گاؤ ماتا کے نام پر
جب تک برصغیر پر سلاطین اور راجے مہاراجوں کا تسلط رہا ان کی یہ ضرورت تھی کہ عوام جاہل اور تقسیم در تقسیم کا شکار رہیں
PESHAWAR:
ہندوستان کے صوبے ہریانہ کے ایک گاؤں میوات میں انتہاپسند ہندوؤں نے ایک مسلمان خاندان کے گھر پر حملہ کر کے دو خواتین کی آبرو ریزی کی، اور ان کے دو عزیزوں کو جان سے مار ڈالا۔ اس خاندان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے گائے کا گوشت استعمال کیا ہے۔ یہ الزام تھا کوئی تحقیق شدہ حقیقت نہ تھی۔ اس خاندان کی ایک خاتون نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں اس المیے کا انکشاف کیا۔
ہندوستان میں گائے کو دیوتاؤں جیسا احترام حاصل ہے اور ہندوستان میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کا گوشت کھانا قانوناً ممنوع ہے۔ اگرچہ اس روایت پر ہر حکومت کے دوران عمل ہوتا رہا ہے لیکن بی جے پی کی حکومت کے دوران اس قانون کا سہارا لے کر اب تک بہت سارے مسلمانوں کو قتل کیا جاتا رہا۔ ہریانہ میں ہونے والے دو مسلمانوں کے قتل اور دو خواتین کی آبرو ریزی اسی وحشیانہ سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے خلاف ہر انسان دوست کو آواز اٹھانا چاہیے۔
ہندو مذہبی انتہا پسندی ہو یا مسلمان مذہبی انتہا پسندی، اس کا کسی دین، کسی ملک، کسی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل کچھ جاہلوں کا پیدا کردہ ایسا نظریہ ہے جو عصبیتوں، نفرتوں پر استوار ہے۔ چونکہ برصغیر کے عوام تاریخی طور پر ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں اس لیے وہ مذہبی انتہاپسندوں کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ ہندو مذہب دیوی دیوتاؤں کا مذہب ہے اور گائے کو ہندو مذہب میں ماتا کہا جاتا ہے، لہٰذا عام آدمی بھی نفسیاتی طور پر گاؤ کشی کو مذہب کی خلاف ورزی سمجھ کر مشتعل ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ کسی محقق، کسی مفکر، کسی دانشور نے اس قسم کے احمقانہ اعتقادات کے وجود میں آنے کے اسباب اور محرکات کو جاننے اور اس کا منطقی حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس قسم کی بربریت کی مذمت کر کے اپنی نظریاتی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔
مذاہب کی تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ مذاہب کے منفی پہلوؤں کی مذمت تو ہر اعتدال پسند انسان کرتا ہے لیکن یہ سمجھنے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ ہر مذہب کا اعتقادی ڈھانچہ اپنے دور کے علم اور معلومات پر استوار ہے، جب تک علم اور معلومات پر جمود طاری رہا مذاہب کی اہمیت منطقی رہی لیکن بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے آج تک سائنس ٹیکنالوجی، زمین، نظام شمسی آسمان اور کائنات کے حوالے سے جو تحقیقات سامنے آئی ہیں ان سے سارے پسماندہ تعصبات اور نفرتوں پر مبنی اعتقادات نہ صرف بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ کرۂ ارض پر بسنے والے 7 ارب انسانوں میں تعصب اور نفرتوں کی آبیاری کا وسیلہ بھی بن گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس انسان دشمن اعتقادی نظام کے پس منظر اور محرکات کو تلاش کر کے اس کا سدباب عقلی بنیادوں پر کرنے کے بجائے یا تو اسے قانون کے ذریعے روکنے کی احمقانہ کوشش کی جاتی ہے یا اس کے ردعمل میں وقوع پذیر ہونے والے المیوں پر تاسف کا اظہار کیا جاتا ہے۔
اکیسویں صدی سائنس ٹیکنالوجی، تحقیق اور حیرت انگیز انکشافات کی صدی ہے۔ ہر مذہب کا مرکز آسمان رہا ہے اور انسان مذہبی تفریق کے باوجود آسمان کو ہی اپنے اعتقاد کا مرکز بنائے رکھا۔ لیکن اب جب کہ سائنس اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آسمان نام کی کوئی چیز سرے سے موجود نہیں اور جو نیلا امبر نظر آتا ہے جسے ہم آسمان کہتے ہیں وہ حد نظر کے علاوہ کچھ نہیں تو کرہ ارض پر موجود انسانوں خاص طور پر مذہبی اکابرین اہل علم اہل دانش کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ جدید علوم کی روشنی میں مذاہب کی ایک ایسی نئی تفہیم کریں جو انسانوں کے درمیان تعصب نفرتوں کے بجائے محبت بھائی چارہ کے کلچر کو متعارف کرا سکے اور کسی کے اعتقادی نظام کی توہین کا سبب بھی نہ بنے۔ یہ بہت بڑا کام بہت بڑی ذمے داری ہے جسے بلاتفریق مذہب و ملت دنیا کے تمام مدبرین کو پورا کرنا ہے۔
برصغیر ایک بہت بڑا علاقہ ہے جہاں ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام رہتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ علاقہ شدید قسم کی ذہنی پسماندگی کا شکار ہے۔ جب تک برصغیر پر سلاطین اور راجے مہاراجوں کا تسلط رہا ان کی یہ ضرورت تھی کہ عوام جاہل اور تقسیم در تقسیم کا شکار رہیں۔
لیکن ہندوستان پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک اب آزاد ہیں اور ان ملکوں میں نام نہاد ہی سہی جمہوریت موجود ہے اور جمہوری حکمرانوں کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کو قانون اور آئین سے روکنے کے بجائے علم اور سیاسی اور سماجی شعور سے روکنے کی کوشش کریں۔ مذہبی انتہا پسند بھارت میں بھی موجود ہیں لیکن پاکستان جس اندھی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ اس ملک میں موجود قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ پاکستان پر دہشتگردوں کے مسکن ہونے کا الزام تو لگاتا ہے لیکن پاکستان دہشتگردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا گڑھ کیوں بنا ہوا ہے اس پر غور کرنے اور پاکستان کو مذہبی انتہا پسندوں کے چنگل سے نکالنے کے لیے نہ مثبت اور منطقی تجاویز پیش کرتا ہے نہ اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کا کوئی جامع پروگرام پیش کرتا ہے۔
ہریانہ ہو یا شمالی وزیرستان یہ سب علاقے اس وقت تک مذہبی انتہا پسندوں سے مکمل نجات حاصل نہیں کر سکیں گے جب تک دونوں ملکوں کے بااختیار طبقات مذہبی انتہا پسندوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرپرستی ختم نہ کر دیں۔ بدقسمتی سے بھارت پر اس وقت ایک ایسی جماعت برسر اقتدار ہے جس پر مذہبی انتہا پسندی کی چھاپ لگی ہوئی ہے اور جس کے وزیراعظم پر گجرات کے قتل عام کا الزام ہے۔ یہ کس قدر حیرت اور شرم کی بات ہے کہ بھارت کے وزیراعظم کا تعلق غریب طبقے سے ہے لیکن وہ مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی کر کے برصغیر کے غریب طبقات کے درمیان نفرتیں بڑھانے کا کام انجام دے رہا ہے۔
ہندوستان کے صوبے ہریانہ کے ایک گاؤں میوات میں انتہاپسند ہندوؤں نے ایک مسلمان خاندان کے گھر پر حملہ کر کے دو خواتین کی آبرو ریزی کی، اور ان کے دو عزیزوں کو جان سے مار ڈالا۔ اس خاندان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے گائے کا گوشت استعمال کیا ہے۔ یہ الزام تھا کوئی تحقیق شدہ حقیقت نہ تھی۔ اس خاندان کی ایک خاتون نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں اس المیے کا انکشاف کیا۔
ہندوستان میں گائے کو دیوتاؤں جیسا احترام حاصل ہے اور ہندوستان میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کا گوشت کھانا قانوناً ممنوع ہے۔ اگرچہ اس روایت پر ہر حکومت کے دوران عمل ہوتا رہا ہے لیکن بی جے پی کی حکومت کے دوران اس قانون کا سہارا لے کر اب تک بہت سارے مسلمانوں کو قتل کیا جاتا رہا۔ ہریانہ میں ہونے والے دو مسلمانوں کے قتل اور دو خواتین کی آبرو ریزی اسی وحشیانہ سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے خلاف ہر انسان دوست کو آواز اٹھانا چاہیے۔
ہندو مذہبی انتہا پسندی ہو یا مسلمان مذہبی انتہا پسندی، اس کا کسی دین، کسی ملک، کسی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل کچھ جاہلوں کا پیدا کردہ ایسا نظریہ ہے جو عصبیتوں، نفرتوں پر استوار ہے۔ چونکہ برصغیر کے عوام تاریخی طور پر ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں اس لیے وہ مذہبی انتہاپسندوں کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ ہندو مذہب دیوی دیوتاؤں کا مذہب ہے اور گائے کو ہندو مذہب میں ماتا کہا جاتا ہے، لہٰذا عام آدمی بھی نفسیاتی طور پر گاؤ کشی کو مذہب کی خلاف ورزی سمجھ کر مشتعل ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ کسی محقق، کسی مفکر، کسی دانشور نے اس قسم کے احمقانہ اعتقادات کے وجود میں آنے کے اسباب اور محرکات کو جاننے اور اس کا منطقی حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس قسم کی بربریت کی مذمت کر کے اپنی نظریاتی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔
مذاہب کی تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ مذاہب کے منفی پہلوؤں کی مذمت تو ہر اعتدال پسند انسان کرتا ہے لیکن یہ سمجھنے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ ہر مذہب کا اعتقادی ڈھانچہ اپنے دور کے علم اور معلومات پر استوار ہے، جب تک علم اور معلومات پر جمود طاری رہا مذاہب کی اہمیت منطقی رہی لیکن بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے آج تک سائنس ٹیکنالوجی، زمین، نظام شمسی آسمان اور کائنات کے حوالے سے جو تحقیقات سامنے آئی ہیں ان سے سارے پسماندہ تعصبات اور نفرتوں پر مبنی اعتقادات نہ صرف بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ کرۂ ارض پر بسنے والے 7 ارب انسانوں میں تعصب اور نفرتوں کی آبیاری کا وسیلہ بھی بن گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس انسان دشمن اعتقادی نظام کے پس منظر اور محرکات کو تلاش کر کے اس کا سدباب عقلی بنیادوں پر کرنے کے بجائے یا تو اسے قانون کے ذریعے روکنے کی احمقانہ کوشش کی جاتی ہے یا اس کے ردعمل میں وقوع پذیر ہونے والے المیوں پر تاسف کا اظہار کیا جاتا ہے۔
اکیسویں صدی سائنس ٹیکنالوجی، تحقیق اور حیرت انگیز انکشافات کی صدی ہے۔ ہر مذہب کا مرکز آسمان رہا ہے اور انسان مذہبی تفریق کے باوجود آسمان کو ہی اپنے اعتقاد کا مرکز بنائے رکھا۔ لیکن اب جب کہ سائنس اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آسمان نام کی کوئی چیز سرے سے موجود نہیں اور جو نیلا امبر نظر آتا ہے جسے ہم آسمان کہتے ہیں وہ حد نظر کے علاوہ کچھ نہیں تو کرہ ارض پر موجود انسانوں خاص طور پر مذہبی اکابرین اہل علم اہل دانش کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ جدید علوم کی روشنی میں مذاہب کی ایک ایسی نئی تفہیم کریں جو انسانوں کے درمیان تعصب نفرتوں کے بجائے محبت بھائی چارہ کے کلچر کو متعارف کرا سکے اور کسی کے اعتقادی نظام کی توہین کا سبب بھی نہ بنے۔ یہ بہت بڑا کام بہت بڑی ذمے داری ہے جسے بلاتفریق مذہب و ملت دنیا کے تمام مدبرین کو پورا کرنا ہے۔
برصغیر ایک بہت بڑا علاقہ ہے جہاں ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام رہتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ علاقہ شدید قسم کی ذہنی پسماندگی کا شکار ہے۔ جب تک برصغیر پر سلاطین اور راجے مہاراجوں کا تسلط رہا ان کی یہ ضرورت تھی کہ عوام جاہل اور تقسیم در تقسیم کا شکار رہیں۔
لیکن ہندوستان پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک اب آزاد ہیں اور ان ملکوں میں نام نہاد ہی سہی جمہوریت موجود ہے اور جمہوری حکمرانوں کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کو قانون اور آئین سے روکنے کے بجائے علم اور سیاسی اور سماجی شعور سے روکنے کی کوشش کریں۔ مذہبی انتہا پسند بھارت میں بھی موجود ہیں لیکن پاکستان جس اندھی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ اس ملک میں موجود قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ پاکستان پر دہشتگردوں کے مسکن ہونے کا الزام تو لگاتا ہے لیکن پاکستان دہشتگردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا گڑھ کیوں بنا ہوا ہے اس پر غور کرنے اور پاکستان کو مذہبی انتہا پسندوں کے چنگل سے نکالنے کے لیے نہ مثبت اور منطقی تجاویز پیش کرتا ہے نہ اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کا کوئی جامع پروگرام پیش کرتا ہے۔
ہریانہ ہو یا شمالی وزیرستان یہ سب علاقے اس وقت تک مذہبی انتہا پسندوں سے مکمل نجات حاصل نہیں کر سکیں گے جب تک دونوں ملکوں کے بااختیار طبقات مذہبی انتہا پسندوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرپرستی ختم نہ کر دیں۔ بدقسمتی سے بھارت پر اس وقت ایک ایسی جماعت برسر اقتدار ہے جس پر مذہبی انتہا پسندی کی چھاپ لگی ہوئی ہے اور جس کے وزیراعظم پر گجرات کے قتل عام کا الزام ہے۔ یہ کس قدر حیرت اور شرم کی بات ہے کہ بھارت کے وزیراعظم کا تعلق غریب طبقے سے ہے لیکن وہ مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی کر کے برصغیر کے غریب طبقات کے درمیان نفرتیں بڑھانے کا کام انجام دے رہا ہے۔