بگاڑکیوں اور کیسے
پہلے فوج نظم حکمرانی کا تعین کرتی رہی۔اب یہ ذمے داری عدلیہ نے اپنے کاندھوںپر اٹھالی ہے۔
پاکستانی معاشرے اور ریاست میں بگاڑکا اصل سبب نظم حکمرانی کا بحران ہے۔اس بحران نے کثیر الجہتی مسائل کوجنم دیا ہے۔آئین ہے، مگر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہورہا۔قواعد وضوابط موجود ہیں ،لیکن کوئی ان پر عمل درآمد پر آمادہ نہیں ہے۔ کوئی بھی ادارہ متعین دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔جس کے نتیجے میں طاقت کاتوازن بگڑچکا ہے۔سیاسی جماعتیں طاقت کے غلط استعمال(Power abuse)کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اسی کشمکش میں65برس گذرگئے، مگرنہ ریاست کی سمت کا تعین ہوسکا اورنہ نظم حکمرانی کے اصول طے ہوسکے۔کہنے کو پارلیمنٹ ہے، مگرسیاسی عزم سے عاری اور قومی مفادمیں فیصلہ سازی کرنے سے معذور۔
اس لیے پہلے فوج نظم حکمرانی کا تعین کرتی رہی۔اب یہ ذمے داری عدلیہ نے اپنے کاندھوںپر اٹھالی ہے، وہ انصاف کی فراہمی کے بجائے انتظامی فیصلے صادرکررہی ہے ۔ اصول وضوابط پر عملدرآمد کے بغیرریاستیں نہیں چلتیں۔مگر یہ بات نہ سیاستدانوں کی سمجھ میں آرہی ہے اور نہ منصوبہ سازوں کے۔اسی لیے نہ تاریخ سے سبق سیکھاجارہاہے اور نہ دیگر ممالک کے تجربات سے استفادہ کیاجارہاہے۔جس کا نتیجہ ہے کہ بیرونی خطرات کے ساتھ اندرونی خلفشاربھی بڑھ رہاہے اور ریاست تیزی کے ساتھ مائل بہ زوال ہورہی ہے،لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔
متوشش حلقے کافی عرصے سے یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ آئین کی روسے پاکستان ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ ہے، لیکن نہ وفاقیت پر عمل ہورہاہے اور نہ پارلیمانی جمہوریت پر۔عملاً پاکستان ایک وحدانی ریاست بناہوا ہے،جس میںصدارتی نظام رائج ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعدپارلیمانی جمہوری شکل کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن حقیقی معنی میں ابھی تک پاکستان پارلیمانی جمہوریت نہیں بن سکاہے،جس میں پارلیمان کی فیصلہ سازی کی خود مختار(Sovereign)حیثیت ہو اور دیگر تمام ادارے آئینی حدود کے اندرخدمات سرانجام دے رہے ہوں۔ اسی طرح بظاہرملک ایک وفاق ہے، لیکن وفاقی اکائیوں کو وہ اختیارات حاصل نہیں، جو وفاقیت کے تحت انھیں حاصل ہونا چاہئیں۔
یہاں ہم طویل بحث میں پڑے بغیرحالیہ دو عدالتی فیصلوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جن سے وفاقی اور پارلیمانی نظام کی قلعی کھل جاتی ہے۔پہلا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کا ہے، جس میں عدالت عالیہ نے14برس پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں کیے گئے فیصلہ کی روشنی میں کالاباغ ڈیم بنانے کا حکم صادر فرمایاہے۔دوسرا فیصلہ سپریم کورٹ کے ڈویژنل بنچ کا ہے، جس نے کراچی میں انتخابی حلقہ بندیوں ازسرنو تشکیل کاحکم دیاہے۔
وفاقیت کی تعریف کے مطابق وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان شعبہ جات کی تقسیم کے دو طریقہ کار ہیں۔پہلاطریقہ یہ ہے کہ وفاق اپنے لیے کچھ شعبہ جات(Subjects)طے کرکے باقی وفاقی اکائیوںیعنی ریاستوں(صوبوں)کومنتقل کردیتاہے۔جیساکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا(USA) کے آئین میں طے کیا گیاہے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاستیں(صوبے) اپنے اختیارات کا تعین کرنے کے بعد باقی اختیارات وفاق کو دے دیتی ہیں۔یہ طریقہ کار کینیڈامیں مستعمل ہے۔ 1973ء میں آئین سازی کے وقت پاکستان میں بھی یہ طے کرلیاگیاتھا کہ کون کون سے شعبہ وفاقی حکومت کی دسترس میں ہوں گے اور کون سے صوبائی حکومتوں کے اختیار میں رہیں گے۔
لیکن دس برس کے لیے مشترک فہرست(Concurrent list) تیار کی گئی تاکہ صوبے ذمے داریاں اٹھانے کے قابل ہوسکیں۔اصولی طورپر 1983ء میںصوبائی سبجکٹس صوبوں کو منتقل ہوجانا چاہیے تھے، لیکن جنرل ضیاء نے اس میں مزید دس برس کا اضافہ کردیا۔اس کے بعد کسی نہ کسی سبب یہ کام مسلسل ٹلتارہا۔یوں پاکستان وفاق ہونے کے باوجود وحدانی ریاست ہی رہا۔ موجودہ اسمبلی نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مشترک فہرست کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا،لیکن عملاًکئی اہم شعبے ابھی تک وفاق اورصوبوں کے درمیان معلق ہیں۔
جہاں تک کالاباغ ڈیم کا تعلق ہے تو اس منصوبے کو تین وفاقی اکائیوں کی منتخب اسمبلیاں ایک سے زائد مرتبہ بالاتفاق رد کرچکی ہیں۔اس لیے اس کی تعمیر پر اصرارکا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔دوسرے یہ عدالتی نہیں خالصتاً ٹیکنیکل اور انتظامی مسئلہ ہے۔اگرپنجاب اور وفاقی حکومت اس کی تعمیر کوحد درجہ ضروری سمجھتے ہیں،تو مشترکہ مفادات کمیشن کا اجلاس بلاکر اس میں دوبارہ بحث کریں۔لیکن عدلیہ اور وہ بھی صوبے کی ہائی کورٹ کے ذریعے اس قسم کے فیصلے حاصل کرنا چھوٹے صوبوں کو مشتعل کرنے کاباعث ہے۔پھر مودبانہ عرض ہے کہ پیچیدہ انتظامی امور ،جنھیں سیاسی عزم کے ذریعہ حل کیا جانا چاہیے،ان میں عدلیہ کوغیر ضروری طورپر ملوث کرنا،ریاستی ڈھانچے کے لیے خطرناک ہے۔اس فیصلے کے بعد وفاقی اکائیوں کے درمیان غلط فہمیوں کے بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے اس مردہ گھوڑے کو اس وقت جب کہ الیکشن سرپر ہیں،دوبارہ زندہ کرنے کے پیچھے کیا حکمت کارفرماء ہے،سمجھ سے باہر ہے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے ملک کے ایک شہر کراچی کی انتخابی نشستوںمیںردوبدل کا حکم دیاہے۔اس حکم پر بیشتر سیاسی جماعتیں اور بعض سیاسی دانشور بھی بغلیں بجارہے ہیں،لیکن اس کے مضمرات پر توجہ نہیں دی جارہی کہ اس قسم کے فیصلوں کے نتیجے میں معاملات سدھرنے کے بجائے مزید ابتری کی طرف جاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے نظریات اور پالیسیوں سے اختلاف اور ان پر تنقیدہرشہری کا حق ہے۔لیکن غیرجمہوری طریقے سے کسی جماعت کا راستہ روکناغیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام ہے۔ویسے بھی حلقہ بندیاں مردم شماری کے بعد کی جاتی ہیں۔یا تو یہ مطالبہ کیا جائے کہ انتخابات کو ملتوی کرکے پہلے مردم شماری اور حلقہ بندیاں درست کی جائیں ،اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔اس پر کوئی سیاسی جماعت آمادہ نہیں ہوگی۔تو پھر انتخابات سے قبل کسی ایک شہر کو نشانہ بنانا اور اس میں حلقہ بندیوں کی درستی کے نام پر عصبیتوں کو فروغ دینا کہاں کا انصاف ہے۔ اس بات سے بھی سبھی آگاہ ہیں کہ کراچی بدامنی کے پس پشت کئی عوامل ہیں، جن پر قابوپائے بغیر اس شہر میں امن وامان ممکن نہیں ہے۔
یہ ناسور آج کا نہیں ہے بلکہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں60 برس سے پرورش پارہاہے۔جو لوگ کراچی کے حالات کو 1985ء میں بشریٰ زیدی کیس کے حوالے سے دیکھتے ہیں،وہ دانشورانہ بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔یاد رہے کہ جس طرح املی کا پودا 30برس میں پھل دار درخت بنتا ہے،اسی طرح سیاسی غلطیوں کے نتائج بھی 30برس بعد سامنے آنا شروع ہوتے ہیں۔آج سب بھول چکے ہیں کہ ایوب خان نے 1958ء میںمارشل لاء لگانے کے بعد کراچی کے4سو سندھی میڈیم اسکول بند کرکے لسانی عصبیت کی بنیاد رکھی تھی،جو1964ء اور1972ء میں فسادات کی شکل میں ظاہر ہوئی تھی۔جب تک یہ تسلیم نہیں کیاجاتاکہ جس طرح پہلے ممبئی مہاراشٹرکا شہر اور مرہٹہ تہذیب کاگہوارہ ہے اسی طرح کراچی سندھ کا شہر، اس کی بندرگاہ اورسندھی کلچر کا امین ہے، اس شہر کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔اس کے علاوہ کراچی کو منی پاکستان قراردینا دراصل اس کی سندھی حیثیت کو ختم اور وفاقیت کے تصور سے انکارکرنا ہے۔ یہ روش بھی کراچی کے مسئلے کے حل میں بنیادی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ مقتدر حلقے جو 65برس کے دوران ریاست کے منطقی جواز کا مسئلہ حل نہیں کرسکے، ان سے کیا توقع کی جائے کہ وہ ان ذیلی مسائل کی نزاکتوں کوسمجھتے ہوئے انھیں احسن طورپر حل کرسکیں گے۔ آئین میں لکھاہے کہ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوریہ ہے۔لیکن نہ کہیں وفاقیت نظر آتی ہے اور نہ پارلیمان بااختیار نظر آتی ہے۔اسی لیے ریاستی فیصلوں میں اجتماعیت کافقدان ہوتا ہے۔پارلیمان بنتی ہیں، مگران کی حیثیت ربر اسٹیمپ سے زیادہ نہیں،کیونکہ فیصلے روزاول سے آج تک نادیدہ قوتیں کرتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کوخطرات صرف اسٹبلشمنٹ سے نہیں،بلکہ خود سیاسی جماعتوں کے فکری رویوں سے بھی ہیں۔جمہوریت کو پروان چڑھانے اور مستحکم کرنے میں معاشرے میں فکری کثرتیت کا ہونا ضروری ہے۔لیکن پاکستانی معاشرہ آج بھی فرسودہ قبائلیت اورجاگیردارانہ کلچر کی سخت گیر بندشوںمیں جکڑاہواہے۔
ایسے معاشروں میںفکری کثرتیت اور آزادانہ فیصلوں کے لیے گنجائش نہیں ہوتی، بلکہ فیصلے اوپر سے مسلط کیے جاتے ہیں۔انتخابی عمل کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اسمبلیوں میں پہنچیں۔اس طرح انتخابی عمل محض ڈھونگ بن کررہ گیا ہے،جس میں اہل اورلائق افراد کے اسمبلیوںتک پہنچنے میںبیشمار رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہیں۔پاکستان میں بہتری کی صرف ایک صورت ہے کہ جمہوری عمل کو دیانت داری سے چلنے دیا جائے اور بے مقصد رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ریاست کے پورے انتظامی ڈھانچے جو بگاڑ پیدا ہوا ہے، وہ اسی طرح دورکیا جاسکتاہے۔
اس لیے پہلے فوج نظم حکمرانی کا تعین کرتی رہی۔اب یہ ذمے داری عدلیہ نے اپنے کاندھوںپر اٹھالی ہے، وہ انصاف کی فراہمی کے بجائے انتظامی فیصلے صادرکررہی ہے ۔ اصول وضوابط پر عملدرآمد کے بغیرریاستیں نہیں چلتیں۔مگر یہ بات نہ سیاستدانوں کی سمجھ میں آرہی ہے اور نہ منصوبہ سازوں کے۔اسی لیے نہ تاریخ سے سبق سیکھاجارہاہے اور نہ دیگر ممالک کے تجربات سے استفادہ کیاجارہاہے۔جس کا نتیجہ ہے کہ بیرونی خطرات کے ساتھ اندرونی خلفشاربھی بڑھ رہاہے اور ریاست تیزی کے ساتھ مائل بہ زوال ہورہی ہے،لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔
متوشش حلقے کافی عرصے سے یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ آئین کی روسے پاکستان ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ ہے، لیکن نہ وفاقیت پر عمل ہورہاہے اور نہ پارلیمانی جمہوریت پر۔عملاً پاکستان ایک وحدانی ریاست بناہوا ہے،جس میںصدارتی نظام رائج ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعدپارلیمانی جمہوری شکل کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن حقیقی معنی میں ابھی تک پاکستان پارلیمانی جمہوریت نہیں بن سکاہے،جس میں پارلیمان کی فیصلہ سازی کی خود مختار(Sovereign)حیثیت ہو اور دیگر تمام ادارے آئینی حدود کے اندرخدمات سرانجام دے رہے ہوں۔ اسی طرح بظاہرملک ایک وفاق ہے، لیکن وفاقی اکائیوں کو وہ اختیارات حاصل نہیں، جو وفاقیت کے تحت انھیں حاصل ہونا چاہئیں۔
یہاں ہم طویل بحث میں پڑے بغیرحالیہ دو عدالتی فیصلوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جن سے وفاقی اور پارلیمانی نظام کی قلعی کھل جاتی ہے۔پہلا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کا ہے، جس میں عدالت عالیہ نے14برس پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں کیے گئے فیصلہ کی روشنی میں کالاباغ ڈیم بنانے کا حکم صادر فرمایاہے۔دوسرا فیصلہ سپریم کورٹ کے ڈویژنل بنچ کا ہے، جس نے کراچی میں انتخابی حلقہ بندیوں ازسرنو تشکیل کاحکم دیاہے۔
وفاقیت کی تعریف کے مطابق وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان شعبہ جات کی تقسیم کے دو طریقہ کار ہیں۔پہلاطریقہ یہ ہے کہ وفاق اپنے لیے کچھ شعبہ جات(Subjects)طے کرکے باقی وفاقی اکائیوںیعنی ریاستوں(صوبوں)کومنتقل کردیتاہے۔جیساکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا(USA) کے آئین میں طے کیا گیاہے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاستیں(صوبے) اپنے اختیارات کا تعین کرنے کے بعد باقی اختیارات وفاق کو دے دیتی ہیں۔یہ طریقہ کار کینیڈامیں مستعمل ہے۔ 1973ء میں آئین سازی کے وقت پاکستان میں بھی یہ طے کرلیاگیاتھا کہ کون کون سے شعبہ وفاقی حکومت کی دسترس میں ہوں گے اور کون سے صوبائی حکومتوں کے اختیار میں رہیں گے۔
لیکن دس برس کے لیے مشترک فہرست(Concurrent list) تیار کی گئی تاکہ صوبے ذمے داریاں اٹھانے کے قابل ہوسکیں۔اصولی طورپر 1983ء میںصوبائی سبجکٹس صوبوں کو منتقل ہوجانا چاہیے تھے، لیکن جنرل ضیاء نے اس میں مزید دس برس کا اضافہ کردیا۔اس کے بعد کسی نہ کسی سبب یہ کام مسلسل ٹلتارہا۔یوں پاکستان وفاق ہونے کے باوجود وحدانی ریاست ہی رہا۔ موجودہ اسمبلی نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مشترک فہرست کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا،لیکن عملاًکئی اہم شعبے ابھی تک وفاق اورصوبوں کے درمیان معلق ہیں۔
جہاں تک کالاباغ ڈیم کا تعلق ہے تو اس منصوبے کو تین وفاقی اکائیوں کی منتخب اسمبلیاں ایک سے زائد مرتبہ بالاتفاق رد کرچکی ہیں۔اس لیے اس کی تعمیر پر اصرارکا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔دوسرے یہ عدالتی نہیں خالصتاً ٹیکنیکل اور انتظامی مسئلہ ہے۔اگرپنجاب اور وفاقی حکومت اس کی تعمیر کوحد درجہ ضروری سمجھتے ہیں،تو مشترکہ مفادات کمیشن کا اجلاس بلاکر اس میں دوبارہ بحث کریں۔لیکن عدلیہ اور وہ بھی صوبے کی ہائی کورٹ کے ذریعے اس قسم کے فیصلے حاصل کرنا چھوٹے صوبوں کو مشتعل کرنے کاباعث ہے۔پھر مودبانہ عرض ہے کہ پیچیدہ انتظامی امور ،جنھیں سیاسی عزم کے ذریعہ حل کیا جانا چاہیے،ان میں عدلیہ کوغیر ضروری طورپر ملوث کرنا،ریاستی ڈھانچے کے لیے خطرناک ہے۔اس فیصلے کے بعد وفاقی اکائیوں کے درمیان غلط فہمیوں کے بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے اس مردہ گھوڑے کو اس وقت جب کہ الیکشن سرپر ہیں،دوبارہ زندہ کرنے کے پیچھے کیا حکمت کارفرماء ہے،سمجھ سے باہر ہے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے ملک کے ایک شہر کراچی کی انتخابی نشستوںمیںردوبدل کا حکم دیاہے۔اس حکم پر بیشتر سیاسی جماعتیں اور بعض سیاسی دانشور بھی بغلیں بجارہے ہیں،لیکن اس کے مضمرات پر توجہ نہیں دی جارہی کہ اس قسم کے فیصلوں کے نتیجے میں معاملات سدھرنے کے بجائے مزید ابتری کی طرف جاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے نظریات اور پالیسیوں سے اختلاف اور ان پر تنقیدہرشہری کا حق ہے۔لیکن غیرجمہوری طریقے سے کسی جماعت کا راستہ روکناغیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام ہے۔ویسے بھی حلقہ بندیاں مردم شماری کے بعد کی جاتی ہیں۔یا تو یہ مطالبہ کیا جائے کہ انتخابات کو ملتوی کرکے پہلے مردم شماری اور حلقہ بندیاں درست کی جائیں ،اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔اس پر کوئی سیاسی جماعت آمادہ نہیں ہوگی۔تو پھر انتخابات سے قبل کسی ایک شہر کو نشانہ بنانا اور اس میں حلقہ بندیوں کی درستی کے نام پر عصبیتوں کو فروغ دینا کہاں کا انصاف ہے۔ اس بات سے بھی سبھی آگاہ ہیں کہ کراچی بدامنی کے پس پشت کئی عوامل ہیں، جن پر قابوپائے بغیر اس شہر میں امن وامان ممکن نہیں ہے۔
یہ ناسور آج کا نہیں ہے بلکہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں60 برس سے پرورش پارہاہے۔جو لوگ کراچی کے حالات کو 1985ء میں بشریٰ زیدی کیس کے حوالے سے دیکھتے ہیں،وہ دانشورانہ بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔یاد رہے کہ جس طرح املی کا پودا 30برس میں پھل دار درخت بنتا ہے،اسی طرح سیاسی غلطیوں کے نتائج بھی 30برس بعد سامنے آنا شروع ہوتے ہیں۔آج سب بھول چکے ہیں کہ ایوب خان نے 1958ء میںمارشل لاء لگانے کے بعد کراچی کے4سو سندھی میڈیم اسکول بند کرکے لسانی عصبیت کی بنیاد رکھی تھی،جو1964ء اور1972ء میں فسادات کی شکل میں ظاہر ہوئی تھی۔جب تک یہ تسلیم نہیں کیاجاتاکہ جس طرح پہلے ممبئی مہاراشٹرکا شہر اور مرہٹہ تہذیب کاگہوارہ ہے اسی طرح کراچی سندھ کا شہر، اس کی بندرگاہ اورسندھی کلچر کا امین ہے، اس شہر کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔اس کے علاوہ کراچی کو منی پاکستان قراردینا دراصل اس کی سندھی حیثیت کو ختم اور وفاقیت کے تصور سے انکارکرنا ہے۔ یہ روش بھی کراچی کے مسئلے کے حل میں بنیادی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ مقتدر حلقے جو 65برس کے دوران ریاست کے منطقی جواز کا مسئلہ حل نہیں کرسکے، ان سے کیا توقع کی جائے کہ وہ ان ذیلی مسائل کی نزاکتوں کوسمجھتے ہوئے انھیں احسن طورپر حل کرسکیں گے۔ آئین میں لکھاہے کہ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوریہ ہے۔لیکن نہ کہیں وفاقیت نظر آتی ہے اور نہ پارلیمان بااختیار نظر آتی ہے۔اسی لیے ریاستی فیصلوں میں اجتماعیت کافقدان ہوتا ہے۔پارلیمان بنتی ہیں، مگران کی حیثیت ربر اسٹیمپ سے زیادہ نہیں،کیونکہ فیصلے روزاول سے آج تک نادیدہ قوتیں کرتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کوخطرات صرف اسٹبلشمنٹ سے نہیں،بلکہ خود سیاسی جماعتوں کے فکری رویوں سے بھی ہیں۔جمہوریت کو پروان چڑھانے اور مستحکم کرنے میں معاشرے میں فکری کثرتیت کا ہونا ضروری ہے۔لیکن پاکستانی معاشرہ آج بھی فرسودہ قبائلیت اورجاگیردارانہ کلچر کی سخت گیر بندشوںمیں جکڑاہواہے۔
ایسے معاشروں میںفکری کثرتیت اور آزادانہ فیصلوں کے لیے گنجائش نہیں ہوتی، بلکہ فیصلے اوپر سے مسلط کیے جاتے ہیں۔انتخابی عمل کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اسمبلیوں میں پہنچیں۔اس طرح انتخابی عمل محض ڈھونگ بن کررہ گیا ہے،جس میں اہل اورلائق افراد کے اسمبلیوںتک پہنچنے میںبیشمار رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہیں۔پاکستان میں بہتری کی صرف ایک صورت ہے کہ جمہوری عمل کو دیانت داری سے چلنے دیا جائے اور بے مقصد رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ریاست کے پورے انتظامی ڈھانچے جو بگاڑ پیدا ہوا ہے، وہ اسی طرح دورکیا جاسکتاہے۔