خاموش رہنے والی جمہوریت
ہمارے ارکان اسمبلی میں پارلیمانی تعلیم کی کمی ہے اور ایسا کوئی ادارہ ملک میں موجود نہیں ہے
قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے گزشتہ دنوں یہ اعتراف کیا تھا کہ ہمارے ارکان اسمبلی میں پارلیمانی تعلیم کی کمی ہے اور ایسا کوئی ادارہ ملک میں موجود نہیں ہے جو ارکان کو پارلیمانی تعلیم دیتا ہو۔ اس لیے ارکان اسمبلی کے لیے الگ عملہ رکھا جائے گا جو نئے ارکان کو پارلیمانی تعلیم سے روشناس کرائے گا،ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ عوام کی خواہشات کی ترجمان ہے اور ہم سب کو ملکر جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا درست ہے کیونکہ موجودہ پارلیمنٹ میں پہلی بار منتخب ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنھیں ان کی جماعتوں نے ٹکٹ دیے تھے اور وہ منتخب ہوگئے تھے ایسے نئے ارکان میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے جب کہ تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی اورجہانگیر ترین جیسے سینئر ارکان پارلیمنٹ کم ہیں خود عمران خان بھی ماضی میں صرف ایک بار منتخب ہوئے تھے اور وہ بھی وزیراعظم نواز شریف کی طرح قومی اسمبلی کے اجلاس میں کم ہی آتے ہیں حالانکہ قومی اسمبلی ہی وہ ادارہ ہے جو ملک کے وزیراعظم کا انتخاب کرتا ہے اور بعد میں اسے اپنے اعتمادکا ووٹ دیتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسمبلیوں اورکابینہ کو اہمیت نہیں دیتی۔ وہ اپنی پارٹی ہی کے ارکان کو اہمیت نہیں دیتی دیگر کو کیوں اہمیت دے گی۔ وہ کابینہ سے بالا بالا فیصلے کرتی ہے ۔ مسلم لیگ ن کے حکمران اپنی کابینہ کے اجلاس بھی بہت کم بلاتے ہیں اور اپنی اسمبلیوں میں بھی جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں میں شرکت سے گریز اور اسمبلی اجلاس میں شریک نہ ہونے کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم کا جتنا مسئلہ رہتا ہے اتنا سینیٹ اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں بھی نہیں ہوتا کیوںکہ جب قائد ایوان ہی اپنی اسمبلی میں نہیں آئیںگے تو ان کی پارٹی کے ارکان کو کیا پڑی کہ وہ اجلاسوں میں آئیں۔ جب قائد ایوان کو شاذ ونادر یا مجبوری میں آنا ہوتا ہے تو دونوں ایوانوں میں ارکان کی تعداد بڑھ جاتی ہے تاکہ وہ اپنے قائدین سے شرف ملاقات حاصل کرسکیں یا ان کی نظروں میں آسکیں۔
ہماری پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں ایسے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ایوانوں میں آکر حاضری لگاکر واپس چلے جاتے ہیں یا اگر ایوان میں آئیں تو زیادہ تر خاموش رہتے ہیں۔ ایسے ارکان زیادہ تر تالیاں بجانے والے شمار ہوتے ہیں یا ایوان میں بولنے کی بجائے خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے انھیں اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں اپنے قائدین کے سامنے خاموش رہنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اور وہ کسی بھی غلط فیصلے کی مخالفت اور قائدین کے سامنے جائز بات بولنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے کام نکلوانے پر بھرپور توجہ دیتے ہیں ۔
اس طرح کوئی ان سے ناراض ہوتا ہے اور نہ ان کی بات پارٹی قائدین کوگراں گزرتی ہے کیوںکہ حکومتی سربراہ اور تمام وزرا سب اچھا اور تعریفیں سننے کے عادی ہوچکے ہیں اور سیاسی قائدین کو خاموش رہنے والے ارکان اسمبلی پسند ہے جو اسمبلیوں ہی میں نہیں بلکہ پارٹی اجلاسوں میں بھی جان بوجھ کرخاموش رہتے ہیں اور خاموشی ہی کو بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا صرف آمریت کے دور میں ہونا چاہیے جہاں بولنے پر پابندی ہوتی ہے ہمارے جمہوریت کے نام نہاد رہنما بھی چاہتے ہیں کہ ان کی ہر بات کی تائیدکی جائے اور مخالفت کہیں نہ ہو۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا تھا ، جب ایک رکن قومی اسمبلی چوہدری اسد الرحمن نے وزیراعظم سے شکایت کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی وزیروں کا ارکان اسمبلی کے ساتھ رویہ بھی غلط اور ناروا ہوتا ہے اور وہ ارکان اسمبلی کو بھی انسان نہیں سمجھتے جس پر انھیں بیٹھنے کی ہدایت کی گئی جس پر چوہدری اسدالرحمن بھی برہم ہوگئے کہ نہ میں طالب علم ہوں اور نہ ہی کلاس روم ہے کہ مجھے سننے کی بجائے بیٹھنے کو کہاجارہاہے ۔
ارکان اسمبلی جب ایوان میں بولیںگے نہیں تو حکومت کو ان کے علاقوں کے مسائل کا پتہ کیسے چلے گا اور جب رکن اسمبلی گونگا بن کر بیٹھا رہے گا تو اس کے حلقے کے عوام کی ترجمانی کیسے ہوگی اور پارلیمنٹ کوعوام کی خواہشات کا ترجمان کیسے سمجھا جائے گا۔قومی اسمبلی کے اسپیکر نے گزشتہ دنوں متعلقہ محکمے کے سیکریٹری کے ایوان میں نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ایڈیشنل سیکریٹری کی سرزنش کی تھی کہ قومی اسمبلی کو مذاق بناکر رکھا ہوا ہے اور طلب کرنے پر بھی متعلقہ سیکریٹری نہیں آئے۔ اسپیکر نے سیکریٹری کی طرف سے آنے والے ایڈیشنل سیکریٹری کو اجلاس ختم ہونے تک ایوان میں موجود رہنے کی سزا بھی دی اور آیندہ سیکریٹری کو پیش ہونے کی بھی ہدایت کی۔
جب وزیراعظم، وزرا اور اعلیٰ بیوروکریٹس گریز کرتے ہیں اور اہمیت نہیں دیتے اور جو ارکان کسی وجہ سے آجاتے ہیں ان میں سرکاری ارکان کی اکثریت خاموش رہتی اور اپوزیشن کے جو ارکان آتے ہیں انھیں ایوان میں حکومت پر تنقید کا موقع ملتا ہے اور وہ میڈیا میں آنے کے لیے کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔ ایوان کا ایک اصول سوالیہ نشان ہے کہ 345 ممبران میں اگر پندرہ بیس ارکان بھی موجود ہوں تو وہاں کارروائی اس وقت تک جاری رکھی جاتی ہے جب تک اپوزیشن کورم کی نشاندہی نہیں کردیتی اور ممبران کی ایک مختصر تعداد ملک کے سب سے اہم ایوان میں بیس کروڑ عوام کی قسمت کے فیصلے کرتی ہے۔
قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں پر ہر ماہ کروڑوں اور سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ایسے بھی ارکان ہیں جو چھٹی لے کر برسوں اجلاس میں نہیں آتے مگر الاؤنسز کے حق دار بھی ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں کے ایسے اجلاسوں کو قومی خزانہ پر بوجھ کیوں نہ سمجھا جائے جہاں ارکان آنا پسند نہیں کرتے یا آتے ہیں تو نیند پوری کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ کیا عوام انھیں غیر حاضر رہنے اور خاموش رہنے کے لیے منتخب کرتے ہیں اس کا جواب عوام کس سے مانگیں حکومت سے یا ایسے ممبران سے؟
اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا درست ہے کیونکہ موجودہ پارلیمنٹ میں پہلی بار منتخب ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنھیں ان کی جماعتوں نے ٹکٹ دیے تھے اور وہ منتخب ہوگئے تھے ایسے نئے ارکان میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے جب کہ تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی اورجہانگیر ترین جیسے سینئر ارکان پارلیمنٹ کم ہیں خود عمران خان بھی ماضی میں صرف ایک بار منتخب ہوئے تھے اور وہ بھی وزیراعظم نواز شریف کی طرح قومی اسمبلی کے اجلاس میں کم ہی آتے ہیں حالانکہ قومی اسمبلی ہی وہ ادارہ ہے جو ملک کے وزیراعظم کا انتخاب کرتا ہے اور بعد میں اسے اپنے اعتمادکا ووٹ دیتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسمبلیوں اورکابینہ کو اہمیت نہیں دیتی۔ وہ اپنی پارٹی ہی کے ارکان کو اہمیت نہیں دیتی دیگر کو کیوں اہمیت دے گی۔ وہ کابینہ سے بالا بالا فیصلے کرتی ہے ۔ مسلم لیگ ن کے حکمران اپنی کابینہ کے اجلاس بھی بہت کم بلاتے ہیں اور اپنی اسمبلیوں میں بھی جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں میں شرکت سے گریز اور اسمبلی اجلاس میں شریک نہ ہونے کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم کا جتنا مسئلہ رہتا ہے اتنا سینیٹ اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں بھی نہیں ہوتا کیوںکہ جب قائد ایوان ہی اپنی اسمبلی میں نہیں آئیںگے تو ان کی پارٹی کے ارکان کو کیا پڑی کہ وہ اجلاسوں میں آئیں۔ جب قائد ایوان کو شاذ ونادر یا مجبوری میں آنا ہوتا ہے تو دونوں ایوانوں میں ارکان کی تعداد بڑھ جاتی ہے تاکہ وہ اپنے قائدین سے شرف ملاقات حاصل کرسکیں یا ان کی نظروں میں آسکیں۔
ہماری پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں ایسے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ایوانوں میں آکر حاضری لگاکر واپس چلے جاتے ہیں یا اگر ایوان میں آئیں تو زیادہ تر خاموش رہتے ہیں۔ ایسے ارکان زیادہ تر تالیاں بجانے والے شمار ہوتے ہیں یا ایوان میں بولنے کی بجائے خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے انھیں اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں اپنے قائدین کے سامنے خاموش رہنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اور وہ کسی بھی غلط فیصلے کی مخالفت اور قائدین کے سامنے جائز بات بولنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے کام نکلوانے پر بھرپور توجہ دیتے ہیں ۔
اس طرح کوئی ان سے ناراض ہوتا ہے اور نہ ان کی بات پارٹی قائدین کوگراں گزرتی ہے کیوںکہ حکومتی سربراہ اور تمام وزرا سب اچھا اور تعریفیں سننے کے عادی ہوچکے ہیں اور سیاسی قائدین کو خاموش رہنے والے ارکان اسمبلی پسند ہے جو اسمبلیوں ہی میں نہیں بلکہ پارٹی اجلاسوں میں بھی جان بوجھ کرخاموش رہتے ہیں اور خاموشی ہی کو بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا صرف آمریت کے دور میں ہونا چاہیے جہاں بولنے پر پابندی ہوتی ہے ہمارے جمہوریت کے نام نہاد رہنما بھی چاہتے ہیں کہ ان کی ہر بات کی تائیدکی جائے اور مخالفت کہیں نہ ہو۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا تھا ، جب ایک رکن قومی اسمبلی چوہدری اسد الرحمن نے وزیراعظم سے شکایت کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی وزیروں کا ارکان اسمبلی کے ساتھ رویہ بھی غلط اور ناروا ہوتا ہے اور وہ ارکان اسمبلی کو بھی انسان نہیں سمجھتے جس پر انھیں بیٹھنے کی ہدایت کی گئی جس پر چوہدری اسدالرحمن بھی برہم ہوگئے کہ نہ میں طالب علم ہوں اور نہ ہی کلاس روم ہے کہ مجھے سننے کی بجائے بیٹھنے کو کہاجارہاہے ۔
ارکان اسمبلی جب ایوان میں بولیںگے نہیں تو حکومت کو ان کے علاقوں کے مسائل کا پتہ کیسے چلے گا اور جب رکن اسمبلی گونگا بن کر بیٹھا رہے گا تو اس کے حلقے کے عوام کی ترجمانی کیسے ہوگی اور پارلیمنٹ کوعوام کی خواہشات کا ترجمان کیسے سمجھا جائے گا۔قومی اسمبلی کے اسپیکر نے گزشتہ دنوں متعلقہ محکمے کے سیکریٹری کے ایوان میں نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ایڈیشنل سیکریٹری کی سرزنش کی تھی کہ قومی اسمبلی کو مذاق بناکر رکھا ہوا ہے اور طلب کرنے پر بھی متعلقہ سیکریٹری نہیں آئے۔ اسپیکر نے سیکریٹری کی طرف سے آنے والے ایڈیشنل سیکریٹری کو اجلاس ختم ہونے تک ایوان میں موجود رہنے کی سزا بھی دی اور آیندہ سیکریٹری کو پیش ہونے کی بھی ہدایت کی۔
جب وزیراعظم، وزرا اور اعلیٰ بیوروکریٹس گریز کرتے ہیں اور اہمیت نہیں دیتے اور جو ارکان کسی وجہ سے آجاتے ہیں ان میں سرکاری ارکان کی اکثریت خاموش رہتی اور اپوزیشن کے جو ارکان آتے ہیں انھیں ایوان میں حکومت پر تنقید کا موقع ملتا ہے اور وہ میڈیا میں آنے کے لیے کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔ ایوان کا ایک اصول سوالیہ نشان ہے کہ 345 ممبران میں اگر پندرہ بیس ارکان بھی موجود ہوں تو وہاں کارروائی اس وقت تک جاری رکھی جاتی ہے جب تک اپوزیشن کورم کی نشاندہی نہیں کردیتی اور ممبران کی ایک مختصر تعداد ملک کے سب سے اہم ایوان میں بیس کروڑ عوام کی قسمت کے فیصلے کرتی ہے۔
قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں پر ہر ماہ کروڑوں اور سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ایسے بھی ارکان ہیں جو چھٹی لے کر برسوں اجلاس میں نہیں آتے مگر الاؤنسز کے حق دار بھی ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں کے ایسے اجلاسوں کو قومی خزانہ پر بوجھ کیوں نہ سمجھا جائے جہاں ارکان آنا پسند نہیں کرتے یا آتے ہیں تو نیند پوری کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ کیا عوام انھیں غیر حاضر رہنے اور خاموش رہنے کے لیے منتخب کرتے ہیں اس کا جواب عوام کس سے مانگیں حکومت سے یا ایسے ممبران سے؟