تقسیم در تقسیم اور جنگی خطرات

خواجہ اظہار متحدہ کے ان ارکان پارلیمنٹ میں اور ایم کیو ایم کے ابتدائی ارکان میں سے ایک ہیں

anisbaqar@hotmail.com

پاکستان میں سیاسی پارٹیاں کئی حصوں میں تقسیم ہیں' یہ محض نظریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اکثریت ذاتی انا پر تقسیم ہیں اور نظریات کا اس میں کم ہی دخل ہے۔ مثلاً مسلم لیگ (ق)،ج، ن وغیرہ وغیرہ۔ مہاجرقومی موومنٹ اور ایم کیو ایم پاکستان جو 22 اگست سے قبل ایم کیو ایم تھی۔ پیپلزپارٹی بھی لخت لخت ہوئی، مگر وہ بلاول بھٹو والی ہی فی الحال جانی پہچانی جاتی ہے اور باقی موسمی پارٹی بن کر رہ گئی گو کہ بلاول بھٹو کی قیادت دور رس اور دور بین نہیں کیونکہ اس پارٹی میں تجربے کا فقدان ہے۔

17 ستمبر کو ایس ایس پی راؤ انوار نے جب خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کیا تو فوری طور پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ایس ایس پی راؤ انوار کو معطل کر دیا ۔اس کے باوجود راؤ انوار نے زبانی کلامی مزاحمت جاری رکھی اور ملک میں دو قسم کی آوازیں بلند ہونے لگیں ایک خواجہ اظہار الحسن کی حمایت میں دوسری ان کی مخالفت میں۔ خواجہ اظہار متحدہ کے ان ارکان پارلیمنٹ میں اور ایم کیو ایم کے ابتدائی ارکان میں سے ایک ہیں جب کہ راؤ انوار ان پولیس افسران میں سے ایک ہیں جو 92ء کے ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن کے عمل میں پیش پیش تھے اور آج تک بہ فضل خدا سلامت ہیں اس وقت کے بیشتر پولیس افسر حیات نہ رہے اس وجہ سے ان کی بعض پولیس کے حلقوں میں راؤانوار کی اہمیت ہے ۔

سب سے بڑھ کر نواز شریف نے وزیر اعلیٰ سندھ کے لحن سے لحن ملا کر بیان جاری کیا مگر عمران خان نے اپنا بیان راؤ انوار کی حمایت میں جاری کیا اس سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک وہ جو پرو نواز شریف ہیں، دوسری وہ جو نواز شریف کے خلاف۔ جس کو میڈیا بھی اسی طور سے تقسیم کرتا ہے اور عام طور پر نواز مخالف حلقے کو اسٹیبلشمنٹ کی لائن قرار دیا جاتا ہے۔ اب میڈیا بھی دو حصوں میں یوں ہی تقسیم ہے جہاں جس کا داؤ لگا اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

البتہ اب فوج کی کارکردگی کو عام لوگوں میں سراہا جانے لگا ہے ورنہ کراچی میں امن کمیٹی کے نام پر اور ایم کیو ایم کے نام پر جو کام ہو رہے تھے اس سے پورا شہر معاشی طور پر مفلوج ہو گیا تھا اب ہرطرف سے ضرب عضب کی پذیرائی ہے، ورنہ ایک وقت ایسا تھا کہ چند نام نہاد تبصرہ نگار کہتے تھے کہ اگر طالبان کو ہاتھ لگایا تو ملک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی اور حکومت کو چاہیے کہ وہ مفاہمت کر لے۔ گویا ملک میں ایک اور قوت کی حکومت قائم کردی جائے، وہ اینکر پرسن آج دوسری بولی بولنے میں مصروف ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے خلاف مسلسل گفتگو جاری ہے۔ اس طرح ناظرین بھی کئی حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، اس کی واضح مثال سوسائٹی کا دو مختلف حصوں میں تقسیم ہو جانا ہے اور یہ تقسیم سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک تازہ چارہ ہیں۔

رائے ونڈ مارچ کو دیکھیے دونوں جانب سے غارت گری اور خوں ریزی کے آثار نمایاں ہیں، ظاہر ہے ایسی صورت کو ختم کرنے کے لیے فوجی مداخلت ضروری ہے۔ حزب مخالف کی جانب سے اگر یہ ایندھن فراہم کیا جا رہا ہے تو کم از کم فدائین نواز شریف کو تو تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ بدامنی نہ پرورش پائے۔


آخر ایسے موقعے پر جب ملک حالت جنگ میں ہو، مہمند ایجنسی میں خودکش حملہ اور ہر روز بڑے حملے میں بال بال بچنے کی اطلاع آئے دن خصوصاً باجوڑ، فاٹا سے چلی آ رہی ہیں ان اندرونی خلفشار سے فوج نمٹنے میں مصروف ہے جب کہ بھارت اور افغانستان بہتر موقعے کی تلاش میں کوشاں ہیں اور ملک میں مجموعی طور پر سیاسی تقسیم جاری ہے یہ افسوس کا مقام ہے کہ حکمران جماعت ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور نہ حزب مخالف۔ ہم یہ تو تاریخی اعتبار سے کہتے ہیں کہ اتنی بار پاکستان کی سویلین حکومت کا تختہ الٹا گیا مگر لکھنے والوں نے یہ نہ لکھا کہ ایسا کیوں ہوا اور ملکی حالات کس نہج پر پہنچ گئے تھے اور آنے والوں نے بروقت انتخابات کروا کے اقتدار عوام کے حوالے نہ کیا مگر یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں نے اپنے اندر جرائم پیشہ عناصرکی بہتات رکھی تھی اور حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے پایا۔ قبضہ مافیا، فرقہ پرستی، بھتہ مافیا اپنے عروج پر ہو گئی جو قیام پاکستان کے وقت بالکل نہ تھی حالانکہ تب انتظامی مشنری مضبوط نہ تھی البتہ لیڈرشپ کا کردار باضمیر تھا۔ ایک اعلیٰ قسم کی لیڈرشپ بھی ملک کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مگر خان لیاقت علی خان کے بعد کوئی زیرک حکمراں نہ رہا، وہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کو تھے کہ موت نے ان کو دبوچ لیا اس طریقے سے پاکستان میں پہلی بار یہ تاثر پیدا ہوا کہ بھارت سے آیا ہوا لیڈر پاکستان کا حکمران نہ بن سکا۔ گویا پہلی بار ملک میں تقسیم کی خو، بو اور مقامی اورغیر مقامی کی کیفیت پیدا ہوئی مگر فوری آنے والے حکمرانوں نے اس کیفیت کو ہوا نہ دی اور تقسیم کی ہوا نسبتاً کم ہو گئی مگر کوئی ایسا لیڈر پاکستان کو نہ ملا کہ ہر شہری کو یکساں مقام ملے صوبائیت کا مواد ملک میں پھیلنے نہ پائے مگر صوبائیت تیزی سے ترقی کرتی رہی، بنگالیوں کی رنگت، قد و قامت، لب و لہجہ ذرا مختلف تھا۔ ان کو دور سے پہچانا جا سکتا تھا۔ اس لیے ان سے ناانصافی بھی ہوئی اور دوریاں بھی بڑھیں۔

اس عمل نے ملکی تقسیم کے عمل کو تیز ترکیا گوکہ تقسیم فوجی حکومت کے ہاتھوں نہ ہوئی مگر اس عمل کو تیز ترکرنے میں ایوب خان کا ہاتھ تھا جب جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا گیا تو ان کی عمدہ حکمت عملی اور تعصب کی ہر گرہ کھولنے سے مشرقی پاکستان کے باسیوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ بنگالیوں کو پاکستانی سمجھا گیا اور جو کدورت ان کے دل میں تھی نکل گئی اور جب ان کو کراچی لایا گیا تو کورنگی کے کوارٹروں کی تیاری کے عمل کو تیز تر کیا لہٰذا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ پاکستان میں سویلین حکومت کی کارکردگی بہتر رہی ہے اور عسکری قیادت اچھی کارکردگی کی حامل نہ تھی لہٰذا اچھی حکومت کرنے کے لیے اچھی قیادت کی تلاش تھی جیساکہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو تلاش کیا مگر وہ دوسری بات ہے کہ ملکی اور غیرملکی سیاسی قوتوں نے بھٹو کی بہتر سیاسی حکمت عملی کی بنا پر ان کی ساکھ کو چار چاند لگا دیے اور ایوب خان کی کوتاہیوں نے ان کو اقتدار سے الگ کر دیا۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب کوئی بلندی کی جانب جاتا ہے تو یہ اس کی خیال آفرینی اور صحیح فیصلے ہوتے ہیں اور پستی پرواز میں کوتاہی اور بے اصولی ہوتی ہے گو کہ شملہ معاہدہ اور معاہدہ تاشقند میں کوئی خاص فرق نہ تھا مگر معاہدہ تاشقند کو بے عمل قرار دینے کی وجہ سے روس سے پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے مگر یہ سیاست کی بازی گری ہے۔

اسی روس نے پاکستان اسٹیل مل لگائی جہاں ایشیا کا سب سے بڑا بلاسٹ فرنس لگایا، اگر غور سے دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ بہت خطرناک موقع ہے جس میں پاکستان کے ساتھ 24 ستمبر کو پاک روس فوجی مشقیں شروع ہونے کو ہیں 70 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ روس اور پاکستان کی فوجی مشقیں ہو رہی ہیں جب کہ روس اور سعودی عرب کے انتہائی خراب تعلقات ہیں کیونکہ شام پر حملہ سعودی عرب اورامریکا کے تعاون سے ہوا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ جان کیری اور وزیر اعظم نوازشریف کی امریکا میں تعلقات و تعاون بڑھانے پر مصر ہیں مگر روس کے ساتھ امریکا کی پراکسی وار شکست سے دوچار ہے کیونکہ باغیوں کو حلب میں گھیرا ڈال کر بڑی شکست سے دوچار کر دیا۔

پاکستان اور روس کی فوجی مشقوں سے بھارت کو بڑی پریشانی ہے واضح رہے کہ اگر 1970ء میں روس نے بھارت کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو بنگلہ دیش ایک آزاد ملک نہ ہوتا مگر آج روس براہمداغ بگٹی کے ساتھ نہیں کھڑا ہے یہ مشقیں نہ صرف اسلحے اور فنی معلومات کے داؤ پیچ ہیں بلکہ باہمی تعلقات کا بھی ملاپ ہے، جو ایک قسم کی فوجی سفارتکاری ہے ورنہ تو بھارت اڑی سیکٹرکی دہشتگردی کی آر میں پاکستان پر حملے کی تیاری شروع کرنے کو تھا پاکستان کی حالیہ کورکمانڈر کانفرنس نے بھی علاقائی حالات کا جائزہ لیا اور امید ظاہر کی کہ حالات قابو میں ہیں۔ ادھر نوازشریف نے ایک بہترگفتگو کی جس سے دو ایٹمی قوتوں کے تصادم کے خطرات جاتے رہے اور گرد و نواح کی صورتحال میں تقسیم در تقسیم اور خانہ جنگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی وہ بھی جاتی رہی مگر اندرونی طور پر رائے ونڈ مارچ ایک پر خطر کھیل کی شکل اختیارکر چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔
Load Next Story