تنخواہیں بند ہونے کی خبر پر وزیروں میں کھلبلی
زیادہ تر وزیروں کا گزارا تنخواہوں پر ہوتا ہے اور وہ ہر مہینے بڑی بے چینی سے پہلی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں
بعض ایسی خبریں مخصوص مقاصد کے تحت پھیلائی جاتی ہیں جن کے ذرایع اتنے معتبر نہیں ہوتے ان ہی میں سے ایک خبر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے سینیٹ یا قومی اسمبلی میں وزیراعظم اور ان کے وزرا کی تنخواہیں بند کروانے کا بل تحریک یا قرارداد پیش کی جانے والی ہے۔
قدرتی طور پر اس خبر سے وفاقی اورصوبائی وزیروں کے گھر والوں میں کھلبلی سی مچ گئی ہے تشویش کی لہر دوڑگئی ہے اور خاص طور پر ان وزرا کی بیگمات اس اندیشے میں مبتلا ہوگئی ہیں کہ اس شدید مہنگائی کے دور میں جب کہ ایک عام آدمی کا گزارا بھی مشکل سے ہو رہا ہے اگر ان کے شوہروں کی تنخواہیں روک لی گئیں تو ان کا کچن کیسے چلے گا، گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ بچوں کے اسکولوں کی فیسیں کیسے ادا ہوں گی۔
اگرچہ پی ٹی آئی کی اس تحریک کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں مگر عام خیال یہ ہے کہ ان کے نزدیک نہ صرف وزیراعظم بلکہ ان کے تمام وزیروں کی سرگرمیاں قومی مفاد میں نہیں ہیں اس لیے وہ اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ انھیں قومی خزانے سے ایک پھوٹی کوڑی بھی ادا کی جائے۔ تاہم پی ٹی آئی کے محرکین یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ وزراء اگر مالی پریشانیوں میں مبتلا کردیے گئے تو وہ اپنی ذمے داریاں کیسے ادا کرسکیں گے اور اس سے سب سے زیادہ ان کے اہل خانہ متاثر ہوں گے جن کو وہ تنخواہ ملنے پر لگی بندھی رقم ادا کرکے فارغ ہوجاتے ہیں اور خواتین کس طرح ہر مہینے جیسے تیسے گھر کے اخراجات پورے کرتی ہیں یہ ان خواتین کا دل ہی جانتا ہے۔
ان جھوٹے سچے ذرایع نے یہ بھی بتایا کہ وزراء کے چہروں پر پھیلی ہوئی پریشانیوں کا احساس کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی کسی ایسی تحریک یا بل کو پاس نہیں ہونے دیا جائے کیونکہ انھیں بجا طور پر یہ خطرہ بھی ہے کہ حکمراں جماعت کے اراکین پارلیمنٹ بھی کہیں وزرا کی جلن میں ایسے کسی بل کے حق میں ووٹ نہ دے دیں اور یہ تحریک منظور نہ ہوجائے۔
غیرجانبدار مبصرین نے، سچی بات یہ ہے، پی ٹی آئی کی اس تحریک کو قطعاً پسند نہیں کیا ہے ان کا تبصرہ یہ ہے کہ اب سیاسی مخالفتیں باقاعدہ دشمنیوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اور مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور بھوکا پیاسا مارنے کے درپے ہوگئی ہیں، اگرچہ پاکستان میں پہلے بھی حکمراں اور اپوزیشن کی جماعتیں کام کرتی رہی ہیں مگر ان کی باہمی مخالفت کبھی اتنی نہیں بڑھی کہ وہ ایک دوسرے کی تنخواہیں بند کروانے کے لیے تحریکیں پیش کرنے لگیں۔
مبصرین کی رائے یہ ہے کہ زیادہ تر وزیروں کا گزارا تنخواہوں پر ہوتا ہے اور وہ ہر مہینے بڑی بے چینی سے پہلی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کے گھروں کے اخراجات خاصے بڑھ گئے ہیں وزیر بن جانے کے بعد انھیں ایک خاص معیار زندگی Standard of Living برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ ان کے سب سے زیادہ پیسے مہمانداری پر خرچ ہوتے ہیں کیونکہ عوام کے منتخب نمایندہ ہونے کی وجہ سے ان کے حلقے کے لوگ، پارٹی عہدیدار اور حمایتی ان کے پاس پابندی سے آتے ہیں اوراکثر کھانا کھائے بغیر نہیں جاتے۔
غیر ملکی دورے
جیساکہ ایک وزیر نے ہمیں کانفیڈنس میں لے کر بتایا کہ اکثر ان کی ساری تنخواہ غیر ملکی دوروں پر خرچ ہوجاتی ہے حکومت تو صرف ٹکٹ دیتی ہے باقی سارے اخراجات مثلاً شاپنگ وغیرہ انھیں خود کرنے پڑتے ہیں۔ جب بات سے بات نکلی تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ حکومت کو یہ تجویز تک پیش کرچکے ہیں کہ کیونکہ وزرا اکثر ملک سے باہر ہوتے ہیں اس لیے کیوں نہ وفاقی کابینہ کا اجلاس ملک سے باہر منعقدکرلیا جائے جس سے قومی خزانے کا بوجھ خاصا کم ہوسکتا ہے، یہ کہتے ہوئے وہ خاصے جذباتی ہوگئے کہ ایک ہم ہیں جن کو قومی مفاد کا اتنا خیال ہے اور دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں ہیں جو ہماری تنخواہیں بند کروانے پر تلی ہوئی ہیں۔
وزیروں کی بیگمات اس لیے اور پریشان ہیں کہ جیساکہ انھیں باخبر ذریعوں سے پتا چلا ہے حکومت نے اپنے وزیروں سے صاف کہہ دیا ہے کہ تنخواہیں نہ ملنے پر انھیں اپنے اخراجات خود پورے کرنے ہوں گے وہ اس گمان میں نہ رہیں کہ حکومت کسی اور کھاتے سے انھیں کم ازکم اتنی رقم دے دی گی کہ ان کے گھر کا کچن چلتا رہے کیونکہ ملک کے دستور اور قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہاں وہ یہ آپشن ضرور استعمال کرسکتے ہیں کہ ایسے صاحب حیثیت افراد کو کابینہ میں لے آئیں جو اپنے اخراجات خود پورے کرسکیں اور قومی خزانے پر بوجھ نہ بنیں۔ انھوں نے یہ بات فخر سے کہی کہ ان کی کابینہ میں زیادہ تر وزرا عام طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا ہمیشہ سے گزارا اپنی تنخواہوں پر ہوتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ ان کی یہ تحریک جس کا مقصد وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی وصوبائی وزرا کی تنخواہیں بندکروانا ہے، اصولوں پر مبنی ہے وسیع تر قومی مفاد میں پیش کی گئی ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے یہ خطرہ بھی مول لیا ہے کہ کل کلاں کو ان کی پارٹی برسر اقتدارآگئی اور ان کی پارٹی کے لوگ وزیر بن گئے تو انھیں بھی تنخواہوں کے بغیرکام کرنا پڑے گا۔
بقول ان کے یہ ایک علامتی تحریک ہے جس کا مقصد عوام کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا ہے اور وزیروں کو بھی یہ احساس دلانا ہے کہ کیونکہ وہ قومی خزانے پر پلتے ہیں تو ان کی تمام سرگرمیاں ملک و قوم کے مفاد میں ہونی چاہئیں۔ وہ اپنے اسی ایمپلائرکے خلاف کام نہ کریں جس سے وہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں انھیں قوی امید ہے کہ ان کی یہ تحریک منظور ہوجائے گی کیونکہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کم ازکم اس نکتے پر ان کی حامی ہے۔
تاہم انھوں نے یہ وعدہ ضرور کیا کہ اگر اسی دوران ان کو کوئی اور بہتر اور بامقصد تحریک سوجھ گئی تو وہ اپنی تنخواہیں بند کروانے والی تحریک واپس لے لیں گے کیونکہ یہ کتنی ہی بامقصد سہی بہرحال منفی ہے جس سے ان کے دشمن ہی نہیں دوست بھی متاثرہوسکتے ہیں۔ انھیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ وزیروں سے ان کے کام بھی پڑتے رہتے ہیں۔
وزیروں کی بیگمات نے بھی اپنے شوہروں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے کہ وہ ابھی سے اس تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش شروع کردیں کیونکہ تنخواہیں بند ہونے سے گھر کے معاملات بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں سب سے پہلے تو مکان دار ہی اگلے مہینے کرائے کا تقاضا کرنے کے لیے آ کھڑا ہوگا پھر ڈرائیور، باورچی اور ملازمہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لالے پڑ جائیں گے۔ بچوں کی اسکول کی فیسوں کو ٹالا جاسکتا ہے مگر اس سے بدنامی کتنی ہوگی کہ وزیروں کے بچوں کی اسکول کی فیسیں بروقت ادا نہیں کی جا رہی ہیں۔
غیر جانبدار مبصرین نے ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کے متعلقہ رکن سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی تحریک پر نظر ثانی کریں اور ان وزیروں کی مشکلات کا احساس کریں جو سیاست میں ان کے حریف سہی بہرحال ان کے ہم وطن بھائی ہیں انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ برا وقت کل ان پر بھی آسکتا ہے۔
قدرتی طور پر اس خبر سے وفاقی اورصوبائی وزیروں کے گھر والوں میں کھلبلی سی مچ گئی ہے تشویش کی لہر دوڑگئی ہے اور خاص طور پر ان وزرا کی بیگمات اس اندیشے میں مبتلا ہوگئی ہیں کہ اس شدید مہنگائی کے دور میں جب کہ ایک عام آدمی کا گزارا بھی مشکل سے ہو رہا ہے اگر ان کے شوہروں کی تنخواہیں روک لی گئیں تو ان کا کچن کیسے چلے گا، گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ بچوں کے اسکولوں کی فیسیں کیسے ادا ہوں گی۔
اگرچہ پی ٹی آئی کی اس تحریک کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں مگر عام خیال یہ ہے کہ ان کے نزدیک نہ صرف وزیراعظم بلکہ ان کے تمام وزیروں کی سرگرمیاں قومی مفاد میں نہیں ہیں اس لیے وہ اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ انھیں قومی خزانے سے ایک پھوٹی کوڑی بھی ادا کی جائے۔ تاہم پی ٹی آئی کے محرکین یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ وزراء اگر مالی پریشانیوں میں مبتلا کردیے گئے تو وہ اپنی ذمے داریاں کیسے ادا کرسکیں گے اور اس سے سب سے زیادہ ان کے اہل خانہ متاثر ہوں گے جن کو وہ تنخواہ ملنے پر لگی بندھی رقم ادا کرکے فارغ ہوجاتے ہیں اور خواتین کس طرح ہر مہینے جیسے تیسے گھر کے اخراجات پورے کرتی ہیں یہ ان خواتین کا دل ہی جانتا ہے۔
ان جھوٹے سچے ذرایع نے یہ بھی بتایا کہ وزراء کے چہروں پر پھیلی ہوئی پریشانیوں کا احساس کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی کسی ایسی تحریک یا بل کو پاس نہیں ہونے دیا جائے کیونکہ انھیں بجا طور پر یہ خطرہ بھی ہے کہ حکمراں جماعت کے اراکین پارلیمنٹ بھی کہیں وزرا کی جلن میں ایسے کسی بل کے حق میں ووٹ نہ دے دیں اور یہ تحریک منظور نہ ہوجائے۔
غیرجانبدار مبصرین نے، سچی بات یہ ہے، پی ٹی آئی کی اس تحریک کو قطعاً پسند نہیں کیا ہے ان کا تبصرہ یہ ہے کہ اب سیاسی مخالفتیں باقاعدہ دشمنیوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اور مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور بھوکا پیاسا مارنے کے درپے ہوگئی ہیں، اگرچہ پاکستان میں پہلے بھی حکمراں اور اپوزیشن کی جماعتیں کام کرتی رہی ہیں مگر ان کی باہمی مخالفت کبھی اتنی نہیں بڑھی کہ وہ ایک دوسرے کی تنخواہیں بند کروانے کے لیے تحریکیں پیش کرنے لگیں۔
مبصرین کی رائے یہ ہے کہ زیادہ تر وزیروں کا گزارا تنخواہوں پر ہوتا ہے اور وہ ہر مہینے بڑی بے چینی سے پہلی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کے گھروں کے اخراجات خاصے بڑھ گئے ہیں وزیر بن جانے کے بعد انھیں ایک خاص معیار زندگی Standard of Living برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ ان کے سب سے زیادہ پیسے مہمانداری پر خرچ ہوتے ہیں کیونکہ عوام کے منتخب نمایندہ ہونے کی وجہ سے ان کے حلقے کے لوگ، پارٹی عہدیدار اور حمایتی ان کے پاس پابندی سے آتے ہیں اوراکثر کھانا کھائے بغیر نہیں جاتے۔
غیر ملکی دورے
جیساکہ ایک وزیر نے ہمیں کانفیڈنس میں لے کر بتایا کہ اکثر ان کی ساری تنخواہ غیر ملکی دوروں پر خرچ ہوجاتی ہے حکومت تو صرف ٹکٹ دیتی ہے باقی سارے اخراجات مثلاً شاپنگ وغیرہ انھیں خود کرنے پڑتے ہیں۔ جب بات سے بات نکلی تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ حکومت کو یہ تجویز تک پیش کرچکے ہیں کہ کیونکہ وزرا اکثر ملک سے باہر ہوتے ہیں اس لیے کیوں نہ وفاقی کابینہ کا اجلاس ملک سے باہر منعقدکرلیا جائے جس سے قومی خزانے کا بوجھ خاصا کم ہوسکتا ہے، یہ کہتے ہوئے وہ خاصے جذباتی ہوگئے کہ ایک ہم ہیں جن کو قومی مفاد کا اتنا خیال ہے اور دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں ہیں جو ہماری تنخواہیں بند کروانے پر تلی ہوئی ہیں۔
وزیروں کی بیگمات اس لیے اور پریشان ہیں کہ جیساکہ انھیں باخبر ذریعوں سے پتا چلا ہے حکومت نے اپنے وزیروں سے صاف کہہ دیا ہے کہ تنخواہیں نہ ملنے پر انھیں اپنے اخراجات خود پورے کرنے ہوں گے وہ اس گمان میں نہ رہیں کہ حکومت کسی اور کھاتے سے انھیں کم ازکم اتنی رقم دے دی گی کہ ان کے گھر کا کچن چلتا رہے کیونکہ ملک کے دستور اور قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہاں وہ یہ آپشن ضرور استعمال کرسکتے ہیں کہ ایسے صاحب حیثیت افراد کو کابینہ میں لے آئیں جو اپنے اخراجات خود پورے کرسکیں اور قومی خزانے پر بوجھ نہ بنیں۔ انھوں نے یہ بات فخر سے کہی کہ ان کی کابینہ میں زیادہ تر وزرا عام طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا ہمیشہ سے گزارا اپنی تنخواہوں پر ہوتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ ان کی یہ تحریک جس کا مقصد وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی وصوبائی وزرا کی تنخواہیں بندکروانا ہے، اصولوں پر مبنی ہے وسیع تر قومی مفاد میں پیش کی گئی ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے یہ خطرہ بھی مول لیا ہے کہ کل کلاں کو ان کی پارٹی برسر اقتدارآگئی اور ان کی پارٹی کے لوگ وزیر بن گئے تو انھیں بھی تنخواہوں کے بغیرکام کرنا پڑے گا۔
بقول ان کے یہ ایک علامتی تحریک ہے جس کا مقصد عوام کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا ہے اور وزیروں کو بھی یہ احساس دلانا ہے کہ کیونکہ وہ قومی خزانے پر پلتے ہیں تو ان کی تمام سرگرمیاں ملک و قوم کے مفاد میں ہونی چاہئیں۔ وہ اپنے اسی ایمپلائرکے خلاف کام نہ کریں جس سے وہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں انھیں قوی امید ہے کہ ان کی یہ تحریک منظور ہوجائے گی کیونکہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کم ازکم اس نکتے پر ان کی حامی ہے۔
تاہم انھوں نے یہ وعدہ ضرور کیا کہ اگر اسی دوران ان کو کوئی اور بہتر اور بامقصد تحریک سوجھ گئی تو وہ اپنی تنخواہیں بند کروانے والی تحریک واپس لے لیں گے کیونکہ یہ کتنی ہی بامقصد سہی بہرحال منفی ہے جس سے ان کے دشمن ہی نہیں دوست بھی متاثرہوسکتے ہیں۔ انھیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ وزیروں سے ان کے کام بھی پڑتے رہتے ہیں۔
وزیروں کی بیگمات نے بھی اپنے شوہروں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے کہ وہ ابھی سے اس تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش شروع کردیں کیونکہ تنخواہیں بند ہونے سے گھر کے معاملات بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں سب سے پہلے تو مکان دار ہی اگلے مہینے کرائے کا تقاضا کرنے کے لیے آ کھڑا ہوگا پھر ڈرائیور، باورچی اور ملازمہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لالے پڑ جائیں گے۔ بچوں کی اسکول کی فیسوں کو ٹالا جاسکتا ہے مگر اس سے بدنامی کتنی ہوگی کہ وزیروں کے بچوں کی اسکول کی فیسیں بروقت ادا نہیں کی جا رہی ہیں۔
غیر جانبدار مبصرین نے ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کے متعلقہ رکن سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی تحریک پر نظر ثانی کریں اور ان وزیروں کی مشکلات کا احساس کریں جو سیاست میں ان کے حریف سہی بہرحال ان کے ہم وطن بھائی ہیں انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ برا وقت کل ان پر بھی آسکتا ہے۔