نائن الیون۔۔۔ کس کس کے بھاگوں ٹوئن ٹاورٹوٹے
ان کا ذکر جن کے لیے گرتی عمارتوں کا ملبہ سونے کا ڈھیر بن گیا
وہ واقعہ ، جس نے کرۂ ارض کے باسیوں کو نئے حقائق سے آشنا اور نئے حالات سو دوچار کیا، ہوا۔۔۔اور پھر ہم ایک نئی دنیا میں بسادیے گئے۔ عالمی گاؤں محض ایک تصور لگتا تھا، لیکن اس روز یہ تصور حقیقت بن گیا، جب نیویارک میں گرنے والی عمارت کا ملبہ پاکستان اور افغانستان سمیت لگ بھگ پوری مسلم دنیا پر یوں گرا کہ ہم اب تک اس میں دبے ہوئے ہیں۔ سو اب یہ سیارہ قبل ازمسیح اور بعد ازمسیح کی اصطلاحات لیے وقت کی لکیر کے بہ جائے ''قبل از نوگیارہ اور بعد از نوگیارہ'' کے عنوان سے زمانوں میں منقسم ہوچکا ہے۔
نائن الیون کا سانحہ ایک واردات تھی، اور ہر واردات کے بعد سیدھے سبھاؤ یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے فائدہ کسے پہنچا اور نقصان کا بار کس نے اٹھایا۔ جہاں تک خسارے کا تعلق ہے تو یہ سارے کا سارا دو طبقوں میں، تناسب کے بہت بڑے فرق کے ساتھ تقسیم ہوا اور یہ متاثرین ہیں عام امریکی اور دنیا بھر کے مسلمان، جن میں پاکستان اور افغانستان سرفہرست ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس بلی کے بھاگوں ٹوئن ٹاورز ٹوٹے، کس نے آگ پر ہنڈیا پکائی اور کس کے لیے ملبہ سونے کے ڈھیروں میں ڈھل گیا۔
شروع کرتے ہیں اسرائیل سے۔
یہ وہ دور تھا جب امریکا میں فلسطینیوں سے سلوک کے تناظر میں اسرائیل پر نکتہ چینی کی جارہی تھی اور واشنگٹن کی طرف سے تل ابیب کی حمایت پر سوال اٹھائے جارہے تھے۔
نائل الیون کے وقوع ہونے سے صرف آٹھ روز قبل اسرائیل اس وقت سکتے میں رہ گیا جب اقوام متحدہ نے صہیونیت کو نسل پرستی کے مماثل قرار دے ہی دیا۔ دوسری طرف جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں اقوام متحدہ کے تحت نسل پرستی کے خلاف منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں تین ہزار غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے اسرائیل کو نسلی عصبیت پر مبنی ریاست قرار دے دیا تھا۔
اس کانفرنس میں 153ممالک کے سرکاری نمائندے شریک ہوئے تھے۔ یہی نہیں، اس کانفرنس میں فلسطینیوں سے اسرائیل کے برتاؤ کو نسل پرستی، نسلی صفائی، نسل کشی اور جنگی جرائم پر مبنی قرار دیا گیا تھا۔ اس اعلامیے نے یہودی مفادات کے لیے سرگرم گروہوں کو ششدر کردیا تھا۔ کانفرنس کا اسرائیلی وفد نے بائیکاٹ کردیا، لیکن امریکی وفد شریک رہا تھا۔ اُدھر ڈنمارک کی ریڈکراس کے سربراہ Freddy Karup Pederson نے ڈینش مقننہ کی عالمی امور کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے فلسطینی علاقوں میں رہائش پذیر یہودی آبادکاروں کے طرز زندگی کو ماضی کے نسلی علیحدگی کے دور میں سفیدفام افراد (دیگر نسلوں کے اوطان میں) بودوباش سے تشبیہ دی تھی۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی تنقید کے ساتھ صہیونی ریاست پر ایک اور قیامت ٹوٹنے والی تھی۔ صدرجارج بش کی انتظامیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، اور اس سلسلے میں حکمت عملی وضع کی جارہی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کی 2 اکتوبر 2001 کی اشاعت کے مطابق اس وقت کے وزیرخارجہ کولن پاول نے نائن الیون کے بعد ایک تقریر میں اس منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نائن الیون کے باعث یہ منصوبہ ملتوی ہوگیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس سلسلے میں کولن پاول سعودی سفیر شہزادہ بندر بن سلطان سے گفتگو کا منصوبہ بھی بناچکے تھے۔
خود اسرائیلی حکومت میں کشمکش جاری تھی۔ وزیرخارجہ شمعون پیریز صہیونی فوج کے افسران پر یاسرعرفات کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام لگارہے تھے۔ اسرائیل کے موقر اخبار Yedioth Ahronothمیں شایع شدہ ایک انٹرویو کے مطابق شمعون پیریز یاسرعرفات کے ساتھ فائر بندی پر بات چیت کے لیے سرگرم تھے، لیکن اسرائیلی فوج نے شمعون کے ارادے کی بیخ کُنی کے لیے ان پر کیچڑ اچھالنے کی مہم شروع کردی۔ یاسرعرفات نے مصر کے دورے میں انکشاف کیا تھا کہ وہ اور شمعون پیریز فائربندی کے لیے سمجھوتے کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن اسرائیل کے سیاسی اور عسکری حکام نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اس معاملے میں اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون اپنے وزیرخارجہ کے حریف تھے۔
گویا اسرائیل کے لیے حالات مشکل تر ہوتے جارہے تھے، دنیا اس کے کرتوتوں سے آشنا اور متنفر ہورہی تھی اور بڑھتا ہوا عالمی دباؤ اسرائیل کو فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا تھا، شمعون پیریز کی کوششیں اسی دباؤ کا نتیجہ تھیں۔
لیکن نائن الیون کے ساتھ ہی صورت حال یکسر بدل کر اسرائیل کے حق میں ہوگئی۔ امریکا میں صہیونی ریاست کے خلاف بنتی رائے عامہ نے اپنا رُخ تبدیل کرلیا۔ عرب ممالک نفرت کا ہدف بن گئے، اور فلسطینی بھی عرب ٹھیرے، لہٰذا اسرائیل کی ہر خطا معاف ہوئی۔ دور ہوتے واشنگٹن اور تل ابیب قریب آگئے۔ اب کوئی اسرائیل کی نسل پرستانہ روش کی بابت سوال نہیں اٹھا رہا تھا۔
اسرائیل کے کرتوتوں پر ہونے والی ساری تنقید ٹوئن ٹاور کے ملبے سے اٹھتے غبار میں کھوگئی۔ امریکی عوام اب اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق ''دی انسٹی ٹیوٹ فار جیوش اینڈ کمیونٹی ریسرچ'' کے زیراہتمام ہونے والے سروے میں منکشف ہوا کہ75 فی صد امریکی شہریوں کی رائے تھی کہ امریکا کے اسرائیل سے تعلقات کو مزید مضبوط کیا جائے یا کم ازکم جس سطح پر ہیں اس پر برقرار رکھا جائے، جب کہ 82 فی صد امریکی رضامند ہوگئے کہ اسرائیل ''دہشت گردی'' سے نمٹنے کے لیے جو ضروری سمجھتا ہے وہ کرڈالے۔
نیویارک پورٹ اتھارٹی نے نائن الیون سے صرف تین ماہ قبل ٹوئن ٹاور کی لیز رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ تاجر Larry Silverstein کو فروخت کردی تھی، جس نے اس عمارت کی بھاری مالیت کی کرائی تھی، یہ معاوضہ ٹوئن ٹاور پر دہشت گردوں کے حملے یا ان سے کسی طیارے کے ٹکرانے کے باعث ہونے والے نقصان سے مشروط تھا، جو ہوکر رہا۔ حملے کے بعد عدالتی حکم سے سلوراسٹین کو 4 اعشاریہ 1 ارب ڈالر بہ طور معاوضہ ملے۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سلوراسٹین نے ٹوئن ٹاور کی لیز حاصل کرنے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ہر روز ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سب سے اوپر کے فلور (جسے دنیا کی کھڑکیاں کہا جاتا تھا) میں ناشتہ کرتا اور کافی پیتا ہے، لیکن جس وقت یہ عمارت زمیں بوس ہوئی وہ ایک ماہرامراض جلد کے پاس تھا۔ اب اسے جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے!
حملہ ہوتے ہی یہ فرض کرلیا گیا کہ اس میں القاعدہ ملوث ہے جس کا سربراہ اسامہ بن لادن افغانستان میں مقیم تھا۔ چناں چہ اس افغانستان پر حملہ ہوا جو کبھی ہیروئن کی فروخت کا گڑھ تھا اور جہاں طالبان کی حکومت نے پوست کی کاشت صفر فی صد کرکے ہیروئن کا دھندا یکسر ختم کردیا تھا، افغانستان پر یلغار کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی، جس کے ساتھ ہی ہیروئن کا کاروبار پھر شروع ہوگیا۔ نتیجتاً سفید سفوف کا کالا بیوپار کرنے والے ایک بار پھر بلین ڈالرز میں کھیلنے لگے۔ ساتھ ہی امریکی فوج اور خفیہ اداروں کو دنیا میں اپنے سازشی کھیل کھیلنے کے لیے مالی ذرائع کے حصول کا بند ہوجانے والا ذریعہ دوبارہ ہاتھ آگیا۔
اس سانحے سے پہلے، سرد جنگ کے خاتمے کے باعث، امریکا کے عسکری آلات واوزار بنانے والی کمپنیاں زبوں حالی کا شکار تھیں، لیکن نوگیارہ کے بعد کی صورت حال نے ان کی کایا کلپ کردی۔ عسکری کنٹریکٹس کرنے والی کچھ کارپویشنوں کے حصص کی قدر آناً فاناً آسمان پر جاپہنچی۔ دوسری طرف امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان اور عسکری آلات ساز اداروں کے بجٹ میں دگنا اضافہ کردیا گیا۔
امریکا کے طاقت ور صنعتی لیڈر اور بعض تھنک ٹینکس یہ یقین رکھتے ہیں کہ مخصوص کمپنیز کا اسٹریٹیجک وسائل، جیسے تیل اور گیس، کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ تو کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نائن الیون کے بعد جن ملکوں کو ہدف بنایا گیا وہ تیل اور گیس سمیت قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں؟
صنعتوں کے لیے ضروری ہے کہ انھیں کسی رکاوٹ کے بغیر ایندھن ملتا رہے۔ اس سلسلے میں ایک منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے تحت افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر ایک آئل پائپ لائن بچھائی جانی تھی، یہ تیل بحرہند کے ذریعے امریکا پہنچتا، اس منصوبے کے لیے ان ممالک میں ایسے حالات کی ضرورت تھی کہ کوئی اس پائپ لائن کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اگرچہ یہ منصوبہ روبہ عمل نہ آسکا لیکن جنگ کے بعد کے حالات نے بھاری منافعوں کی صورت میں آئل کمپنیز کو زر سے نہلادیا۔
عراق پر قبضے کے بعد مقبوضہ ملک کے کرتادھرتا بنائے جانے والے Paul Bremer اور بش انتظامیہ کی جانب سے نام زد کردہ دس افراد کی کمیٹی نے عراق کا جو آئین تیار کیا وہ عراق میں آزاد تجارت کے نظام کو فروغ دیتے ہوئے نیولبرل معیشت کے اصولوں کے مطابق اقوام عالم کے لیے عراقی کے قدرتی وسائل کی ملکیت حاصل کرنا آسان بناتا تھا۔ اسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے امریکی قبضے کے دوران عراق کی 200سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کردی گئی۔
امریکا اور یورپ میں دائیں بازو کے مسیحی اور یہودی حلقے جو ہر ہر اس چیز کے خلاف تعصب پھیلاتے رہے ہیں جس سے مسلمانوں یا عربوں کوئی فائدہ پہنچتا ہو، انھوں نے نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کی جنگ شروع کردی، چناں چہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے سے شروع ہونے والی مہم اسلامی دہشت گردی، اسلامی فاشزم، اسلامی جنون اور اسلامی انتہاپسندی کی اصطلاحات کے ساتھ عروج پر پہنچ چکی ہے اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اس فکر کے نمائندہ بن کر صدارتی منصب کے لیے کوشاں ہیں اور اس منصب کے حصول کا امکان بھی رکھتے ہیں۔
آزادی کی سرزمین امریکا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی جو خوف خاص طور پر دہشت گردی کو بہ طور عذر استعمال کرتے ہوئے شہری آزادیوں کا خون کرسکیں، جو جمہوری ممالک میں بنیادی قدر اور دین ایمان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد اس سوچ کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔امریکا اپنے شہریوں کے لیے ایک فاشسٹ ریاست بن چکا ہے، جہاں آزادی اظہار کو آن لائن سرگرمیوں کے ذریعے گرفت کیا جارہا ہے اور جہاں عدالت ایک ماں کو صرف قتل کی کوشش یا ارادے کے الزام میں86سال قید کی سزا سنادیتی ہے۔
مختلف ممالک کے سیاست داں اور حکم راں نائن الیون کی برکت سے فیض یاب ہوئے جو امریکی پالیسیوں اور اقدامات کا ساتھ دے کر مال بنانے اور طاقت اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے خواہش مند ہیں، جیسے ہمارے اس دور کے حکم راں پرویزمشرف جو فوجی آمر ہونے کے باعث عالمی تنہائی سے دوچار تھے، لیکن اس سانحے کے بعد امریکا کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ اسی طرح لفظوں کے دام کھرے کرنے والے صحافی بھی پروپیگنڈے کے کھیل میں شامل ہوکر مالامال ہوئے۔ برکت پانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جعلی ویب سائٹس بناکر دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے امریکی پیش قدمیوں کے لیے راستہ ہموار کرتے رہے ہیں۔
سودوزیاں کی اس کہانی میں ان کے چہرے عیاں ہیں جن کے لیے یہ سانحہ سودمند رہا اور جنھیں اس کی ضرورت تھی، مگر سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ جنھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا نقصان کا سارا ملبہ ان پر ڈال دیا گیا۔ عجیب داستاں ہے یہ۔
نائن الیون کا سانحہ ایک واردات تھی، اور ہر واردات کے بعد سیدھے سبھاؤ یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے فائدہ کسے پہنچا اور نقصان کا بار کس نے اٹھایا۔ جہاں تک خسارے کا تعلق ہے تو یہ سارے کا سارا دو طبقوں میں، تناسب کے بہت بڑے فرق کے ساتھ تقسیم ہوا اور یہ متاثرین ہیں عام امریکی اور دنیا بھر کے مسلمان، جن میں پاکستان اور افغانستان سرفہرست ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس بلی کے بھاگوں ٹوئن ٹاورز ٹوٹے، کس نے آگ پر ہنڈیا پکائی اور کس کے لیے ملبہ سونے کے ڈھیروں میں ڈھل گیا۔
شروع کرتے ہیں اسرائیل سے۔
یہ وہ دور تھا جب امریکا میں فلسطینیوں سے سلوک کے تناظر میں اسرائیل پر نکتہ چینی کی جارہی تھی اور واشنگٹن کی طرف سے تل ابیب کی حمایت پر سوال اٹھائے جارہے تھے۔
نائل الیون کے وقوع ہونے سے صرف آٹھ روز قبل اسرائیل اس وقت سکتے میں رہ گیا جب اقوام متحدہ نے صہیونیت کو نسل پرستی کے مماثل قرار دے ہی دیا۔ دوسری طرف جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں اقوام متحدہ کے تحت نسل پرستی کے خلاف منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں تین ہزار غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے اسرائیل کو نسلی عصبیت پر مبنی ریاست قرار دے دیا تھا۔
اس کانفرنس میں 153ممالک کے سرکاری نمائندے شریک ہوئے تھے۔ یہی نہیں، اس کانفرنس میں فلسطینیوں سے اسرائیل کے برتاؤ کو نسل پرستی، نسلی صفائی، نسل کشی اور جنگی جرائم پر مبنی قرار دیا گیا تھا۔ اس اعلامیے نے یہودی مفادات کے لیے سرگرم گروہوں کو ششدر کردیا تھا۔ کانفرنس کا اسرائیلی وفد نے بائیکاٹ کردیا، لیکن امریکی وفد شریک رہا تھا۔ اُدھر ڈنمارک کی ریڈکراس کے سربراہ Freddy Karup Pederson نے ڈینش مقننہ کی عالمی امور کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے فلسطینی علاقوں میں رہائش پذیر یہودی آبادکاروں کے طرز زندگی کو ماضی کے نسلی علیحدگی کے دور میں سفیدفام افراد (دیگر نسلوں کے اوطان میں) بودوباش سے تشبیہ دی تھی۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی تنقید کے ساتھ صہیونی ریاست پر ایک اور قیامت ٹوٹنے والی تھی۔ صدرجارج بش کی انتظامیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، اور اس سلسلے میں حکمت عملی وضع کی جارہی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کی 2 اکتوبر 2001 کی اشاعت کے مطابق اس وقت کے وزیرخارجہ کولن پاول نے نائن الیون کے بعد ایک تقریر میں اس منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نائن الیون کے باعث یہ منصوبہ ملتوی ہوگیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس سلسلے میں کولن پاول سعودی سفیر شہزادہ بندر بن سلطان سے گفتگو کا منصوبہ بھی بناچکے تھے۔
خود اسرائیلی حکومت میں کشمکش جاری تھی۔ وزیرخارجہ شمعون پیریز صہیونی فوج کے افسران پر یاسرعرفات کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام لگارہے تھے۔ اسرائیل کے موقر اخبار Yedioth Ahronothمیں شایع شدہ ایک انٹرویو کے مطابق شمعون پیریز یاسرعرفات کے ساتھ فائر بندی پر بات چیت کے لیے سرگرم تھے، لیکن اسرائیلی فوج نے شمعون کے ارادے کی بیخ کُنی کے لیے ان پر کیچڑ اچھالنے کی مہم شروع کردی۔ یاسرعرفات نے مصر کے دورے میں انکشاف کیا تھا کہ وہ اور شمعون پیریز فائربندی کے لیے سمجھوتے کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن اسرائیل کے سیاسی اور عسکری حکام نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اس معاملے میں اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون اپنے وزیرخارجہ کے حریف تھے۔
گویا اسرائیل کے لیے حالات مشکل تر ہوتے جارہے تھے، دنیا اس کے کرتوتوں سے آشنا اور متنفر ہورہی تھی اور بڑھتا ہوا عالمی دباؤ اسرائیل کو فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا تھا، شمعون پیریز کی کوششیں اسی دباؤ کا نتیجہ تھیں۔
لیکن نائن الیون کے ساتھ ہی صورت حال یکسر بدل کر اسرائیل کے حق میں ہوگئی۔ امریکا میں صہیونی ریاست کے خلاف بنتی رائے عامہ نے اپنا رُخ تبدیل کرلیا۔ عرب ممالک نفرت کا ہدف بن گئے، اور فلسطینی بھی عرب ٹھیرے، لہٰذا اسرائیل کی ہر خطا معاف ہوئی۔ دور ہوتے واشنگٹن اور تل ابیب قریب آگئے۔ اب کوئی اسرائیل کی نسل پرستانہ روش کی بابت سوال نہیں اٹھا رہا تھا۔
اسرائیل کے کرتوتوں پر ہونے والی ساری تنقید ٹوئن ٹاور کے ملبے سے اٹھتے غبار میں کھوگئی۔ امریکی عوام اب اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق ''دی انسٹی ٹیوٹ فار جیوش اینڈ کمیونٹی ریسرچ'' کے زیراہتمام ہونے والے سروے میں منکشف ہوا کہ75 فی صد امریکی شہریوں کی رائے تھی کہ امریکا کے اسرائیل سے تعلقات کو مزید مضبوط کیا جائے یا کم ازکم جس سطح پر ہیں اس پر برقرار رکھا جائے، جب کہ 82 فی صد امریکی رضامند ہوگئے کہ اسرائیل ''دہشت گردی'' سے نمٹنے کے لیے جو ضروری سمجھتا ہے وہ کرڈالے۔
نیویارک پورٹ اتھارٹی نے نائن الیون سے صرف تین ماہ قبل ٹوئن ٹاور کی لیز رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ تاجر Larry Silverstein کو فروخت کردی تھی، جس نے اس عمارت کی بھاری مالیت کی کرائی تھی، یہ معاوضہ ٹوئن ٹاور پر دہشت گردوں کے حملے یا ان سے کسی طیارے کے ٹکرانے کے باعث ہونے والے نقصان سے مشروط تھا، جو ہوکر رہا۔ حملے کے بعد عدالتی حکم سے سلوراسٹین کو 4 اعشاریہ 1 ارب ڈالر بہ طور معاوضہ ملے۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سلوراسٹین نے ٹوئن ٹاور کی لیز حاصل کرنے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ہر روز ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سب سے اوپر کے فلور (جسے دنیا کی کھڑکیاں کہا جاتا تھا) میں ناشتہ کرتا اور کافی پیتا ہے، لیکن جس وقت یہ عمارت زمیں بوس ہوئی وہ ایک ماہرامراض جلد کے پاس تھا۔ اب اسے جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے!
حملہ ہوتے ہی یہ فرض کرلیا گیا کہ اس میں القاعدہ ملوث ہے جس کا سربراہ اسامہ بن لادن افغانستان میں مقیم تھا۔ چناں چہ اس افغانستان پر حملہ ہوا جو کبھی ہیروئن کی فروخت کا گڑھ تھا اور جہاں طالبان کی حکومت نے پوست کی کاشت صفر فی صد کرکے ہیروئن کا دھندا یکسر ختم کردیا تھا، افغانستان پر یلغار کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی، جس کے ساتھ ہی ہیروئن کا کاروبار پھر شروع ہوگیا۔ نتیجتاً سفید سفوف کا کالا بیوپار کرنے والے ایک بار پھر بلین ڈالرز میں کھیلنے لگے۔ ساتھ ہی امریکی فوج اور خفیہ اداروں کو دنیا میں اپنے سازشی کھیل کھیلنے کے لیے مالی ذرائع کے حصول کا بند ہوجانے والا ذریعہ دوبارہ ہاتھ آگیا۔
اس سانحے سے پہلے، سرد جنگ کے خاتمے کے باعث، امریکا کے عسکری آلات واوزار بنانے والی کمپنیاں زبوں حالی کا شکار تھیں، لیکن نوگیارہ کے بعد کی صورت حال نے ان کی کایا کلپ کردی۔ عسکری کنٹریکٹس کرنے والی کچھ کارپویشنوں کے حصص کی قدر آناً فاناً آسمان پر جاپہنچی۔ دوسری طرف امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان اور عسکری آلات ساز اداروں کے بجٹ میں دگنا اضافہ کردیا گیا۔
امریکا کے طاقت ور صنعتی لیڈر اور بعض تھنک ٹینکس یہ یقین رکھتے ہیں کہ مخصوص کمپنیز کا اسٹریٹیجک وسائل، جیسے تیل اور گیس، کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ تو کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نائن الیون کے بعد جن ملکوں کو ہدف بنایا گیا وہ تیل اور گیس سمیت قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں؟
صنعتوں کے لیے ضروری ہے کہ انھیں کسی رکاوٹ کے بغیر ایندھن ملتا رہے۔ اس سلسلے میں ایک منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے تحت افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر ایک آئل پائپ لائن بچھائی جانی تھی، یہ تیل بحرہند کے ذریعے امریکا پہنچتا، اس منصوبے کے لیے ان ممالک میں ایسے حالات کی ضرورت تھی کہ کوئی اس پائپ لائن کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اگرچہ یہ منصوبہ روبہ عمل نہ آسکا لیکن جنگ کے بعد کے حالات نے بھاری منافعوں کی صورت میں آئل کمپنیز کو زر سے نہلادیا۔
عراق پر قبضے کے بعد مقبوضہ ملک کے کرتادھرتا بنائے جانے والے Paul Bremer اور بش انتظامیہ کی جانب سے نام زد کردہ دس افراد کی کمیٹی نے عراق کا جو آئین تیار کیا وہ عراق میں آزاد تجارت کے نظام کو فروغ دیتے ہوئے نیولبرل معیشت کے اصولوں کے مطابق اقوام عالم کے لیے عراقی کے قدرتی وسائل کی ملکیت حاصل کرنا آسان بناتا تھا۔ اسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے امریکی قبضے کے دوران عراق کی 200سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کردی گئی۔
امریکا اور یورپ میں دائیں بازو کے مسیحی اور یہودی حلقے جو ہر ہر اس چیز کے خلاف تعصب پھیلاتے رہے ہیں جس سے مسلمانوں یا عربوں کوئی فائدہ پہنچتا ہو، انھوں نے نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کی جنگ شروع کردی، چناں چہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے سے شروع ہونے والی مہم اسلامی دہشت گردی، اسلامی فاشزم، اسلامی جنون اور اسلامی انتہاپسندی کی اصطلاحات کے ساتھ عروج پر پہنچ چکی ہے اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اس فکر کے نمائندہ بن کر صدارتی منصب کے لیے کوشاں ہیں اور اس منصب کے حصول کا امکان بھی رکھتے ہیں۔
آزادی کی سرزمین امریکا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی جو خوف خاص طور پر دہشت گردی کو بہ طور عذر استعمال کرتے ہوئے شہری آزادیوں کا خون کرسکیں، جو جمہوری ممالک میں بنیادی قدر اور دین ایمان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد اس سوچ کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔امریکا اپنے شہریوں کے لیے ایک فاشسٹ ریاست بن چکا ہے، جہاں آزادی اظہار کو آن لائن سرگرمیوں کے ذریعے گرفت کیا جارہا ہے اور جہاں عدالت ایک ماں کو صرف قتل کی کوشش یا ارادے کے الزام میں86سال قید کی سزا سنادیتی ہے۔
مختلف ممالک کے سیاست داں اور حکم راں نائن الیون کی برکت سے فیض یاب ہوئے جو امریکی پالیسیوں اور اقدامات کا ساتھ دے کر مال بنانے اور طاقت اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے خواہش مند ہیں، جیسے ہمارے اس دور کے حکم راں پرویزمشرف جو فوجی آمر ہونے کے باعث عالمی تنہائی سے دوچار تھے، لیکن اس سانحے کے بعد امریکا کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ اسی طرح لفظوں کے دام کھرے کرنے والے صحافی بھی پروپیگنڈے کے کھیل میں شامل ہوکر مالامال ہوئے۔ برکت پانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جعلی ویب سائٹس بناکر دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے امریکی پیش قدمیوں کے لیے راستہ ہموار کرتے رہے ہیں۔
سودوزیاں کی اس کہانی میں ان کے چہرے عیاں ہیں جن کے لیے یہ سانحہ سودمند رہا اور جنھیں اس کی ضرورت تھی، مگر سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ جنھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا نقصان کا سارا ملبہ ان پر ڈال دیا گیا۔ عجیب داستاں ہے یہ۔