جہاں شہری کام بھی کرتے ہیں

کئی پاکستانی یہاں ’بے روزگار‘ ہیں اور انگریز ان کی بیروزگاری میں ان کی مالی مدد کیا کرتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

میں اگرچہ لاہور کے ایک نسبتاً خاموش علاقے ڈیفنس میں رہتا ہوں لیکن آج یہ علاقہ غیرمعمولی حد تک خاموش اور چپ چاپ ہے۔ اگرچہ آج ہفتہ کا دن ہے یعنی نیم چھٹی مگر یہ آدھی چھٹی بھی لگتا ہے کہ لاہور کے ڈیفنس والوں کو ناگوار گزری ہے کہ وہ یا تو ابھی تک زیادہ نہیں تو نیم خواب میں گم ہیں یا پھر ابھی تک اپنے آرام دہ بستروں سے اٹھے ہی نہیں ہیں۔

جب کوئی کروٹ بدل کر اپنی روزمرہ کی ڈیوٹی کو یاد کرتا ہے تو اس کے تھکے ہوئے جسم کا کوئی حصہ اسے ہفتہ کے دن کی نیم چھٹی یاد دلا کر پھر سلا دیتا ہے اور وہ اس چھٹی کی خوشی میں پھر سے نیند میں مدہوش ہو جاتا ہے۔ ایک ملازم جو مستقل ملازمت کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے اسے اس کی کسی چھٹی کے دن بے آرام کرنا ایک فاش غلطی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک کھلی زیادتی ہے جس کی سزا ملنی ضروری ہے جو مجھے ایک بار مل چکی ہے۔ میں نے نیویارک میں چھٹی کے دن ایک پاکستانی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

میرا یہ دوست شدید نیند کے عالم میں دروازے تک آیا اور پھر میرے حق میں غلط زبان استعمال کرتے ہوئے دروازہ بند کر کے اندر چلا گیا۔ میں نے شام کو ایک مشترکہ دوست کی محفل میں اس کے اس رویے کا شکوہ کیا تو پوری محفل نے مجھے نشانے پر رکھ لیا کہ تم چھٹی کے دن ایسے وقت میں اس کے گھر گئے کیوں جب وہ ہفتہ بھر کی تھکان اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تم پاکستانی نہ جانے کب سدھرو گے اور تمہیں دنیا میں رہنے کا سلیقہ کب آئے گا۔

چھٹی کے دن جس وقت تم نے اپنے پاکستانی انداز میں اپنے دوست کو پریشان کیا اور اس کا آرام غارت کیا اس کے جواب میں تو اسے تم پر گھر کا کوئی بھاری سا گھریلو سامان پھینکنا چاہیے تھا تا کہ تم اپنی اس دوستانہ ملاقات کی کوشش کو یاد رکھتے۔ برادرم یہ پاکستان نہیں ہے یہاں لوگ یعنی ہم لوگ ہفتہ میں پانچ دن گدھے کا سا کام کرتے ہیں اور دو دن گوروں کی طرح مکمل آرام تا کہ ہفتہ کے باقی دنوں میں کام کے لیے تیار ہو سکیں کیونکہ یہاں نخرہ نہیں چلتا، کام چلتا ہے یا چھٹی جس میں تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔

دوستی ہرگز نہیں چلتی۔ یہ کاروباری لوگ ہیں۔ خود بھی کام کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی کام لیتے ہیں اور یہی ان کی ایک دیانتدارانہ زندگی ہے۔ لندن میں ہمارے ایک مرحوم دوست کا دفتر ہمارا اڈا تھا جہاں ہم پاکستانی جمع رہتے تھے۔ وہاں ہمارا ایک ہم نشین دن میں کسی وقت ذرا سی چھٹی کا کہہ کر جاتا اور واپسی پر کچھ سامان اٹھائے آ جاتا۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ ایک دن میں نے اپنے میزبان سے شکوہ کیا کہ ہمارا یہ دوست جو بے روزگار ہے ہمارے لیے کھانے پینے کا سامان لے کر آ جاتا ہے، یہ زیادتی ہے۔


یہ سن کر ایک قہقہہ بلند ہوا اور دوسرے دن مجھے ان صاحب کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ ایک دفتر میں کچھ انتظار کے بعد وہ صاحب اندر چلے گئے اور واپسی پر کچھ رقم مٹھی میں لے کر میرے پاس آ گئے کہ چلو ذرا باہر چلتے ہیں یعنی شاپنگ پر۔ چنانچہ انھوں نے کچھ سامان خریدا اور واپس ہم اپنے میزبان کے پاس آ گئے۔ یہ سلسلہ کچھ دن چلتا رہا اور ایک دن مجھے پتہ چلا کہ ہمارے دوست انگریزوں کے کھاتے میں بے روزگار ہیں اس لیے وہ بے روزگاری الاؤنس وصول کیا کرتے ہیں اور پھر اس الاؤنس میں سے ہماری خاطر تواضح بھی کرتے ہیں اور کچھ بچا کر گھر بھی لے جاتے ہیں۔ اس طرح انگریزوں کے خرچ پر ان کی دوستی اور گھر سب چلتے ہیں۔

میں نے سنا تو پہلے بھی تھا لیکن بیروزگاری الاؤنس پہلی بار دیکھا اور معلوم ہوا کہ ہم کئی پاکستانی یہاں 'بے روزگار' ہیں اور انگریز ان کی بیروزگاری میں ان کی مالی مدد کیا کرتے ہیں۔ ایک دوست نے میرے سامنے یہ الاؤنس وصول کیا تو مجھے دل سے تو اچھا نہ لگا لیکن پھر مجھے اپنا ماضی یاد آیا جب ہم ان انگریزوں کے غلام تھے اور یہ ہمیں بے پناہ لوٹتے تھے۔

ان کے کئی شہر اپنی خوبصورتی کے لیے ہماری دولت کے محتاج ہیں اور ان کا عالمی کروفر ہماری طویل غلامی کا نتیجہ اور ثمر ہے لیکن ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ان کی غلامی میں آ گئے اور وہ ہمارے بادشاہ بن گئے اور کوئی صدی ڈیڑھ صدی تک ہم پر بادشاہی کرتے رہے۔ بادشاہی کا مطلب ہے کہ ہم اور ہماری جائیداد سبھی بادشاہ کی ملکیت ہے۔ ہر ضلع میں زمین کا ایک ٹکڑا 'کراؤن لینڈ' کہلاتا تھا جو ڈی سی ضلع انعام میں کسی مخلص کو بخش دیتا تھا۔ ہمارے کئی رؤسا اپنے ضلعوں کے ڈی سی صاحبان کی مہربانی سے رئیس تھے اور ان کی یہ مہربانی نسل در نسل چلتی ہے اور چل رہی ہے۔

انگریزوں نے ہم پر بادشاہی کی لیکن کسی مقامی کو بے عزت نہیں کیا بلکہ کئی ایک خاندانوں کو باعزت بنا کر گئے۔ انھیں سرکاری زمین بخش دی، نمبرداری اور زیلداری بھی دے دی اور دیگر مراعات بھی۔ اس کے عوض انگریزی دور میں حکومت کی اطاعت مطلوب تھی اور انگریز افسروں کی پذیرائی اور استقبال۔ ایک واقعہ سن لیجیے کہ علاقے کا انگریز کمشنر دورے پر تھا اور علاقے کے عمائدین اس کے جلو میں تھے۔ اس دوران ایک صاحب چند ساتھیوں کے ہمراہ مخالف سمت سے آتے ہوئے سلام کیے بغیر گزر گئے کمشنر جل بھن گیا۔

پوچھا کہ کون تھا۔ بتایا گیا کہ یہ اس علاقے کا زمیندار اور پیر ہے۔ کمشنر نے پوچھا اس کا کوئی مرید کسی سرکاری عطیہ کا دین دار ہے۔ بتایا گیا کہ نہیں۔ اس پر ریکارڈ دیکھا گیا تو ایک ٹوانہ خاندان کا فرد سرکاری نمک خوار نکلا۔ انگریزوں نے اس کی جائیداد ضبط کر لی اور اسے سلام نہ کرنے کی گستاخی کی سزا دے دی مگر اس ٹوانہ کے پیر نے کہا کہ اللہ مالک ہے وہ تمہیں بہت کچھ دے گا اور ایسا ہوا جو ایک الگ کہانی ہے۔
Load Next Story