عقل وشعوردکھاوے اور حرص وہوس کے تابع
تحریک انصاف جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو انصاف دلانے کی کوئی تحریک ہے
گزشتہ ہفتے ہم نے جب ٹی وی پر لاہور شہر کی خبریں دیکھیں کہ کس طرح تحریک انصاف کی جانب سے جلسے جلوس اور مظاہرے ہوئے اور انتظامیہ کی جانب سے کس قدر اہم اقدامات ہوئے کہ شہریوں کو اسپتال تک پہنچنا مشکل ہو گیا اور ان کے پیارے راستے ہی میں دم توڑ گئے، تو ہمیں احساس ہوا کہ کراچی جیسا میگا سٹی ہو یا ملک کا کوئی اورشہر تمام جگہوں پر ایسے مظاہر موجود ہیں کہ جن پر عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو انصاف دلانے کی کوئی تحریک ہے لیکن یہ عجیب انصاف ہے کہ اپنے جلسے، جلوس اور احتجاج کے نام پرعوام کے راستے ہی بند کر دیے جائیں۔لاہور کے احتجاج کے بعد اس جماعت کے ایک رہنما نے کراچی کی ایک بڑی اورمصروف شاہراہ پر لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے گھنٹوں ٹریفک جام کر دیا جس سے ایک مریض بروقت اسپتال نہ پہنچ سکا اور فوت ہو گیا۔ یہاں تحریک انصاف پارٹی کا نام صرف مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے ورنہ تو تقریباً سب کا ہی ایک جیسا حال ہے۔
خطر ناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا کام عوام کی رہنمائی کرنا اوران کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے اگر وہی عقل وشعور کے برعکس الٹے کام کریں تو عوام بھلا ان کے پیچھے کیسے رہیں گے؟ چنانچہ اب صبح وشام ایسے مظاہر عام ہیں کہ جب عقل اس بات پر حیران رہ جاتی ہے کہ لوگ اپنے مسائل بجائے خود حل کرنے کے ان میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست نے اس عید پر ہم سے شکایت کی کہ جناب یہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ قربانی کے لیے ایک جانور خرید کر اپنے دروازے کے آگے باندھتے ہیں مگر راستے کو بھی بندکردیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ ہم سے ملنے کے لیے آئے تو راستے میں شاہراہوں پر ٹریفک جام اس لیے تھا کہ لوگ جلد بازی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے بے صبری کا مظاہرہ کررہے تھے اور ان کی اس غلط حرکت سے ٹریفک کی روانی مزید مشکل تر ہو رہی تھی،اس کے بعد جب وہ مین شاہراہ کے بعد اندر رہائشی علاقے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ جگہ جگہ جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والوں نے سڑک کو استعمال کرکے راستوں کو تنگ کردیا ہے۔
جس سے ٹریفک گزرنے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں، اور پھر جب وہ گلیوں میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہر دوسری گلی کے راستے لوگوں نے خود بند کر رکھے ہیں اور وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے قربانی کا جانورخریدکر دروازے پر باندھ رکھا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست کا شکوہ ہے کہ لوگوں نے قیمتی جانور تو خرید لیے لیکن صفائی کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا، بقول ان کے بفرزون میں ایک جگہ جماعت اسلامی کے تحت اجتماعی قربانی کا اہتمام تھا جہاں انھوں نے دو عدد بڑے گڑھے کھود رکھے تھے جہا ں ذیبحہ کے جانوروں کا خون بہہ کے جا رہا تھا ، بعد میں ان گڑھوں پر مٹی ڈال کر بند کردیا گیا جس کے باعث کوئی گندگی نہیں ہوئی، ورنہ تو ہر گلی میں لوگ اپنا جانور ذبیحہ کرتے وہ وہی جانوروں کی آلائیشیں اور خون بہتا رہا جو گندگی کا باعث بنتا رہا۔
یہ تو ہمارے محترم دوست نے صرف قربانی کے موسم کے حوالے سے مسائل کا ذکرکردیا ورنہ توعام دنوں میں بھی کچھ ایسے ہی مناظر جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔کراچی شہر میں جس قدرچوڑی شاہراہیں اورسڑکیں ہیں وہاں ٹریفک جام ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو، اگر عوام سلیقے اور قانون کے مطابق سڑکوں اورفٹ پاتھوں کا استعمال کریں۔اس وقت حال یہ ہے کہ ایک دکاندار اپنی دکان کئی فٹ آگے بڑھا دیتا ہے، پھر اپنا سامان مزید آگے لاکر رکھ دیتا ہے، فٹ پاتھ پر اور اس سے آگے سڑک کے اوپر تک ٹھیلے و پتھارے لگادیے جاتے ہیں، کچھ فٹ پاتھوں پر انتظامیہ کی جانب سے موٹر سائیکلوں کے لیے پارکنگ قائم کرکے شہریوں سے فیس وصول کی جاتی ہے۔
عام شہری بھی اس عمل میں اپنا پورا پورا حصہ ڈالتا ہے اور وہ سڑک کے کنارے اپنی موٹرسائیکل یاکار روک کر ان ٹھیلے والوں سے خریداری شروع کردیتا ہے، حالا نکہ ان شہریوں کو چاہیے کہ وہ اس ٹھیلے والے سے کہیں کہ بھائی صاحب آپ نے یہ ٹھیلہ سڑک کے اوپر لاکرکیوں کھڑا کردیا؟ اپنے اس ٹھیلے کو پیچھے لے کر جائیے! مگر ایسا کون کہتا ہے؟ بلکہ ایک کے بعد ایک گاڑی والاآتا جاتا ہے اور ٹھیلے والے سے خریداری کرتا ہے۔ کراچی شہر میں فیڈرل بی ایریا میں یوبی ایل اسپورٹس کمپلیکس کے سامنے مختلف انڈسٹریز قائم ہیں جن کی چار دیواری مرکزی سڑک تک تعمیرکردی گئی ہے، اس دیوار کے بعد ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے اپنی موٹر سائیکلیں کھڑی کرتے ہیں یوں کراچی شہر میں گلشن اقبال اور ایف بی ایریا کی یہ مرکزی شاہراہ مزید تنگ ہوگئی ہے حیرت انگیز طور پر یہاں نہ کوئی سروس روڈ ہے نہ ہی کوئی فٹ پاتھ ہے۔
بہر کیف ایک زمانہ تھا کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی کار ہوتی تو اس کا عمل بھی انتہائی مہذب دکھائی دیتا تھا، مثلاً وہ صبرو تحمل سے گاڑی چلاتا دکھائی دیتا، مناسب جگہ پرگاڑی پارک کرتا دکھائی دیتا تھا مگر آج معاملہ اس کے برعکس نظرآتا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صاحب گاڑی ہرکسی کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ دیکھو میرے پاس بھی گاڑی ہے۔ہمارے ایک کالم نگاردوست کراچی شہر میں ایک شاپنگ سینٹر کے قریب رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس شاپنگ سینٹر کے عقب میں ایک پتلی سی سڑک ہے جہاں دکانداروں نے اپنی دکانیں آگے تک سامان سجا کربڑھائی ہوئی ہیں، اس کے بعد موٹر سائیکلیوں کی پارکنگ سڑک کے دونوں جانب ہر وقت نظر آتی ہے۔
اس کے بعد انتہائی پتلی اور تنگ سڑک رہ جاتی ہے مگر شاباش ہے ایسے لوگو ں پر جو یہاں بڑی بڑی کاریں لے کرگزر تے ہیں، اور کچھ وہی روک کر اپنی بیگمات کو اتارکر ان کی واپسی کا انتظار بھی کرتے ہیں،اس دوران دیگر آنے جانے والے لوگوں اورگاڑیوں کوکس قدر پریشانی کا سامنا کرنا ہوتا ہے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں مگر کمال کی بات یہ ہے کہ سب لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں اس اس بات پر تیار نہیں کہ اس تنگ راستے پر اپنی گاڑی لانے کے بجائے کہیں دور پارک کردیں یا کہیں اور سے گزرجائیں۔
اس ضمن میں راقم کا مشاہدہ ہے کہ اس شہر میں لوئر مڈل کلاس علاقوں اور ایسے محلوں میں رہنے والوں نے بھی بڑی بڑی گاڑیاں اپنے استعمال میں رکھی ہیں کہ انھیں جب وہ اپنے گھرکے باہرکھڑی کرتے ہیں تو ان کی گلی سے کسی دوسری گاڑی کے گزرنے کا راستہ بھی نہیں رہتا، نہ ہی کسی ایمرجنسی میں کوئی ایمبولینس گزر سکتی ہے۔ شاید ہم پر ایک جنون سوار ہے کہ ہم اپنے پڑوسی پر بھی اپنی بڑی گاڑی کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں،ورنہ عقل میں آنے والے بات ہے کہ جس شہر میں ہرجگہ ٹریفک جام کا مسئلہ ہو وہاں تو چھوٹی سے چھوٹی گاڑی استعمال میں لانی چاہیے تاکہ پریشانی نہ ہو۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ شاید ہماری عقل وشعور ہمارے دکھاوے اور حرص وہوس کے تابع ہو گئی ہے اور ہم اپنے عقل وشعور سے کام لینا ہی نہیں چاہتے،ہم ایک عام قیمت کا جانورلے کر قربانی کرسکتے ہیں، لیکن اس سے کئی گنا قیمت کا جانورخریدتے ہیں مگر چند روپے اپنے گلی محلے کی صفائی کے لے خرچ کرنا نہیں چاہتے، گلی، محلے میں راستے خراب ہوں،گڑ ابل رہے ہوں ہم خود سے صفائی کرانے کا نہیں سوچتے، شادی بیاہ ہو یا کوئی بھی تقریب ہم خود اپنے راستے بند کرکے اپنے لیے اذیت کا بندوبست کرتے ہیںپھر سیاستدان بھی ہمارا خیال نہیں کرتے اور وہ بھی جلسے ، جلوس اور احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کردیتے ہیں کہ انھیں بھی حرص و ہوس ہے کچھ حا صل کرنے کی ، اور عوام بھی اسی راستے پر ہے، شاید ہماری عقل وشعور، دکھاوے اورحرص وہوس کے تابع ہے؟
تحریک انصاف جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو انصاف دلانے کی کوئی تحریک ہے لیکن یہ عجیب انصاف ہے کہ اپنے جلسے، جلوس اور احتجاج کے نام پرعوام کے راستے ہی بند کر دیے جائیں۔لاہور کے احتجاج کے بعد اس جماعت کے ایک رہنما نے کراچی کی ایک بڑی اورمصروف شاہراہ پر لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے گھنٹوں ٹریفک جام کر دیا جس سے ایک مریض بروقت اسپتال نہ پہنچ سکا اور فوت ہو گیا۔ یہاں تحریک انصاف پارٹی کا نام صرف مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے ورنہ تو تقریباً سب کا ہی ایک جیسا حال ہے۔
خطر ناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا کام عوام کی رہنمائی کرنا اوران کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے اگر وہی عقل وشعور کے برعکس الٹے کام کریں تو عوام بھلا ان کے پیچھے کیسے رہیں گے؟ چنانچہ اب صبح وشام ایسے مظاہر عام ہیں کہ جب عقل اس بات پر حیران رہ جاتی ہے کہ لوگ اپنے مسائل بجائے خود حل کرنے کے ان میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست نے اس عید پر ہم سے شکایت کی کہ جناب یہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ قربانی کے لیے ایک جانور خرید کر اپنے دروازے کے آگے باندھتے ہیں مگر راستے کو بھی بندکردیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ ہم سے ملنے کے لیے آئے تو راستے میں شاہراہوں پر ٹریفک جام اس لیے تھا کہ لوگ جلد بازی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے بے صبری کا مظاہرہ کررہے تھے اور ان کی اس غلط حرکت سے ٹریفک کی روانی مزید مشکل تر ہو رہی تھی،اس کے بعد جب وہ مین شاہراہ کے بعد اندر رہائشی علاقے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ جگہ جگہ جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والوں نے سڑک کو استعمال کرکے راستوں کو تنگ کردیا ہے۔
جس سے ٹریفک گزرنے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں، اور پھر جب وہ گلیوں میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہر دوسری گلی کے راستے لوگوں نے خود بند کر رکھے ہیں اور وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے قربانی کا جانورخریدکر دروازے پر باندھ رکھا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست کا شکوہ ہے کہ لوگوں نے قیمتی جانور تو خرید لیے لیکن صفائی کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا، بقول ان کے بفرزون میں ایک جگہ جماعت اسلامی کے تحت اجتماعی قربانی کا اہتمام تھا جہاں انھوں نے دو عدد بڑے گڑھے کھود رکھے تھے جہا ں ذیبحہ کے جانوروں کا خون بہہ کے جا رہا تھا ، بعد میں ان گڑھوں پر مٹی ڈال کر بند کردیا گیا جس کے باعث کوئی گندگی نہیں ہوئی، ورنہ تو ہر گلی میں لوگ اپنا جانور ذبیحہ کرتے وہ وہی جانوروں کی آلائیشیں اور خون بہتا رہا جو گندگی کا باعث بنتا رہا۔
یہ تو ہمارے محترم دوست نے صرف قربانی کے موسم کے حوالے سے مسائل کا ذکرکردیا ورنہ توعام دنوں میں بھی کچھ ایسے ہی مناظر جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔کراچی شہر میں جس قدرچوڑی شاہراہیں اورسڑکیں ہیں وہاں ٹریفک جام ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو، اگر عوام سلیقے اور قانون کے مطابق سڑکوں اورفٹ پاتھوں کا استعمال کریں۔اس وقت حال یہ ہے کہ ایک دکاندار اپنی دکان کئی فٹ آگے بڑھا دیتا ہے، پھر اپنا سامان مزید آگے لاکر رکھ دیتا ہے، فٹ پاتھ پر اور اس سے آگے سڑک کے اوپر تک ٹھیلے و پتھارے لگادیے جاتے ہیں، کچھ فٹ پاتھوں پر انتظامیہ کی جانب سے موٹر سائیکلوں کے لیے پارکنگ قائم کرکے شہریوں سے فیس وصول کی جاتی ہے۔
عام شہری بھی اس عمل میں اپنا پورا پورا حصہ ڈالتا ہے اور وہ سڑک کے کنارے اپنی موٹرسائیکل یاکار روک کر ان ٹھیلے والوں سے خریداری شروع کردیتا ہے، حالا نکہ ان شہریوں کو چاہیے کہ وہ اس ٹھیلے والے سے کہیں کہ بھائی صاحب آپ نے یہ ٹھیلہ سڑک کے اوپر لاکرکیوں کھڑا کردیا؟ اپنے اس ٹھیلے کو پیچھے لے کر جائیے! مگر ایسا کون کہتا ہے؟ بلکہ ایک کے بعد ایک گاڑی والاآتا جاتا ہے اور ٹھیلے والے سے خریداری کرتا ہے۔ کراچی شہر میں فیڈرل بی ایریا میں یوبی ایل اسپورٹس کمپلیکس کے سامنے مختلف انڈسٹریز قائم ہیں جن کی چار دیواری مرکزی سڑک تک تعمیرکردی گئی ہے، اس دیوار کے بعد ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے اپنی موٹر سائیکلیں کھڑی کرتے ہیں یوں کراچی شہر میں گلشن اقبال اور ایف بی ایریا کی یہ مرکزی شاہراہ مزید تنگ ہوگئی ہے حیرت انگیز طور پر یہاں نہ کوئی سروس روڈ ہے نہ ہی کوئی فٹ پاتھ ہے۔
بہر کیف ایک زمانہ تھا کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی کار ہوتی تو اس کا عمل بھی انتہائی مہذب دکھائی دیتا تھا، مثلاً وہ صبرو تحمل سے گاڑی چلاتا دکھائی دیتا، مناسب جگہ پرگاڑی پارک کرتا دکھائی دیتا تھا مگر آج معاملہ اس کے برعکس نظرآتا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صاحب گاڑی ہرکسی کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ دیکھو میرے پاس بھی گاڑی ہے۔ہمارے ایک کالم نگاردوست کراچی شہر میں ایک شاپنگ سینٹر کے قریب رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس شاپنگ سینٹر کے عقب میں ایک پتلی سی سڑک ہے جہاں دکانداروں نے اپنی دکانیں آگے تک سامان سجا کربڑھائی ہوئی ہیں، اس کے بعد موٹر سائیکلیوں کی پارکنگ سڑک کے دونوں جانب ہر وقت نظر آتی ہے۔
اس کے بعد انتہائی پتلی اور تنگ سڑک رہ جاتی ہے مگر شاباش ہے ایسے لوگو ں پر جو یہاں بڑی بڑی کاریں لے کرگزر تے ہیں، اور کچھ وہی روک کر اپنی بیگمات کو اتارکر ان کی واپسی کا انتظار بھی کرتے ہیں،اس دوران دیگر آنے جانے والے لوگوں اورگاڑیوں کوکس قدر پریشانی کا سامنا کرنا ہوتا ہے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں مگر کمال کی بات یہ ہے کہ سب لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں اس اس بات پر تیار نہیں کہ اس تنگ راستے پر اپنی گاڑی لانے کے بجائے کہیں دور پارک کردیں یا کہیں اور سے گزرجائیں۔
اس ضمن میں راقم کا مشاہدہ ہے کہ اس شہر میں لوئر مڈل کلاس علاقوں اور ایسے محلوں میں رہنے والوں نے بھی بڑی بڑی گاڑیاں اپنے استعمال میں رکھی ہیں کہ انھیں جب وہ اپنے گھرکے باہرکھڑی کرتے ہیں تو ان کی گلی سے کسی دوسری گاڑی کے گزرنے کا راستہ بھی نہیں رہتا، نہ ہی کسی ایمرجنسی میں کوئی ایمبولینس گزر سکتی ہے۔ شاید ہم پر ایک جنون سوار ہے کہ ہم اپنے پڑوسی پر بھی اپنی بڑی گاڑی کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں،ورنہ عقل میں آنے والے بات ہے کہ جس شہر میں ہرجگہ ٹریفک جام کا مسئلہ ہو وہاں تو چھوٹی سے چھوٹی گاڑی استعمال میں لانی چاہیے تاکہ پریشانی نہ ہو۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ شاید ہماری عقل وشعور ہمارے دکھاوے اور حرص وہوس کے تابع ہو گئی ہے اور ہم اپنے عقل وشعور سے کام لینا ہی نہیں چاہتے،ہم ایک عام قیمت کا جانورلے کر قربانی کرسکتے ہیں، لیکن اس سے کئی گنا قیمت کا جانورخریدتے ہیں مگر چند روپے اپنے گلی محلے کی صفائی کے لے خرچ کرنا نہیں چاہتے، گلی، محلے میں راستے خراب ہوں،گڑ ابل رہے ہوں ہم خود سے صفائی کرانے کا نہیں سوچتے، شادی بیاہ ہو یا کوئی بھی تقریب ہم خود اپنے راستے بند کرکے اپنے لیے اذیت کا بندوبست کرتے ہیںپھر سیاستدان بھی ہمارا خیال نہیں کرتے اور وہ بھی جلسے ، جلوس اور احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کردیتے ہیں کہ انھیں بھی حرص و ہوس ہے کچھ حا صل کرنے کی ، اور عوام بھی اسی راستے پر ہے، شاید ہماری عقل وشعور، دکھاوے اورحرص وہوس کے تابع ہے؟