وجودِ زن محض رنگ نہیں خوش بو بھی ہے

تاریخ کو ذرا چھانیے، آپ کو درجنوں ایجادات ایسی مل جائیں گی، جو خواتین نے کی ہیں۔

خواتین کی ایجادات، جنہوں نے مختلف شعبوں میں انقلاب بپاکیا۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں کہ مسٹر فورڈ کی موٹرکار نے امریکی معاشرت کو انقلاب سے دوچار کر دیا تھا۔

نیویارک جیسے بڑے بڑے شہروں کے باسی شہر کے دوسرے کنارے پر بسنے والے اپنے اقارب کی صورتیں مہینوں نہ دیکھ پاتے تھے، کوئی شادی یا مرگ ہوجاتی، تو بس خطوں کے ذریعے تہنیت یا تعزیت کے پیغامات بھیج دیا کرتے اور دل ہی دل میں کڑھتے رہتے کہ اے کاش وہ رسومات میں خود شامل ہو سکتے۔ گھوڑوں، بگھیوں پر چند میل کا سفر کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے اور جدید طرز کی سڑکیں نہ ہونے کے باعث مسافر کا انجر پنجر ہل جایا کرتا تھا۔

موٹر کار نے امریکی سماج کو جیسے گتھ دیا اور اس کے تحرک میں ایسی تیزی طراری آگئی، جس کا انسان کو پہلے تجربہ نہ تھا۔ موٹرکار کے چار پہیے جیسے انسانی تعلقات، جذبات، بشری نفسیات، رشتوں، قرابت داریوں؛ حتیٰ کہ محبتوں، نفرتوں کے انداز بھی بدلنے لگے۔ تجارتی عمل کوبھی پر لگ گئے۔ اندازہ کیجے، یہ صرف ایک ایجاد تھی۔

اکثر سمجھا جاتا ہے کہ تحقیق، سائنس اور ایجادات پر ہم مردوں کا اجارہ ہے۔ لے دے کر ریڈیئم کے حوالے سے مادام کیوری ہی کا نام یاد آتا ہے، ان کے بارے میں بعض لوگ شکوک شبہات کا اظہار کرتے ہیں اوریہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کارنامہ تو دراصل مادام کیوری کے شوہر نے سرانجام دیا تھا، جو بدقسمتی سے مادام سے پہلے چل بسے تھے۔ یعنی عورت اس باب کچھ نہیں کر سکتی۔ جناب ایسا نہیں ہے، اس میدان میں عورت کو جب جب موقع ملا ، اس نے حیرت ناک کام کیا۔ تاریخ کو ذرا چھانیے، آپ کو درجنوں ایجادات ایسی مل جائیں گی، جو خواتین نے کی ہیں۔ آیے! ان خواتین سے ملیے،

فریج۔۔۔۔۔ریفری جی ریٹر

اگر آپ مالی طور پر بالکل گئے گزرے نہیں ہیں، تو پھر یوں ہے کہ آپ فریج (ریفریجی ریٹر) کے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن آپ نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ یہ ریفری جی ریٹر آپ کے لیے بنایا کس نے ہے؟ تو جان لیجے کہ یہ ایک خاتون کا کارنامہ ہے۔ یہ خاتون امریکی ہیں، نام ہے ان کا فلورینس پرپارٹ۔ ان ہی نے سب سے پہلے برقی فریج ایجاد کیا تھا، جس نے بہت پذیرائی حاصل کی۔ فلورینس پرپارٹ نے فریج کے علاوہ، سڑکیں اور گلیاں صاف کرنے والی مشین بھی ایجاد کی تھی، جو امریکا میں بہت مقبول ہوئی تھی۔

زندگی بچاؤُ کشتی

بھلا سوچیے! آپ سمندر کے سفر پر ہیں اور عین گہرے پانیوں میں کسی افتاد سے دوچار ہو گئے، جہاز ڈوبنے کو ہے، اب کیا ہوگا؟ بھئی! اور کچھ نہیں تو ڈوبتے جہاز کا کپتان آپ کو کم از کم ایک اس طرح کی ایک کشتی ضرور فراہم کر دے گا، جس میں ہوا بھری ہوتی ہے، اس سے کم ازکم یہ ہوگا کہ آپ ڈوبیں گے نہیں، پانیوں پر بہتے چلے جائیں گے اور جلد یا بدیر کوئی ریسکیو ٹیم پہنچ کر آپ کو بچا لے گی۔ اب یہ بھی جان لیجے کہ یہ بادی کشتی آپ کے لیے کس نے بنائی۔ یہ ماریا بیسلی Maria Beasely) ( تھیں۔ ماریہ ایک روز ساحلِ سمندر پر آئیں تو ان کے دل میں یہ سوچ کر بڑا ہول اٹھا کہ سمندر میں بے یا و مددگار ڈوبنا کتنا اذیت ناک ہوسکتا ہے۔ اس پر انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ اس ناگہانی کا کیا اوپائے ہو سکتا ہے۔ یہ سوچتے سوچتے انہیں اس طرح کی ''جیون بچاؤ'' کشتی بنانے کی سوجھ پڑی۔ اس خاتون نے بیرل بنانے والی ایک مشین بھی ایجاد کی تھی، جس سے انہوں نے خوب ڈالر کمائے۔

آئیس کریم جماؤ مشین

کون ہے، جس نے آئیس کریم نہ کھائی ہو گی، شاید کوئی نہیں۔ آئیس کریم بنانے کے نسخے تو کئی اقسام کے ہو سکتے ہیں اور یہ کوئی بڑی بات بھی نہیں، مشکل کام ہے اسے جمانا، یعنی اسے برفانا۔ ایسا نہیں کہ 1843 سے پہلے لوگ آئیس کریم سے آشنا نہیں تھے، تھے تو لیکن اس کی بڑے پیمانے پر تیاری میں مشکلات حائل تھیں۔ نینسی جانسن نامی خاتون، وہ پہلی شخص ہیں، جنہوں نے آئیس کریم فریزر ایجاد کیا اور اسے اپنے نام پر پیٹنٹ کرایا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں بجلی سے چلنے والی آئیس کریم ساز مشینیں بھی ایجاد ہو گئیں لیکن نینسی کی مشین پر آج بھی زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔

ٹیلی فون کو طلسم بنا دینے والی خاتون

یقیناً ٹیلی فون الیگزینڈر گراہم بیل (Alexander Graham Bell) نامی انگریز امریکی نے ایجاد کیا تھا لیکن اس سیدھے سادہ ٹیلی فون کو نئی نئی صورتیں دینے اور اس کو ایک طلسماتی مشین بنانے کا سہرا ڈاکٹر شرلے جیکسن کے سر جاتا ہے۔ شرلے جیکسن تھیوریٹیکل فزی سسٹ تھیں اور امریکا کی بیل (Bell) لیبارٹریز میں کام کرتی تھیں۔ ان کی تحقیق کے نتیجے میں آگے چل کر پورٹیبل فیکس مشین بنائی گئی، ٹچ ٹون فون بنے، شمسی سیل (Cell) بنایا گیا، فائی بر آپٹک کیبل بنائی گئی، کالر آئی ڈی اور کال ویٹنگ کے پیچھے بھی اسی خاتون کی ٹیکنالوجی کام کر رہی ہے۔ اندازہ کیجے، اس خاتون نے کتنا بڑا انقلابی کام کیا ہے۔


شہرہ آفاق حسینہ کی ایجاد

بہت ممکن ہے کہ آپ نے بہت مقبولِ عالم فلم ''سمسن اینڈ ڈیلائلہ'' دیکھی ہو، یہ حسین خاتون اس میں ڈیلائلہ بنی تھی۔ اس کا نام ہیڈی لمر (Hedy Lamarr) ہے۔ یہ دارجلنگ (بھارت) میں پیدا ہوئی، فلمی دنیا پر 1930 سے 1958تک اس کا راج رہا، اس نے اپنے مشرقی حسن کی بدولت ایک زمانے کو دیوانہ کیے رکھا لیکن ۔۔۔۔۔ یہ بات آپ کے

لیے حیرت کا باعث ہوگی کہ یہ بہت بڑی موجد بھی ہے۔ اس خاتون نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران ریڈیو کنٹرولنگ تارپیڈو کے لیے ایک بہت ہی پے چیدہ نظام تیار کیا تھا۔ اس کے اس پراسرار نظام کو فریکوئنسی ہاپنگ (Frequency Hopping) ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ہی ٹیکنالوجی آگے چل کر وائی فائی (Wi-Fi) سے جی پی ایس (GPS) تک کی بنیاد بنی۔

بلٹ پروف جیکٹ

بدگمانی کہیے یا خوش گمانی؛ ہم مردوں کا خیال ہے کہ عورت بڑی نازک ہوتی ہے، خون بہتا دیکھ کر غش کھا جاتی ہے، فائر کی آواز سن لے، تو بے ہوش ہوسکتی ہے، چوہے اور تل چٹے وغیرہ سے اس کے حواس فنا ہوسکتے ہیں، درست لیکن۔۔۔ جناب! صورتِ احوال ایسی گئی گزری بھی نہیں۔ نئی عورت نے وہ وہ کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ بعض جگہ تو مرد بھی کنی کترا جائیں۔ وہ ایجادات میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی، یہ الگ بات کہ اس کا ذکر اس طرح سے نہیں ہوتا جیسا کہ کسی مرد موجد کا۔ بلٹ پروف واسکٹ تو دیکھی ہوگی آپ نے۔ اس کی موجد سٹی فینی کوولیک(Stephanie Kwolek) ہیں۔ یہ خاتون دراصل اس چکر میں تھیں کہ موٹر کاروں کے ٹائروں کے لیے کوئی ہلکا پھلکا سا مضبوط فائی بر تیارکیا جائے۔ وہ اسی تگ و دو میں مختلف تجربات کر رہی تھیں اور اسی دوران میں انہیں محسوس ہوا کہ وہ ایک ایسا سبک فائی بر بنا بیٹھی ہیں، جو فولاد سے بھی پانچ گنا زیادہ مضبوط ہے۔ ان کی کیولر ویسٹ (Kevlar bulletproof vest) پر گولی بھی اثر نہیں کرتی۔ سٹی فینی کوولیک، ڈیو پونٹ (DuPont) میں بطور کیمسٹ کام کرتی تھیں۔ ڈیوپونٹ ایک امریکی کمپنی ہے، جو میٹیریئل، کیمسٹری، بایولاجیکل، انجنیئرنگ وغیرہ معاملات سے علاقہ رکھتی ہے۔ سٹی فینی کوولیک نے اپنے ایجاد کردہ فائی بر 1966 میں اپنے نام پر پیٹنٹ کروایا تھا۔

سیلفی کریز

آج کل آپ ہونٹ گول گول کر کے سلفیاں بنانے کے دیوانہ پن میں مبتلا ہیں، جانتی بھی ہیں کہ آپ کے کیمرے کو اس مقام پر پہنچانے کا سہرا کس کے سر ہے۔ نہیں معلوم نا۔۔۔۔۔۔ یہ سہرا کیتھرین بلوجٹ (Katharine Blodgett) کے سر جاتا ہے۔ یہ محترمہ امریکا کی مشہورِ زمانہ کارخانے جنرل الیکٹرک کی پہلی خاتوں سائنس دان تھیں۔ انہوں نے 1935 میں مہین یک سالمی پرت (Monomolicular coating) کو شیشے یا دھات پر منتقل کرنے کا طریقہ دریافت کیا تھا۔ ان کی اس دریافت نے کیمروں، مائی کروسکوپ، نظر کے چشمے اور دیگر متعدد شعبوں میں انقلاب برپا کردیا۔

آبِ جو

آبِ جو کو بیئر (Beer) بھی کہا جاتا ہے۔ مغربی دنیا میں اس کا بے طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے وہاں خالصتاً ایک مردانہ مشروب قرار دیا جاتا ہے کیوںکہ عورتیں اسے کم کم ہی منھ لگاتی ہیں، اس لیے کہ یہ جسم کو فربہ کر کے بھدا بناتا ہے لیکن اسے ایجاد ایک عورت ہی نے کیا ہے۔ مغرب میں عجیب و غریب چیزوں کے بھی مؤرخین ہوتے ہیں، اس طرح جین پیٹن (Jane Peton) بیئر کی تاریخ دان ہیں۔ انہوں نے اس مشروب پر تحقیق کی تو یہ مشرقی نکلا۔ جین پیٹن کے مطابق اسے زمانۂ قدیم میں میسوپوٹامیہ (موجودہ عراق) کی خواتین نے ایجاد کیا تھا، وہ اس مشروب کو خود بھی پیا کرتی تھیں اور اسے دوسروں کو فروخت بھی کرتی تھیں۔ سمیری لوگ اس نشہ آور پانی کو خاص طور پر ''ننکاسی دیوی'' کا نام لے کر نوش کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ننکاسی دیوی مشروبات کشید کرنے کی ربہ تھی، اسے تیار کرنے والی خواتین بیئر سازی کا نسخہ اخفاء میں رکھنے کے لیے دعویٰ کرتی تھیں کہ انہیں اس کا طریقہ ننکاسی نے سکھایا ہے۔

کمپیوٹر سوفٹ ویئر(زبان کا کمپائلر)

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی کمپیوٹر کی کوڈنگ اور اس کی لینگوئج کے ماہر ہیں اور اس سوچ کے تحت کسی احساسِ برتری میں مبتلا ہیں تو زیادہ ''شوخے'' نہ ہوں اور ہوش ٹھکانے رکھیں کہ یہ جدیدترین کوڈنگ ووڈنگ ہم مردوں کی فراست کی نہیں ایک عورت کی ذہانت کی دین ہے۔ یہ عورت ایڈمرل گریس بریوسٹر مرے ہوپر ہیں۔ انہوں نے 1950 کے عشرے میں اس کوڈنگ زبان کا کمپائلر تیار کیا تھا، جو انگریزی کمانڈ کو کمپیوٹر کوڈ میں منتقل کرتا ہے۔ اس ایجاد کا مقصد یہ تھا کہ ایک پروگرامر زیادہ آسانی سے کم از کم اغلاط کے ساتھ کوڈ تخلیق کر سکے۔ گریس ہوپر 1944 میں ہارورڈ مارک ون کی اولیں پروگرامر اور امریکی بحریہ میں ریئر ایڈمرل تھیں۔ ان کا دوسرا کمپائلر Flow-Matic یونیویک ون اور ٹو (UNIVAC 1 and 11) پروگرام کرنے کے لیے تھا، یہ کمپیوٹر تجارتی مقصد کے لیے تھا۔ اسی خاتون نے کمپیوٹر کی عمومی کاروباری زبان (Common Business-Oriented Language) پر بھی نظرثانی کی تھی۔ اس کا مخفف نام COBOL ہے، یہ کمپیوٹر کی پہلی پروگرامنگ زبان ہے۔

ونڈ شیلڈ وائیپر

آپ گاڑی چلا رہے ہیں، شراٹے کی بارش ہے، دھند ہے، جانا دور اور ضرور ہے، آپ کی ونڈ شیلڈ بار بار دھندلی پڑ جاتی ہے، راستہ صاف دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔۔۔ کیا کریںگے آپ؟ کیا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گاڑی روک روک کر شیشہ صاف کریںگے۔ جی بالکل! اگر آپ 1903 سے پہلے ہوتے تو آپ کو ایسا ہی کرنا پڑتا کیوںکہ اس وقت ونڈشیلڈ کے وائیپر ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ یہ 1903 کا کوئی برفیلا دن یا شاید رات تھی، جب ایک ٹرام کے ڈرائیور کو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ٹرام روک کر اس کے شیشے پر سے برف صاف کرنا پڑ رہی تھی۔ مسافروں میں میری اینڈرسن بھی موجود تھیں۔ انہیں اس ڈرائیور پر ترس آ رہا تھا جسے یخ کر دینے والی سردی میں بار بار باہر نکلنا پڑ رہا تھا، پھر اسے مسافروں کی کوفت بھی دکھائی دے رہی تھی۔ کیا کیا جائے؟ یہ سوال ان کے ذہن سے چپک گیا اور اسی دوران ان کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ وہ گھر پہنچیں تو انہوں نے اس آئیڈیا پر کام شروع کر دیا اور جلد ہی ایک ابتدائی شکل کا ایک وائیپر بنانے میں کام یاب ہو گئیں۔ یہ ایجاد کچھ اس طرح تھی کہ انہوں نے ایک تکلے کے ساتھ ربر کا ایک بلیڈ لگایا اور اسے ایک ہینڈل کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہ ہنڈل ٹرام اور بعد میں موٹر کار کے اندر ڈرائیور کی نشست کے سامنے اس کی دسترس میں لگا دیا جاتا تھا، اب جب ڈرائیور کو ضرورت پڑتی تو وہ اس ہینڈل کو ہاتھ سے گھماتا اور ونڈ شیلڈ صاف ہو جاتی۔ یوں اس خاتون نے ڈرائیوروں کو ایک بڑی اذیت سے نجات دلوائی۔ میری اینڈرسن کی یہ ایجاد 1903 میں ان کے نام پر پیٹنٹ ہوئی۔
Load Next Story