ہماری خانقاہ
خانقاہ کی یہ ایک الگ دنیا ہے جس کو آباد کرنے کی کوشش کرنے والے گزر چکے ہیں
وقت تیزی سے گزر رہا ہے یا میں اس کا فیصلہ نہ کوئی میرا دوست کر سکتا ہے اور نہ میں خود۔ سب کچھ تیزی کے ساتھ گزرتا چلا جا رہا ہے اور کوئی مڑ کر نہیں دیکھتا کہ وہ اپنے پیچھے کیا چھوڑ کر آیا ہے اور کیا کچھ چھوڑنے والا ہے۔ میں ذاتی طور پر جب کبھی کچھ یاد کرتا ہوں تو اپنی ہمت پر تعجب ہوتا ہے کہ میں کتنا کچھ چھوڑ چکا ہوں اور پھر بھی زندہ ہوں۔ ہماری محدود سی دیہی سوسائٹی میں میرا کتنا کچھ تھا جو اب موجود نہیں ہے۔ وادی سون کے ایک نامور خاندان کا فرد تھا لیکن اب یہ خاندان بکھر چکا ہے۔
اب کہیں آتے جاتے مجھے لوگ نظروں میں لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے سب سے چھوٹا مگر سب سے آخری۔ اس کے بھائی جا چکے ہیں۔ صرف نام رہ گیا ہے۔ الیکشن ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کا بیٹا امیدوار ہے اسے ووٹ کیسے نہ دیں۔ میں لاہور کے اجنبی شہر میں دیکھتا تھا کہ میرے گھر کے باہر ایک صاحب سفید پگڑی کے ساتھ سامنے کی دیوار پر بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ میں انھیں سلام کر دیتا تھا ایک دن وہ کہنے لگے کہ وہ کہیں جا رہے ہیں اور اب ان سے ملاقات نہیں ہو گی۔
وہ ہر صبح میرے گھر کے سامنے کی دیوار پر اس لیے بیٹھ جاتے تھے کہ ان کے بقول وہ اپنے علاقے کے فلاں آدمی کے بیٹے کو ہر روز دیکھ سکیں اب ان کے اپنے بیٹے کی ملازمت کا تبادلہ ہو گیا ہے جس کے پاس وہ رہتے تھے۔ خدا حافظ۔ پھر انھوں نے دیہی زندگی اور ہمارے ساتھ تعلق کے چند حیران کن واقعات سنائے جو اب میرے خاندان کے لیے بھی تاریخ ہیں۔ بلاشبہ وقت بہت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے اور نئی نسل اس تیزی میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ میں اب اس سے زیادہ کچھ عرض نہیں کروں گا کہ یہ خود ستائی کے ضمن میں آ جاتا ہے اور جو لوگ اس کے حقدار تھے وہ اب جا چکے ہیں۔
ان کی اولادیں منہ میں انگلی دبا کر اپنے بزرگوں کے واقعات سنتی ہے اور تعجب کرتی ہے۔ دنیا بالکل بدل گئی ہے اور کیسے بدلی ہے اس کے پرانے اور نئے رنگ کیا ہیں ان سب کا ذکر کچھ لوگوں کی تاریخ بن چکا ہے جو اب اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔ میں کبھی کبھی چاہتا ہوں کہ دیہی زندگی کے بڑے لوگوں کا ذکر بھی کروں لیکن اس ذکر میں اب کچھ لطف نہیں ہے کہ ان بڑے لوگوں کی اولاد بھی اپنے بزرگوں سے واقف نہیں ہے یا انھیں بھولتی جا رہی ہے۔ اب ان کو بھول جانا ہی بہتر ہے کہ اس نئی نسل کا اپنے بزرگوں سے بھی واجبی سا تعلق رہ گیا ہے۔ ان سے زیادہ تو یہ بڑے لوگ ان کو زیادہ یاد ہیں جن کا ان کے ساتھ تعلق سماجی زندگی کا ہے اور وہ اپنے بزرگوں کے طفیل ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔
چند دن ہوئے ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ باتوں باتوں میں ان سے تعارف ہو گیا اور یہ تعارف ہوتے ہی وہ اپنی بزرگانہ نشست سے اچھل کر نیچے اترے۔ مجھ سے معافی طلب کی اور میری حیرت کو دیکھ کر کہا کہ وہ ہمارے بزرگوں کے عقیدت مند ہیں اور میں چونکہ ان کی اولاد ہوں اس لیے وہ میرا بے حد احترام کر رہے ہیں۔ پھر یہ مٹھہ ٹوانہ میں ہمارے بزرگوں کی خانقاہ کا ذکر بے حد عقیدت کے ساتھ کرتے رہے۔
ان بزرگوں کے مزاروں پر اپنی حاضری کا حوالہ دیتے رہے اور بتاتے رہے کہ ملک عمر حیات ٹوانہ کس قدر عقیدت مند تھے اور خانقاہ کی مٹی کو اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ بیٹے خضر حیات کو کئی بار برکت کے لیے خانقاہ پر لے جاتے رہے۔ مٹھہ ٹوانہ کے نون اور ٹوانے دربار میاں اطہر سلطان کے عقیدت مند تھے اور اس دربار کی خوشہ چینی کو انتہائی بابرکت سمجھتے تھے۔ ان دنوں میاں کمال الدین دربار کی خدمت ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ مٹھہ ٹوانہ کی اس خانقاہ پر جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کچھ صوفی اور درویش رہنمائی کا فرض ادا کرتے رہے اور یہ فیض در و دیوار سے اب تک منعکس ہوتا رہتا ہے۔
اس خانقاہ میں کئی چھوٹی بڑی عمارتیں ہیں جو درویشوں مریدوں اور عقیدت کیش عوام کے آرام کے لیے ہیں اور جہاں قیام بھی کیا جاتا ہے۔ خانقاہ کی یہ ایک الگ دنیا ہے جس کو آباد کرنے کی کوشش کرنے والے گزر چکے ہیں لیکن اس کو آباد رکھنے والے اب بھی مطلوب ہیں اور یہاں سے فیض پانے والوں کے لیے راستے کھلے ہیں۔ یہ عمارت بلکہ دور دور تک پھیلی ہوئی عمارت ان لوگوں کی نشانی ہے جنہوں نے زندگیاں کسی نیک مقصد کے لیے وقف کر رکھی تھیں اور اب ان کا نام لینے والے اس مقصد کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں۔ روایت ہے کہ جو بھی اس خانقاہ اور درگاہ پر حاضر ہوا خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ اب یہ اس کی ہمت ہے کہ اس کی جھولی کتنی بڑی ہے۔ ہماری خانقاہ کا فیض کھلا اور عام ہے۔
اب کہیں آتے جاتے مجھے لوگ نظروں میں لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے سب سے چھوٹا مگر سب سے آخری۔ اس کے بھائی جا چکے ہیں۔ صرف نام رہ گیا ہے۔ الیکشن ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کا بیٹا امیدوار ہے اسے ووٹ کیسے نہ دیں۔ میں لاہور کے اجنبی شہر میں دیکھتا تھا کہ میرے گھر کے باہر ایک صاحب سفید پگڑی کے ساتھ سامنے کی دیوار پر بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ میں انھیں سلام کر دیتا تھا ایک دن وہ کہنے لگے کہ وہ کہیں جا رہے ہیں اور اب ان سے ملاقات نہیں ہو گی۔
وہ ہر صبح میرے گھر کے سامنے کی دیوار پر اس لیے بیٹھ جاتے تھے کہ ان کے بقول وہ اپنے علاقے کے فلاں آدمی کے بیٹے کو ہر روز دیکھ سکیں اب ان کے اپنے بیٹے کی ملازمت کا تبادلہ ہو گیا ہے جس کے پاس وہ رہتے تھے۔ خدا حافظ۔ پھر انھوں نے دیہی زندگی اور ہمارے ساتھ تعلق کے چند حیران کن واقعات سنائے جو اب میرے خاندان کے لیے بھی تاریخ ہیں۔ بلاشبہ وقت بہت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے اور نئی نسل اس تیزی میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ میں اب اس سے زیادہ کچھ عرض نہیں کروں گا کہ یہ خود ستائی کے ضمن میں آ جاتا ہے اور جو لوگ اس کے حقدار تھے وہ اب جا چکے ہیں۔
ان کی اولادیں منہ میں انگلی دبا کر اپنے بزرگوں کے واقعات سنتی ہے اور تعجب کرتی ہے۔ دنیا بالکل بدل گئی ہے اور کیسے بدلی ہے اس کے پرانے اور نئے رنگ کیا ہیں ان سب کا ذکر کچھ لوگوں کی تاریخ بن چکا ہے جو اب اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔ میں کبھی کبھی چاہتا ہوں کہ دیہی زندگی کے بڑے لوگوں کا ذکر بھی کروں لیکن اس ذکر میں اب کچھ لطف نہیں ہے کہ ان بڑے لوگوں کی اولاد بھی اپنے بزرگوں سے واقف نہیں ہے یا انھیں بھولتی جا رہی ہے۔ اب ان کو بھول جانا ہی بہتر ہے کہ اس نئی نسل کا اپنے بزرگوں سے بھی واجبی سا تعلق رہ گیا ہے۔ ان سے زیادہ تو یہ بڑے لوگ ان کو زیادہ یاد ہیں جن کا ان کے ساتھ تعلق سماجی زندگی کا ہے اور وہ اپنے بزرگوں کے طفیل ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔
چند دن ہوئے ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ باتوں باتوں میں ان سے تعارف ہو گیا اور یہ تعارف ہوتے ہی وہ اپنی بزرگانہ نشست سے اچھل کر نیچے اترے۔ مجھ سے معافی طلب کی اور میری حیرت کو دیکھ کر کہا کہ وہ ہمارے بزرگوں کے عقیدت مند ہیں اور میں چونکہ ان کی اولاد ہوں اس لیے وہ میرا بے حد احترام کر رہے ہیں۔ پھر یہ مٹھہ ٹوانہ میں ہمارے بزرگوں کی خانقاہ کا ذکر بے حد عقیدت کے ساتھ کرتے رہے۔
ان بزرگوں کے مزاروں پر اپنی حاضری کا حوالہ دیتے رہے اور بتاتے رہے کہ ملک عمر حیات ٹوانہ کس قدر عقیدت مند تھے اور خانقاہ کی مٹی کو اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ بیٹے خضر حیات کو کئی بار برکت کے لیے خانقاہ پر لے جاتے رہے۔ مٹھہ ٹوانہ کے نون اور ٹوانے دربار میاں اطہر سلطان کے عقیدت مند تھے اور اس دربار کی خوشہ چینی کو انتہائی بابرکت سمجھتے تھے۔ ان دنوں میاں کمال الدین دربار کی خدمت ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ مٹھہ ٹوانہ کی اس خانقاہ پر جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کچھ صوفی اور درویش رہنمائی کا فرض ادا کرتے رہے اور یہ فیض در و دیوار سے اب تک منعکس ہوتا رہتا ہے۔
اس خانقاہ میں کئی چھوٹی بڑی عمارتیں ہیں جو درویشوں مریدوں اور عقیدت کیش عوام کے آرام کے لیے ہیں اور جہاں قیام بھی کیا جاتا ہے۔ خانقاہ کی یہ ایک الگ دنیا ہے جس کو آباد کرنے کی کوشش کرنے والے گزر چکے ہیں لیکن اس کو آباد رکھنے والے اب بھی مطلوب ہیں اور یہاں سے فیض پانے والوں کے لیے راستے کھلے ہیں۔ یہ عمارت بلکہ دور دور تک پھیلی ہوئی عمارت ان لوگوں کی نشانی ہے جنہوں نے زندگیاں کسی نیک مقصد کے لیے وقف کر رکھی تھیں اور اب ان کا نام لینے والے اس مقصد کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں۔ روایت ہے کہ جو بھی اس خانقاہ اور درگاہ پر حاضر ہوا خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ اب یہ اس کی ہمت ہے کہ اس کی جھولی کتنی بڑی ہے۔ ہماری خانقاہ کا فیض کھلا اور عام ہے۔