رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
بھارت کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی صورت مقبوضہ کشمیرکو ہڑپ کرلے
بھارت کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی صورت مقبوضہ کشمیرکو ہڑپ کرلے،خواہ اس کے لیے اسے کوئی بھی حربہ کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔ چنانچہ اس نے آج سے تقریباً پچاس سال قبل اپنے ایوان زیریں لوک سبھا میں ایک بل پیش کیا تھا جس کا مقصد آئین کے آرٹیکل 35-A کو منسوخ کرانا تھا۔ بھارت کے آئین کے اس آرٹیکل کے تحت سری نگر سرکارکو مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی بھارتی شہری کی جانب سے جائیداد کی خریداری یا روزگار کے حصول کی ممانعت کا اختیارحاصل تھا۔
اس آرٹیکل کی منسوخی کے پیچھے بھارت کی یہ بدنیتی کار فرما تھی کہ مقبوضہ علاقے میں مسلم اکثریت کو ختم کردیا جائے۔اس گھناؤنی چال کا آغاز اسی دن سے ہوگیا تھا جب بھارت کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارتی افواج کو مقبوضہ کشمیر میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے تعینات کیا تھا۔ بھارت روز اول سے ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کردیا جائے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیریوں اور بھارتی باشندوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور دونوں کی ثقافت بھی ایک دوسرے سے قطعی مختلف اور متضاد ہے۔
یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے قائد ملت لیاقت علی خان، وزیراعظم پاکستان کو یہ یقین دہانی 1947 میں ہی کرادی تھی کہ مقبوضہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی اور امنگوں کے مطابق کروانا نہ صرف ایک مقدس وعدہ اور عہد ہے بلکہ یہ وعدہ محض حکومت پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ کشمیری عوام اوراقوام عالم تک محیط ہے۔ اقوام متحدہ کی 1948 اور 1949 کی قراردادوں کی بنیاد بھی در حقیقت اسی وعدے اور عہد پر قائم ہے۔ لیکن بھارت کی ستم ظریفی اور بد عہدی کا عالم یہ ہے کہ وہ آج تک اپنے اس وعدے اور عہد سے انحراف کرکے بد ترین عہد شکنی اور وعدہ خلافی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت نے اس کے بعد ''اٹوٹ انگ'' کی رٹ لگانا بھی شروع کردی جو آج بھی پورے زوروشور کے ساتھ جاری ہے۔
منہ پہ رام رام اور بغل میں چھری کے فلسفے پر عمل پیرا بھارت نے کشمیریوں کے آزادی کے عزم صمیم کو کچلنے کے لیے ان کے خون سے ہولی کھیلنے کا مکروہ کھیل شروع کردیا، جس کا تازہ ترین شاخسانہ گزشتہ 8 جولائی کو نوجوان کشمیری حریت پسند رہنما برہان وانی کی شہادت کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ اس کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کا ایک طوفان برپا ہے جسے کچلنے کے لیے بھارتی حکمران بے دریغ طاقت اور تشدد کا برہنہ مظاہرہ کررہے ہیں مگر کشمیری حریت پسند بھارتی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلسل یہی صدا بلند کررہے ہیں کہ:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا
بھارتی حکمرانوں نے گزشتہ 4 اور 5 ستمبر کو ایک آل پارٹی پارلیمانی وفد سری نگر اور جموں روانہ کیا تھا تاکہ حریت پسند کشمیریوں کو کسی طور اپنے دام میں پھنسایا جاسکے مگر بھارتی حکمرانوں کی یہ چال بری طرح ناکام ہوگئی اور انجام کار انھیں منہ کی کھانا پڑی اور ان کی تمام تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ جو اس وفد کے قائد تھے صرف ہاتھ ملتے رہ گئے اورکسی نے بھی ان کو گھاس نہیں ڈالی۔ ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہ تھی کہ کسی کشمیری قائد کو باقاعدہ ملاقات کا دعوت نامہ ارسال کرتے۔ انھوں نے محض درج ذیل پیغام ٹوئیٹ کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ ''میں ہندوگیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر رہوںگا۔کشمیریات، انسانیت اور جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو خوش آمدید'' ایک سرکاری اہلکار نے اس پیغام کی ان الفاظ میں وضاحت پیش کی ''علیحدگی پسندوں کو علیحدہ سے کوئی دعوت نامہ نہیں دیا جائے گا، لیکن اگر وہ آنے اور وزیر داخلہ سے ملاقات کرنے کے خواہش مند ہیں تو انھیں خوش آمدید'' مزید وضاحت یہ کہ ''مذاکرات آئین کے دائرے میں ہوںگے''
حریت پسندوں کا استدلال تھا کہ صرف چند دن قبل بھارتی پارلیمان نے ایک قرارداد منظورکی تھی جس کے تحت بھارتی حکومت سخت موقف کی تائید کی گئی تھی اور کسی بھی سمجھوتے کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے بھارتی وزیرداخلہ کو کوئی لفٹ نہیں کرائی۔ نتیجتاً راج ناتھ سنگھ جب 6 ستمبرکو نئی دہلی واپس گئے تو بری طرح بوکھلائے ہوئے اور تلملائے ہوئے تھے۔ وہ غصے سے بے قابو ہو رہے تھے اس کے بعد میڈیا پر یہ اعلان کیا گیا کہ حریت پسند تین بڑے کشمیری رہنماؤں کو ان کے سفر پر پابندی عائد کرنے، ان کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین اور ان کی سیکیورٹی کے خاتمے کی صورت میں سزا دی جائے گی۔
راج ناتھ سنگھ نے 6 ستمبر کو ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ سخت موقف اختیارکیا جائے۔ اس کے بعد بھارتی وزیرداخلہ نے 21اگست کو ایک اجلاس طلب کیا جس میں ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس اجلاس سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ وزیر داخلہ اعتماد سازی کے کوئی بھی اقدامات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں نہ ہی وہ ربڑکی گولیاں برسانا بند کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی وہ متاثرہ علاقوں سے فوجیوں کو ہٹانے پر راضی ہیں اور نہ ہی وہ حریت رہنماؤں اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بھارتی سرکار کے پاس کشمیریوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ڈھانے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے۔
بھارتی حکومت کا سب سے بڑا حربہ یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے جذبے کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کی جائے اور ان پر ظلم و بربریت کے ایسے پہاڑ ڈھائے جائیں کہ وہ گھبراکر ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے کو تیار ہوجائیں مگر جب یہ حربہ ناکام ہوگیا تو اس نے بوکھلاکر اسے ترک کرنے کے بجائے اس کی شدت میں اضافہ کردیا۔ ہم ابھی تازہ تازہ مسقط سے وطن واپس آئے ہیں جہاں ہمیں مقبوضہ کشمیر کے ایک خاندان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس خاندان کے سربراہ کا کہناتھا کہ مقبوضہ کشمیر کا بچہ بچہ جذبۂ حریت سے سرشارہے جس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ ان کی معصوم اورکم سن بیٹی ان سے اکثر یہ سوال کرتی ہے کہ بابا ہمارا کشمیر کب بنے گا پاکستان؟ جہاں تک کشمیری حریت پسند نوجوانوں کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنے سروں پر کفن باندھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ظلم و تشدد میں اضافہ اب Back Fire کردیا ہے اور کشمیریوں کا حوصلہ کم ہونے کے بجائے بلند تر ہورہاہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جو نئی طوفانی لہر آئی ہوئی ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی جس بے شرمی اور درندگی کے ساتھ پامالی کی جارہی ہے اس کے خلاف پوری دنیا میں صدائے احتجاج بلند کی جائے اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کیا جائے۔ اس سنہری موقعے کو ہمیں ہرگز اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ لوہا اس وقت گرم ہے اور اب پورے زور سے چوٹ مارنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی اورگروہی مفادات اور مصلحتوں سے بالاتر ہوکر یک جان دو قالب بن کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں یقین ہے کہ اس نکتے پر سب ہی متفق اور متحد ہوںگے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں دست تعاون درازکرے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک جارحانہ پروپیگنڈا ہم پوری دنیا میں چلائے اور اقوام عالم کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل بروقت اور بجا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آیندہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کریںگے۔ انھوں نے بالکل صحیح کہا کہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو طاقت سے دبایا نہیں جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انشاء اﷲ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ بقول ساحرؔ
رات بھرکا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رُکے گا سویرا
رات جتنی بھی سنگین ہوگی
صبح اتنی ہی رنگین ہوگی
حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی زبردست حمایت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ خلوص دل سے وابستہ ہیں اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ تصورکرتے ہیں۔ بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر کے بے گناہ عوام پر جو اپنے حق خود ارادیت کے لیے سر دھڑکی بازی لگائے ہوئے ہیں بے پناہ مظالم ڈھارہی ہیں اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانیت سوزکارروائیاں کررہی ہیں مگر ظلم کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے اور بقول شاعر:
ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے
اس آرٹیکل کی منسوخی کے پیچھے بھارت کی یہ بدنیتی کار فرما تھی کہ مقبوضہ علاقے میں مسلم اکثریت کو ختم کردیا جائے۔اس گھناؤنی چال کا آغاز اسی دن سے ہوگیا تھا جب بھارت کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارتی افواج کو مقبوضہ کشمیر میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے تعینات کیا تھا۔ بھارت روز اول سے ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کردیا جائے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیریوں اور بھارتی باشندوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور دونوں کی ثقافت بھی ایک دوسرے سے قطعی مختلف اور متضاد ہے۔
یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے قائد ملت لیاقت علی خان، وزیراعظم پاکستان کو یہ یقین دہانی 1947 میں ہی کرادی تھی کہ مقبوضہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی اور امنگوں کے مطابق کروانا نہ صرف ایک مقدس وعدہ اور عہد ہے بلکہ یہ وعدہ محض حکومت پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ کشمیری عوام اوراقوام عالم تک محیط ہے۔ اقوام متحدہ کی 1948 اور 1949 کی قراردادوں کی بنیاد بھی در حقیقت اسی وعدے اور عہد پر قائم ہے۔ لیکن بھارت کی ستم ظریفی اور بد عہدی کا عالم یہ ہے کہ وہ آج تک اپنے اس وعدے اور عہد سے انحراف کرکے بد ترین عہد شکنی اور وعدہ خلافی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت نے اس کے بعد ''اٹوٹ انگ'' کی رٹ لگانا بھی شروع کردی جو آج بھی پورے زوروشور کے ساتھ جاری ہے۔
منہ پہ رام رام اور بغل میں چھری کے فلسفے پر عمل پیرا بھارت نے کشمیریوں کے آزادی کے عزم صمیم کو کچلنے کے لیے ان کے خون سے ہولی کھیلنے کا مکروہ کھیل شروع کردیا، جس کا تازہ ترین شاخسانہ گزشتہ 8 جولائی کو نوجوان کشمیری حریت پسند رہنما برہان وانی کی شہادت کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ اس کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کا ایک طوفان برپا ہے جسے کچلنے کے لیے بھارتی حکمران بے دریغ طاقت اور تشدد کا برہنہ مظاہرہ کررہے ہیں مگر کشمیری حریت پسند بھارتی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلسل یہی صدا بلند کررہے ہیں کہ:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا
بھارتی حکمرانوں نے گزشتہ 4 اور 5 ستمبر کو ایک آل پارٹی پارلیمانی وفد سری نگر اور جموں روانہ کیا تھا تاکہ حریت پسند کشمیریوں کو کسی طور اپنے دام میں پھنسایا جاسکے مگر بھارتی حکمرانوں کی یہ چال بری طرح ناکام ہوگئی اور انجام کار انھیں منہ کی کھانا پڑی اور ان کی تمام تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ جو اس وفد کے قائد تھے صرف ہاتھ ملتے رہ گئے اورکسی نے بھی ان کو گھاس نہیں ڈالی۔ ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہ تھی کہ کسی کشمیری قائد کو باقاعدہ ملاقات کا دعوت نامہ ارسال کرتے۔ انھوں نے محض درج ذیل پیغام ٹوئیٹ کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ ''میں ہندوگیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر رہوںگا۔کشمیریات، انسانیت اور جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو خوش آمدید'' ایک سرکاری اہلکار نے اس پیغام کی ان الفاظ میں وضاحت پیش کی ''علیحدگی پسندوں کو علیحدہ سے کوئی دعوت نامہ نہیں دیا جائے گا، لیکن اگر وہ آنے اور وزیر داخلہ سے ملاقات کرنے کے خواہش مند ہیں تو انھیں خوش آمدید'' مزید وضاحت یہ کہ ''مذاکرات آئین کے دائرے میں ہوںگے''
حریت پسندوں کا استدلال تھا کہ صرف چند دن قبل بھارتی پارلیمان نے ایک قرارداد منظورکی تھی جس کے تحت بھارتی حکومت سخت موقف کی تائید کی گئی تھی اور کسی بھی سمجھوتے کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے بھارتی وزیرداخلہ کو کوئی لفٹ نہیں کرائی۔ نتیجتاً راج ناتھ سنگھ جب 6 ستمبرکو نئی دہلی واپس گئے تو بری طرح بوکھلائے ہوئے اور تلملائے ہوئے تھے۔ وہ غصے سے بے قابو ہو رہے تھے اس کے بعد میڈیا پر یہ اعلان کیا گیا کہ حریت پسند تین بڑے کشمیری رہنماؤں کو ان کے سفر پر پابندی عائد کرنے، ان کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین اور ان کی سیکیورٹی کے خاتمے کی صورت میں سزا دی جائے گی۔
راج ناتھ سنگھ نے 6 ستمبر کو ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ سخت موقف اختیارکیا جائے۔ اس کے بعد بھارتی وزیرداخلہ نے 21اگست کو ایک اجلاس طلب کیا جس میں ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس اجلاس سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ وزیر داخلہ اعتماد سازی کے کوئی بھی اقدامات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں نہ ہی وہ ربڑکی گولیاں برسانا بند کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی وہ متاثرہ علاقوں سے فوجیوں کو ہٹانے پر راضی ہیں اور نہ ہی وہ حریت رہنماؤں اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بھارتی سرکار کے پاس کشمیریوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ڈھانے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے۔
بھارتی حکومت کا سب سے بڑا حربہ یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے جذبے کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کی جائے اور ان پر ظلم و بربریت کے ایسے پہاڑ ڈھائے جائیں کہ وہ گھبراکر ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے کو تیار ہوجائیں مگر جب یہ حربہ ناکام ہوگیا تو اس نے بوکھلاکر اسے ترک کرنے کے بجائے اس کی شدت میں اضافہ کردیا۔ ہم ابھی تازہ تازہ مسقط سے وطن واپس آئے ہیں جہاں ہمیں مقبوضہ کشمیر کے ایک خاندان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس خاندان کے سربراہ کا کہناتھا کہ مقبوضہ کشمیر کا بچہ بچہ جذبۂ حریت سے سرشارہے جس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ ان کی معصوم اورکم سن بیٹی ان سے اکثر یہ سوال کرتی ہے کہ بابا ہمارا کشمیر کب بنے گا پاکستان؟ جہاں تک کشمیری حریت پسند نوجوانوں کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنے سروں پر کفن باندھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ظلم و تشدد میں اضافہ اب Back Fire کردیا ہے اور کشمیریوں کا حوصلہ کم ہونے کے بجائے بلند تر ہورہاہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جو نئی طوفانی لہر آئی ہوئی ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی جس بے شرمی اور درندگی کے ساتھ پامالی کی جارہی ہے اس کے خلاف پوری دنیا میں صدائے احتجاج بلند کی جائے اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کیا جائے۔ اس سنہری موقعے کو ہمیں ہرگز اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ لوہا اس وقت گرم ہے اور اب پورے زور سے چوٹ مارنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی اورگروہی مفادات اور مصلحتوں سے بالاتر ہوکر یک جان دو قالب بن کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں یقین ہے کہ اس نکتے پر سب ہی متفق اور متحد ہوںگے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں دست تعاون درازکرے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک جارحانہ پروپیگنڈا ہم پوری دنیا میں چلائے اور اقوام عالم کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل بروقت اور بجا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آیندہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کریںگے۔ انھوں نے بالکل صحیح کہا کہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو طاقت سے دبایا نہیں جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انشاء اﷲ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ بقول ساحرؔ
رات بھرکا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رُکے گا سویرا
رات جتنی بھی سنگین ہوگی
صبح اتنی ہی رنگین ہوگی
حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی زبردست حمایت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ خلوص دل سے وابستہ ہیں اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ تصورکرتے ہیں۔ بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر کے بے گناہ عوام پر جو اپنے حق خود ارادیت کے لیے سر دھڑکی بازی لگائے ہوئے ہیں بے پناہ مظالم ڈھارہی ہیں اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانیت سوزکارروائیاں کررہی ہیں مگر ظلم کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے اور بقول شاعر:
ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے