کو پیش کیا تھا اس کا کوئی مثبت نتیجہ تو دیکھنے میں نہیں آیا البتہ یونین کے صدر پاشا گل احمد کو دن دہاڑے قتل کردیاگیا، اسی طرح اسٹیل ملز کرپشن کیس کے گواہ سجاد حسین جو سابق چیئرمین پاکستان اسٹیل ملز بھی تھے ڈی ایچ اے کی شاہراہ پر قتل کردیاگیا۔
ادارے کے ایک اور ڈائریکٹر اعجاز ہارون کو پولیس کسٹڈی میں ایک بلڈنگ سے نیچے پھینک کر خودکشی کا رنگ دے دیا گیا۔ اس سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیل ملز کو لوٹنے والے مافیا یہ اور عناصرکتنے با اثر و بے خطر ہیں۔ پاکستان اسٹیل حکومت پاکستان اور بیوروکریٹس کی 30 سالہ جانفشانی وکاوشوں کے نتیجے میں قائم ہوا تھا جو صنعتوں کی ماں کا درجہ رکھتا ہے ۔ دنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کو مدر انڈسٹری کی حیثیت دی جاتی ہے۔
موجودہ حکومت جس کی ترجیحات راہداری منصوبہ نقل وحمل کے ذرایع تعمیر کرنا ہے اس میں اسٹیل اور سیمنٹ کی بڑی تعداد درکار ہے جب کہ اسٹیل ملز سے نہ صرف اسٹیل میسر آتا ہے بلکہ بائی پراڈکٹ ذیل پیداوار سے سلیگ اور ڈامر(کول تار) وغیرہ بھی میسر آتے ہیں لہٰذا وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اس صنعتی ٹائی ٹینک کو قومی افق سے غائب ہونے سے بچالے ورنہ یہ ایک عظیم سانحہ ہوگا، وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو اسٹیل ملز سپرد کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اگر سندھ حکومت اسٹیل ملز لے لیتی ہے تو یہ بھی اچھا اقدام ہوگا کیوں کہ پی پی پی اس منصوبے کی خالق ہونے کا دعویٰ بھی کرتی اور اسے اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد بلا شرکت غیر اور بلا مداخلت چلانے کی مجاز ہوگی اس پہلو پر وفاقی وصوبائی دونوں حکومتوں کو غوروخوض کرنا چاہیے۔