عالمی ریسرچ میں پاکستانی تحقیقی حوالوں میں 10 گنا اضافہ

ایک عشرے میں سائنسی پیداواریت میں 4 گنا اضافہ ، بھارت، چین و دیگر پیچھے رہ گئے

کل پاکستانی تحقیقی مقالوں میں سے 62.70 فیصد کے حوالے بین الاقوامی ریسرچ میں آئے ۔ فوٹو : فائل

گزشتہ دس برس کے دوران دنیا بھر میں ریسرچ تھیسز میں پاکستانی محققین کے حوالوں میں زبردست تیزی آئی ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاکستانی محققین کے حوالوں کی شرح ابھرتی منڈیاں کہلانے والے 'برک' (BRIC) ممالک یعنی بھارت، چین، روس اور برازیل سے بھی زیادہ رہی۔ تحقیقی مقالہ جات پر نظر رکھنے والے ادارے ''تھامسن رائٹرز'' کی ایک تازہ رپورٹ بعنوان 'Pakistan: Another brick in the wall' میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی سرگرمیاں اقتصادی چیلنجوں کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگرچہ برکس کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کی تحقیقی پیداوار بہت کم رہی ہے لیکن اگر حوالوں کے اشاریے (citation indices) دیکھے جائیں تو پاکستان ان ابھرتے ہوئے سرگرم ممالک میں شمار ہوسکتا ہے۔


رپورٹ میں بتایا کیا گیا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے میں پاکستان کی سائنسی پیداوار میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2006 میں پاکستان میں 2 ہزار تحقیقی مقالے لکھے گئے جبکہ 2015 میں ان کی تعداد بڑھ کر 9 ہزار ہوگئی۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران دنیا بھر کے تحقیقی مقالوں میں پاکستانی تحقیقی مقالوں کے حوالے دس گنا بڑھ گئے ہیں کیونکہ 2006 میں جن پاکستانی مصنفین کے تحقیقی مقالوں کے حوالے بین الاقوامی ریسرچ پیپرز میں آئے تھے ان کی تعداد صرف 9 تھی جو 2015 میں بڑھ کر 98 ہوگئی۔

رپورٹ کے مطابق 2006 سے 2015 کے دوران پاکستان میں لکھے جانے والے تمام تحقیقی مقالوں میں سے 62.27 فیصد کے حوالے بین الاقوامی ریسرچ پیپرز میں دیئے گئے جبکہ برکس ممالک میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں میں سے 59.73 فیصد بین الاقوامی تحقیق میں حوالہ جات کے طور پر جگہ بنا پائے۔
Load Next Story