ٹارگٹ کلنگ

کراچی کے شہری 75 فیصد نفسیاتی امراض کا شکار بن چکے ہیں۔

پاکیزہ منیر

GUJRANWALA:
ہر مذہب انسانوں سے پیار کرنے کا درس دیتا ہے اور جس مذہب میں انسانی شرف کا احترام، انسانیت کی خدمت اور مخلوق خدا سے پیارومحبت کا درس نہ ہو اس مذہب کو آسمانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام میں کمزوروں پر ظلم اور بے قصور لوگوں سے زیادتی سختی سے منع فرمائی گئی ہے، مذہب، فقہ، فرقے، رنگ نسل، زبان، قبیلہ یا کسی اور بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا شرف انسانیت کی توہین ہے اور اسلامی تعلیمات کی صریحاً نفی ہے۔

آج شہر کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ اسلامی تعلیمات پر عمل اور اسلامی تعلیمات بالکل غائب نظرآرہی ہیں،انسانی احترام تو سرے سے ختم ہوگیا ہے، اب ہر آنکھ اشک بار نظر آتی ہے، لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی گئی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے شہری 75 فیصد نفسیاتی امراض کا شکار بن چکے ہیں،کراچی کے حالات کی وجہ سے ہر طرف بے سکونی کا راج ہے، ہر شخص ڈرا ہوا ہے، اب کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھر سے روزی کمانے کے لیے نکل رہا ہے واپس بھی آئے گا کہ نہیں۔ اس شہر کراچی میں ایک شخص کی نہیں اب روزانہ 10 سے 15 افراد کی نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے، لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے، مرنے والا یہ نہیں جانتا اس کو کیوں مارا جا رہا ہے؟ اب روز کا معمول بن گیا ہے کہ کبھی کوئی علاقہ بند ہے تو کبھی دکانیں بند ہیں، حالات خراب ہونے کی وجہ سے یہ شہر جو کبھی محبتوں کا شہر تھا، جو امن کا گہوارہ تھا، ہر طرف سکون کا راج تھا۔ لوگ اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ دیتے تھے، کسی چیز کا کوئی ڈر خوف نہ تھا، یہ وہ شہر تھا جہاں رات میں دن نکلتا تھا، اس شہر کے شہری ایک دوسرے کے لیے جان دینے کو تیار رہتے تھے، اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی؟ کیوں اس شہر میں موت کا راج ہوگیا؟ یہ وہ شہر تھا جس میں ہر قوم کا فرد آباد تھا، بلا کسی امتیاز اور تفریق کے ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے، آج اس شہر میں امتیاز اور تفریق کہاں سے پیدا ہوگئی؟ مفاد پرست عناصر نے اس شہر میں دشمنی کا زہر گھول دیا ہے، اب کراچی روزانہ لہولہان ہوتا ہے، دن بہ دن ٹارگٹ کلنگ بڑھتی جارہی ہے اور حکومتی ادارے بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ روزانہ مختلف علاقوں میں چھاپے،گرفتاریاں اور سرچ آپریشن ہوتا ہے مگر نتیجہ صفر کا صفر ہے، بدامنی جوں کی توں برقرار ہے۔

آج کل فرقہ ورانہ فسادات کو شہر میں ہوا دی جارہی ہے، روز بیگناہ افراد اپنی زندگی کی بازی ہار رہے ہیں، عام شہریوں کے ساتھ ساتھ مشہور مذہبی رہنما اور علمائے کرام کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ چند دن قبل مولانا اسماعیل صاحب کو ابوالحسن اصفہانی روڈ پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ یہ واقعہ صبح کے وقت پیش آیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد گلشن اقبال میں احتجاج شروع ہوگیا ،اور علاقہ فائرنگ سے گونج اٹھا جگہ جگہ گاڑیاں جلائی جانے لگیں، پتھراؤ کیا جانے لگا اور فائرنگ سے کئی بے گناہ، بے قصور لوگ جو اپنے روزگار پر جا رہے تھے ان اندھی گولیوں کا نشانہ بنے، کئی لوگ اس دن گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہے، جب کہ ان حالات میں کئی شرپسند افراد نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوٹ مار شروع کردی۔ یہ شہر دن بہ دن بے حسی کی تصویر بنتا جارہا ہے اور ہمارے حکومتی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں، شہر میں اتنا کچھ ہوگیا، ہماری پولیس اور رینجرز اس وقت کہاں تھی؟ سوال یہ ہے کہ شہریوں کو کون تحفظ فراہم کرے گا؟ حکومت تو بے بس ہوچکی ہے، کیا شہری ایسی ہی بے بسی کی موت مرتے رہیں گے؟

حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات ہونے چاہئیں جن سے شہر کراچی میں امن قائم ہو، شہری اپنی جان و مال، عزت وآبروکو محفوظ تصور کرے، امن و امان قائم کرنے میں جتنا فرض حکومت کا بنتا ہے اتنا ہی شہریوں پر بھی عائد ہوتا ہے کہ ہر ممکن طریقے سے شہر میں امن کو قائم رکھا جائے، اور صرف یہی نہیں بلکہ بلا امتیاز ایک دوسرے کا خیال کیا جائے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اسلام ہمیں بھائی چارے کا درس دیتا ہے نہ کہ نفرت کا۔ ہمیں فقط اپنے آپ کو بس ایک مسلمان تصور کرنا چاہیے اور تفرقہ بازی سے اجتناب برتنا چاہیے۔


پاکستانی شہریوں کو خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے اور کون دشمن اور کون دوست اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے جب تک ہم پاکستانی آپس میں متحد ہیں ہماری جیت ہے اور اگر اب بھی ہم ایک نہ ہوئے تو خدا نہ کرے ہمارے ملک کا بھی وہی حال نہ ہوجائے جو افغانستان، عراق کا ہوا ہے، وہاں بھی پہلے اپنے ہی لوگوں کو آپس میں لڑوایا گیا اور پھر جب یہ ملک اندر سے کمزور ہوگیا تو ان ممالک پر بیرونی طاقتوں نے حملہ کردیا اور اپنا مفاد پورا کیا، وہ ملک ہمیشہ تباہ و برباد ہی ہوتے ہیں جن کے عوام میں آپس میں اتفاق اور محبت نہ ہو، آپس میں دشمنی کا فائدہ ہمیشہ تیسرا ہی اٹھاتا ہے۔اگر ہمیں آزادی پیاری ہے، اپنا ملک پیارا ہے تو اتفاق اور اتحاد پر ہی عمل کرنا ہوگا، جب تک ہم اندر سے مضبوط ہیں کوئی ہمارے ملک پر بری نظر نہیں ڈال سکتا، وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم سب کو آپس کے اختلافات کو بھولنا ہوگا ورنہ ہمارے ملک کو بھی افغانستان اور عراق جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اتفاق میں ہی برکت ہے اگر ہمیں خدا کی رحمت برکتیں اور رضا چاہیے تو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں جس نے اس بات سے انکار کیا اس نے نعوذ باللہ خدا کے احکامات سے انکار کیا، بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے ہم خدا کے تمام احکامات کو مانیں، اسی میں ہماری بخشش اور کامیابی ہے، جس نے خدا کے تمام احکامات کو نظرانداز کیا۔ وہ دنیا میں بھی ذلت کا سامنا کرتا ہے اور آخر میں بھی۔ خدا اتنا کریم ہے کہ وہ ہم انسانوں کو فائدے کی ہی بات کرتا ہے اگر ہم اپنے خدا کے احکامات کی پابندی کریں تو ہم بھی سکون سے ہوں اور ہمارے ملک میں بھی امن و امان قائم ہوجائے۔

یٹ*����^A (kv�نگ کمپنیوں میں بہت سخت صحت کے قوانین ہیں جہاں ہر امپورٹ کیے ہوئے پیکٹوں کو اس حد تک مانیٹر کیا جاتا ہے کہ کون سا گوشت کس فارم کے کس جانور کا ہے۔ یہ پتہ ہوتا ہے تاکہ امپورٹ کے وقت پیکٹ کا گوشت خراب ہو تو اس جگہ کے سارے گوشت کو ہٹا دیا جاتا ہے اور یہی چیز ہے جس میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔ حکومت نے کوئی بھی ایسا ٹریکنگ سسٹم نہیں رکھا ہے جس میں جانور باقاعدہ کیٹگریز میں ٹریک کیے جاتے ہوں، جہاں ہم اپنے جانوروں کو ابھی ٹریک بھی نہیں کر پارہے وہیں انڈیا کے کئی پرائیوٹ ادارے اور گورنمنٹ کے ادارے ٹیکنالوجی کی مدد سے باقاعدہ میٹ کو پروسس اسٹور اور مارکیٹ کر رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں جہاں لائیواسٹاک فارمرز کو مستقل ٹریننگ اور مواقعے دیے جارہے ہیں وہیں ہمارے یہاں فارمرز کے لیے مہنگائی کی وجہ سے زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے۔

 

پاکستان میں کچھ حد تک حلال فوڈ مارکیٹ کی طرف کام شروع ہوا ہے، جیسے پاکستان حلال ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں پہلا حلال سرٹیفکیشن اینڈ انشورنس پروگرام شروع کیا ہے جس میں پاکستان بھر کے ایکسپورٹرز کو حلال سرٹیفکیشن کی ایڈوائس دی جائے گی شاید یہی وہ پہلا قدم ہے جس کے بعد ہم آگے بڑھ کر گلوبل حلال فوڈ لیڈر بن سکیں۔

دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کامیابی کا انتظار نہیں کرسکتے، جو دوسرے ملکوں سے سیکھ سکتے ہیں، سیکھ کر خود کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کھجور ہو یا حلال فوڈ یا پھر کوئی اور ایکسپورٹ پاکستان کو اپنا Potention صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کے امکان ہیں جو ہماری بے چاری قوم کو ہر چیز میں ''آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا'' والی سوچ کو بدلنے میں مدد دے گا۔
Load Next Story