پاناما لیکس کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مالیاتی اسکینڈل ’’بہاماس لیکس‘‘ سامنے آگیا
200 ممالک کے 50 ہزار افرادشامل، سابق وزیرنصیرخان کا بیٹاجبران، تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ بھی آف شورکمپنی کی مالک
پاناما لیکس کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مالیاتی اسکینڈل''بہاماس لیکس'' سامنے آگیا، جن میں 69 کمپنیوں کے150 مالکان اور ڈائریکٹر پاکستانی ہیں۔
جرمن جریدے کے مطابق بہاماس جزیرے میں200 ممالک 50 ہزارافراد کی پونے 2 لاکھ آف شور کمپنیوں میں 223 ارب ڈالر چھپائے گئے جن میں 69 کمپنیوں کے150 مالکان اور ڈائریکٹر پاکستانی ہیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق یہ نام ان پاکستانیوں کے ناموں کے علاوہ ہیں جو پاناما لیکس میں آئے ہیں۔ پرویزمشرف دور کے وفاقی وزیر صحت محمد نصیرخان کے بیٹے جبران خان کی بھی بہاماس میں آف شور کمپنی ہے، بہاماس لیکس میں دہشت گردی کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں2 کیس بھی سامنے آگئے۔
ایک کمپنی عبید الطاف خانانی کی اوردوسری عقیدہ اسلامک بینک ہے۔ عبید الطاف کے والد الطاف خانانی دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے الزام میں امریکا میں قید ہیں۔ جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد ایک ایسے بینک کے ڈائریکٹرکے طور پر سامنے آئے ہیں، جس پر نائن الیون کے بعد پابندیاں لگائی گئیں۔ عقیدہ اسلامک بینک بہاماس میں آف شور کمپنی کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہے۔
پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ میںبینک کا ڈائریکٹر تورہا مگر میرا بینک میں کوئی مالیاتی شیئر نہیں۔ عقیدہ اسلامک بینک کے سربراہ احمد ادریس نصرالدین میرے پرانے دوست ہیں جنھوںنے عقیدہ بینک کو مشاورت کی کبھی فیس نہیں لی۔ نائن الیون کے بعد عقیدہ بینک پرامریکا نے پابندیاں لگائیں مگر 2007 میں اٹھالیں۔ تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ درانی کی بھی بہاماس میں ایک آف شور کمپنی ہے۔
کراچی کے معروف بلڈر محسن ابوبکر شیخانی کی بھی بہاماز میں ایک آف شورکمپنی ہے، جن دیگر پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں ان میں کراچی کے سلطان، ارشاد، یاسمین، فرحانہ، محمد سلیم، محمد آصف، محمد شفیع، محمد اقبال، محمد قاسم، سہیل احمد، خرم، شیراز، راشد، محمد حنیف، روبینہ، محمد اویس، عارف نورمحمد، نورعارف، عابد، احمد امجد، نوید، رفیق، شیخ ارشد جاوید، نوید حسین، اقبال، عبدالرؤف، یاسر، عسکری اصغر، محمد صدیق، مخدوم علی، محمد شعیب ، عباس عبداللہ زہرہ، زاہدہ، سلیم، حمیدہ، مارضیہ، خرم ، سائرہ، محمد حیدر، محمد اسد، عمران، امجد، عابد، احمد امجد، محسن ابوبکر، سہیل ممتاز، غفار، ندیم، خالد، یاسر، محمد علی، محمد عثمان،محمد اخلاق، مسعود پرویز، آصف ریاض، محمد سلیم، محمد الطاف، محمد شفیع، سید محمد علی، محمد عثمان، امید، عتید، نوید، ندیم خالد، ندیم، خرم، محمد صدیق، ارسلان، میکس روڈلف، شاہینہ ملک لاہور کے اکرم محی الدین، گوہر اعجاز، محمد فرخ، ماریہ فرخ، خاور، شہزاد عزیز،جاوید، عزت، جاوید احمد، عزت مجید، شفقت، انعام، شوکت، اسلام آباد کے علی، سید محمد، احمد راتب، رضا خان، کمیاب، بہاولپور کے عبداللہ جان، شاہ نواز اخترشامل ہیں۔ سابق افغان صدر حامدکرزئی کا کزن احمد راتب پوپل بھی بہاماز میں کمپنی کا ڈائریکٹر ہے۔
وہ ایک طرف تو حامد کرزئی کے کزن ہیں اور دوسری طرف طالبان حکومت کے سفیر عبدالسلام ضعیف کے ترجمان رہ چکے ہیں، حامد کرزئی نے طالبان سے تعلق کے الزام کے باوجود اپنے کزن پوپل کی کمپنی کو افغانستان سے تیل نکالنے کے لیے تین ارب ڈالر کا ٹھیکہ بھی دیا۔ احمد راتب کو ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں امریکا میں گرفتار کر کے نو سال قید رکھا گیا۔ احمد پوپل نے اپنی آف شور کمپنی کا پتہ اسلام آباد کا لکھوایا۔
جرمن جریدے کے مطابق بہاماس جزیرے میں200 ممالک 50 ہزارافراد کی پونے 2 لاکھ آف شور کمپنیوں میں 223 ارب ڈالر چھپائے گئے جن میں 69 کمپنیوں کے150 مالکان اور ڈائریکٹر پاکستانی ہیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق یہ نام ان پاکستانیوں کے ناموں کے علاوہ ہیں جو پاناما لیکس میں آئے ہیں۔ پرویزمشرف دور کے وفاقی وزیر صحت محمد نصیرخان کے بیٹے جبران خان کی بھی بہاماس میں آف شور کمپنی ہے، بہاماس لیکس میں دہشت گردی کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں2 کیس بھی سامنے آگئے۔
ایک کمپنی عبید الطاف خانانی کی اوردوسری عقیدہ اسلامک بینک ہے۔ عبید الطاف کے والد الطاف خانانی دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے الزام میں امریکا میں قید ہیں۔ جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد ایک ایسے بینک کے ڈائریکٹرکے طور پر سامنے آئے ہیں، جس پر نائن الیون کے بعد پابندیاں لگائی گئیں۔ عقیدہ اسلامک بینک بہاماس میں آف شور کمپنی کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہے۔
پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ میںبینک کا ڈائریکٹر تورہا مگر میرا بینک میں کوئی مالیاتی شیئر نہیں۔ عقیدہ اسلامک بینک کے سربراہ احمد ادریس نصرالدین میرے پرانے دوست ہیں جنھوںنے عقیدہ بینک کو مشاورت کی کبھی فیس نہیں لی۔ نائن الیون کے بعد عقیدہ بینک پرامریکا نے پابندیاں لگائیں مگر 2007 میں اٹھالیں۔ تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ درانی کی بھی بہاماس میں ایک آف شور کمپنی ہے۔
کراچی کے معروف بلڈر محسن ابوبکر شیخانی کی بھی بہاماز میں ایک آف شورکمپنی ہے، جن دیگر پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں ان میں کراچی کے سلطان، ارشاد، یاسمین، فرحانہ، محمد سلیم، محمد آصف، محمد شفیع، محمد اقبال، محمد قاسم، سہیل احمد، خرم، شیراز، راشد، محمد حنیف، روبینہ، محمد اویس، عارف نورمحمد، نورعارف، عابد، احمد امجد، نوید، رفیق، شیخ ارشد جاوید، نوید حسین، اقبال، عبدالرؤف، یاسر، عسکری اصغر، محمد صدیق، مخدوم علی، محمد شعیب ، عباس عبداللہ زہرہ، زاہدہ، سلیم، حمیدہ، مارضیہ، خرم ، سائرہ، محمد حیدر، محمد اسد، عمران، امجد، عابد، احمد امجد، محسن ابوبکر، سہیل ممتاز، غفار، ندیم، خالد، یاسر، محمد علی، محمد عثمان،محمد اخلاق، مسعود پرویز، آصف ریاض، محمد سلیم، محمد الطاف، محمد شفیع، سید محمد علی، محمد عثمان، امید، عتید، نوید، ندیم خالد، ندیم، خرم، محمد صدیق، ارسلان، میکس روڈلف، شاہینہ ملک لاہور کے اکرم محی الدین، گوہر اعجاز، محمد فرخ، ماریہ فرخ، خاور، شہزاد عزیز،جاوید، عزت، جاوید احمد، عزت مجید، شفقت، انعام، شوکت، اسلام آباد کے علی، سید محمد، احمد راتب، رضا خان، کمیاب، بہاولپور کے عبداللہ جان، شاہ نواز اخترشامل ہیں۔ سابق افغان صدر حامدکرزئی کا کزن احمد راتب پوپل بھی بہاماز میں کمپنی کا ڈائریکٹر ہے۔
وہ ایک طرف تو حامد کرزئی کے کزن ہیں اور دوسری طرف طالبان حکومت کے سفیر عبدالسلام ضعیف کے ترجمان رہ چکے ہیں، حامد کرزئی نے طالبان سے تعلق کے الزام کے باوجود اپنے کزن پوپل کی کمپنی کو افغانستان سے تیل نکالنے کے لیے تین ارب ڈالر کا ٹھیکہ بھی دیا۔ احمد راتب کو ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں امریکا میں گرفتار کر کے نو سال قید رکھا گیا۔ احمد پوپل نے اپنی آف شور کمپنی کا پتہ اسلام آباد کا لکھوایا۔