بھارت کا ’’پوٹھوہاری‘‘ وزیراعظم جہلم میں جنم لینے والے بھارتی حکمران کی داستان ِحیات

1997 میں ایک پوٹھوہاری اور مہاجر ہندو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بھارت کا وزیراعظم بن گیا تھا

1997 میں ایک پوٹھوہاری اور مہاجر ہندو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بھارت کا وزیراعظم بن گیا تھا : فوٹو : فائل

لاہور:
جب 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو شری اوتار نارائن گجرال پنجاب اسمبلی کے رکن تھے۔ چناں چہ وہ دیگر 19 ہندو ارکان کے ساتھ خود بخود پاکستانی شہری اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا حصہ بن گئے۔ نارائن گجرال جہلم شہر کے رہائشی اور وہاں کے مشہور وکیل تھے۔ نوجوانی میں کانگریس کے ساتھ ہوگئے اور تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ انگریز حکومت پر تنقید کرنے کے جرم میں جیل بھی گئے۔

نارائن گجرال کے دو بیٹے تھے: اندر کمار اور ستیش گجرال۔ اندر کمار 1919ء میں پیدا ہوئے اور نوجوان ہوکر کچھ عرصہ کانگریس کے رکن رہے، پھر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شامل ہوگئے۔ مشہور کمیونسٹ رہنما، دانیال لطیفی، مظہر علی خان اور طاہرہ مظہر علی ان کے ساتھیوں میں شامل تھے۔ ممکن ہے کہ فیض احمد فیض کے زیر اثر اندر کمار کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنے۔ ہیلی کالج (لاہور) میں فیض صاحب اندر کمار کے استاد رہے تھے۔ستیش گجرال نے مصّوری کو اپنایا اور آج ان کا شمار نامی بھارتی مصوروں میں ہوتا ہے۔

پنجاب کی سیاست میں نارائن گجرال اہم مقام رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ پنڈت نہرو چند بار جہلم میں ان کے گھر ٹھہرے تھے۔ مسلم رہنماؤں میں جہلم کے باسی اور مشہور مسلم لیگی رہنما، راجا غضنفر علی خان، نارائن گجرال کے گہرے دوست تھے۔ راجا صاحب کی کوششوں ہی سے نارائن گجرال نے پاکستان ٹھہرنے کا فیصلہ کیا تھا ورنہ ان کے ہندو دوستوں کی اکثریت بھارت ہجرت کر رہی تھی۔

اس دوران پنجاب میں ہندو مسلم فساد شروع ہوگیا جو پھیلتا چلا گیا۔ راولپنڈی میں جب ہندوؤں پر حملے شروع ہوئے، تو نارائن گھبرا گئے۔ انہوں نے بھی بھارت ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ چناں چہ وہ راجا صاحب کی اعانت سے بحفاظت جالندھر پہنچ گئے۔اس وقت تک اندر کمار گجرال کا کراچی میں کاروبار مستحکم ہوچکا تھا۔ وہ شہر میں ٹھیکے داری کرتے تھے۔ ان کے مسلمانوں سے قریبی و اچھے تعلقات تھے۔ اسی لیے وہ پاکستان ہی رکنا چاہتے تھے۔ مگر جب والدین بھارت منتقل ہوئے تو مجبوراً انہیں بھی ہجرت کرنا پڑی۔ وہ بیوی بچوں کو نئی دہلی لے آئے، قرول باغ میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر انہیں ٹھہرایا اور پھر واپس کراچی چلے گئے تاکہ اپنا کاروبار سمیٹ سکیں۔

کراچی میں اندر کمار کو خبر ملی کہ گاندھی جی قتل ہوگئے ہیں۔ وہ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں ''جب میں نے یہ خبر سنی، تو میں ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اردگرد بہت سے پاکستانی بیٹھے تھے۔ اکثر کے ہونٹوں پر یہی جملہ تھا ''خدا کرے قاتل مسلمان نہ ہو''۔

اندر کمار کراچی میں تھے کہ وہاں بھی فساد شروع ہوگیا۔ چناں چہ انہیں اپنا کاروبار سمیٹنے کا موقع نہ ملا اور وہ تقریباً خالی ہاتھ نئی دہلی چلے آئے۔ ان کے والدین کی زمینیں بھی جہلم میں رہ گئیں اور وہ بھی گزارے لائق سرمایہ ہی رکھتے تھے۔ یوں نارائن گجرال کا کھاتا پیتا اور امیر گھرانا اچانک دو وقت کی روٹی کا بھی محتاج ہوگیا اور زندگی مشکلات میں بسر ہونے لگی۔


پوٹھوہاری تہذیب و ثقافت میں پلنے بڑھنے کے باعث اندر کمار باہر سے نرم و نازک اور شائستہ مگر اندر سے سخت جان ومحنتی تھے۔ انہوں نے تمام مسائل کا پامردی سے مقابلہ کیا۔ ایک بار قرول باغ میں ایک ہندو تانگے والا ڈاڑھی کی وجہ سے انہیں مسلمان سمجھ بیٹھا۔ اس نے انہیں بٹھانے سے انکار کردیا۔

اندر کمار نے دہلی کے وسط میں اپنا ایک کمرے کا دفتر کھولا اور ٹھیکے داری کا کام ڈھونڈنے لگے۔ چند ماہ بعد انہیں چار کمروں کا گھر الاٹ ہوگیا۔ لیکن دو کمرے اور ایک غسل خانہ ایک بیوہ کے پاس تھا۔ باورچی خانہ مشترکہ تھا۔ اندر کمار آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ وہ بیوہ نہایت غصیلی اور جھگڑالو تھی۔ ہر وقت ہم سے لڑتی رہتی۔ اکثر میرے اعصاب شل ہوجاتے اور میں سوچتا کہ اے بھگوان، تو نے ہمیں کس ابتلا میں مبتلا کردیا۔ ہم تو تقسیم ہند کو بہت آسان سمجھے تھے، فسادات نے اسے ہولناک سانحہ بنا ڈالا۔

مسلمان دانش وروں، ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے اندر کمار روانی سے اردو بولتے تھے، حتیٰ کہ اس زبان میں شاعری بھی کرتے رہے۔ ان میں تعصب نام کو نہیں تھا۔اندر کمار کی زندگی میں نیا موڑ 1957ء میں آیا۔ تب ایک سرکاری کام کے سلسلے میں ان کی ملاقات بھارتی وزیراعظم کی دختر، اندرا گاندھی سے ہوئی۔ اندرا کو جب معلوم ہوا کہ وہ شری نارائن کے بیٹے ہیں، تو اس نے انہیں کانگریس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اندر کمار نے دعوت قبول کرلی۔ یوں وہ میدان سیاست میں داخل ہوئے اور ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے۔

1964ء میں راجیہ سبھا (بھارتی سینٹ) کے رکن بنے۔ جب 1975ء میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی تو وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ انہی دنوں ان کا وزیراعظم کے بیٹے، سنجے گاندھی سے ٹکراؤ ہوگیا۔ سنجے چاہتا تھا کہ قومی میڈیا پر سنسر شپ عائد کردی جائے۔ اصول کی سیاست کرنے والے اندر کمار گجرال نے یہ اقدام اپنانے سے انکار کردیا۔ یہ انکار بھاری ثابت ہوا۔ اندرا گاندھی نے انہیں وزیر کے عہدے سے برطرف کیا اور سفیر بناکر سویت یونین بھجوا دیا۔ اب دونوں رہنماؤں کے راستے جدا ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک انہوں نے ''جنتا دل'' میں شمولیت اختیار کرلی۔

اندر کمار المعروف آئی کے گجرال اپنی طاقت لسانی اور لفاظی سے عوام الناس کو متاثر کرنے والے سیاست دان نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنی شیریں بیانی، نرم لہجے، دوست داری اور ذہانت سے ملنے والوں کو متاثر کردیتے۔ خصوصاً ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سیاسی مخالفین کی چالوں کو قبل از وقت جان لیتے ہیں۔ان کی سیاسی خصوصیت اجاگر کرنے والے عموماً یہ اردو محاورہ اپنا کر دلی جذبات عیاں کرتے:''وہ جانتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔''

آئی کے گجرال دسمبر 1989ء تا نومبر 1990ء اور جون 1996ء تا مارچ 1998ء بھارت کے وزیر خارجہ رہے۔ اس حیثیت سے انہوں نے ''گجرال ڈاکٹرائن'' کو برصغیر میں متعارف کرایا۔ اس ڈاکٹرائن عمل کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات قائم کیے اور اختلافات کو بذریعہ مذاکرات حل کرنے پر زوردیا۔ گجرال صاحب کا کہنا تھا کہ اب بھارت اور پاکستان کا کبھی ادغام نہیں ہوسکتا لہٰذا انہیں چاہیے کہ لڑائی جھگڑا ترک کرکے اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں۔

اپریل 1997ء میں آئی کے گجرال بھارت کے بارہویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ یوں ایک پوٹھوہاری اور مہاجر ہندو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ وہ مارچ 1998ء تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ آئی کے گجرال کی تا عمر سعی رہی کہ بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات معمول پر آجائیں۔ اردو کا عاشق یہ ہندو نومبر 2012ء میں چل بسا۔
Load Next Story