روشنی کاوزیراعظم کوخط
خط پڑھنے کے بعدعجیب کیفیت ہوگئی۔ یہ ایک نابنیا بچی کانوحہ تھا۔
چنددن پہلے ایک خط سرکاری دفترکے پتہ پرملا۔ خط پڑھنے کے بعدعجیب کیفیت ہوگئی۔ یہ ایک نابنیا بچی کانوحہ تھا۔ محترم ڈاکٹرمنظرصاحب!
نہیں معلوم کہ خط کیوں لکھ رہی ہوں مگرسمجھ نہیں آرہاکہ اپنے اوراپنے جیسے انسانوں کی اندھیری زندگیوں کے متعلق کس سے بات کروں۔گمان ہے کہ شائدآپ اس خط کواپنے کالم میں چھاپ دیں۔
میرانام درشہوارہے۔عمربارہ برس ہے اور پیدائشی طور پرنابیناہوں۔ والدہ بتاتی ہے کہ پیداہوتے وقت کسی ایسی بیماری میں مبتلاتھی جسکی وجہ سے بینائی جاتی رہی ۔بارہ برس کے دورانیہ میں کچھ نہیں دیکھ پائی۔نہ چانداورنہ پھول،نہ مجھے اپنی والدہ کاچہرہ دیکھنا نصیب ہوا۔میرے نزدیک میرا خاندان محض چندآوازیں ہیں۔ والدلاہورکے ایک پرائمری اسکول میں اردوکے استادہیں۔ہماراگھرصرف تین مرلہ کا ہے۔اس میں والدین،چاربہنیں اوردوبھائی رہتے ہیں۔ گزراوقات جس تنگدستی سے ہوتی ہے،وہ ہم لوگ یاہمارا خدا ہی جانتا ہے۔خط لکھنے کامقصدقطعاًآپ سے مالی امداد مانگنا نہیں ہے۔
بلکہ صرف یہ بتاناہے کہ قدرت تومجھ سے روٹھ چکی ہے مگرعملاًاس سوسائٹی میں ہرطرف تضحیک اور بے اعتنائی کاسامناکرناپڑتاہے۔مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔لیکن ایک چبھن ضرورہے۔قدرت نے اگر نابینا پیدا ہی کرناتھاتودنیاکے کسی ایسے ملک میں پیداکرتا،جہاں میرے جیسے انسانوں کی کوئی قدرہے۔حکومتی سطح پران کے لیے ہرطرح کی سہولتیں موجودہوتیں۔معذورلوگوں کامذاق نہیں اُڑایاجاتا۔انھیں اندھا،لنگڑایامسکین نہیں کہا جاتا۔ میرا توکوئی قصورنہیں کہ آنکھوں کے بغیردنیاکے اس حصہ میں لائی گئی۔
جب گھرسے اسکول جانے کے لیے نکلتی ہوں کہ گلی کے بچے مذاق اُڑاتے ہیں۔چندبچے توکئی بارمجھے دھکابھی دے چکے ہیں۔ سفیدچھڑی پکڑنے پربھی آوازیںکستے ہیں۔اندھی آگئی،اندھی آگئی،باربارکہتے ہیں۔اسکول کے کمرے میں آکرزاروقطارروتی ہوں۔گھراس لیے نہیں روتی کہ اماں پریشان ہوتی ہے۔بہنیں بھی مجھے دلاسادیتے دیتے روپڑتی ہیں۔میں نے تواپنے محلے اورسوسائٹی میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی،پھرمجھے کیوں بدسلوکی کا سامناہے۔اسکول جانے کے لیے مجھے راستے میں ویگن اوربس بدلنی پڑتی ہے۔آدھے گھنٹے کایہ سفرمیرے لیے عذاب بن چکاہے۔
بس میں اکثرلوگ میراکوئی خیال نہیں کرتے۔ پیر اکثرمرداورخواتین کے بوٹوں،چپلوں اورسینڈلوں سے زخمی ہوجاتے ہیں۔انھیں پتہ ہی نہیں ہے کہ مجھے نظرنہیں آتا، دیکھ نہیں سکتی۔بس کازینہ چڑھتے ہوئے کئی مردمیرے پیروں پراپنے پیررکھ دیتے ہیں۔ایسے لگتاہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ ہم لوگ معذورہونے کی بدولت ٹھیک طرح بس میں سوارہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔اس کے علاوہ، متعدد بار لڑکے اورمردحضرات میرے بہت قریب آکرکھڑے ہوجاتے ہیں۔بس میں دھکے پڑنے سے مجھے بہت زیادہ شرم اورغصہ آتاہے۔مگرمیں کچھ نہیں کرسکتی۔کیایہ نہیں ہو سکتا ہے وزیراعظم حکم دیں اوربسوں اورویگنوں میں معذورلوگوں کے لیے ایک یادوسیٹیں مختص کردی جائیں۔ میرے اسکول کی پرنسپل نے بتایاہے کہ مغربی ممالک میں بسوں اورٹرینوں میں معذورلوگوں کے لیے سیٹیں مخصوص ہوتی ہیں اوران پرکوئی بیٹھ نہیں سکتا۔وزیراعظم صاحب،کیامیرے جیسے معذور انسانوں کے لیے پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکتا۔
ایک اوراہم بات بھی کرنی ہے۔مہینہ اورہفتہ بعد اپنی بہنوں کے ساتھ کتابیں پنسلیں خریدنے جاتی ہوں۔اس کے علاوہ کبھی گھرکی اشیاء بھی خریدنی ہوتی ہیں۔کسی بھی دکان، پلازے یامارکیٹ میں معذورلوگوں کے لیے معذوری کوپیش نظر رکھ کرکوئی راستہ نہیں بنایاجاتا۔انھیں سیڑھیوں یاراہداریوں سے گزرکرجاناپڑتاہے،جس میں ان کے لیے کوئی آسانی یا حفاظت نہیں۔کئی بارسیڑھیوں پر گر جاتی ہوں۔چوٹیں بھی آتی ہیںمگر گلہ یاشکایت نہیں کرتی۔ جناب وزیراعظم، میرے ابوبتاتے ہیں کہ مغربی ممالک میں ہرجگہ معذور لوگوں کی گزرگاہیں بالکل علیحدہ اورمحفوظ ہیں۔کسی پلازے اورمارکیٹ کانقشہ ہی منظور نہیں ہوتاجب تک میرے جیسے بدقسمت لوگوں کے لیے حفاظتی راستہ نہ بنایاجائے۔اگریورپ میں ایسا ہوسکتا ہے توہمارے ملک میں ایساکیوں نہیں ہوتا۔ ہم بھی تواسی طرح کے انسان ہیں جیسے دوسرے۔مگرپھربھی ہمیں کسی جگہ محفوظ راستے کی سہولت کیوں میسرنہیں۔جناب نوازشریف صاحب،آپ ملک کی تقدیرکے مالک ہیں۔ آپ باہرجاتے رہتے ہیں۔جوباتیں میرے ابونے بتائی ہیں،آپ نے تودیکھی ہونگی۔آپکے ایک حکم پرمیرے جیسے ہزاروں بچے اوربچیاں ٹھوکریں کھانے سے بچ جائینگے۔
ہمارے اسکول میں کیونکہ سارے طلباء اورطالبات نابینا ہیں لہذا،وہاں تومجھے دشواری محسوس نہیں ہوتی۔
ذاتی طورپھرکچھ نہیں چاہیے۔ابوبتاتے ہیں کہ محترم وزیراعظم صاحب،جب آپ سعودی عرب میں تھے،تو اکثر حرم پاک اورمسجدنبوی میں جاکردعاکرتے تھے کہ اگردوبارہ کبھی پاکستان کی خدمت کرنے کاموقعہ ملے توبے کسوں اور بے بسوں کے سرپرہاتھ رکھیں گے۔میں نے کبھی آپکی تصویرنہیں دیکھی۔صرف آپکی آوازکی پہچان ہے۔خط لکھنے کاحوصلہ صرف اسلیے کیاکہ آپ ٹی وی پرکہتے ہیں کہ اس ملک میں عوام کے لیے ہرسطح پرسہولتیں فراہم کرینگے۔
ایک نابینابچی درشہوار
جب سے خط ملاہے،سوچ رہاہوں کہ آخرکس طرح اس معذوربچی کے مسائل کووزیراعظم تک پہنچاؤں۔کالم میں یہ خط شامل کرکے اپنافرض کسی حدتک اداکرنے کی کوشش کی ہے۔مگر،ساتھ ہی ساتھ ہمارے ملک میں زمینی حقائق پرنظرڈالنابھی انتہائی اہم ہے۔پاکستان میں بیس سے پچیس لاکھ لوگ آنکھوں کی معذوری کاشکارہیں۔تلخ حقیقت یہ ہے ان میں سے پچھتر75%فیصدمرداورخواتین کی بینائی واپس لائی جاسکتی ہے۔کسی بھی سطح پرمناسب سہولتوں کے فقدان کی بدولت وہ لوگ بھی ساری عمرنابیناہی رہتے ہیں۔
پوری دنیامیں سنتیس کروڑانسان آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔قیامت یہ ہے کہ ان میں سے اَسی فیصد انسان ترقی پذیرممالک میں رہتے ہیں۔پاکستان بہرحال ایک ترقی پذیرملک ہے لہذایہاں اس بیماری کاحملہ بہت قوی ہے۔اگروالدین کوادراک ہوتومعمولی سی احتیاط اور علاج سے لاکھوں بچوں کومعاشرے کاعضوِمعطل بننے سے روکاجاسکتاہے۔دوسرا،پوری کوشش کی جاتی ہے کہ نابینا معذوربچوں کے متعلق باہرذکرہی نہ کیاجائے۔ڈاکٹرکے پاس لیجاناتوبہت دورکی بات،اکثراوقات جسمانی معذور بچے اوربچیوں کوباہرنکلنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ معاشرہ اسی ذہنی الجھاؤہی میں ہے کہ ان بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے۔اس طرزِعمل کوصرف اورصرف بھرپور معلومات اورتعلیم سے ہی بدلاجاسکتاہے۔اس کے لیے سرکاری اورغیرسرکاری سطح پرمہم چلانے کی ضرورت ہے کہ ادراک اورشعورکی سطح بلندہو۔لوگوں کوپتہ چلے کہ اکثر نابینا بچے اوربچیاں،مناسب علاج سے بہت بہترہوسکتے ہیں۔
برائل سسٹم،میٹرک اورانٹرمیڈیٹ تک تونابینالوگوں کوپڑھنے میں مددکرتاہے مگرجدیدترین مضامین کی کتابیں برائل سسٹم کے مطابق تبدیل نہیں کی گئیں۔عملی طور پر نابینا انسانوں کواعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے وہ مواقع میسرنہیں جو عام بچوں کوہوتے ہیں۔اس کے باوجودنابینالوگوں نے کمال تعلیمی کارنامے سر انجام دیے ہیں۔عاقل سجاد نابینا ہے۔ ہارڈورڈیونیورسٹی میں فزکس میں پی ایچ ڈی کررہا ہے۔اس کے مطابق جدیدٹیکنالوجی نے اس کی بھرپورمعاونت کی ہے۔ ثاقب شیخ بھی دیکھ نہیں سکتامگرمائیکروسوفٹ کمپنی میں انجینئر ہے۔
نابینالوگوں کی سہولت کے لیے اسمارٹ فون میں ایک ایپ بنائی ہے جس سے اردگردکے لوگوں کے چہرے پہچانے جاسکتے ہیں۔مغرب نے نابینالوگوں کے لیے جدیدٹیکنالوجی کے ذریعے مثبت انقلاب برپا کردیا ہے۔ اسمارٹ فون کے ذریعے صرف بولنے سے ہرچیزکاحل تلاش کرلیا گیا ہے۔ اسکرین ریڈرکے ذریعے اب نابینا افرادہرطریقے سے پڑھ سکتے ہیں۔کمپیوٹرکواستعمال کرسکتے ہیں اورزندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔اسی طرح اسمارٹ عینکیں بنائی گئی ہیں جو بذات خودکمپیوٹرسے منسلک ہوتی ہیں اورہرطریقے سے نابینا انسان کی مددکرتی رہتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کونابیناافرادکے لیے استعمال کرنے کارجحان بہت کم ہے۔ابھی تک معاشرہ اس ذہنی بلوغت کاحامل ہے جو نابینالوگوں کوبغیرکسی تفریق اور عصبیت کے،ترقی کے جائز مواقع فراہم کرے۔ابھی تک جسمانی معذوری کوچھپانے کے رجحان کوختم کرنے کاکوئی طریقہ سامنے نہیں آیا۔ابھی تک نابینابچے اوربچیوں کی صلاحیتوں کومثبت طریقے سے استعمال کرنے کاکوئی وتیرہ سامنے نہیں آیا۔
درشہوارکامحترم وزیراعظم کے نام خط صرف ایک کوشش ہے کہ نوازشریف صاحب ان بے کسوں کی دل جوئی کرنے کا کوئی اسباب فراہم کریں۔یقین ہے کہ درشہوارکاخط کوئی نہ کوئی مقتدرانسان ضرورپڑھے گا۔اس بچی یعنی درشہوارکوروشنی کانام دیتاہوں۔روشنی کااپنے غم اور دکھ کے قلم سے لکھے گئے حروف ضروراور ضرور اثر کرینگے!مجھے یقین ہے۔
نہیں معلوم کہ خط کیوں لکھ رہی ہوں مگرسمجھ نہیں آرہاکہ اپنے اوراپنے جیسے انسانوں کی اندھیری زندگیوں کے متعلق کس سے بات کروں۔گمان ہے کہ شائدآپ اس خط کواپنے کالم میں چھاپ دیں۔
میرانام درشہوارہے۔عمربارہ برس ہے اور پیدائشی طور پرنابیناہوں۔ والدہ بتاتی ہے کہ پیداہوتے وقت کسی ایسی بیماری میں مبتلاتھی جسکی وجہ سے بینائی جاتی رہی ۔بارہ برس کے دورانیہ میں کچھ نہیں دیکھ پائی۔نہ چانداورنہ پھول،نہ مجھے اپنی والدہ کاچہرہ دیکھنا نصیب ہوا۔میرے نزدیک میرا خاندان محض چندآوازیں ہیں۔ والدلاہورکے ایک پرائمری اسکول میں اردوکے استادہیں۔ہماراگھرصرف تین مرلہ کا ہے۔اس میں والدین،چاربہنیں اوردوبھائی رہتے ہیں۔ گزراوقات جس تنگدستی سے ہوتی ہے،وہ ہم لوگ یاہمارا خدا ہی جانتا ہے۔خط لکھنے کامقصدقطعاًآپ سے مالی امداد مانگنا نہیں ہے۔
بلکہ صرف یہ بتاناہے کہ قدرت تومجھ سے روٹھ چکی ہے مگرعملاًاس سوسائٹی میں ہرطرف تضحیک اور بے اعتنائی کاسامناکرناپڑتاہے۔مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔لیکن ایک چبھن ضرورہے۔قدرت نے اگر نابینا پیدا ہی کرناتھاتودنیاکے کسی ایسے ملک میں پیداکرتا،جہاں میرے جیسے انسانوں کی کوئی قدرہے۔حکومتی سطح پران کے لیے ہرطرح کی سہولتیں موجودہوتیں۔معذورلوگوں کامذاق نہیں اُڑایاجاتا۔انھیں اندھا،لنگڑایامسکین نہیں کہا جاتا۔ میرا توکوئی قصورنہیں کہ آنکھوں کے بغیردنیاکے اس حصہ میں لائی گئی۔
جب گھرسے اسکول جانے کے لیے نکلتی ہوں کہ گلی کے بچے مذاق اُڑاتے ہیں۔چندبچے توکئی بارمجھے دھکابھی دے چکے ہیں۔ سفیدچھڑی پکڑنے پربھی آوازیںکستے ہیں۔اندھی آگئی،اندھی آگئی،باربارکہتے ہیں۔اسکول کے کمرے میں آکرزاروقطارروتی ہوں۔گھراس لیے نہیں روتی کہ اماں پریشان ہوتی ہے۔بہنیں بھی مجھے دلاسادیتے دیتے روپڑتی ہیں۔میں نے تواپنے محلے اورسوسائٹی میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی،پھرمجھے کیوں بدسلوکی کا سامناہے۔اسکول جانے کے لیے مجھے راستے میں ویگن اوربس بدلنی پڑتی ہے۔آدھے گھنٹے کایہ سفرمیرے لیے عذاب بن چکاہے۔
بس میں اکثرلوگ میراکوئی خیال نہیں کرتے۔ پیر اکثرمرداورخواتین کے بوٹوں،چپلوں اورسینڈلوں سے زخمی ہوجاتے ہیں۔انھیں پتہ ہی نہیں ہے کہ مجھے نظرنہیں آتا، دیکھ نہیں سکتی۔بس کازینہ چڑھتے ہوئے کئی مردمیرے پیروں پراپنے پیررکھ دیتے ہیں۔ایسے لگتاہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ ہم لوگ معذورہونے کی بدولت ٹھیک طرح بس میں سوارہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔اس کے علاوہ، متعدد بار لڑکے اورمردحضرات میرے بہت قریب آکرکھڑے ہوجاتے ہیں۔بس میں دھکے پڑنے سے مجھے بہت زیادہ شرم اورغصہ آتاہے۔مگرمیں کچھ نہیں کرسکتی۔کیایہ نہیں ہو سکتا ہے وزیراعظم حکم دیں اوربسوں اورویگنوں میں معذورلوگوں کے لیے ایک یادوسیٹیں مختص کردی جائیں۔ میرے اسکول کی پرنسپل نے بتایاہے کہ مغربی ممالک میں بسوں اورٹرینوں میں معذورلوگوں کے لیے سیٹیں مخصوص ہوتی ہیں اوران پرکوئی بیٹھ نہیں سکتا۔وزیراعظم صاحب،کیامیرے جیسے معذور انسانوں کے لیے پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکتا۔
ایک اوراہم بات بھی کرنی ہے۔مہینہ اورہفتہ بعد اپنی بہنوں کے ساتھ کتابیں پنسلیں خریدنے جاتی ہوں۔اس کے علاوہ کبھی گھرکی اشیاء بھی خریدنی ہوتی ہیں۔کسی بھی دکان، پلازے یامارکیٹ میں معذورلوگوں کے لیے معذوری کوپیش نظر رکھ کرکوئی راستہ نہیں بنایاجاتا۔انھیں سیڑھیوں یاراہداریوں سے گزرکرجاناپڑتاہے،جس میں ان کے لیے کوئی آسانی یا حفاظت نہیں۔کئی بارسیڑھیوں پر گر جاتی ہوں۔چوٹیں بھی آتی ہیںمگر گلہ یاشکایت نہیں کرتی۔ جناب وزیراعظم، میرے ابوبتاتے ہیں کہ مغربی ممالک میں ہرجگہ معذور لوگوں کی گزرگاہیں بالکل علیحدہ اورمحفوظ ہیں۔کسی پلازے اورمارکیٹ کانقشہ ہی منظور نہیں ہوتاجب تک میرے جیسے بدقسمت لوگوں کے لیے حفاظتی راستہ نہ بنایاجائے۔اگریورپ میں ایسا ہوسکتا ہے توہمارے ملک میں ایساکیوں نہیں ہوتا۔ ہم بھی تواسی طرح کے انسان ہیں جیسے دوسرے۔مگرپھربھی ہمیں کسی جگہ محفوظ راستے کی سہولت کیوں میسرنہیں۔جناب نوازشریف صاحب،آپ ملک کی تقدیرکے مالک ہیں۔ آپ باہرجاتے رہتے ہیں۔جوباتیں میرے ابونے بتائی ہیں،آپ نے تودیکھی ہونگی۔آپکے ایک حکم پرمیرے جیسے ہزاروں بچے اوربچیاں ٹھوکریں کھانے سے بچ جائینگے۔
ہمارے اسکول میں کیونکہ سارے طلباء اورطالبات نابینا ہیں لہذا،وہاں تومجھے دشواری محسوس نہیں ہوتی۔
ذاتی طورپھرکچھ نہیں چاہیے۔ابوبتاتے ہیں کہ محترم وزیراعظم صاحب،جب آپ سعودی عرب میں تھے،تو اکثر حرم پاک اورمسجدنبوی میں جاکردعاکرتے تھے کہ اگردوبارہ کبھی پاکستان کی خدمت کرنے کاموقعہ ملے توبے کسوں اور بے بسوں کے سرپرہاتھ رکھیں گے۔میں نے کبھی آپکی تصویرنہیں دیکھی۔صرف آپکی آوازکی پہچان ہے۔خط لکھنے کاحوصلہ صرف اسلیے کیاکہ آپ ٹی وی پرکہتے ہیں کہ اس ملک میں عوام کے لیے ہرسطح پرسہولتیں فراہم کرینگے۔
ایک نابینابچی درشہوار
جب سے خط ملاہے،سوچ رہاہوں کہ آخرکس طرح اس معذوربچی کے مسائل کووزیراعظم تک پہنچاؤں۔کالم میں یہ خط شامل کرکے اپنافرض کسی حدتک اداکرنے کی کوشش کی ہے۔مگر،ساتھ ہی ساتھ ہمارے ملک میں زمینی حقائق پرنظرڈالنابھی انتہائی اہم ہے۔پاکستان میں بیس سے پچیس لاکھ لوگ آنکھوں کی معذوری کاشکارہیں۔تلخ حقیقت یہ ہے ان میں سے پچھتر75%فیصدمرداورخواتین کی بینائی واپس لائی جاسکتی ہے۔کسی بھی سطح پرمناسب سہولتوں کے فقدان کی بدولت وہ لوگ بھی ساری عمرنابیناہی رہتے ہیں۔
پوری دنیامیں سنتیس کروڑانسان آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔قیامت یہ ہے کہ ان میں سے اَسی فیصد انسان ترقی پذیرممالک میں رہتے ہیں۔پاکستان بہرحال ایک ترقی پذیرملک ہے لہذایہاں اس بیماری کاحملہ بہت قوی ہے۔اگروالدین کوادراک ہوتومعمولی سی احتیاط اور علاج سے لاکھوں بچوں کومعاشرے کاعضوِمعطل بننے سے روکاجاسکتاہے۔دوسرا،پوری کوشش کی جاتی ہے کہ نابینا معذوربچوں کے متعلق باہرذکرہی نہ کیاجائے۔ڈاکٹرکے پاس لیجاناتوبہت دورکی بات،اکثراوقات جسمانی معذور بچے اوربچیوں کوباہرنکلنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ معاشرہ اسی ذہنی الجھاؤہی میں ہے کہ ان بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے۔اس طرزِعمل کوصرف اورصرف بھرپور معلومات اورتعلیم سے ہی بدلاجاسکتاہے۔اس کے لیے سرکاری اورغیرسرکاری سطح پرمہم چلانے کی ضرورت ہے کہ ادراک اورشعورکی سطح بلندہو۔لوگوں کوپتہ چلے کہ اکثر نابینا بچے اوربچیاں،مناسب علاج سے بہت بہترہوسکتے ہیں۔
برائل سسٹم،میٹرک اورانٹرمیڈیٹ تک تونابینالوگوں کوپڑھنے میں مددکرتاہے مگرجدیدترین مضامین کی کتابیں برائل سسٹم کے مطابق تبدیل نہیں کی گئیں۔عملی طور پر نابینا انسانوں کواعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے وہ مواقع میسرنہیں جو عام بچوں کوہوتے ہیں۔اس کے باوجودنابینالوگوں نے کمال تعلیمی کارنامے سر انجام دیے ہیں۔عاقل سجاد نابینا ہے۔ ہارڈورڈیونیورسٹی میں فزکس میں پی ایچ ڈی کررہا ہے۔اس کے مطابق جدیدٹیکنالوجی نے اس کی بھرپورمعاونت کی ہے۔ ثاقب شیخ بھی دیکھ نہیں سکتامگرمائیکروسوفٹ کمپنی میں انجینئر ہے۔
نابینالوگوں کی سہولت کے لیے اسمارٹ فون میں ایک ایپ بنائی ہے جس سے اردگردکے لوگوں کے چہرے پہچانے جاسکتے ہیں۔مغرب نے نابینالوگوں کے لیے جدیدٹیکنالوجی کے ذریعے مثبت انقلاب برپا کردیا ہے۔ اسمارٹ فون کے ذریعے صرف بولنے سے ہرچیزکاحل تلاش کرلیا گیا ہے۔ اسکرین ریڈرکے ذریعے اب نابینا افرادہرطریقے سے پڑھ سکتے ہیں۔کمپیوٹرکواستعمال کرسکتے ہیں اورزندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔اسی طرح اسمارٹ عینکیں بنائی گئی ہیں جو بذات خودکمپیوٹرسے منسلک ہوتی ہیں اورہرطریقے سے نابینا انسان کی مددکرتی رہتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کونابیناافرادکے لیے استعمال کرنے کارجحان بہت کم ہے۔ابھی تک معاشرہ اس ذہنی بلوغت کاحامل ہے جو نابینالوگوں کوبغیرکسی تفریق اور عصبیت کے،ترقی کے جائز مواقع فراہم کرے۔ابھی تک جسمانی معذوری کوچھپانے کے رجحان کوختم کرنے کاکوئی طریقہ سامنے نہیں آیا۔ابھی تک نابینابچے اوربچیوں کی صلاحیتوں کومثبت طریقے سے استعمال کرنے کاکوئی وتیرہ سامنے نہیں آیا۔
درشہوارکامحترم وزیراعظم کے نام خط صرف ایک کوشش ہے کہ نوازشریف صاحب ان بے کسوں کی دل جوئی کرنے کا کوئی اسباب فراہم کریں۔یقین ہے کہ درشہوارکاخط کوئی نہ کوئی مقتدرانسان ضرورپڑھے گا۔اس بچی یعنی درشہوارکوروشنی کانام دیتاہوں۔روشنی کااپنے غم اور دکھ کے قلم سے لکھے گئے حروف ضروراور ضرور اثر کرینگے!مجھے یقین ہے۔