افغان انٹیلی جنس سربراہ پر حملے کا منصوبہ کوئٹہ میں بنا کرزئی
کارروائی مکمل پیشہ ورانہ انداز میں انجام دی گئی، اسلام آباد سے بات کروں گا، افغان صدر
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا ہے۔
ہفتہ کو انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ افغان انٹیلی جنس کے سربراہ پر کابل میں کیے جانے والے خودکش حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی، میں یہ معاملہ اسلام آباد کے سامنے اٹھائوں گا۔ اے ایف پی کے مطابق افغان صدر نے افغان انٹیلی جنس کے سربراہ اسد اللہ خالد پر جمعرات کو ہونے والے قاتلانہ حملے میں پاکستان کا نام براہ راست تو نہیں لیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں بڑے ہاتھ ملوث ہیں، طالبان میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ اس قسم کی کارروائی کرسکیں۔
دوسری جانب پاکستان نے افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے لگائے گئے الزام کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ افغان انٹیلی جنس چیف پر حملے کے حوالے سے پاکستان پر لگایا جانے والا الزام بے بنیاد ہے، اگر شواہد ہیں تو سامنے لائے جائیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت اس حملے کے حوالے سے پاکستان پرالزامات لگانے کے بجائے، اگر کوئی ثبوت ہے تو فراہم کرے۔ یہ بھی بہتر ہوگا کہ افغان حکومت انٹیلی جنس چیف کے حوالے سے ناقص حفاظتی انتظامات کی بھی تحقیقات کا حکم دے۔ پاکستان اس مجرمانہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ہر قسم کے تعاون پرتیار ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے سربراہ اسداللہ خالد پر 6 نومبر کو کابل میں خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے جبکہ حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔ جمعہ کو کابل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسداللہ خالد سے مہمان کے روپ میں ملنے کیلیے آنے والا شخص پاکستان سے آیا تھا، یہ بات بہت واضح ہے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی، یہ حملہ ایک ایسے شخص نے کیا جو طالبان کی جانب سے امن کا سفیر بن کر آیا تھا اور اس نے اپنے زیر جامہ میں بم چھپا رکھا تھا۔
کرزئی نے مزید کہا کہ حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی شہر کوئٹہ میں کی گئی۔ یہ طالبان کا کام نہیں، وہ ایسے حملے نہیں کرسکتے۔ یہ کارروائی مکمل طور پر پیشہ ورانہ انداز میں انجام دی گئی۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال کابل نے معروف افغان سیاست داں اور امن کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی کے قتل کا الزام بھی پاکستان پر لگایا تھا جسے اسلام آباد نے مسترد کردیا تھا۔دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدہ صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے، افغان حکومت نے بار بار پاکستان پر طالبان کی سرپرستی کے الزامات عائد کیے ہیں ۔ افغان انٹیلی جنس سربراہ اسد اللہ خالد کے قتل کے کئی گھنٹوں بعد طالبان نے بتایا کہ کارروائی میں حصہ لینے والا ''ہیرو'' مجاہد حافظ محمد تھا۔
اسد اللہ خالد اس وقت بگرام ایئر بیس کے امریکی اسپتال میں زیر علاج ہیں جہاں ڈاکٹروں نے ان کی حالت اطمینان بخش بتائی ہے۔ افغان صدر کرزئی نے بھی اسپتال جاکر اسد اللہ خالد کی عیادت کی، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ افغان انٹیلی جنس سربراہ کی اہمیت کافی زیادہ ہے کیونکہ 2014 میں نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد افغان فوج نے ہی ملک کی سیکورٹی سنبھالنی ہے۔
تحقیقاتی اداروں نے بتایا ہے کہ افغان انٹیلی جنس سربراہ کیخلاف خود کش حملہ آور نے بم کو زیر جامہ میں چھپایا تھا، یہ افغانستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ خود کش حملہ آور نے بم کو انڈرویئر میں چھپاکر کارروائی کی۔ اس بات کی بھی تفتیش کی جارہی ہے کہ حملہ آور کس طرح اسد اللہ خالد کے اتنے قریب پہنچا اور اس کی اچھی طرح تلاشی کیوں نہ لی گئی؟۔ اسد اللہ خالد کو افغان حکومت کے ان افسران میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو طالبان کے سخت مخالف ہیں۔
ہفتہ کو انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ افغان انٹیلی جنس کے سربراہ پر کابل میں کیے جانے والے خودکش حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی، میں یہ معاملہ اسلام آباد کے سامنے اٹھائوں گا۔ اے ایف پی کے مطابق افغان صدر نے افغان انٹیلی جنس کے سربراہ اسد اللہ خالد پر جمعرات کو ہونے والے قاتلانہ حملے میں پاکستان کا نام براہ راست تو نہیں لیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں بڑے ہاتھ ملوث ہیں، طالبان میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ اس قسم کی کارروائی کرسکیں۔
دوسری جانب پاکستان نے افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے لگائے گئے الزام کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ افغان انٹیلی جنس چیف پر حملے کے حوالے سے پاکستان پر لگایا جانے والا الزام بے بنیاد ہے، اگر شواہد ہیں تو سامنے لائے جائیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت اس حملے کے حوالے سے پاکستان پرالزامات لگانے کے بجائے، اگر کوئی ثبوت ہے تو فراہم کرے۔ یہ بھی بہتر ہوگا کہ افغان حکومت انٹیلی جنس چیف کے حوالے سے ناقص حفاظتی انتظامات کی بھی تحقیقات کا حکم دے۔ پاکستان اس مجرمانہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ہر قسم کے تعاون پرتیار ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے سربراہ اسداللہ خالد پر 6 نومبر کو کابل میں خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے جبکہ حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔ جمعہ کو کابل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسداللہ خالد سے مہمان کے روپ میں ملنے کیلیے آنے والا شخص پاکستان سے آیا تھا، یہ بات بہت واضح ہے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی، یہ حملہ ایک ایسے شخص نے کیا جو طالبان کی جانب سے امن کا سفیر بن کر آیا تھا اور اس نے اپنے زیر جامہ میں بم چھپا رکھا تھا۔
کرزئی نے مزید کہا کہ حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی شہر کوئٹہ میں کی گئی۔ یہ طالبان کا کام نہیں، وہ ایسے حملے نہیں کرسکتے۔ یہ کارروائی مکمل طور پر پیشہ ورانہ انداز میں انجام دی گئی۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال کابل نے معروف افغان سیاست داں اور امن کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی کے قتل کا الزام بھی پاکستان پر لگایا تھا جسے اسلام آباد نے مسترد کردیا تھا۔دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدہ صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے، افغان حکومت نے بار بار پاکستان پر طالبان کی سرپرستی کے الزامات عائد کیے ہیں ۔ افغان انٹیلی جنس سربراہ اسد اللہ خالد کے قتل کے کئی گھنٹوں بعد طالبان نے بتایا کہ کارروائی میں حصہ لینے والا ''ہیرو'' مجاہد حافظ محمد تھا۔
اسد اللہ خالد اس وقت بگرام ایئر بیس کے امریکی اسپتال میں زیر علاج ہیں جہاں ڈاکٹروں نے ان کی حالت اطمینان بخش بتائی ہے۔ افغان صدر کرزئی نے بھی اسپتال جاکر اسد اللہ خالد کی عیادت کی، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ افغان انٹیلی جنس سربراہ کی اہمیت کافی زیادہ ہے کیونکہ 2014 میں نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد افغان فوج نے ہی ملک کی سیکورٹی سنبھالنی ہے۔
تحقیقاتی اداروں نے بتایا ہے کہ افغان انٹیلی جنس سربراہ کیخلاف خود کش حملہ آور نے بم کو زیر جامہ میں چھپایا تھا، یہ افغانستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ خود کش حملہ آور نے بم کو انڈرویئر میں چھپاکر کارروائی کی۔ اس بات کی بھی تفتیش کی جارہی ہے کہ حملہ آور کس طرح اسد اللہ خالد کے اتنے قریب پہنچا اور اس کی اچھی طرح تلاشی کیوں نہ لی گئی؟۔ اسد اللہ خالد کو افغان حکومت کے ان افسران میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو طالبان کے سخت مخالف ہیں۔