ایک فارسی شاعر اور ہماری عید
ڈاکٹر حضرات نے گوشت خوری سے منع کر رکھا ہے اور عید قربان ہوتی ہی گوشت خوروں کے لیے ہے
ISLAMABAD:
ڈاکٹر حضرات نے گوشت خوری سے منع کر رکھا ہے اور عید قربان ہوتی ہی گوشت خوروں کے لیے ہے۔ اس مبارک تہوار میں اگر قربانی کا گوشت نہ کھایا جائے تو پھر بہتر ہے کہ دال سبزی پر گزارا کیا جائے جو ہمارے ہاں کسی عید قربان کی محتاج نہیں ہوتی بارہ مہینے ملتی ہے اور وہ بھی وافر مقدار میں چنانچہ میں ان دنوں ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق گوشت سے پرہیز کرتا رہا۔ ڈاکٹر تو بہت سی چیزوں سے پرہیز کو کہتے ہیں لیکن قدرت نے توفیق دی کہ گوشت کم از کم کھایا ویسے عید قربان پر گوشت نہ کھانے کا مشورہ دینا کسی ڈاکٹر کی ہمت کی بات ہے۔
کہیں پڑھا تھا کہ ایران کا ایک شاعر بھی ہندوستان کی شہرت سن کر کسی قافلے میں شامل ہو گیا اور ہندوستان پہنچ گیا قافلے میں سفر کے دوران اس کا ایک درویش یعنی ملنگ دوست بن گیا جو اسے ہندوستان میں درویش ملنگوں کے ڈیرے پر لے گیا جہاں اس ایرانی مہمان کی خوب خاطر تواضح کی گئی۔ اسی سلسلے میں مہمان کو ملنگوں نے اپنی ایک خاص محفل میں بھی بلایا جہاں بھنگ سے اس کی تواضع کی گئی۔ ایرانی نے یہ مشروب پہلی بار چکھا تھا جو اندر جاتے ہی شاعر کو نادیدہ بلندیوں پر لے گیا۔ شاعر نے اس کیفیت میں جو شعر کہے ان میں سے ایک شعر بہت مشہور ہوا۔ فارسی میں ہے شاعر کہتا ہے کہ
بنگے زدیم و غلغلہ بہ آسماں زنیم
مارا ازیں گیاہ ضعیف ایں گماں نبود
یعنی بھنگ پی اور آسمان پر اڑنے لگا اور یوں ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔ مجھے اس کمزور سی گھاس یعنی بھنگ کے پتوں سے یہ توقع نہ تھی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں بھنگ ایک بوٹی کا نام ہے جو ملنگ لوگ پانی میں پیس کر اور ملا کر پیتے ہیں اور اس کے نشے میں بہت اونچے اڑنے لگتے ہیں۔ شاعر نے اس کیفیت میں جو شعر کہا وہ میں نے اوپر درج کر دیا ہے۔ شاعر نے پُرلطف بات یہ کہی کہ میں بھنگ پی کر بہت اونچا اڑنے لگا۔ مجھے اس کمزور سی گھاس سے یہ امید ہر گز نہ تھی۔ اس شعر کے بعد جب بھی کسی کمزور سی چیز نے کوئی بڑی بات کر دی تو اس پر یہ شعر پڑھا جانے لگا کہ گھاس کے کمزور سے پتوں میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی کہ لوگوں کو آسمانوں تک اڑا کر لے گئی۔
یہ شعر ہمارے کلاسیکی دانشوروں کو بہت پسند آیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لکھنے والوں نے بھی اس شعر کو بارہا استعمال کیا اور اس میں سے کئی معنی نکالے۔ جب تک فارسی زبان زندہ رہے گی یہ شعر اس کی انشاء پردازی میں جگمگاتا رہے گا۔ ایسے کتنے ہی شعر ہیں جو کسی زبان کی تحریروں کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور ان زبانوں میں لکھنے والوں پر احسان کرتے ہیں جن کی تحریریں ان شعروں سے نکھر جاتی ہیں اور نیا حسن پاتی ہیں۔
کسی بھی تحریک کا حسن کسی لکھنے والے کی میراث نہیں ہوتا۔ یہ قدرت کا عطیہ ہوتا ہے جو کسی کو مل جاتا ہے تو وہ اپنی کسی تحریر کو نئی زندگی اور نیا حسن دے دیتا ہے۔ میں نے مولانا ابوالکلام کا ذکر کیا ہے قدرت نے اس شخص کو تحریر کا حسن عطا کیا تھا جو آگے چل کر ایک مثال بن گیا اور مولانا کی تحریریں مضامین نو کا ایک ہجوم بن گئیں جو ان کی زبان میں لکھنے والوں کا ایک اثاثہ بن گئیں۔
ابوالکلام کی نثر ایک مثال بن گئی جس کے سامنے کئی شعروں نے قلم رکھ دیے۔ مولانا نے زبان و بیان میں ایک نئی دنیا آباد کی جو ایک قابل رشک دنیا تھی اور جس نے کئی باکمال لوگ پیدا کیے اور زبان و بیان کو ایک عزت دی۔ مولانا کے دور میں اس دنیا کو بہت کچھ ملا اور ادب نے نئی شگفتگی حاصل کی جس میں آنے والوں نے اضافہ ہی کیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور جاری رہے گا کیونکہ تحریر کا حسن کبھی ماند نہیں پڑتا۔ نئے لکھنے والے اس حسن کو مسلسل نئی زندگی عطا کرتے ہیں اور اپنے فن کی جولانیاں دکھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا جاری ہے اور جاری رہے گا۔
اس میں نہ جانے کتنے ابوالکلام اور کتنے حسرت موہانی پیدا ہوتے رہیں گے جو نئی نئی جدتیں پیدا کیا کریں گے۔ قدرت نے اپنی انسانی مخلوق کو اس قدر صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ اضافہ کئی ابوالکلام پیدا کیا کریں گے۔ میں ابوالکلام کا ذکر بار بار اس لیے کر رہا ہوں کہ میرے خیال میں ہماری اردو زبان میں ان کا کوئی مثل نہیں ہے اللہ نے اس شخص کو علم و دانش کی خدمت کے لیے پیدا کیا خصوصاً ادب اور زباں کے لیے اور اس میں انھوں نے اپنی مثال قائم کر دی ہے۔ اب تک اس میدان میں ان کا ثانی پیدا نہیں ہوا۔ بہرکیف انسانی علوم و فنون ایسی شخصیتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔
ڈاکٹر حضرات نے گوشت خوری سے منع کر رکھا ہے اور عید قربان ہوتی ہی گوشت خوروں کے لیے ہے۔ اس مبارک تہوار میں اگر قربانی کا گوشت نہ کھایا جائے تو پھر بہتر ہے کہ دال سبزی پر گزارا کیا جائے جو ہمارے ہاں کسی عید قربان کی محتاج نہیں ہوتی بارہ مہینے ملتی ہے اور وہ بھی وافر مقدار میں چنانچہ میں ان دنوں ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق گوشت سے پرہیز کرتا رہا۔ ڈاکٹر تو بہت سی چیزوں سے پرہیز کو کہتے ہیں لیکن قدرت نے توفیق دی کہ گوشت کم از کم کھایا ویسے عید قربان پر گوشت نہ کھانے کا مشورہ دینا کسی ڈاکٹر کی ہمت کی بات ہے۔
کہیں پڑھا تھا کہ ایران کا ایک شاعر بھی ہندوستان کی شہرت سن کر کسی قافلے میں شامل ہو گیا اور ہندوستان پہنچ گیا قافلے میں سفر کے دوران اس کا ایک درویش یعنی ملنگ دوست بن گیا جو اسے ہندوستان میں درویش ملنگوں کے ڈیرے پر لے گیا جہاں اس ایرانی مہمان کی خوب خاطر تواضح کی گئی۔ اسی سلسلے میں مہمان کو ملنگوں نے اپنی ایک خاص محفل میں بھی بلایا جہاں بھنگ سے اس کی تواضع کی گئی۔ ایرانی نے یہ مشروب پہلی بار چکھا تھا جو اندر جاتے ہی شاعر کو نادیدہ بلندیوں پر لے گیا۔ شاعر نے اس کیفیت میں جو شعر کہے ان میں سے ایک شعر بہت مشہور ہوا۔ فارسی میں ہے شاعر کہتا ہے کہ
بنگے زدیم و غلغلہ بہ آسماں زنیم
مارا ازیں گیاہ ضعیف ایں گماں نبود
یعنی بھنگ پی اور آسمان پر اڑنے لگا اور یوں ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔ مجھے اس کمزور سی گھاس یعنی بھنگ کے پتوں سے یہ توقع نہ تھی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں بھنگ ایک بوٹی کا نام ہے جو ملنگ لوگ پانی میں پیس کر اور ملا کر پیتے ہیں اور اس کے نشے میں بہت اونچے اڑنے لگتے ہیں۔ شاعر نے اس کیفیت میں جو شعر کہا وہ میں نے اوپر درج کر دیا ہے۔ شاعر نے پُرلطف بات یہ کہی کہ میں بھنگ پی کر بہت اونچا اڑنے لگا۔ مجھے اس کمزور سی گھاس سے یہ امید ہر گز نہ تھی۔ اس شعر کے بعد جب بھی کسی کمزور سی چیز نے کوئی بڑی بات کر دی تو اس پر یہ شعر پڑھا جانے لگا کہ گھاس کے کمزور سے پتوں میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی کہ لوگوں کو آسمانوں تک اڑا کر لے گئی۔
یہ شعر ہمارے کلاسیکی دانشوروں کو بہت پسند آیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لکھنے والوں نے بھی اس شعر کو بارہا استعمال کیا اور اس میں سے کئی معنی نکالے۔ جب تک فارسی زبان زندہ رہے گی یہ شعر اس کی انشاء پردازی میں جگمگاتا رہے گا۔ ایسے کتنے ہی شعر ہیں جو کسی زبان کی تحریروں کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور ان زبانوں میں لکھنے والوں پر احسان کرتے ہیں جن کی تحریریں ان شعروں سے نکھر جاتی ہیں اور نیا حسن پاتی ہیں۔
کسی بھی تحریک کا حسن کسی لکھنے والے کی میراث نہیں ہوتا۔ یہ قدرت کا عطیہ ہوتا ہے جو کسی کو مل جاتا ہے تو وہ اپنی کسی تحریر کو نئی زندگی اور نیا حسن دے دیتا ہے۔ میں نے مولانا ابوالکلام کا ذکر کیا ہے قدرت نے اس شخص کو تحریر کا حسن عطا کیا تھا جو آگے چل کر ایک مثال بن گیا اور مولانا کی تحریریں مضامین نو کا ایک ہجوم بن گئیں جو ان کی زبان میں لکھنے والوں کا ایک اثاثہ بن گئیں۔
ابوالکلام کی نثر ایک مثال بن گئی جس کے سامنے کئی شعروں نے قلم رکھ دیے۔ مولانا نے زبان و بیان میں ایک نئی دنیا آباد کی جو ایک قابل رشک دنیا تھی اور جس نے کئی باکمال لوگ پیدا کیے اور زبان و بیان کو ایک عزت دی۔ مولانا کے دور میں اس دنیا کو بہت کچھ ملا اور ادب نے نئی شگفتگی حاصل کی جس میں آنے والوں نے اضافہ ہی کیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور جاری رہے گا کیونکہ تحریر کا حسن کبھی ماند نہیں پڑتا۔ نئے لکھنے والے اس حسن کو مسلسل نئی زندگی عطا کرتے ہیں اور اپنے فن کی جولانیاں دکھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا جاری ہے اور جاری رہے گا۔
اس میں نہ جانے کتنے ابوالکلام اور کتنے حسرت موہانی پیدا ہوتے رہیں گے جو نئی نئی جدتیں پیدا کیا کریں گے۔ قدرت نے اپنی انسانی مخلوق کو اس قدر صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ اضافہ کئی ابوالکلام پیدا کیا کریں گے۔ میں ابوالکلام کا ذکر بار بار اس لیے کر رہا ہوں کہ میرے خیال میں ہماری اردو زبان میں ان کا کوئی مثل نہیں ہے اللہ نے اس شخص کو علم و دانش کی خدمت کے لیے پیدا کیا خصوصاً ادب اور زباں کے لیے اور اس میں انھوں نے اپنی مثال قائم کر دی ہے۔ اب تک اس میدان میں ان کا ثانی پیدا نہیں ہوا۔ بہرکیف انسانی علوم و فنون ایسی شخصیتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔