خلافت کی بحالی۔۔۔۔ خلیفہ کون

خلیفہ ہارون الرشید، مامون الرشید، معتصم باﷲ وغیرہ کی خفیہ ایجنسی میں مرد، عورتیں، تاجر حضرات سب شامل تھے۔

GILGIT:
اﷲ اﷲ! وہ بھی کیا دن تھے کہ صدر سے پیرالٰہی بخش (پی آئی بی) کالونی جانے کے لیے بس نمبر 8-A پر سوار ہوتے تو پچھلے دروازے کے پائیدان پر قدم رکھتے ہی دل دِہلا دینے والی ''خوش خبری'' بموِقلمِ پینٹر نظر آتی کہ ''بس میں سوار ہونے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے، شایدکہ یہ تیری زندگی کا آخری سفر ہو۔'' مسافروں کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے اور بھی بہت سے ہدایت پارے لکھے ہوتے تھے۔ یہ الگ بات کہ خود اِسی روٹ کی عمرِ نوح رسیدہ بسیں اپنے ازکار رفتہ پرزوں کی وجہ سے اکثر وبیشتر بے قابو ہوکر کسی سائیکل والے کو دبوچ لیتیں یا دکان، مکان میں جا گھُستی تھیں۔ اور وہ بسیں۔۔۔۔! شیرشاہ کباڑی مارکیٹ کو شہرتِ عام تو حاصل نہ ہوئی تھی تاہم، جنگ رسیدہ اور زخمی ٹرانسپورٹ گاڑیاں، ٹرک، بسیں وغیرہ آنا شروع ہوگئی تھیں جو ''علاج معالجے'' کے بعد کراچی کے کئی علاقوں اور روٹوں پرچھوڑ دی گئی تھیں۔

اس سلسلے میں کچھ ''مدد اور تعاون'' دوسرے علاقوں کے ٹرانسپورٹر حضرات کے کھاتے میں بھی جاتا ہے کہ جو بسیں وہاں سڑکوں پر چلنے سے انکاری ہو جاتیں۔ وہ اُن کی پیشانی پر '' اﷲ نبی وارث'' لکھوا کے کراچی روانہ کر دیتے تھے بلکہ خود ہی لے آتے اور یہاں ''پروپرائٹر، ٹرانسپورٹ کمپنی ہٰذا'' بن جاتے تھے۔ کانوں سنی نہیں، آنکھوں دیکھی کہتا ہوں کہ اکثر بس ایک جھٹکے سے رکی، ڈرائیور اورکنڈیکٹر نے پہلے اندر ہی ''قبرنما'' انجن کا ڈھکنا اٹھا کر اِدھراُدھر جھانکا، بڑے پانے یا ہتھوڑی سے مختلف حصوں کو بجا کے جائزہ لیا اور پھر شور مچاتی سواریوں سے بے نیاز، نیچے اترکے، کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا پرزہ یا حصہ کھول، سڑک ہی پر پھیلا کر ''مرمت'' شروع کردی۔ یہ بھی یاد رہے کہ تب تک کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نے مافیا کی صورت اختیار نہیں کی تھی اور خان بھائی ابھی خال خال ہی اس پیشے میں دکھائی دیتے تھے۔

بات کچھ لمبی ہوگئی۔ خیر۔۔۔۔ وقت بہتا چلا گیا۔ پینٹروں کے قلم پاروں کی جگہ چھپے ہوئے اسٹیکروں نے لے لی۔ بھانت بھانت کے اسٹیکر بسوں اور اسی عرصے کے دوران، ذرایع آمدورفت میں شامل ہونے والی ویگنوں اور منی بسوں (Yellow Devils) کے شیشوں اور ہر ''دستیاب'' جگہ پر نظر آنے لگے۔ عامل کامل بنگالی بابوں، تیربہدف نسخوں کے ساتھ مسافروں کی خدمت کے لیے ہر دم حاضر طبِ چین، جاپان اور یونان کے ماہرین، دینی فرائض میں مسافروں کو صراطِ مستقیم پر چلانے، اپنے اپنے مسالک میں دعوتِ شمولیت دینے اور مخالفین کو کیفرِکردار تک پہنچانے والوں کا شہرہ چہاردانگ شہر میں پھیلنے لگا۔ شہر بھی پھیلتا گیا۔ مَیں بھی، خانہ بدوش، شہر کے مختلف علاقوں میں قیام اور گھر کے سے ماحول میں طعام سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ بسیں بھی بدلتی رہیں۔ چند مہینے گزرے، ایک بس میں ایک اسٹیکر پر نظر پڑی۔ لکھا تھا، ''امریکا سے نجات کے لیے خلافت بحال کرو'' نیچے خفی الفاظ میں حکم جاری کرنے والی تنظیم کا نام لکھا تھا۔ ایک جھٹکا سا لگا۔ کون سی خلافت؟ خلیفہ کون؟ لوگوں سے پوچھا، کوئی کماحقہ، تشفی بخش جواب نہ دے سکا پھر سوچا، چلو آموختہ ہی دُہرا لوں۔

تاریخ نے بتایا کہ مسلمانوں کی تاریخ تو دورِخلافت اور خلیفوں سے بھری پڑی ہے لیکن تاریخ بھی بڑی بے رحم ہے۔ چار خلفائے راشدین اور ان کے کوئی 56 برس بعد کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کی نیک اطوار حکومت کو چھوڑ کر باقی سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتی ہے، منہ چڑاتی ہے۔ یہ سارا دور 661ء سے 1924ء تک، لگ بھگ ساڑھے بارہ سو برس پر پھیلا ہوا ہے۔ چند ایک مستثنیات کو چھوڑ کر سارے ہی خلیفہ ترویجِ اسلام کی بجائے بیک وقت علاقائی توسیع، املاک واموال کے حصول، مالِ غنیمت سے ذاتی خزانے بھرنے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے ہی ہم مذہب ومسلک یا مخالف مسلک لوگوں کی گردنیں اُڑانے، اپنے ہی ''شاہی'' خاندانوں سے متعلق بارسوخ یا سر اٹھانے والے بھائی بندوں کے ساتھ قرار وحصولِ اقتدار کے لیے خانہ جنگیوں میں مصروف ومشغول نظر آتے ہیں۔ ظلم وتعدی کی اتنہا کر دیتے ہیں۔ لیکن پھر کہوں گا کہ یہ تاریخ بڑی بے دید ہے۔ کیا بگڑتا جو اپنے چند صفحات سادہ چھوڑ دیتی، صرف خلیفوں کی خوبیاں بیان کرتی۔ صفحے سادہ نہ چھوڑتی تو بس نقطے لگا دیتی۔ مگر تاریخ ہماری سنتی کہاں ہے؟ جو جی میں آئے کہہ اور لکھ دیتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ کو بھی شاید اُنہیں عروج وزوال کا مزہ اور سبق سکھانا تھا کہ ان کی علاقائی فتوحات مشرق میں منگولیا کے گیاہستانوں، ترکستان کے صحراؤں اور مغرب میں فرانس اور بازنطین تک جا پہنچی۔ مشرق کے مذکورہ دُورافتادہ خطے تب وحشت وبربریت اور خانہ بدوشی کے دور میں تھے تو مغرب اور بازنطینی دربار شان وشوکت لیکن علمی تاریکیوں میں کھویا ہوا تھا۔ زیادہ تر خلیفہ عرب نژاد اور نئے نئے سامنے آرہے تھے۔ یورپ ایرانی فتوحات کے حوالے سے ایرانیوں کو بہتر طور پر جانتا تھا۔ لہٰذا، اُس نے طوفانی سیلابی ریلے کی مانند اُمڈنے والے عربوں کو ''سراسین'' کہا۔ ممتاز قانون دان اور مورخ سیّد امیرعلی نے اس لفظ کا ماخذ فارسی الفاظ ''صحرا نشین'' یا ''شرقین'' یعنی مشرقی میں تلاش کیا ہے۔ بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ خلیفہ عرب کے حوالے سے معروف ہوتے گئے۔ یہ خلیفہ جب طاقتور ہوتے تو صحرائی خون انہیں ماردھاڑ پر اُکساتا۔ کمزور ہوتے اور کسی طاقتور مقامی امیر کے کندھوں پر سوار ہوکر تختِ خلافت پر براجمان ہوتے تو لانے والے کو اس کے زیرِاثر علاقے پر حکمرانی کی ''سند'' عطا کرکے چین کی بنسی بجانے لگتے۔

جوں جوں علاقائی لحاظ سے قلمروِخلافت پھیلتی گئی جگہ جگہ نئے نئے مقتدر خاندان اپنی حکمرانی کی شطرنجی بساط بچھاتے چلے گئے اور خلیفہ سے سندِ حکمرانی لے کر من مانیاں کرتے رہے۔ ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی سلطنتوں کو وسعت دیتے اور سلطان، بادشاہ حتیٰ کہ شنہشاہ تک کہلانے لگے۔ خلیفہ بھی ایک سے ایک کائیاں۔۔۔۔ ایسا بھی ہوا کہ جس زورآور کے کندھوں پر چڑھ کر ''تیغِ خلافت'' سنبھالی، اس سے درونِ دل خوف زدہ بھی رہے۔ بظاہر اُسے انعام واکرام سے نوازا۔ اس کے لیے ایسا محل تعمیر کرایا جس کی بنیادیں چٹانی نمک پر رکھی گئیں۔ اس کی آئوبھگت جاری رہی اور پھر ''غیب'' سے آنے والی ایک ہی تیز بارش نے نمک کو پانی اور محل کو قبر میں بدل دیا۔ واہ۔۔۔۔ واہ! نہ ہینگ لگا، نہ پھٹکری لگی اور چوکھا رنگ آگیا۔


آج کے زمانے میں سب لوگ بعض خفیہ اداروں کی کردہ اور ناکردہ ''حرکات'' کا رونا روتے ہیں۔ چیختے ہیں، دھاڑتے ہیں۔ انہیں مژدہ ہوکہ ہمارے اس زمانے کے خلیفوں نے بھی خفیہ ایجنسی قائم کر رکھی تھی۔ خصوصاً خلیفہ ہارون الرشید، مامون الرشید، معتصم باﷲ وغیرہ اس معاملے میں بلندپایہ مقام رکھتے ہیں۔ ان کی خفیہ ایجنسی میں مرد، عورتیں، تاجر حضرات سب شامل تھے اور براہِ راست خلیفہ کو جواب دہ ہوتے تھے۔ لمحے لمحے کی خبریں پہنچاتے تھے کہ کون سا حاکم سازشیں کررہا ہے۔ ان کی خفیہ ایجنسی کی شاخیں یا کارندے دوسرے ملکوں یا سلطانی درباروں میں بھی موجود ہوتے تھے۔ ہمارے خلیفے ایذا رسانی کے آلات ایجاد کرنے یا کرانے میں بھی یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ ایسی مشینیں کہ انسان کو دبا کر ہڈی پسلی چور کردیں۔ یہ گیارھویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ یورپ نے تو کہیں پندرھویں، سولہویں صدی میں ایذارسانی کی ایسی مشینیں ایجاد کیں۔

نویں صدی عیسوی کے آتے آتے حکمرانی ان کے دماغوں پہ اس حد تک چڑھ گئی کہ اپنے ہی ہم وطن عربوں، ایرانیوں پر مشتمل محافظ دستوں پہ اعتبار نہ رہا اور منگولیا کے گیاہستانوں اور ترکستان کے دورافتادہ صحرائی خطوں سے آنے والے ترکوں یا ترکمانوں کو محافظوں کے طور پر بھرتی کرنے لگے۔ انہیں تفاخر، لقب اور اختیارات اس حد تک سونپ دیے کہ پرانے محافظ یا ہم رکاب ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگئے۔ صورت ِحال بگڑتی گئی اور خلیفہ صاحبان کٹھ پتلی بنتے چلے گئے۔ نویں سے گیارہویں صدی عیسوی کے دوسو برس اسی کیفیت کے غماز ہیں۔ بغداد جو طاقت اور اقتدار کا مرکز تھا، دھیرے دھیرے اہمیت کھوتا گیا اور مصری سلطان یا حکمران خلیفہ کو اٹھا کر اپنے ہاں لے گئے۔

جب تک وہ طاقتور رہے خلیفہ بھی مصر میں رہے۔ اُدھر ترک زور پکڑتے گئے۔ پہلے سلطنتِ عثمانیہ قائم ہوئی پھر وہ خلیفہ کو بھی ترکی لے گئے۔ یوں سلطنت اور خلافت مل کر ''خلافتِ عثمانیہ'' کا روپ دھار گئی۔ ترکوں اور ترکمانوں کا خمیر تو اُن ہی خطوں سے اٹھا تھا جہاں وحشی قبائل بپھرے دریا مشکیزوں کے ذریعے پار کرتے تھے، گھوڑے کے خون سے پیاس بجھاتے تھے، آبادیوں کو بے نشان کر دیتے تھے اور کوئی نشان چھوڑتے بھی تھے تو وہ انسانی کھوپڑیوں کے مینار ہوتے تھے۔ مہذب دنیا سے اُن کا میل ملاپ، اُن کی سرشت کا کچھ بھی تو نہ بگاڑ سکا تھا۔ عثمانی دور کے ایک خلیفہ نے مخالفین سے صلح صفائی کے لیے شاہی ضیافت کا اہتمام کیا۔ مہمان آ تو گئے پر جا نہ سکے کہ ایوانِ ضیافت کے ایک دروازے سے داخل ہوتے تھے، کھانا کھاتے تھے اور دوسرے دروازے سے ''ہمیشہ کے لیے نکل'' جاتے تھے۔ پٹ کے پیچھے ایک برچھابردار جلّاد کھڑا ہوتا تھا۔

آخری عثمانی خلیفہ عبدالمجید کو 3 مارچ 1924ء کو جلاوطن کردیا گیا۔ خلافت ختم ہوگئی!

ویسے ہم مغلِ اعظم جلال الدین اکبر کو بھی اسی زمرے میں لا سکتے ہیںکہ اُس نے اپنے یکے از نورتن ابوالفضل کی مدد سے یا اُس کے اُکسانے پر دین الٰہی ''ایجاد'' کیا اور ابوالفضل ہی اُس کا پہلا خلیفہ بنا۔ کہنے والے تو کہتے ہیںکہ ابوالفضل نے خود ہی یہ ''عہدہ'' ہتھیا لیا تھا، ہم سے پوچھا تک نہ تھا۔ اچھے خاصے اکبر کوظل الٰہی نا کے رکھ دیا۔ بھلا اﷲ کا سایہ کہاں سے آگیا؟ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے شہر قندھار کا نام، صدیوں پرانی مملکت اور تہذیب گندھارا کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اکبر نے چاہا کہ یہ شہر بھی فتح کرے۔ فتح کیا اور یوں نہ صرف خود کو بلکہ رعایا کو بھی اُسی دور میں لے گیا۔ ہم آج بھی اُسی دور میں رہ رہے ہیں۔

حجام، درزی، باورچی، کلاس کے مانیٹر، گتکے باز کے شاگرد کو بھی خلیفہ کہتے ہیں۔ ہمارے پیشۂ صحافت میں بھی جب کوئی ہماری عمر کو پہنچتا ہے بلکہ اس سے پہلے ہی خلیفہ کے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے خلیفے پڑے ہیں۔ برسوں پہلے کی بات ہے ابنِ انشاء مرحوم نے اپنے ایک کالم میں اردو کی پہلی کتاب سے ایک فقرہ لکھا؛ ''نائی آیا ہے۔ چارپائی لایا ہے۔'' اِس پر اس وقت کے آل پاکستان ہیئرڈریسرز (زلف تراش) ایسوسی ایشن کے صدر، محترم اسلام سلمانی (مرحوم) نے ابنِ انشاء مرحوم کو توہینِ حجام یا توہینِ زلف تراش کے الزام میں نالش اور احاطۂ کچہری میں کھینچنے کی دھمکی دے دی تھی۔ ابنِ انشاء مرحوم نے سوچا کہ اِس جاتی عمر میں کون کچہریوں میں کھنچا کھنچا پھرے، اگلے ہی روز اپنے کالم میں معذرت کے بعد فقرہ یوں لکھا؛ ''ہیئرڈریسر آیا ہے۔۔۔۔'' اردو کا اصل فقرہ غالباً اردو کے نابغۂ روزگار مولوی محمد حسین نے لکھا تھا۔

بہرحال۔۔۔۔ مذکورہ بالا تمام تر قباحتوں کے باوصف مَیں ''بقلم خود'' خلیفہ بننے کو تیار ہوں۔ کوئی آکے کہے تو!!!
Load Next Story