شوگرکے مریضوں کے لیے احتیاطی تدابیر

اگر آپ صحت مند ہیں تب بھی یہ تدابیر آپ کی صحت برقرار رکھنے میں بڑی مدد کرسکتی ہیں۔

چند روزمرہ تدابیر جو بلڈ شوگر کنٹرول رکھنے میں آپ کی بہت مدد کرسکتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ذیابیطس یا شوگر ایسی بیماری ہے جو زندگی میں ایک بار ہوجائے تو پھر کبھی نہیں جاتی جب کہ اس کے مریض کو ساری زندگی احتیاط اور دواؤں پر گزارا کرنا پڑتا ہے تاکہ ذیابیطس کی شدت بڑھنے نہ پائے۔

خدانخواستہ اگر آپ بھی شوگر (یعنی ٹائپ ٹو ڈائبٹیز) کے مریض ہیں اور اس پر بہتر کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں تو درج ذیل آسان تدابیر کے ذریعے ایسا ممکن ہے اگر آپ صحت مند ہیں تب بھی یہ تدابیر آپ کی صحت برقرار رکھنے میں بڑی مدد کرسکتی ہیں۔

کیفین:

انرجی ڈرنک ہو، چائے ہو، کافی ہو، بلیک کافی ہو، بغیر دودھ کی چائے ہو یا پھر سبز چائے ہی کیوں نہ ہو، ان سب میں کیفین موجود ہوتی ہے اور انہیں استعمال کرنے کے بعد خون میں شوگر کی سطح بلند ہوسکتی ہے۔ محدود مقدار میں کیفین کا استعمال اُن افراد کے لیے ضرور مفید ہے جنہیں ذیابیطس لاحق نہیں لیکن شوگر کے مریضوں کو کیفین استعمال کرنے میں محتاط رہنا چاہیے۔



شوگر فری غذائیں:

ذیابیطس کے مریضوں کو لبھانے کے لیے اکثر ''شوگر فری مٹھائیوں'' اور ''شوگر فری مشروبات'' کو صحت بخش متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن ان کا استعمال بھی شوگر میں اضافہ کرسکتا ہے۔ ایسی تمام غذاؤں میں نشاستہ (اسٹارچ) بھی ایک مستقل جزو کے طور پر شامل ہوتا ہے جس سے ہاضمے کے دوران مختلف الاقسام شکریات بنتی اور خون میں شامل ہوجاتی ہیں۔ علاوہ ازیں شوگر فری مٹھائیوں اور مشروبات میں سکروز شامل کی جاتی ہے جو بذاتِ خود شکر ہی کی ایک قسم ہے جو بلڈ شوگر میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔



پیزا، چائنیز فوڈ اور فرنچ فرائیز:

چائنیز فوڈ میں عام طور پر چاول شامل ہوتے ہیں جو بلڈ شوگر بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرنچ فرائیز اور پیزا وغیرہ جیسے فاسٹ فوڈز چکنائی سے بھرپور ہوتے ہیں جو خاصی دیر تک خون میں شکر کی مقدار برقرار رکھتے ہیں۔ اس لیے ان سے پرہیز کریں اور اگر مکمل پرہیز ممکن نہ ہوتوانہیں کم سے کم مقدار میں استعمال کریں۔ اس کے علاوہ ایسی کوئی بھی چیز کھانے کے 2 گھنٹے بعد بلڈ شوگر ضرور چیک کریں۔




زکام کی دوائیں:

جب ہمارا جسم کسی بیماری سے نبرد آزما ہوتا ہے تو خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ بیماری کے دوران زیادہ پانی پیا جائے اور بہتر ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ البتہ یہ دھیان رکھیں کہ زکام کی بیشتر دوائیں، چاہے وہ اینٹی بایوٹکس ہوں یا جکڑے ہوئے سینے اور بند گلے کو کھولنے والی، آپ کی بلڈ شوگر بڑھانے کا باعث بن سکتی ہیں۔



کام کا دباؤ:

اگر آپ اپنے کام یا ملازمت سے ناخوش ہیں تو اس نفسیاتی دباؤ کا اثر آپ کی صحت پر بھی پڑتا ہے۔ اعصابی دباؤ یا تناؤ کی حالت میں آپ کا جسم ایسے ہارمون خارج کرتا ہے جو خون میں شکر کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ ایسا ٹائپ ٹو شوگر والے مریضوں کے ساتھ عموماً ہوتا ہے۔ تناؤ کی حالت میں لمبے سانس لے کر خود کو معمول پر لانے کی کوشش کریں اور اگر ممکن ہو تو اعصابی تناؤ کا باعث بننے والی باتوں، عادتوں اور ماحول کو تبدیل ہی کردیں۔



خشک میوہ:

ویسے تو صحت کے لیے موسمی پھل کھانا مفید رہتا ہے لیکن خشک میوہ جات (ڈرائی فروٹس) کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کی کم مقدار میں بھی کاربوہائیڈریٹس (بشمول شکر) کی خاصی مقدار موجود ہوسکتی ہے۔ اس لیے ذیابیطس کے مریضوں کو ہر موسم میں خشک میوے کھاتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے اور انہیں ہر ممکن حد تک کم سے کم مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔



اسٹیرائیڈز اور پیشاب آور دوائیں:

جلد پر خراشوں، دمے، گٹھیا اور ایسی دوسری تکالیف میں استعمال کرائی جانے والی اکثر دوائیں خون میں شکر کی مقدار بڑھانے کا باعث بھی بنتی ہیں جب کہ ان کا زیادہ استعمال بعض لوگوں کو ذیابیطس میں مبتلا بھی کرسکتا ہے۔ ان کے علاوہ پیشاب میں سہولت پیدا کرنے والی دوائیں (ڈائی یوریٹکس) بلڈ شوگر میں اضافے کی وجہ بن سکتی ہیں جب کہ کچھ اینٹی ڈپریسنٹس (ڈپریشن ختم کرنے والی دوائیں) بھی خون میں شکر کی مقدار معمول سے کم یا زیادہ کرسکتی ہیں۔

Load Next Story