کرۂ ارض کے لیے ایک تاریخی موڑ

موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سنگین خطرات نے عالمی حکومتوں کو انتہائی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے

موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سنگین خطرات نے عالمی حکومتوں کو انتہائی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج دنیا کے ہر بڑے فورم پر عالمی پالیسی ساز اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار اور اس سے نمٹنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر حکمت عملیاں ترتیب دیتے نظر آتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی ذمے داری براہ راست گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے پیمانے پر اخراج کا نتیجہ ہے جس کے ذمے دار دنیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ دنیا بھر کے سائنسدان اس امر پر متفق ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت دیگر زہریلی گیسوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے اخراج کو نہ روکا گیا تو رواں صدی کے آخر تک کرۂ ارض تباہی کے ہولناک مناظر دیکھے گا۔ رواں سال فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 پی پی ایم کا خطرناک ہندسہ عبور کرچکی ہے۔

گزشتہ سال فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والی عالمی سربراہی ماحولیاتی کانفرنس میں ماحولیاتی تحفظ کا تاریخی عالمی معاہدہ طے پایا تھا جس میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج نے عالمی حکومتوں سے کاربن کے اخراج میں کمی کے قومی ماحولیاتی منصوبے، جنھیں این ڈی ایس کا نام دیا گیا تھا، طلب کیے تھے۔ دنیا کے 187 ملکوں نے کاربن کے اخراج میں کمی کے اپنے ماحولیاتی منصوبے جمع کرائے تھے۔ اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ یہ ماحولیاتی منصوبے کاربن کے مجموعی اخراج کے تقریباً 86 فیصد کا احاطہ کرتے ہیں۔

رواں سال 22 اپریل کو عالمی یوم ارض کے موقع پر نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ میں دنیا کے 175 ملکوں نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدہ پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے مطابق عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنا ہے جب کہ قانونی طور پر دنیا کے تمام ممالک اس معاہدے کے پابند ہوں گے۔ اس معاہدے میں طے کردہ اہداف کا اطلاق 2020 سے ہوگا۔ اس معاہدے کے نافذالعمل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ دنیا کے وہ 55 ممالک جو سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتے ہیں معاہدے کی توثیق کریں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب، عراق، نائیجیریا اور کرغستان نے اب تک معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے معاہدے کے آرٹیکل 20 کے تحت یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر واقع نیویارک میں 22 اپریل 2016 سے 21 اپریل 2017 تک ان ریاستوں اور ریجنل اکنامک انٹیگریشن آرگنائزیشن کے لیے جو اقوام متحدہ کے فریم ورک آن کلائمیٹ چینج میں فریق کی حیثیت رکھتے ہیں، کے لیے کھلا رکھا ہے۔

چین کے جنوبی ساحل پر واقع صوبہ ژی جیانگ کے دارالحکومت ہانگ ژو (Hangzhou) میں گروپ 20 ممالک کی سربراہی کانفرنس میں عالمی معاشی صورتحال، دہشت گردی اور عالمی ماحولیاتی مسائل زیر بحث آئے۔


عالمی تجزیہ نگار اس بات کا قومی امکان ظاہر کررہے تھے کہ دنیا کے دو سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے ملک چین اور امریکا اس موقعے پر عالمی معاہدے کی توثیق کریں گے۔ 3 ستمبر کی صبح چین کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے کی توثیق کرنے کی منظوری دے دی، جس کے فوری بعد امریکا کی جانب سے بھی اس معاہدے کی توثیق کا اعلان کردیا گیا۔ یوں چین ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے کی توثیق کرنے والا 25 واں اور امریکا 26 واں ملک بن گیا۔ امریکا اور چین دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کے کل اخراج کے 38 فیصد سے زائد کے ذمے دار ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے جن 24 ملکوں نے معاہدے کی توثیق کی تھی وہ عالمی سطح پر ایک فیصد سے کچھ زائد گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے معاہدے کی توثیق کو اس دفعہ 20-G گروپ کی سربراہی کانفرنس کا سب سے اہم اور بڑا واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔

یہ بات سب کے علم میں ہے کہ امریکا اور چین دنیا کی پہلی دو سب سے بڑی معاشی عالمی طاقت ہیں۔ امریکا دنیا کی پہلی اور چین دوسری سب سے عظیم معیشتیں ہیں، لہٰذا یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی بالخصوص گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا حصہ بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ سوال یہ ابھرتا ہے کہ دونوں ملکوں نے معاہدے کی توثیق کے عمل کو اتنے عرصے تک معرض التوا میں کیوں رکھا؟ کیا انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لیے کتنا خطرناک چیلنج بن چکی ہے۔

ان سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ موسمی تبدیلی کے عمل کو نہ روکا گیا تو کرۂ ارض پر زندگی کا خاتمہ یقینی ہے۔ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود پیرس معاہدے کی توثیق میں دونوں ملکوں کے مفادات آڑے آتے رہے۔ امریکا کا انحصار جب تک مشرق وسطیٰ کے تیل پر رہا اور اس کے پاس کم قیمت تیل اور متبادل توانائی موجود نہیں تھی، تو اس کے لیے اس معاہدے پر دستخط کرنا بہت مشکل تھا اور اس فیصلے کی معاشی لاگت بہت زیادہ تھی۔ یہی صورت چین کی بھی تھی۔ اب حالات بدلے ہیں۔ امریکا میں شیل گیس کی ٹیکنالوجی نے توانائی کی لاگت کو بہت کم کردیا ہے، جس کے باعث اس کا بیرونی انحصار تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ اس کے علاوہ گیس بھی وافر مقدار میں تیل سے بھی سستی قیمت میں دستیاب ہے، لہٰذا چین کے لیے بھی کوئلے اور فرنس آئل سے بتدریج ہٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دونوں ملکوں کے لیے جب اس معاہدے کی توثیق کرنا خسارے کا سودا نہیں رہا تو اس پر دونوں جانب سے دستخط ثبت کردیے گئے۔

اس تاریخی موقع پر امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ پیرس معاہدہ کرۂ ارض کے لیے ایک تاریخی موڑ ہے اور تاریخ ہماری آج کی کوششوں کو ایک نمایاں پیش رفت قرار دے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر عزم اور یقین موجود ہوتو بصیرت بھی پیدا ہوجاتی ہے جس کی ایک مثال امریکا اور چین ہیں جنھوں نے اس تاریخی فیصلے سے ثابت کردیا ہے کہ دنیا کو زیادہ محفوظ زیادہ خوش حال اور زیادہ آزاد بنانے کے واضح امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

امریکی صدر کاکہنا تھا کہ اگرچہ ہمارے درمیان دیگر مسائل پر اختلافات موجود ہیں لیکن دنیا کی دو بڑی معیشتیں موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کی جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس سال پیرس معاہدہ نافذالعمل ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس معاہدے میں شامل 200 فریق حکومتوں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوجائے گی کہ وہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کی ذمے داریوں کو پورا کریں۔ چین کے صدر ژی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہم نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے دنیا کے عوام کو بہتر مستقبل اور انسانیت کی بہتری کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔

یہ ایک بہت بڑی اور خوش آیند پیش رفت ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ ان دونوں ملکوں کی توثیق کے بعد رفتہ رفتہ دنیا کے دیگر ملک جن میں یورپی یونین ، برازیل، کینیڈا، فرانس، اسٹریلیا، میکسیکو سمیت دیگر ممالک کی اکثریت بھی رواں سال ہی معاہدے کی توثیق کردیں گے۔ یہ کام اتنا سہل نہیں ہے۔ خطرناک گیسوں کا اخراج کرنے والے روایتی ایندھن سے ایک نسبتاً صاف ایندھن کے استعمال کی جانب سفر میں بہت سی دیگر مشکلات بھی پیش آئیں گی۔ کھربوں ڈالر کے مفادات پر ضرب پڑے گی لہٰذا غیر معمولی طاقت ور عناصر کی جانب سے سخت ترین مزاحمت کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، جس کا مقابلہ کرنا اب آسان ہو گیا ہے کیونکہ دنیا کی دو عظیم ترین معیشتوں نے پیرس معاہدے کی توثیق کرکے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ موسمی تبدیلی سے دنیا کو بچانا اب مشترک عالمی معاشی مفاد بن گیا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ دنیا بتدریج محفوظ اور صاف ہوتی چلی جائے۔
Load Next Story