میثاقِ پاکستان…… نیاعمرانی معاہدہ
7 ستمبرکو’’جنرل راحیل شریف کے نام‘‘ والا کالم شایع ہوا تو معمول سے کہیں زیادہ برقی خطوط موصول ہوئے۔
لاہور:
7 ستمبرکو''جنرل راحیل شریف کے نام'' والا کالم شایع ہوا تو معمول سے کہیں زیادہ برقی خطوط موصول ہوئے۔ زیادہ تر قارئین نے راقم کی تجاویز سے اتفاق کیا مگر چند ایک نے اختلافی نوٹ بھی لکھے چونکہ اُنہوں نے بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس لیے میں ان کے نقطہ نظر کا پورا حترام کرتاہوں ۔
سیکڑوں میلز میں سے چند ایسی بھی ہوتی ہیں جو مختلف پارٹیوں کے جیالے بھیجتے ہیں ، اگرآپ لکھیں کہ ''فوج کو سیاست میں آکر متنازعہ نہیں بنناچاہیے'' تو وہ تبصرہ فرماتے ہیں ''آپ ن لیگ کی حمایت کر رہے ہیں'' اگر آپ کرپشن کے خاتمے اوراحتساب کے موجودہ نظام کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیں توآپ کومیسج موصول ہو گا ''آپ تو پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں'' اِ ن اندھے پیروکاروں سے بحث کرنا بے سود ہے لیکن نیک نیتی سے اختلاف کرنے والوں سے مکالمہ فکر ونظر کی نئی راہیں واکرتا ہے اور قارئین قومی اُمو ر کے بارے میں Educateہوتے ہیں۔
اے ایم مالک صاحب کے علاوہ امریکا اور آسٹریلیا سے دوصاحبا ن نے لکّھا ہے کہ ایک طر ف آپ فوج کو حکومتی اُمو ر سے علیحدہ رکھناچاہتے ہیں اور دوسری طر ف انتخابی نظام ، تعلیمی نظام اور میڈیا کی اصلاح کے لیے فوج ہی سے مدد مانگ رہے ہیں ۔کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے بس ذرا گہر ی نظرسے دیکھنے کی ضرورت ہے،فوج سب سے طاقتور ادارہ ہے اور یہ پس منظر میں رہ کر بھی بہت کچھ کروا سکتا ہے، مگر سب سے پہلے آئین شکنی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے اور قوم کو اس کی یقین دہانی خود عسکری قیادت کی طر ف سے کرائی جائے کیونکہ اگر ہم ملک کو معاشی خوشحالی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو پھراُسے سیاسی عد م اِستحکام کی دلدل سے ہمیشہ کے لیے نکالناہوگا۔
اگر ملک کا سیا سی منظر نامہ ایساہو کہ کچھ سیاسی لیڈر ٹی وی پر آکر پیشگوئیاں کر رہے ہو ںکہ وزیراعظم اگلے ایک دو مہینوں میں نہیں رہے گا (یعنی اسے غیر آئینی طریقے سے ہٹا دیا جائے گا) میڈیا کے ذریعے ہر روز ایسی افواہیں گردش کررہی ہوںکہ فلاں طاقت ور ادارے کی قیادت نے منتخب وزیراعظم سے استعفٰی مانگ لیا ہے تو اس ملک میں سیاسی استحکام کہاں سے آئیگا،اوراس پر کونسی فصلِ گل اُتر ے گی؟ معاشی ترقی اور خو شحالی کے لیے ملک کو سیا سی عدم اِستحکا م سے دو چار کرنے والا ایجنڈا ترک کرناہو گا، بے یقینی کا خاتمہ کرنا ہوگا، عوام کو اگلے بیس تیس سال کا واضح روڈ میپ نظر آنا چاہیے اسی سے ملک میں معاشی ترقی کے گلستان کھلیں گے۔
اس کے بعد اہم ترین قومی اُمور کے بارے میں کچھ بُنیادی فیصلے کرناہو نگے، اس ضمن میں راقم نے تحریر کیا ہے کہ احتساب کے نظام کو موثّر ، شفاف اورقوم کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے موجودہ طریقہء کار تبدیل کردیا جائے، یہ ادارے عوامی اعتماد سے اس لیے محروم ہیں کہ حکومت کے مکمّل کنٹرول میں ہیںاورحکومت کی ہدایات اور خواہشات کے مطابق کام کرتے ہیں اس لیے کئی ملکوں کیطرح احتساب کے ذمّہ دار اداروں کو حکومتی کنٹرول سے نکال لیا جائے یہ تبدیلی فوج کی پسِ پردہ مدد سے ہی ممکن ہے ، اس کے علاوہ راقم نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ اسمبلیوں کے راستے میں ایسی رُکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور ایسے سخت بَیریئر نصب کیے جائیں،کہ لٹیرے اور بد کردار اشخاص اسمبلیوں تک پہنچ ہی نہ سکیں اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی پروسیس کو پاکیزہ بنایا جائے، پورے سیاسی اور انتخابی نظام کی Purification کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62, اور 63 کا سختی سے) Ruthlessly)اطلاق کیا جائے ۔
موجودہ انتخابی سیاست سے صرف ممبرانِ اسمبلی ہی فیضیاب ہورہے ہیں ، بہت سے ممبران جو 1985کے الیکشن میں دو ایکڑ کے مالک تھے چار پانچ انتخابات کے بعد وہ آج دو ہزار ایکڑ کے علاوہ کئی ملوں اور پٹرول پمپوں کے مالک بن چکے ہیں۔ نوّے فیصد ممبران ترقیاتی فنڈز میں اپناکمیشن کام شروع ہونے سے پہلے وصول کر لیتے ہیں، کچھ علاقوں میں تو زمین پر ایک اینٹ لگائے بغیر کروڑوں کا فنڈ معزز ممبران ہضم کر جاتے ہیں ۔تو کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے؟ کیا عوام ایسی جمہوریت سے مطمئن ہیں جو Democracy کے بجائے صرف Electocracy بن کر رہ گئی ہے؟ ہر گز نہیں ! عوام دل سے چاہتے ہیں کہ ان کے نمایندے ترقیاتی فنڈز میں کمیشن کھانے والے نہ ہوں،وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نما یندے راشی اور حرام خور نہ ہوں بلکہ بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار صاف ستھرے کردار کے مالک ہوں ، ایسا یقینی بنانے کے لیے سیاسی، عسکری، عدالتی اور میڈیا کی قیادت کے اتفاق (Consensus)سے ایک نئے عمرانی معاہدے (سوشل کنٹریکٹ) یا ایک نئے میثاقِ پاکستان کی ضرورت ہے ۔
بدقسمتی سے آج اس ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا مطمیع نظر صرف اور صرف الیکشن جیتنا ہے، اس لیے بے دریغ پیسہ لُٹانے اور بدمعاشی سے ووٹوں کو مرعوب کرنے کی صلاحیّت رکھنے والے ' Electables' ہر پارٹی قیادت کے فیورٹ ہیں دیانتدارانہ زندگی گزارنے والے اوربے داغ کردار کے مالک افراد سیاست کے لیے اَن فٹ سمجھے جاتے ہیں۔ موجودہ انتخابی سیاست میں وہی "کامیاب" سمجھے جاتے ہیں اور وہی قیادت کے منظورِنظر ہوتے ہیں جو الیکشن پر کروڑوںروپے خرچ کرتے ہیں اورمنتخب ہو کر اس سے کئی گنا زیادہ کماتے ہیں، اس ناپاک انتخابی نظام کو بدلنے اور Purify کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اور صرف آرٹیکلز 62 اور63 کے مؤثّراستعمال سے ہی ممکن ہے الیکشن کمیشن میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کر سکیں اور داغدار اور بدکردار لوگوں کا پارلیمنٹ میں داخلہ روک سکیں ،یہ کام فوج ہی کرواسکتی ہے لہذا فوج کی سپورٹ سے عدلیہ کوان آرٹیکلزپر مکمل عملدارآمد کرانا چاہیے اور کسی ایسے شخص کے کاغذات نامزدگی منظور نہیں ہو نے چاہیں جو آئین کے دفعات62, اور63 کی زد میں آتا ہو۔
فوج نے ماضی میں بھی پسِ پردہ رہ کر بہت سے اہم کام کروائے ہیں اوراب بھی فیصلہ سازوں پر دباؤ ڈالکر کام کرانے کی سب سے زیادہ صلاحیّت اور طاقت فوج ہی کے پاس ہے، فوج کے دباؤ سے ہی دہشت گردی کے خلاف تمام پارٹیاں یکسو ہو ئی ہیں،چند سال پہلے ججوں کی بحالی کے لیے میاں نواز شریف کی قیادت میں اسلام آبا د کی طر ف بڑھنے والے جلوس کا بڑا اہم کردار تھا،مگر اس کے بعدآصف زارداری پر آرمی چیف جنرل کیا نی کے دباؤ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ، اسی طرح کون نہیں جانتا کہ جنر ل مشرف کے خلاف مقدمات میں حکومتی پالیسی کو فوج کے دباؤ نے تبدیل کرایاہے ۔
جس طرح اپنے ادارے کی عزّت یا مفادکے لیے دباؤ ڈال کر فو ج اہم فیصلے کروالیتی ہے اسی طرح ملک کی عزّت اور مفادکی خاطر بھی اسے کچھ اہم فیصلے کروانے چاہییں ۔پاکستان کی نئی نسل کو کیا پڑھایا جائے کہ وہ بانیانِ پاکستا ن کے وژن کے مطابق پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کی قابل ہو سکیں اس کے لیے کو نسا تعلیمی نصاب تشکیل دیا جائے یہ فیصلہ کسی علاقے کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا ، یہ اہم ترین فیصلہ ریاستوں کے نظر یاتی راہنما کیاکرتے ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اہلکاروں کو اس کی اہمّیت اور حساسیّت کا ادراک نہیں ہے۔
اس لیے ملکی مفاد کے پیشِ نظر فوج کو ہی دباؤ ڈالکر قومی اُمنگوں کے مطابق یکساں نصاب کا فیصلہ کروانا ہوگا۔پرائیویٹ میڈیا بے مہار ہو چکا ہے، پاکستان شایدواحد ملک ہے جہاں ٹی وی پر آکر جسکے منہ میں جو آئے بول دیتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، ایک بڑے چینل کا بھانڈ پروگرام تو بھارت کے ایکٹروں ،ایکٹریسوں اور بھارتی فلموں کی پبلِسٹی کا ذریعہ بناہواہے۔ اینکر اتنے غلامانہ انداز میں دشمن ملک کے اداکاروں کا ذکر کرتے ہیں جیسے یہ اُنکے تنخواہ دار غلام ہوں اِسی غلامانہ سر شاری کے عالم میںخاتون اینکرکہہ رہی تھی ''موسیقی میں کوئی پاکستان ہندوستان نہیں ہے'' احساسِ کمتری کی ماری ہوئی اس لڑکی کو کون سمجھائے کہ موسیقی، اداکاری یا کھیل تماشے ہماری شناخت ، پہچان ، اور ہمارے سائبان پاکستان سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
پرائیویٹ میڈیاایک ایجنڈے کے تحت کنفیوژن، احساس ِ کمتری اور ہندو کلچر پھیلارہاہے، انھی چینلوں پر خود قیام پاکستان اور بانیانِ وطن کے بارے میں لغو اور بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں اور کوئی گرفت نہیں کرتا،چینلوں کو ایسی بیہودگی سے روکنا اور اینکروں کو Sensitise کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ پیمرا ایک بے بس سا ادارہ ہے۔عملی طور پر ہم بھارت کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اس کے باوجود ہر چینل بھارتی فلمیں اور بھارتی پروگرام دھڑلے سے دکھا رہا ہے، اس بے حسی کو صرف فوج کاڈراور ڈنڈا ہی روک سکتا ہے۔بھارت اور افغانستان دونوں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے گڑھ بنے ہوئے ہیں ، اس لیے ان دونوں ملکوں سے تعلقات کے بارے میں کوئی بھی پالیسی ملٹری قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر ہر گز نہیں بننی چاہیے۔مجوزّہ میثاقِ پاکستان کے لیے مقتدر اداروں کے سربراہان کا اجلاس کہاں ہو اور کیا یہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ ایسا بالکل ممکن ہے یہ ا جلاس صدرِ مملکت ایوان صدر میں بلائیں اوراس میں طے ہونے والے اُمور ریاستی پالیسیوں کے لیے بنیاداو ر مستقبل کے لیے گائیڈ لائنزقرار پائیں ۔
اگر پس منظر میں رہ کر فوج احتساب اور انتخاب کا نظام ٹھیک کرادے اور تعلیم اور میڈیا کی سمت درست کرادے تو یہ ملک پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ یہ ضر بِ عضب سے کہیں بڑا کارنامہ ہوگا ۔
7 ستمبرکو''جنرل راحیل شریف کے نام'' والا کالم شایع ہوا تو معمول سے کہیں زیادہ برقی خطوط موصول ہوئے۔ زیادہ تر قارئین نے راقم کی تجاویز سے اتفاق کیا مگر چند ایک نے اختلافی نوٹ بھی لکھے چونکہ اُنہوں نے بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس لیے میں ان کے نقطہ نظر کا پورا حترام کرتاہوں ۔
سیکڑوں میلز میں سے چند ایسی بھی ہوتی ہیں جو مختلف پارٹیوں کے جیالے بھیجتے ہیں ، اگرآپ لکھیں کہ ''فوج کو سیاست میں آکر متنازعہ نہیں بنناچاہیے'' تو وہ تبصرہ فرماتے ہیں ''آپ ن لیگ کی حمایت کر رہے ہیں'' اگر آپ کرپشن کے خاتمے اوراحتساب کے موجودہ نظام کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیں توآپ کومیسج موصول ہو گا ''آپ تو پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں'' اِ ن اندھے پیروکاروں سے بحث کرنا بے سود ہے لیکن نیک نیتی سے اختلاف کرنے والوں سے مکالمہ فکر ونظر کی نئی راہیں واکرتا ہے اور قارئین قومی اُمو ر کے بارے میں Educateہوتے ہیں۔
اے ایم مالک صاحب کے علاوہ امریکا اور آسٹریلیا سے دوصاحبا ن نے لکّھا ہے کہ ایک طر ف آپ فوج کو حکومتی اُمو ر سے علیحدہ رکھناچاہتے ہیں اور دوسری طر ف انتخابی نظام ، تعلیمی نظام اور میڈیا کی اصلاح کے لیے فوج ہی سے مدد مانگ رہے ہیں ۔کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے بس ذرا گہر ی نظرسے دیکھنے کی ضرورت ہے،فوج سب سے طاقتور ادارہ ہے اور یہ پس منظر میں رہ کر بھی بہت کچھ کروا سکتا ہے، مگر سب سے پہلے آئین شکنی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے اور قوم کو اس کی یقین دہانی خود عسکری قیادت کی طر ف سے کرائی جائے کیونکہ اگر ہم ملک کو معاشی خوشحالی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو پھراُسے سیاسی عد م اِستحکام کی دلدل سے ہمیشہ کے لیے نکالناہوگا۔
اگر ملک کا سیا سی منظر نامہ ایساہو کہ کچھ سیاسی لیڈر ٹی وی پر آکر پیشگوئیاں کر رہے ہو ںکہ وزیراعظم اگلے ایک دو مہینوں میں نہیں رہے گا (یعنی اسے غیر آئینی طریقے سے ہٹا دیا جائے گا) میڈیا کے ذریعے ہر روز ایسی افواہیں گردش کررہی ہوںکہ فلاں طاقت ور ادارے کی قیادت نے منتخب وزیراعظم سے استعفٰی مانگ لیا ہے تو اس ملک میں سیاسی استحکام کہاں سے آئیگا،اوراس پر کونسی فصلِ گل اُتر ے گی؟ معاشی ترقی اور خو شحالی کے لیے ملک کو سیا سی عدم اِستحکا م سے دو چار کرنے والا ایجنڈا ترک کرناہو گا، بے یقینی کا خاتمہ کرنا ہوگا، عوام کو اگلے بیس تیس سال کا واضح روڈ میپ نظر آنا چاہیے اسی سے ملک میں معاشی ترقی کے گلستان کھلیں گے۔
اس کے بعد اہم ترین قومی اُمور کے بارے میں کچھ بُنیادی فیصلے کرناہو نگے، اس ضمن میں راقم نے تحریر کیا ہے کہ احتساب کے نظام کو موثّر ، شفاف اورقوم کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے موجودہ طریقہء کار تبدیل کردیا جائے، یہ ادارے عوامی اعتماد سے اس لیے محروم ہیں کہ حکومت کے مکمّل کنٹرول میں ہیںاورحکومت کی ہدایات اور خواہشات کے مطابق کام کرتے ہیں اس لیے کئی ملکوں کیطرح احتساب کے ذمّہ دار اداروں کو حکومتی کنٹرول سے نکال لیا جائے یہ تبدیلی فوج کی پسِ پردہ مدد سے ہی ممکن ہے ، اس کے علاوہ راقم نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ اسمبلیوں کے راستے میں ایسی رُکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور ایسے سخت بَیریئر نصب کیے جائیں،کہ لٹیرے اور بد کردار اشخاص اسمبلیوں تک پہنچ ہی نہ سکیں اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی پروسیس کو پاکیزہ بنایا جائے، پورے سیاسی اور انتخابی نظام کی Purification کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62, اور 63 کا سختی سے) Ruthlessly)اطلاق کیا جائے ۔
موجودہ انتخابی سیاست سے صرف ممبرانِ اسمبلی ہی فیضیاب ہورہے ہیں ، بہت سے ممبران جو 1985کے الیکشن میں دو ایکڑ کے مالک تھے چار پانچ انتخابات کے بعد وہ آج دو ہزار ایکڑ کے علاوہ کئی ملوں اور پٹرول پمپوں کے مالک بن چکے ہیں۔ نوّے فیصد ممبران ترقیاتی فنڈز میں اپناکمیشن کام شروع ہونے سے پہلے وصول کر لیتے ہیں، کچھ علاقوں میں تو زمین پر ایک اینٹ لگائے بغیر کروڑوں کا فنڈ معزز ممبران ہضم کر جاتے ہیں ۔تو کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے؟ کیا عوام ایسی جمہوریت سے مطمئن ہیں جو Democracy کے بجائے صرف Electocracy بن کر رہ گئی ہے؟ ہر گز نہیں ! عوام دل سے چاہتے ہیں کہ ان کے نمایندے ترقیاتی فنڈز میں کمیشن کھانے والے نہ ہوں،وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نما یندے راشی اور حرام خور نہ ہوں بلکہ بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار صاف ستھرے کردار کے مالک ہوں ، ایسا یقینی بنانے کے لیے سیاسی، عسکری، عدالتی اور میڈیا کی قیادت کے اتفاق (Consensus)سے ایک نئے عمرانی معاہدے (سوشل کنٹریکٹ) یا ایک نئے میثاقِ پاکستان کی ضرورت ہے ۔
بدقسمتی سے آج اس ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا مطمیع نظر صرف اور صرف الیکشن جیتنا ہے، اس لیے بے دریغ پیسہ لُٹانے اور بدمعاشی سے ووٹوں کو مرعوب کرنے کی صلاحیّت رکھنے والے ' Electables' ہر پارٹی قیادت کے فیورٹ ہیں دیانتدارانہ زندگی گزارنے والے اوربے داغ کردار کے مالک افراد سیاست کے لیے اَن فٹ سمجھے جاتے ہیں۔ موجودہ انتخابی سیاست میں وہی "کامیاب" سمجھے جاتے ہیں اور وہی قیادت کے منظورِنظر ہوتے ہیں جو الیکشن پر کروڑوںروپے خرچ کرتے ہیں اورمنتخب ہو کر اس سے کئی گنا زیادہ کماتے ہیں، اس ناپاک انتخابی نظام کو بدلنے اور Purify کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اور صرف آرٹیکلز 62 اور63 کے مؤثّراستعمال سے ہی ممکن ہے الیکشن کمیشن میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کر سکیں اور داغدار اور بدکردار لوگوں کا پارلیمنٹ میں داخلہ روک سکیں ،یہ کام فوج ہی کرواسکتی ہے لہذا فوج کی سپورٹ سے عدلیہ کوان آرٹیکلزپر مکمل عملدارآمد کرانا چاہیے اور کسی ایسے شخص کے کاغذات نامزدگی منظور نہیں ہو نے چاہیں جو آئین کے دفعات62, اور63 کی زد میں آتا ہو۔
فوج نے ماضی میں بھی پسِ پردہ رہ کر بہت سے اہم کام کروائے ہیں اوراب بھی فیصلہ سازوں پر دباؤ ڈالکر کام کرانے کی سب سے زیادہ صلاحیّت اور طاقت فوج ہی کے پاس ہے، فوج کے دباؤ سے ہی دہشت گردی کے خلاف تمام پارٹیاں یکسو ہو ئی ہیں،چند سال پہلے ججوں کی بحالی کے لیے میاں نواز شریف کی قیادت میں اسلام آبا د کی طر ف بڑھنے والے جلوس کا بڑا اہم کردار تھا،مگر اس کے بعدآصف زارداری پر آرمی چیف جنرل کیا نی کے دباؤ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ، اسی طرح کون نہیں جانتا کہ جنر ل مشرف کے خلاف مقدمات میں حکومتی پالیسی کو فوج کے دباؤ نے تبدیل کرایاہے ۔
جس طرح اپنے ادارے کی عزّت یا مفادکے لیے دباؤ ڈال کر فو ج اہم فیصلے کروالیتی ہے اسی طرح ملک کی عزّت اور مفادکی خاطر بھی اسے کچھ اہم فیصلے کروانے چاہییں ۔پاکستان کی نئی نسل کو کیا پڑھایا جائے کہ وہ بانیانِ پاکستا ن کے وژن کے مطابق پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کی قابل ہو سکیں اس کے لیے کو نسا تعلیمی نصاب تشکیل دیا جائے یہ فیصلہ کسی علاقے کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا ، یہ اہم ترین فیصلہ ریاستوں کے نظر یاتی راہنما کیاکرتے ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اہلکاروں کو اس کی اہمّیت اور حساسیّت کا ادراک نہیں ہے۔
اس لیے ملکی مفاد کے پیشِ نظر فوج کو ہی دباؤ ڈالکر قومی اُمنگوں کے مطابق یکساں نصاب کا فیصلہ کروانا ہوگا۔پرائیویٹ میڈیا بے مہار ہو چکا ہے، پاکستان شایدواحد ملک ہے جہاں ٹی وی پر آکر جسکے منہ میں جو آئے بول دیتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، ایک بڑے چینل کا بھانڈ پروگرام تو بھارت کے ایکٹروں ،ایکٹریسوں اور بھارتی فلموں کی پبلِسٹی کا ذریعہ بناہواہے۔ اینکر اتنے غلامانہ انداز میں دشمن ملک کے اداکاروں کا ذکر کرتے ہیں جیسے یہ اُنکے تنخواہ دار غلام ہوں اِسی غلامانہ سر شاری کے عالم میںخاتون اینکرکہہ رہی تھی ''موسیقی میں کوئی پاکستان ہندوستان نہیں ہے'' احساسِ کمتری کی ماری ہوئی اس لڑکی کو کون سمجھائے کہ موسیقی، اداکاری یا کھیل تماشے ہماری شناخت ، پہچان ، اور ہمارے سائبان پاکستان سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
پرائیویٹ میڈیاایک ایجنڈے کے تحت کنفیوژن، احساس ِ کمتری اور ہندو کلچر پھیلارہاہے، انھی چینلوں پر خود قیام پاکستان اور بانیانِ وطن کے بارے میں لغو اور بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں اور کوئی گرفت نہیں کرتا،چینلوں کو ایسی بیہودگی سے روکنا اور اینکروں کو Sensitise کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ پیمرا ایک بے بس سا ادارہ ہے۔عملی طور پر ہم بھارت کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اس کے باوجود ہر چینل بھارتی فلمیں اور بھارتی پروگرام دھڑلے سے دکھا رہا ہے، اس بے حسی کو صرف فوج کاڈراور ڈنڈا ہی روک سکتا ہے۔بھارت اور افغانستان دونوں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے گڑھ بنے ہوئے ہیں ، اس لیے ان دونوں ملکوں سے تعلقات کے بارے میں کوئی بھی پالیسی ملٹری قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر ہر گز نہیں بننی چاہیے۔مجوزّہ میثاقِ پاکستان کے لیے مقتدر اداروں کے سربراہان کا اجلاس کہاں ہو اور کیا یہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ ایسا بالکل ممکن ہے یہ ا جلاس صدرِ مملکت ایوان صدر میں بلائیں اوراس میں طے ہونے والے اُمور ریاستی پالیسیوں کے لیے بنیاداو ر مستقبل کے لیے گائیڈ لائنزقرار پائیں ۔
اگر پس منظر میں رہ کر فوج احتساب اور انتخاب کا نظام ٹھیک کرادے اور تعلیم اور میڈیا کی سمت درست کرادے تو یہ ملک پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ یہ ضر بِ عضب سے کہیں بڑا کارنامہ ہوگا ۔