سونے کی چڑیا

دنیا میں اور کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ دو پڑوسی مسلسل اس قدر تلخی میں الجھے ہوئے دکھائی دیں

Abdulqhasan@hotmail.com

یوں تو بننے کو دو ملک ایک ساتھ دنیا کے سامنے آگئے لیکن ان دونوں کی تاریخ اتنی تلخ تھی کہ ان کے عوام اس میں شیرینی کا ایک ذرہ بھی شامل نہ کر سکے اور ان کی پیدائشی تلخی جوں کی توں موجود رہی۔ آج بھی جب یہ دونوں ملک ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کی نظروں میں پرانی تلخی جاگ اٹھتی ہے اور وہ ایک ناگوار سی حالت میں الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا میں اور کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ دو پڑوسی مسلسل اس قدر تلخی میں الجھے ہوئے دکھائی دیں۔ ایسی صورت حال زیادہ دیر چلتی نہیں ہے اور نہ ہی انسانی معاشرے میں اسے پسند کیا جاتا ہے' یہ ایک ایسی ناگوار صورتحال ہے جو ان ملکوں کے عوام کی زندگی کو بدمزہ کیے رکھتی ہے اور وہ اس کیفیت کو اپنے لیے انتہائی ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔

دنیا کے لیے اس کی مثال پاکستان اور ہندوستان کی صورت میں موجود ہے۔ برطانوی سامراج نے برصغیر ہند کو آزاد تو کر دیا لیکن اپنی سامراجی بددیانتی کی وجہ سے اسے گوناگوں مسائل کا مرکز بنا دیا۔ اس وقت کے برطانیہ کے بہت بڑے اور نامور سیاستدانوں سرونسٹن چرچل نے اپنی حکومت کی ہندوستان کو آزاد کرنے کی پالیسی پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ابھی نصف صدی یعنی پچاس برس تک ہندوستان پر حکومت جاری رکھ سکتے ہیں یعنی اس نصف صدی میں وہ تمام فائدے حاصل کر سکتے تھے جو وہ برسوں سے کرتے چلے آ رہے تھے۔

چرچل جیسے سیاستدان کی یہ بات دنیا جہاں میں پھیل گئی کہ ایک تو ہندوستان کی آزادی کوئی معمولی بات نہیں تھی دوسرے چرچل کا یہ تبصرہ اور تجزیہ اپنی جگہ بے حد اہم تھا جس سے کچھ اختلاف تو کیا جاتا رہا لیکن کوئی اسے مسترد نہ کر سکا اس پر بحث جاری رہی اور جاری ہے۔ انگریزوں نے برسہا برس تک کامیابی کے ساتھ ہندوستان کو اپنا غلام بنائے رکھا اور چرچل کے خیال میں اب بھی کوئی ایسی نئی صورت حال پیدا نہیں ہو گئی تھی کہ ہندوستان کو آزاد کرنا پڑ جاتا لیکن اس وقت خود برطانیہ کی سیاست دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی لیکن آزادی کے حق میں برطانوی رائے عامہ کامیاب رہی اور وزیراعظم اٹیلی نے اپنا محکوم ملک آزاد کر دیا۔ کوئی ڈیڑھ صدی بعد۔


ہندوستان پر حکومت کوئی عام سی بات نہیں تھی اس کے پیچھے صدیوں کی تاریخ تھی اور حکومتی تجربہ تھا۔ برطانوی حکومت نے مناسب یہی سمجھا کہ ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے اس وقت کے معاشی حالات بھی حکمران برطانیہ کی مدد نہیں کر رہے تھے ۔برطانوی مدبرین نے یہی فیصلہ کیا کہ اب حکمرانی کا دور گزر چکا ہے اور ہندوستان کو آزاد کر دینا ہی مناسب ہے۔ اس موضوع پر انگریز قوم کئی حصوں میں بٹی ہوئی تھی اس کے سامنے ہندوستان کی سونے کی چڑیا بھی تھی اور عالمی وقار بھی تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان کی جو حالت بنا دی تھی اس میں برطانوی حکمرانوں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس ملک کو خیرباد کہہ دیا جائے اور جاتے جاتے جو کچھ مل سکتا ہے وہ حاصل کر لیا جائے۔

برطانوی سامراج کو آزادی سے ہمکنار ہونے والے ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ میسر ہو گیا جو نسل در نسل انگریزوں کا ذہنی غلام تھا اس طبقے کی موجودگی رخصت ہونے والے برطانوی سامراج کے لیے ایک نعمت تھی۔ ہندوستانیوں نے دیکھا کہ انگریز تو چلا گیا مگر کچھ نیم انگریز اپنے پیچھے چھوڑ گیاجو آزاد ہندوستان میں برطانوی مفادات کے نگران تھے اور انھوں نے یہ نگرانی بڑی دیانت سے ادا بھی کی۔ خود بھی مستفید ہوئے اور انگریزوں کو بھی ان کی محرومی کے دکھ سے کسی حد تک محفوظ رکھا۔

اگرچہ انگریز ہندوستان سے محروم ہو چکا لیکن یہ سونے کی چڑیا اس کے سامنے اڑتی رہی اور برطانوی سامراج اپنے سابقہ محکوم ہندوستان سے مستفید ہوتا رہا۔ یہ سب اس طبقے کی وجہ سے ممکن ہوا جو برطانوی حکمرانوں نے اپنے پیچھے چھوڑا تھا اور جس نے کمال وفاداری سے اپنا فرض ادا کیا تھا۔ یہ نمبردار ذیلدار اور اس طرح کا طبقہ جو انگریز چھوڑ گئے درحقیقت برطانوی سامراج کا ایک پسماندہ اور پس خوردہ حصہ تھا۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو ہمارے سامنے ہے اور ہم ہندوستانی خود جس کا ایک حصہ رہے ہیں۔

یہ اک لمبی تفصیل ہے کہ برطانوی سامراج اپنے وفاداروں کے لیے کیا کچھ چھوڑ کر نہیں گیا تھا۔ وسیع و عریض قیمتی زمینیں تھیں اور بھی بہت کچھ تھا لیکن جو بھی تھا وہ برطانیہ کے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ایک نعمت تھا۔ اس کے بل بوتے پر انھوں نے ہندوستان پر حکومت کی اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی بنا سنوار گئے۔ یہ سب انگریزوں کا عطیہ تھا جو وہ اپنے سابقہ غلاموں میں بانٹ گئے تھے اور جس کی طاقت سے ہندوستانیوں نے ایک کامیاب زندگی بسر کی۔ جس میں رعب داب بھی تھا حکمرانی کا عنصر بھی تھا اور مال و دولت بھی تھی۔
Load Next Story