ایسے ہوتے ہیں دانشور
نوجوانوں اور عام شہریوں نے اس ٹریبونل کی کارروائی میں اس لیے بھی خاص طور سے دلچسپی لی
گزشتہ کالم میں نائن الیون کے سانحے پر گفتگو ہو چکی ہے، آج میں اس بیان کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو اب سے 50 برس پہلے 1966ء کی 8 ستمبر کو برطانیہ کے نامور فلسفی اور دانشور برٹرینڈ رسل نے جاری کیا تھا اور جس میں ویت نامیوں کے خلاف امریکی جنگی جرائم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ اسی روز رسل نے سوویت لیڈر الکسئی کوسیجن کو ایک تار بھی بھیجا تھا۔ اس تار میں سوویت لیڈر کی توجہ اس طرف دلائی تھی کہ ویت نامی اپنے جائز حقِ خود اختیاری کے لیے لڑ رہے ہیں جب کہ امریکی طیارے بستیوں اور اسپتالوں پر کیمیاوی ہتھیار، زیریلی گیسیں اور آگ لگانے والے نیپام بم پھینک رہے ہیں۔
یہ خط 8 ستمبر 1966ء کو لکھا گیا تھا لیکن جب امریکی اور برطانوی حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی تو رسل نے امریکی جنگی جرائم کے خلاف ایک ٹریبونل قائم کیا جس میں دنیا کے بہت سے ملکوں سے اہم ادیب، دانشور اور حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے قانون داں افراد منتخب کیے گئے اور ان کا پہلا اجلاس مئی 1967ء میں اسٹاک ہولم میں اور اختتامی اجلاس ڈنمارک میں ہوا۔ جنگی جرائم کے خلاف شہادتیں پیش کرنے کے لیے ویتنام کے وہ شہری بھی بلائے گئے جو نیپام بم اور کیمیاوی گیسوں کا شکار ہوئے تھے۔
ہمارے یہاں وہ ایوب آمریت کا دور تھا، نوجوانوں اور عام شہریوں نے اس ٹریبونل کی کارروائی میں اس لیے بھی خاص طور سے دلچسپی لی کہ اس میں پاکستان کے دو معروف افراد بھی لیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک بائیں بازو کے معروف صحافی مظہر علی خاں اور طاہرہ مظہر علی کے بیٹے طارق علی جو طالب علم رہنما تھے اور لندن میں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے، ان کے علاوہ پاکستان کے معروف قانون دان بیرسٹر محمود علی قصوری بھی اس میں شامل تھے۔
اس ٹریبونل کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے مشہور و محترم فرانسیسی ادیب، فلسفی اور دانشور ژاں پال سارتر نے کہا تھا 'ہم طاقت سے محروم ہیں اور یہی بات ہماری آزادی کی ضمانت ہے۔ ہم کسی پارٹی اور کسی حکومت کی نمایندگی نہیں کرتے۔ ہم کسی سے احکامات نہیں لیتے، ہم حقائق کو اپنی روح اور اپنے ضمیر کے ترازو میں تولیں گے'۔
برٹرینڈ رسل نے اس ٹریبونل میں امریکی ضمیر سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا ''امریکا کے شہریو! امریکا ایسی انقلابی روایات کا مالک ہے جو ابتدائی زمانے میں انسانی آزادیوں اور سماجی مساوات کی جدوجہد میں سچی تھیں۔ یہ روایات ان چند لوگوں نے کچل دی ہیں جو آج امریکا پر حکومت کر رہے ہیں۔ آپ میں سے اکثر کو شاید اس کا مکمل علم نہ ہو کہ آپ کے ملک پر ان صنعت کاروں کا کس حد تک اختیار ہے جن کے ذریعے آج ریاست ہائے متحدہ امریکا دنیا بھر کے قدرتی وسائل کے 60 فیصد حصے پر قابض ہے حالانکہ اس کی آبادی دنیا بھر کی آبادی کی صرف 6 فیصد ہے۔
میں آپ کو آپ کے ہی رہنماؤں کے ان الفاظ پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں جن کے ذریعے وہ کبھی کبھی اس لوٹ کھسوٹ کو بیان کر دیتے ہیں جو انھوں نے روا رکھی ہے۔ 17 فروری 1950ء کو نیویارک ٹائمز نے لکھا ''ہند چینی ایک ایسا علاقہ ہے جس کے لیے ایک بڑا جُوا کھیلا جا سکتا ہے۔ شمال میں ٹین، میگانیز، کوئلہ، عمارتی لکڑی، چاول، ربڑ، چائے، کالی مرچ اور کھالیں ہیں جو برآمد کی جا سکتی ہیں۔ دوسری طرف جنگ عظیم سے پہلے بھی ہند چینی ہر سال 30 کروڑ ڈالر کا نفع دیتا تھا۔''
صرف ایک سال بعد آپ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک وزیر نے کہا ''ہم نے جنوب مشرقی ایشیا کے وسائل کو ابھی جزوی طور پر استعمال کیا ہے۔ تاہم جنوب مشرقی ایشیا دنیا بھر کے خام ربڑ کا 90 فیصد، ٹین کا 60 فیصد اور ناریل کے تیل کا 80 فیصد فراہم کرتا رہا ہے۔ شکر، چائے، کاٹن، تمباکو، پھل، مصالحے، گوند، پٹرول، خام لوہا اس علاقے میں بھاری مقدار میں موجود ہیں۔''
اور 1953ء میں جب فرانسیسی، امریکی امداد کے سہارے ویت نام میں لڑ رہے تھے تو صدر آئزن ہاور نے بیان دیا: ''آئیے فرض کریں کہ ہم ہند چینی کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ہند چینی ہاتھ سے نکل جائے تو ٹین اور ٹنگ اسٹن جس کی ہمیں اس قدر ضرورت ہے، آنا بند ہو جائیں گے۔ ہم اس خوف ناک حادثے کو روکنے کے لیے آسان اور سستے طریقے کی تلاش میں ہیں جس سے ہند چینی اور جنوب مشرقی ایشیا کی دولت حسب منشا حاصل کرنے کی صلاحیت ہمارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔''
برٹرینڈ رسل نے اس وقت کے امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا ''اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ویتنام میں جنگ اس لیے لڑی جا رہی ہے کہ اس علاقے کی دولت پر امریکی سرمایہ داروں کے مستقل قبضے کی حفاظت کی جا سکے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اسلحہ بنانے والی صنعتوں کو ٹھیکوں کے ذریعے بے پناہ روپیہ دیا جاتا ہے اور ان صنعتوں کے ڈائریکٹروں میں خود وہی جرنیل شامل ہوتے ہیں جو ہتھیار کے خریدار ہوتے ہیں تو یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ فوج اور بڑے صنعت کاروں نے نفع کی خاطر آپس میں اتحاد کر رکھا ہے۔
میں آپ سے اس بات پر غور کرنے کی اپیل کرتا ہوں کہ امریکی حکومت نے ویتنامی عوام کے ساتھ کیا کچھ کیا ہے۔ کیا آپ اپنے دل کی گہرائیوں سے ویتنام پر زہریلی کیمیاوی دواؤں، گیس، جیلی گیسولین اور فاسفورس کے بموں کا استعمال صحیح ثابت کر سکتے ہیں؟ یہ گیسیں اور مادے زہریلے ہیں اور مہلک ہیں۔ نیپام اور فاسفورس بم اپنے شکار کو جلا کر ابلتے ہوئے گوشت کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔
آپ کی فوج نے ''لیزی ڈاگ'' قسم کے ہتھیار بھی استعمال کیے ہیں، یہ ایسا بم ہے جس میں بلیڈ جیسے لوہے کے دس ہزار دھاردار ٹکڑے بھر ے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی تیز دھار کے ٹکڑے بم پھٹتے ہی نہتے دیہاتیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ شمالی ویت نام کے صرف ایک صوبے میں جو انتہائی گنجان آباد ہے، تیرہ ماہ کے عرصے میں یہ تیز دھار پترے دس کروڑ کی تعداد میں پھینکے گئے ہیں۔
امریکا نے جب ویتنام کے خلاف جنگ شروع کی تو امریکی محکمہ دفاع ایک سو ساٹھ بلین ڈالر کی مالیت کی جائیداد کا مالک تھا، اور اب یہ مالیت دگنی ہو چکی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو امریکا میں تین کروڑ بیس لاکھ ایکڑ اور باہر کے ملکوں میں کروڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنی انسانیت اور اپنی عزتِ نفس کو یاد رکھیے۔ ویت نامی عوام کے خلاف یہ جنگ درندگی ہے۔ یہ ایک جارحانہ جنگ تسخیر ہے۔ امریکی جنگ آزادی کے دوران کسی نے امریکیوں کو ان کی جدوجہد کا مقصد بتانے یا انھیں ان کے مرضی کے خلاف بھرتی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
نہ امریکی سپاہیوں کو 10 ہزار میل دور کسی غیر ملک جانا پڑا تھا۔ امریکا کی انقلابی جنگ میں امریکیوں نے غیر ملکی سپاہیوں (برطانوی نوآبادیاتی افواج) کے خلاف کھیتوں اور جنگلوں میں لڑائی لڑی جب کہ ان کے بدن پر چیتھڑے تھے اور قابض فوج اس دور کی مضبوط ترین فوج تھی۔ امریکیوں نے قبضہ کرنے والوں کے خلاف جنگ لڑی حالانکہ وہ بھوکے اور غریب تھے۔ اس جنگ آزادی میں امریکی انقلابیوں کو ''دہشت پسند'' کہا گیا اور انھیں ''باغی'' اور ''غیر منظم غول'' کا نام دینے والے (برطانوی) نوآبادیاتی حاکم تھے۔''
اس ٹریبونل کا دوسرا اور آخری اجلاس دسمبر 1967ء میں ہوا تھا۔ اس کے اختتامی سیشن سے ژاں پال سارتر نے خطاب کیا جس میں امریکی اور یورپی عوام سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنی حکومتوں کو جواب دہی پر مجبور کریں کیونکہ خاموشی جرم ہے۔ ٹریبونل کی رپورٹ نے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کئی زبانوں میں شایع ہوئی ان میں اردو بھی شامل تھی۔
ان تمام ہنگامہ خیزیوں کے دوران رسل، سارتر اور یورپ و امریکا سے تعلق رکھنے والے تمام دانشوروں اور ادیبوں نے کبھی اپنے ملکوں کے جمہوری نظام کا بستر لپیٹ دینے کی بات نہیں کی۔ انھوں نے اپنے اپنے جمہوری نظام کی خرابیوں کی نشان دہی کی لیکن نہ عوام کو بغاوت پر اُکسایا اور نہ کسی فوجی جرنیل کو 'آجا... اب تو آجا' کے نغمے سنائے۔ ان کا ایمان تھا کہ جمہوریت کا متبادل بہتر جمہوریت ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اب تک انسانوں نے جتنے طریقہ ہائے حکمرانی ایجاد کیے ہیں، ان میں جمہوریت وہ واحد نظم حکمرانی ہے جس میں انسانوں کو جینے کا ایک بہتر انداز مل سکتا ہے۔
جمہوریت پر ان کا ایمان اس قدر راسخ تھا کہ اس ٹریبونل کی کارروائی کے دوران وہ کسی صدر، وزیراعظم یا چیف آف آرمی اسٹاف کی خدمت میں کورنش نہیں بجا لائے۔ انھوں نے آواز دی تو امریکی عوام کو جن کے حکمران ویت نام پر ظلم و بربریت کی انتہا کر رہے تھے۔ اسی طرح ان دانشوروں اور ادیبوں کو بھی ان کے ملکوں کی حکومتوں نے 'غدار' نہیں ٹھہرایا۔ ایسے ہوتے ہیں دانشور۔ پاکستان کو بھی ایسے دانشوروں کی ضرورت ہے۔
یہ خط 8 ستمبر 1966ء کو لکھا گیا تھا لیکن جب امریکی اور برطانوی حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی تو رسل نے امریکی جنگی جرائم کے خلاف ایک ٹریبونل قائم کیا جس میں دنیا کے بہت سے ملکوں سے اہم ادیب، دانشور اور حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے قانون داں افراد منتخب کیے گئے اور ان کا پہلا اجلاس مئی 1967ء میں اسٹاک ہولم میں اور اختتامی اجلاس ڈنمارک میں ہوا۔ جنگی جرائم کے خلاف شہادتیں پیش کرنے کے لیے ویتنام کے وہ شہری بھی بلائے گئے جو نیپام بم اور کیمیاوی گیسوں کا شکار ہوئے تھے۔
ہمارے یہاں وہ ایوب آمریت کا دور تھا، نوجوانوں اور عام شہریوں نے اس ٹریبونل کی کارروائی میں اس لیے بھی خاص طور سے دلچسپی لی کہ اس میں پاکستان کے دو معروف افراد بھی لیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک بائیں بازو کے معروف صحافی مظہر علی خاں اور طاہرہ مظہر علی کے بیٹے طارق علی جو طالب علم رہنما تھے اور لندن میں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے، ان کے علاوہ پاکستان کے معروف قانون دان بیرسٹر محمود علی قصوری بھی اس میں شامل تھے۔
اس ٹریبونل کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے مشہور و محترم فرانسیسی ادیب، فلسفی اور دانشور ژاں پال سارتر نے کہا تھا 'ہم طاقت سے محروم ہیں اور یہی بات ہماری آزادی کی ضمانت ہے۔ ہم کسی پارٹی اور کسی حکومت کی نمایندگی نہیں کرتے۔ ہم کسی سے احکامات نہیں لیتے، ہم حقائق کو اپنی روح اور اپنے ضمیر کے ترازو میں تولیں گے'۔
برٹرینڈ رسل نے اس ٹریبونل میں امریکی ضمیر سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا ''امریکا کے شہریو! امریکا ایسی انقلابی روایات کا مالک ہے جو ابتدائی زمانے میں انسانی آزادیوں اور سماجی مساوات کی جدوجہد میں سچی تھیں۔ یہ روایات ان چند لوگوں نے کچل دی ہیں جو آج امریکا پر حکومت کر رہے ہیں۔ آپ میں سے اکثر کو شاید اس کا مکمل علم نہ ہو کہ آپ کے ملک پر ان صنعت کاروں کا کس حد تک اختیار ہے جن کے ذریعے آج ریاست ہائے متحدہ امریکا دنیا بھر کے قدرتی وسائل کے 60 فیصد حصے پر قابض ہے حالانکہ اس کی آبادی دنیا بھر کی آبادی کی صرف 6 فیصد ہے۔
میں آپ کو آپ کے ہی رہنماؤں کے ان الفاظ پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں جن کے ذریعے وہ کبھی کبھی اس لوٹ کھسوٹ کو بیان کر دیتے ہیں جو انھوں نے روا رکھی ہے۔ 17 فروری 1950ء کو نیویارک ٹائمز نے لکھا ''ہند چینی ایک ایسا علاقہ ہے جس کے لیے ایک بڑا جُوا کھیلا جا سکتا ہے۔ شمال میں ٹین، میگانیز، کوئلہ، عمارتی لکڑی، چاول، ربڑ، چائے، کالی مرچ اور کھالیں ہیں جو برآمد کی جا سکتی ہیں۔ دوسری طرف جنگ عظیم سے پہلے بھی ہند چینی ہر سال 30 کروڑ ڈالر کا نفع دیتا تھا۔''
صرف ایک سال بعد آپ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک وزیر نے کہا ''ہم نے جنوب مشرقی ایشیا کے وسائل کو ابھی جزوی طور پر استعمال کیا ہے۔ تاہم جنوب مشرقی ایشیا دنیا بھر کے خام ربڑ کا 90 فیصد، ٹین کا 60 فیصد اور ناریل کے تیل کا 80 فیصد فراہم کرتا رہا ہے۔ شکر، چائے، کاٹن، تمباکو، پھل، مصالحے، گوند، پٹرول، خام لوہا اس علاقے میں بھاری مقدار میں موجود ہیں۔''
اور 1953ء میں جب فرانسیسی، امریکی امداد کے سہارے ویت نام میں لڑ رہے تھے تو صدر آئزن ہاور نے بیان دیا: ''آئیے فرض کریں کہ ہم ہند چینی کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ہند چینی ہاتھ سے نکل جائے تو ٹین اور ٹنگ اسٹن جس کی ہمیں اس قدر ضرورت ہے، آنا بند ہو جائیں گے۔ ہم اس خوف ناک حادثے کو روکنے کے لیے آسان اور سستے طریقے کی تلاش میں ہیں جس سے ہند چینی اور جنوب مشرقی ایشیا کی دولت حسب منشا حاصل کرنے کی صلاحیت ہمارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔''
برٹرینڈ رسل نے اس وقت کے امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا ''اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ویتنام میں جنگ اس لیے لڑی جا رہی ہے کہ اس علاقے کی دولت پر امریکی سرمایہ داروں کے مستقل قبضے کی حفاظت کی جا سکے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اسلحہ بنانے والی صنعتوں کو ٹھیکوں کے ذریعے بے پناہ روپیہ دیا جاتا ہے اور ان صنعتوں کے ڈائریکٹروں میں خود وہی جرنیل شامل ہوتے ہیں جو ہتھیار کے خریدار ہوتے ہیں تو یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ فوج اور بڑے صنعت کاروں نے نفع کی خاطر آپس میں اتحاد کر رکھا ہے۔
میں آپ سے اس بات پر غور کرنے کی اپیل کرتا ہوں کہ امریکی حکومت نے ویتنامی عوام کے ساتھ کیا کچھ کیا ہے۔ کیا آپ اپنے دل کی گہرائیوں سے ویتنام پر زہریلی کیمیاوی دواؤں، گیس، جیلی گیسولین اور فاسفورس کے بموں کا استعمال صحیح ثابت کر سکتے ہیں؟ یہ گیسیں اور مادے زہریلے ہیں اور مہلک ہیں۔ نیپام اور فاسفورس بم اپنے شکار کو جلا کر ابلتے ہوئے گوشت کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔
آپ کی فوج نے ''لیزی ڈاگ'' قسم کے ہتھیار بھی استعمال کیے ہیں، یہ ایسا بم ہے جس میں بلیڈ جیسے لوہے کے دس ہزار دھاردار ٹکڑے بھر ے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی تیز دھار کے ٹکڑے بم پھٹتے ہی نہتے دیہاتیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ شمالی ویت نام کے صرف ایک صوبے میں جو انتہائی گنجان آباد ہے، تیرہ ماہ کے عرصے میں یہ تیز دھار پترے دس کروڑ کی تعداد میں پھینکے گئے ہیں۔
امریکا نے جب ویتنام کے خلاف جنگ شروع کی تو امریکی محکمہ دفاع ایک سو ساٹھ بلین ڈالر کی مالیت کی جائیداد کا مالک تھا، اور اب یہ مالیت دگنی ہو چکی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو امریکا میں تین کروڑ بیس لاکھ ایکڑ اور باہر کے ملکوں میں کروڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنی انسانیت اور اپنی عزتِ نفس کو یاد رکھیے۔ ویت نامی عوام کے خلاف یہ جنگ درندگی ہے۔ یہ ایک جارحانہ جنگ تسخیر ہے۔ امریکی جنگ آزادی کے دوران کسی نے امریکیوں کو ان کی جدوجہد کا مقصد بتانے یا انھیں ان کے مرضی کے خلاف بھرتی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
نہ امریکی سپاہیوں کو 10 ہزار میل دور کسی غیر ملک جانا پڑا تھا۔ امریکا کی انقلابی جنگ میں امریکیوں نے غیر ملکی سپاہیوں (برطانوی نوآبادیاتی افواج) کے خلاف کھیتوں اور جنگلوں میں لڑائی لڑی جب کہ ان کے بدن پر چیتھڑے تھے اور قابض فوج اس دور کی مضبوط ترین فوج تھی۔ امریکیوں نے قبضہ کرنے والوں کے خلاف جنگ لڑی حالانکہ وہ بھوکے اور غریب تھے۔ اس جنگ آزادی میں امریکی انقلابیوں کو ''دہشت پسند'' کہا گیا اور انھیں ''باغی'' اور ''غیر منظم غول'' کا نام دینے والے (برطانوی) نوآبادیاتی حاکم تھے۔''
اس ٹریبونل کا دوسرا اور آخری اجلاس دسمبر 1967ء میں ہوا تھا۔ اس کے اختتامی سیشن سے ژاں پال سارتر نے خطاب کیا جس میں امریکی اور یورپی عوام سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنی حکومتوں کو جواب دہی پر مجبور کریں کیونکہ خاموشی جرم ہے۔ ٹریبونل کی رپورٹ نے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کئی زبانوں میں شایع ہوئی ان میں اردو بھی شامل تھی۔
ان تمام ہنگامہ خیزیوں کے دوران رسل، سارتر اور یورپ و امریکا سے تعلق رکھنے والے تمام دانشوروں اور ادیبوں نے کبھی اپنے ملکوں کے جمہوری نظام کا بستر لپیٹ دینے کی بات نہیں کی۔ انھوں نے اپنے اپنے جمہوری نظام کی خرابیوں کی نشان دہی کی لیکن نہ عوام کو بغاوت پر اُکسایا اور نہ کسی فوجی جرنیل کو 'آجا... اب تو آجا' کے نغمے سنائے۔ ان کا ایمان تھا کہ جمہوریت کا متبادل بہتر جمہوریت ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اب تک انسانوں نے جتنے طریقہ ہائے حکمرانی ایجاد کیے ہیں، ان میں جمہوریت وہ واحد نظم حکمرانی ہے جس میں انسانوں کو جینے کا ایک بہتر انداز مل سکتا ہے۔
جمہوریت پر ان کا ایمان اس قدر راسخ تھا کہ اس ٹریبونل کی کارروائی کے دوران وہ کسی صدر، وزیراعظم یا چیف آف آرمی اسٹاف کی خدمت میں کورنش نہیں بجا لائے۔ انھوں نے آواز دی تو امریکی عوام کو جن کے حکمران ویت نام پر ظلم و بربریت کی انتہا کر رہے تھے۔ اسی طرح ان دانشوروں اور ادیبوں کو بھی ان کے ملکوں کی حکومتوں نے 'غدار' نہیں ٹھہرایا۔ ایسے ہوتے ہیں دانشور۔ پاکستان کو بھی ایسے دانشوروں کی ضرورت ہے۔