بوڑھا آدمی ایٹمی جنگ اورگرد

سناؤہیروشیماکارہنے والاتھا۔یہ شہربدقسمتی سے دنیا کے پہلے ایٹم بم کاشکارہوا

raomanzarhayat@gmail.com

PATNA:
سناؤٹوسوبوئی(Sunao Tsuboi)بیس برس کا شاندارنوجوان تھا۔پُرعظم،ہمت اورآگے بڑھنے کے جذبے سے معمور۔ اردگردکے افرادجانتے تھے کہ کوئی بھی ٹوسوبوئی کوآگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا۔یونیورسٹی میں انتہائی خوبصورت تقاریرکرنے سے طالبعلموں میں بہت مقبول تھا۔مگر6اگست1945ء کواس کی پوری زندگی مکمل طورپرتبدیل ہوگئی۔یہ دن روح اورجسم کوگھائل کرکے اس کے دماغ پرایساکاری زخم لگاگیاجس سے وہ آج تک باہرنہیں نکل سکا۔آج یہ نوجوان زندگی کی ستربہاریں دیکھنے کے باوجود بھی6اگست کے اندرمقیدہے۔

سناؤہیروشیماکارہنے والاتھا۔یہ شہربدقسمتی سے دنیا کے پہلے ایٹم بم کاشکارہوا۔ امریکی B-29 بمبارہوائی جہاز نے صبح چھ بجے پندرہ کلوٹن کاایٹم بم جاپان کے ایک ہنستے بستے شہرپرگرادیا۔اس کے بعد صرف قیامت تھی۔جیسے ہی بم گرنے سے تباہ کن دھماکا ہوا، سناؤہوامیں معلق ہوگیا۔ گھر کے باہر بیٹھا ہواتھا۔فضامیں چالیس فٹ بلندہونے کے بعد اصل مقام سے بائیس فٹ کے فاصلہ پرجاگرا۔

کچھ سمجھ نہ آیاکہ یہ کس چیزکادھماکا تھا۔قطعاًعلم نہیں تھاکہ ایٹم بم کی تباہ کاری کانشانہ بن چکاہے۔کچھ اندازہ نہیں کہ کتناعرصہ بیہوش رہا۔جب آنکھ کھلی تویقین نہ آیاکہ کیا دیکھ رہا ہے۔ اردگردکی تمام عمارتیں منہدم ہوچکی تھیں۔ہزاروں عمارتیں صرف اورصرف ملبے میں تبدیل ہوچکی تھیں۔لگتاتھاکسی جن نے شہرپر مکا مار کر ہر چیزکوتباہ کردیاہے۔سناؤکاخیال تھاکہ وہ مرچکاہے یاکوئی خواب دیکھ رہاہے۔دردکی شدت نے اسے زندہ رہنے کااحساس دلایا۔پوراجسم جل چکا تھا۔ کپڑے مکمل طورپرپھٹ چکے تھے۔اُٹھنے کی کوشش کی تو اندازہ ہواکہ ریڑھ کی ہڈی میں شدیدتکلیف ہے۔

لوگ پاگلوں کی طرح ایک جانب سے دوسری سمت بھاگ رہے تھے۔ہرکوئی اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کی ناکام کوشش کررہاتھامگریہ صرف کوشش تھی اوروہ بھی ناکام۔ہرطرف جلی ہوئی لاشیں تھیں۔مردہ جسم ایک دوسرے کے اوپرایسے پڑے ہوئے تھے جیسے بے ترتیب اینٹیں۔جلے ہوئے انسانی گوشت کی بدبوہرطرف موجودتھی۔یہ بدبواس درجہ بھیانک تھی کہ سانس لینامشکل تھا۔سناؤنے دیکھاکہ سیکڑوں مرد، خواتین اوربچے چل رہے ہیں۔ان کے منہ، ناک،آنکھوں اورکان سے خون بہہ رہاہے۔چلتے چلتے گرتے ہیں اورمرجاتے ہیں۔

تکلیف کی شدت سے آواز نکالنے سے بھی قاصرتھے۔اَن گنت افراد اپنے پیٹ کی آنتریاں ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ ایک بچی اپنی داہنی آنکھ کوہاتھ میں لیے زورزورسے چیخیں ماررہی تھی۔ اکثر لوگ مرنے سے پہلے اپنے بازوؤں اورٹانگوں سے محروم ہو چکے تھے۔درجہ حرارت اس قدرزیادہ تھاکہ متعددلوگ شہر سے متصل دریامیں چھلانگ لگاکربچناچاہتے تھے۔ مگر اَجل کا فرشتہ توپانی میں بھی کسی کونہیں بخشتا۔دریابھی لاشوں سے اَٹاہواتھا۔

سناؤیہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بیہوش ہوگیا۔ اسے کون اسپتال لایا،کب لایا، کتنے دن بیہوش رہا،کچھ یاد نہیں۔مگراسپتال میں پورے پچاس دن کومے میں رہا۔ بے ہوشی ختم ہونے کے چنددن بعدپتہ چلاکہ امریکا نے ہیروشیماپرایٹمی حملہ کیا تھا۔ سناؤکاچھ اگست کے متعلق یقین تھاکہ زندہ یامردہ دوزخ میں جاچکا ہے۔ ہیروشیما پرایٹمی حملے میں پہلے دوسے تین منٹ میں ساٹھ سے اَسی ہزار افراد مارے گئے۔چنددنوں میں ان کی تعدادڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔چندروزبعدددوسراحملہ ناگاساکی پر ہوااور پورے کا پوراشہرقبرستان بن گیا۔

سناؤ اس حادثے کے بعدگیارہ مرتبہ اسپتال جاچکاہے۔ دو طرح کے کینسرکامرض لاحق ہوچکا ہے۔ متعدد بار ڈاکٹر جواب دے چکے ہیں۔مگروہ آج تک زندہ ہے۔سناؤصحت مندتوخیرکبھی نہیں ہوسکامگراس نے ایک تنظیم بنائی۔اسکانام ہیباکوشا(Hiba Kusha) ہے۔ تمام افرادجوایٹمی جنگ میں کسی بھی وجہ سے زندہ رہے،تمام کے تمام اس کے رکن ہیں۔ تنظیمی ڈھانچے کاسربراہ ہے۔پوری دنیامیں لیکچردیتاہے کہ ایٹمی جنگ کتنی تباہ کن ہوتی ہے۔بتاتاہے کہ تمام ترترقی کے باوجودجاپان کے یہ بدقسمت شہرکبھی بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔

سترسال گزرنے کے باوجودآج بھی پیدا ہونے والے کئی بچے اوربچیاں بنیادی اعضاء سے محروم ہوتے ہیں۔ ہزاروں نوجوان خواتین ایسی ہیں جو دھماکا کے بعدپیداہوئی مگر وہ کبھی بھی ماں نہیں بن سکیں۔انسانی بیماریوں کی ایک یلغار ہے جوآج تک لوگوں کاتعاقب کررہی ہے۔فصلیں پھول اورپودے کئی جگہ جڑنہیں پکڑسکے۔ہیباکوشاکے فورم سے سناؤ صرف ایک پیغام دیتاہے۔ایٹمی جنگ سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ سکائپ پرلیکچردیتے ہوئے سناؤکی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔سمجھانا چاہتا ہے کہ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریاں ابھی تک مکمل طورپرمعلوم ہی نہیں ہوسکیں۔


اب سناؤکے لیے ایک اورچیلنج ہے۔وہ اوراس کے ساتھی بہت زیادہ عمررسیدہ ہوچکے ہیں۔ان کے اندراس درجہ توانائی نہیں رہی کہ بھرپورطریقے سے بنیادی پیغام عام لوگوں تک پہنچا سکیں۔سناؤنے اپنی تنظیم کی رکنیت بڑھادی ہے۔اب نوجوان لڑکے اورلڑکیاں بھی ممبربن رہے ہیں۔ سناؤ کہتا ہے کہ اس کی نسل کے لوگ جب دنیاسے چلے جائینگے،اس وقت بھی ایسے باخبرافراد ہونے چاہیے جوانسانوں کے شعور کو اس سطح پرلے جائیں جہاں ایٹمی جنگ ناممکن ہوجائے۔

پلوشیئرزفنڈ(Ploughshares Fund) بین الاقوامی سطح کاتحقیقاتی ادارہ ہے۔ایٹمی ہتھیاروں پرجامع رپورٹیں شایع کرتارہتاہے۔دنیامیں نو ریاستیں ایسی ہیں جسکے پاس یہ تباہ کن ہتھیار موجود ہیں۔کرہِ ارض پراس وقت تقریباًساڑھے پندرہ ہزارایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ترانوے فیصدکے مالک روس اورامریکا ہیں۔ادارے کی تحقیق کے مطابق امریکا اورروس کے بعد، فرانس، یوکے، پاکستان، چین، ہندوستان، شمالیا اور اسرائیل ان ہتھیاروں سے لیس ہیں پاکستان کے پاس محتاط اندازے کے مطابق ہندوستان سے کافی زیادہ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔

ادارہ کی رپورٹ کے مطابق دنیامیں کشمیر واحد مسئلہ ہے جس پر ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے۔ دونوں ملکوں کی مکمل تباہی توخیربنیادی حقیقت ہے مگرپوری دنیااس کی لپیٹ میں آجائیگی۔اگردونوں ممالک سوکے لگ بھگ ہتھیاراستعمال کرتے ہیں توپوری دنیا پر گرد کے اتنے گھمبیربادل چھاجائینگے جسکی وجہ سے سورج کی کرنیں زمین پرنہیں پہنچ سکتیں۔گردکا فضائی سیلاب سال ہا سال تک محیط ہوسکتاہے۔یادرہے کہ پورے کرہِ اَرض کا ذکرہورہاہے۔

اس میں یورپ، امریکا، روس اورہرملک کی فضاشامل ہے۔سورج کی روشنی کے بغیر پوری دنیامیں فصلوں کاکاشت کرناناممکن ہوجائے گا۔ غلے کی کمیابی کی بدولت دنیامیںایساقحط آئیگاجس سے ایک ارب انسان متاثر ہوسکتے ہیں۔ بالکل اس طرح سردی کی شدت اس درجہ بڑھ جائے گی جسکی بدولت زمین پرانسانی زندگی معدوم ہوسکتی ہے۔ پاکستان اورہندوستان کی ایٹمی جنگ کے نتائج صرف برصغیر تک محدودنہیں رہینگے بلکہ پوری دنیاکی نسل انسانی ختم ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ پلوشیئرز فنڈ نے ایک اورخدشہ کا بھی اظہارکیاہے۔

ایٹمی ہتھیارغلط ہاتھوں میں بھی جاسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ خطرہ امریکا سے لے کر ہرنیوکلیئرطاقت کو لاحق ہے۔ دنیاکی نوایٹمی طاقتوں کے علاوہ درجنوں ریاستیں ایسی ہیں جہاں نیٹواورروس نے نیوکلیئرہتھیارنصب کررکھے ہیں۔ان میں بلجیئم، اٹلی، ہالینڈ اورترکی سرفہرست ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کی اصل تعدادکسی کے علم میں نہیں ہے۔ پندرہ ہزارکی عدوی تعدادایک محتاط اندازہ ہے۔ مگر ان میں سے محض چنددرجن ہتھیار نسل انسانی کو ختم کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

اس پسِ منظرمیں موجودہ حالات کاجائزہ لیجیے۔اُڑی کے حملہ میں سترہ بھارتی فوجی مارے گئے۔ان میں سے تیرہ افرادآگ لگنے سے جھلس کر مرے۔آج تک اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔کنٹرول لائن پر تھرمل کیمرے اورسینسرآلات نصب ہیں۔دونوں ممالک سے رات کے اندھیرے یادن کے اُجالے میں بھی کوئی شخص کنٹرول لائن عبورنہیں کرسکتا۔کسی بھی ثبوت کے بغیر بھارتی وزیراعظم، وزیر داخلہ اورفوج کے اہم لوگوں نے پاکستان کواس حملہ کاذمے دار ٹھہرا دیا۔صرف دوگھنٹے کے قلیل وقت میں بغیرکسی ثبوت کے یہ اعلان غیرذمے داری کی انتہا ہے۔

بھارتی ابتدائی اعلانات اس درجہ اشتعال انگیزتھے کہ میڈیامیں طوفان برپا ہوگیا۔ ہر طرف جنگ اورانتقام کی باتیں شروع ہوگئیں۔بی جے پی کی سیاسی حکومت اس جذباتی طوفان کوبڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی۔ چنددن گزرنے کے بعدبالاخربھارت میں متعدد سوچ سامنے آنے لگی کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہاہے۔بی جے پی کی حکومت کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کوبحال کرنے کا مقصد بھی صاف نظرآنے لگا۔بھارتی حکومت کے بالکل برعکس پاکستان نے انتہائی ذمے داری کاثبوت دیا۔ اعلیٰ ترین سطح پر رابطوں کے باوجودبھارتی حکومت اری کے واقعہ کاکوئی ثبوت فراہم نہ کرسکی۔

مشکل بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بھی چندلوگوں نے غیرذمے داربیانات دینے کی کوشش کی ہے۔ایٹمی جنگ کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں جیسے یہ چند پٹاخے ہیں۔انکواس کی تباہ کاری سے کوئی غرض نہیں ۔دونوں طرف اس طرح کے افراد موجود ہیں۔ہمیں یہ چیزسمجھنی چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاراستعمال کرنے کے لیے قطعاًنہیں ہوتے۔ ان کا بنیادی مقصدجنگ کوروکنے کا ہے۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی موجودگی جنگ نہ ہونے کی ضمانت ہے۔ دنیا کا مروجہ دستور یہی ہے۔ اس وقت جذبات کوٹھنڈاکرنے کی ضرورت ہے۔

مفاہمت اورامن کی حددرجہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یقین ہے کہ دونوں ممالک جنگ کی طرف نہیں جائینگے۔ بین الاقوامی قوتیں بھی ایسا نہیں ہونے دینگی۔ دونوں ملکوں کے لوگوں نے تصورمیں بھی ایٹمی جنگوں کی تباہ کاری نہیں دیکھی۔اس وقت سناؤٹوسوبوئی کی بات غورسے سننی چاہیے۔شائداس بوڑھے آدمی سے ہم ایٹمی جنگ کااصل نقصان سمجھ سکیں۔ اس کی زخمی روح تویہی کہتی ہے کہ ایٹمی جنگ بالکل نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ جنگ ہی نہیں ہونی چاہیے!
Load Next Story