اندھے راستے روشن شہر کی ایک تاریک کہانی
چھاپوں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل اعلیٰ قیادت روپوش ہوگئی کہ انھیں چھے گھنٹے پہلے خبر ہوگئی تھی
BAHAWALPUR/FAISALABAD:
تیسری قسط
(7)
طاقت حاصل کرنے کے بعد، اور اچھے خاصے پیسے اکٹھے کرنے کے بعد، خاص کر اپنے باپ کی موت کے بعد۔۔۔ وکی کو ایسی کوئی رکاوٹ دِکھائی نہیں دیتی تھی، جو اس کے اور القا کے درمیان دیوار بن سکے۔
مگر اس نئی اور پُرقوت زندگی میں بھی حیرت اُس کی منتظر تھی۔
لڑکی کے باپ نے رشتے کی بات سن کر اس شدت اور جواں مردی سے نفی میں گردن ہلائی کہ وکی کو گمان گزرا، شاید بڈھا اس کی قمیص کے ابھار کو اُس کا بڑھا ہوا پیٹ سمجھ بیٹھا ہے۔
وہ اسے بتانا چاہتا تھا: ''الو کے پٹھے، یہ ٹی ٹی ہے!'' مگر اس کی ماں یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئی تھی کہ ''تم جولاہوں سے رشتہ مانگ کر احسان کیا تھا، ہم دلی کے مغل ہیں۔ تمھاری لڑکی کی اوقات کیا ہے۔''
بات بگڑ چکی تھی۔
گلی میں دھوپ بھر گئی۔ لڑکی اب پہلی منزل کی کھڑکی میں دکھائی دیتی، تو اجنبی معلوم ہوتی۔ لڑکے کے رقعوں کے جواب میں خالی ورق آتے۔ زندگی اب چُپ تھی۔
ماں کو منانے کی کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب وہ اپنی ماں کو تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ میری قمیص کا ابھار بڑھا ہوا پیٹ نہیں، بلکہ پتلون میں اڑسی ہوئی ٹی ٹی ہے۔
تنگ گلیوں، ان سیلن زدہ مکانات میں وکی کا دم گھٹنے لگا تھا۔ وہ علاقے کے اجڑے پارک میں، کسی درخت کے نیچے بیٹھا چرس پیتا رہتا۔ اور فلم ''شرابی'' کے گیت گاتا۔ اُس نے اڈے پر جانا بھی کم کر دیا۔
پہلے بڈھے نے اوزی کے ذریعے پیغام بھجوایا۔ ''ٹائم کھوٹا مت کر۔ بہت کام پڑا ہے۔''
جواب نہیں آیا، تو ایک پرانے کارکن کو بھیجا۔ ''سالے، کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے، اگر استاد یہاں آگیا تو۔۔۔''
مگر وہ محبت کا مارا تھا۔ اندیشوں سے بے پروا، ناسمجھ اور نکما۔ وہ یوں ہی پیڑ کے نیچے پڑا چرس پیتا رہا۔ اس کے باپ کی قبر پر لگا پودا مرجھا گیا تھا۔ قائداعظم کے پورٹریٹ پر گرد جم گئی۔
آخر میں بڈھا خود آن دھمکا۔ گو ایک ہی تھپڑ نے وکی کا نشہ ہرن کردیا، مگر بڈھے نے اُسے کافی نہ جانا۔ بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔ کپڑے پھاڑ دیے۔ بیلٹ سے مار مار کر لہولہان کر دیا۔ وہ تو اوزی نے بڈھے کے پاؤں پکڑ لیے، ورنہ حکم عدولی کی سزا موت تھی۔
وکی کی ماں کو قائل کرنے کے لیے کہ یہ زخم تشدد کے نہیں، موٹرسائیکل ایکسیڈنٹ کے ہیں، اوزی کو دلائل کا انبار لگانا پڑا۔ عورت آخر تک اپنے بیٹے کے دوست کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔
روزانہ ایک ڈاکٹر لڑکے کی مرہم پٹی کرنے آتا۔ اس نے کبھی فیس نہیں لی کہ اسے اپنی جان عزیز تھی۔ مشکی خود ڈاکٹر کے کلینک آیا تھا، یہ کہنے کہ بڈھے کا حکم ہے، ڈاکٹر لڑکے کی دوا دارو کا انتظام کرے، ورنہ۔۔۔
اس دھمکی کے ساتھ مشکی نے اپنے پوتے کے مستقل علاج کا بھی بندوبست کرلیا، جو جنم سے معذور تھا۔
جب وکی بستر پر پڑا، کراہتے ہوئے اپنے زخم مندمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا، اوزی نے ایک خوابیدہ رات، گندی گلی میں القا کے باپ کے سر پر پستول رکھ دیا: ''جا، اور لڑکے کی ماں سے معافی مانگ، اور اس کے ٹھیک ہوتے ہی منگنی کر دے۔''
آدمی سر جھکائے آیا۔ ہاتھ جوڑے، رٹے رٹائے جملے ادا کیے، اور الٹے قدموں لوٹ گیا۔
وکی کی ماں کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا، مگر جب وہ اپنے بیٹے کو نیم بے ہوشی کی حالت میں القا القا پکارتے ہوئے سنتی، تو غصے کے ساتھ کچھ کچھ ہم دردی اور کرب بھی محسوس کرتی تھی۔ بہ ہرحال، یہ اوزی کی کوشش تھی، جس نے عورت کو، وزیر ریلوے کے قتل سے تین ماہ پہلے قائل کرلیا کہ القا اچھی بہو ثابت ہوگی۔
عورت کبھی اس بات کو پرکھ نہیں سکی۔۔۔۔
(8)
منگنی تک سب ٹھیک رہا، مگر منگنی کے بعد جو ہوا، اس کی اوزی اور وکی کو تو کیا، خود بڈھے کو بھی توقع نہیں تھی۔
وزیر ریلوے کے اچانک قتل کے بعد اس سے منسوب ایک خط منظر عام پر آیا۔ خط وزیرداخلہ کے نام تھا، جس میں اُسے ''جان سے عزیز بھائی'' کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا۔
قتل ہونے والے نے خط کا عنوان، غالباً اپنی پارٹی کے بانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ''اگر میں قتل کر دیا جاؤں'' رکھا تھا۔ اس نے اپنی جان کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے حلیف جماعت کے چند ارکان کی نشان دہی کی تھی، اور لکھا تھا:
''اگر راقم الحروف شہادت کے درجے پر فائز ہو، تو حضور ان عاقبت نااندیشوں پر ہاتھ ڈالیے، جو شہر کو صوبے سے جدا کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اللہ رب العزت پاکستان کی حفاظت فرمائے۔''
حلیف جماعت کے سربراہ نے اِس خط پر پہلا اعتراض تو یہ کیا کہ مرحوم وزیر ایسی شستہ اردو لکھنے کے اہل ہی نہیں تھے۔ اپنے لہجے پر آخر دم تک مقامیت طاری رکھنا اُن کی شعوری کوشش نہیں، بلکہ مجبوری تھی کہ وہ ٹنڈو آدم سے بمشکل میٹرک کر سکے تھے۔
کچھ اور پُرمزاح اعتراضات بھی کیے گئے، مگر وہ کافور ہوئے، شگفتگی کا زمانہ لد گیا تھا۔ چند حلقے شہر میں بھرپور آپریشن کا پروگرام بنا چکے تھے۔ یا تو وہ روز روز گرنے والی لاشوں سے تنگ آچکے تھے، یا یوں ہی بیٹھے بیٹھے اُکتا گئے تھے۔
چھاپوں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل اعلیٰ قیادت روپوش ہوگئی کہ انھیں چھے گھنٹے پہلے خبر ہوگئی تھی، البتہ انھوں نے کارکنوں کو خبردار نہیں کیا۔
اس کا نتیجہ گھاتک نکلا۔ کتنے ہی لڑکے اٹھائے گئے۔ کتنے ہی غائب ہوئے۔ چند کی لاشیں ملیں۔ جو خوش قسمت تھے، وہ ناقابل بیان تشدد کے بعد عدالت میں پیش کر دیے گئے۔ انھیں وہیل چیئر پر عدالت لایا گیا تھا۔ کچھ ایسے بھی تھے، جو ہنستے مسکراتے، پٹاخے چلاتے ہوئے فوراً ہی لوٹ آئے۔ مگر انھیں خوش قسمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب وہ اپنا اعتماد اور ساتھیوں میں اپنا بھروسا کھو چکے تھے۔ مشکوک ہوگئے تھے۔ سب ان سے دور دور رہتے۔
بڈھے کو پولیس میں موجود اپنے بہنوئی کی وجہ سے ایک گھنٹے پہلے، ایک گھنٹے بعد رونما ہونے والے سانحے کی خبر ہوگئی تھی۔ وہ چند ہی لڑکوں کو چوکنا کر پایا کہ اُس رات بہت دھند تھی۔ اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔
ان چند لڑکوں میں، جو اگلے ڈیڑھ برس اندرون صوبہ قہر کی علامت سمجھے جانے والے بچل ڈاکو کی پناہ میں گزارنے والے تھے، اوزی اور وکی بھی شامل تھے۔
وہیں۔۔۔ ان میدانی علاقوں کے ریتیلے غاروں اور کم گھنے جنگلات میں، چرس کے دھویں، شراب اور مقامی ناچنے والیوں کے درمیان وکی کی بدنی خواہشات نے پہلی بار انگڑائی لی۔
آنے والے دونوں میں اُس نے کتنی بار اس خواہش کو پورا کیا، اِس کا وہ کبھی حساب نہیں رکھ سکا۔ وہ گنتی بھول چکا تھا، اور ہر سو تاریکی تھی۔ وہاں کی عورتوں کے چہرے کرخت تھے۔ ان کی آنکھوں میں ویرانی کا بسیرا تھا۔
وکی کی بدنی خواہش زوروں پر تھی۔ البتہ اوزی کی دل چسپی شباب اور شراب سے زیادہ شکار میں رہی۔ اِس کا سبب جذبۂ خیر یا کوئی اخلاقی رکاوٹ نہیں تھی، بلکہ معیار تھا۔ جب اِس قسم کی محفل جمتی، تو ماتھے پر بل ڈال کر، بھنویں سکیڑ کر وہ زمین پر تھوکتا۔ اور نفی میں گردن ہلاتا رہتا۔
تو اس کی دل چسپی شکار میں رہی۔ انسانی شکار میں۔۔۔
وہ ڈاکوؤں کی ٹولی کے ساتھ منہ پر ڈھاٹا باندھے نکلتا۔ چاند کی روشنی میں سڑک تک جاتا۔ وہاں پیشاب کرتا۔ جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھا رہتا۔ اور پھر اچانک فائرنگ کرتا ہوا سڑک سے گزرتی بس کے سامنے آجاتا۔
یوں تو ڈاکوؤں کی توجہ کا محور لوٹ کا مال ہوتا، مگر بچل کا مقصد صرف دولت کا حصول نہیں تھا۔ وہ علاقے پر اپنی دہشت قائم کرنا چاہتا تھا۔ گبر سے بھی بڑا ڈاکو بننا چاہتا تھا۔ اِسی باعث وقفے وقفے سے لوٹی جانے والی بسوں کے چند مسافروں کو قتل کرنے کی رسم بھی ادا کی جاتی۔ اور قتل ہونے والوں کی روحیں ڈاکوؤں کی ساتھی بن جاتیں۔
یہی وہ رسم تھی، جو اوزی کے جسم میں بجلی بھر دیتی۔ اُسے شہر کی اُن گلیوں کی یاد دلاتی، جہاں اس نے آتشی کھلونے سے پہلے پہل کھیلنا سیکھا تھا۔ اور پھر ان لڑکوں کو سکھایا تھا، جن کے بدن لچک دار اور پھرتیلے تھے۔
اوزی شکار کی وارداتوں اور وکی خواہشوں کے بے انت سلسلوں میں، اُن بے رونق پہاڑوں اور گدلے چشموں کے دیس میں خوش تھے کہ ایک روز سول حکومت کا تختہ الٹ دیے جانے کی غیرمتوقع خبر آئی۔
ملک میں ایک اور مارشل لا لگ چکا تھا۔۔۔
نئی حکومت کی نئی ترجیحات کے باعث آپریشن روک دیا گیا۔ البتہ شہر میں سیاسی سرگرمیاں یک سر تھم گئی تھیں۔ یوں، جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ سب ٹھہر سا گیا تھا۔ اخباروں پر جمود چھایا تھا۔ سیاسی لیڈر مذہب اور جینیات پر بیانات دینے لگے۔
کونوں کھدروں میں چھپے لڑکے دھیرے دھیرے اپنے علاقوں میں لوٹنے لگے تھے۔ البتہ جب اُن کی ماؤں، بیویوں اور اور معشوقاؤں نے اُنھیں دیکھا، تو پہلے پہل پہچان نہیں پائیں کہ وہ بہت بدل گئے تھے، اور دیہی زندگی کا اکھڑ پن ساتھ لائے تھے۔
القا کے لیے یہ وکی اجنبی تھا۔ اُن کے درمیان بے نام فاصلوں کی دیوار کھڑی تھی۔ پت جھڑ شروع ہوچکا تھا۔
فضا میں اکتاہٹ تھی۔ اڈا ویران تھا۔ بڈھا اب تک نہیں پلٹا تھا۔ دو رویہ سڑک، جو کبھی لسانی فسادات کا نقطۂ آغاز ہوا کرتی تھی، اب اس پر دھول اڑا کرتی۔ نیکر پہنے بچے اُدھر دن بھر کرکٹ کھیلتے۔ اور معصومیت سے لبریز حرکتیں کرتے۔
وہ دونوں اپنے پیسے عیاشیوں میں اڑانے لگے۔ مگر پیسے دھیرے دھیرے ختم ہو رہے تھے۔ اور اس کا احساس وکی اور اوزی دونوں کو تھا۔
بڈھا لوٹ تو آیا، مگر سیاسی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑتے ہی عسکری ونگ بے معنی ہو گئے تھے۔ ہتھیاروں کو زنگ لگ گیا، اور اُنھیں چلانے والے بے کار ہوئے۔ ان کے منہ ٹیڑھے ہوگئے تھے۔ اور رنگت جل گئی۔
وہ دھول زدہ درختوں کے درمیان گھومتے، اور کچرا کنڈیوں میں چھپ کر چرس پیتے۔ ذخیرہ ختم ہونے کے بعد تلچھٹ چاٹی گئی۔ ادھار لیا گیا، اور اسے اڑا دیا گیا۔ فاقوں کے خوف کے بجائے یہ عیاشیوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں تھیں، جنھوں نے دونوں دوستوں کو نئی راہ سجھائی۔ اسٹریٹ کرائم!
یہ فیصلہ سہولت لے کر آیا۔۔۔یہ تو سہل تھا۔ اور پھر بلا کا پُرلطف۔ جہاں زندگی کی گاڑی چلانے والا ایندھن ہاتھ آرہا تھا، وہیں وہ درشتی اور نامعلوم کے روبرو ہونے کا تجسس بھی لوٹ آیا، جس سے وہ دونوں محبت کرنے لگے تھے۔
اس راہ پر قدم رکھتے ہی ان کے دن پھر گئے۔ پستول کے سامنے منمناتے، گڑگڑاتے آدمی۔۔۔اللہ رسول کا واسطہ دیتی عورتیں۔۔۔ اور ڈرے ہوئے بچے اُنھیں سیاہ توانائی بخشتے۔
(9)
وقت نے کروٹ لی۔ سوکھی ہوئی سیاسی جڑوں کو پانی ملنے لگا تھا۔ مرجھائی ہوئی ٹہنیوں پر کچھ زندگی لوٹ آئی۔ اور ماضی کی سیاہی بہتی ہوئی حال میں داخل ہوئی۔
جب فوجی حکومت نے اقتدار کو طول دینے کا فیصلہ کیا، اور ریفرنڈم ہو چکا، تو وہ مرحلہ آیا، جب سیاسی جماعتیں سرکار کی جھولی میں یوں گریں، جیسے پکا ہوا پھل زمین پر گرتا ہے۔ اور ضایع ہو جاتا ہے۔
سرکار کے پرچم تلے ایک سیاسی ڈھانچا تشکیل دیا گیا۔ ساحلی شہر کی بابت کچھ اہم فیصلے کیے گئے۔ یہ جانے بغیر کہ یہ اِسے مزید تباہ کردیں گے۔
پرانی جڑوں کو پانی ملنے لگا تھا۔۔۔
فرید بڈھا پھر اڈے پر بیٹھنے لگا۔ اس کے انداز میں عجب شان تھی۔ بکھری ہوئی بھیڑیں گڈریے کی طرف بڑھتی تھیں کہ اب اُس پر تحفظ کا بادل تھا۔ اور اس کی جیب میں ان کے درد کی دوا تھی۔
اوزی اور وکی اب پرانے چاول تھے۔ جو ذمے داریاں انھیں سونپی گئیں، ان میں بسیں جلانے اور بھتے لینے جیسے چھوٹے موٹے کام شامل نہیں تھے۔ وہ جست لگا کر اگلے زینے پر جا پہنچے تھے کہ ان کے بدن سخت اور جھلسے ہوئے تھے۔ اور ان سے وحشت کی بو اٹھتی تھی۔
بلدیاتی انتخابات میں ان میں سے کوئی ایک منظورنظر قرار پانے والا تھا، اور دوسرے کو اس پر اعتراض نہیں تھا۔
جب انجینئر لطیف کے بیٹے وکی کا انتخاب ہوا، تو اوزی یوں سینہ چوڑا کر کے محلے میں کھڑا ہوا تھا، جیسے کونسلر کے لیے اُسے نام زد کیا گیا ہو۔ جیسے وہ منظور نظر ہو۔ جیسے وہ منتخب کردہ ہو۔ وہ اپنے باپ کا غم بھی بھول گیا، جو ٹی بی کے ہاتھوں جیل میں ہلاک ہوچکا تھا۔
وہ دونوں تاحال ایک تھے۔ اور ایک رہنا چاہتے تھے۔
القا، جو ایک اسکول میں کم تن خواہ کے عوض آنے والی نسل کو فرسودہ نصاب کے ٹیکے لگا رہی تھی، بلدیاتی انتخابات کے فوراً بعد اسکول کی شفٹ انچارج لگا دی گئی کہ اس کا منگیتر کونسلر ہوگیا تھا۔ اگلے روز جب شام ہو چلی تھی، اور وہ کھڑکی کی چوکھٹ پر بازو ٹکائے کھڑی تھی، تو ٹھیک ویسی ہی لاابالی اور حسین معلوم ہوتی تھی، جیسے اس روز تھی، جب مینہ برس رہا تھا، اور وکی نے اُسے پہلی بار دیکھا تھا، اور راون کا من للچایا تھا۔
گلی سے گزرتا وکی، جس نے اب مونچھیں رکھ لی تھیں، اسے دیکھ کر مسکرایا۔ اس مسکراہٹ کے پیچھے وہ خوشی تھی، جس کی جڑیں ماضی میں تھیں۔ وہ اب یہ سمجھنے لگا تھا کہ گھر بسانے کو ایک ستھری نکھری گھریلو عورت درکار ہوتی ہے کہ گھر سنبھالنا پڑتا ہے، بگاڑا نہیں جاتا۔
نہ تو القا جانتی تھا، نہ ہی وکی کو علم تھا کہ لڑکی کی ترقی کا سبب اس کا کونسلر بننا نہیں تھا، اس کا پُرقوت ہونا بھی نہیں، یہاں تک کہ مغل ہونا بھی نہیں۔۔۔ بلکہ اس کی وجہ اوزی کا وہی حربہ ہے، جس کے ذریعے اس نے چند برس پہلے لڑکی کے باپ کو، ایک تنگ گلی میں روک کر رشتہ دینے پر راضی کیا تھا۔
اس نے ایک تنگ گلی میں اسکول کے مالک کو روک لیا تھا۔ اور اس کے سر پر بندوق رکھ دی تھی۔۔۔ اب اسلحہ حاکم تھا۔
وقت نے کروٹ لی تھی۔ اور اس کی رفتار کچھ تیز ہوگئی تھی۔ ماہ و سال گزرتے گئے۔ انھوں نے اپنے پیچھے کوئی نشان نہیں چھوڑا۔
شہر کا حلیہ بدلنے لگا۔ سرمایے کی آمد ہوئی۔ سڑکوں میں کچھ پختگی آگئی۔ نظام میں کچھ بالیدگی ظاہر ہوئی۔ شہری انتظامیہ پہاڑ کاٹ کر ایک نیا راستہ بنا رہی تھی، جو مستقبل میں شہر کی پہچان بننے والا تھا۔
اوزی، وکی اور اُن جیسے بہت سوں کے جیون میں سدھار آگیا تھا کہ ان کے دشمن یا تو روپوش ہوگئے تھے، یا قتل کر دیے گئے تھے، یا پھر جیلوں میں تھے۔ اب طاقت کا مرکز ایک تھا۔ اور وہ اس کے جھنڈے تلے تھے۔ ہرسوں پرسکون جمود تھا۔ اُنھیں یوں لگتا تھا، زندگی اپنی ڈگر پر آگئی ہے۔ جیسے سب ٹھیک ہے۔ گو یہ فقط دھوکا تھا۔
یہ سچ نہیں تھا۔ زندگی کا سفر افقی یا عمودی نہ تھا۔
یہ تو ایک دائرہ تھا۔۔۔
یہ ایک ون وے روڈ تھا۔۔۔
(جاری ہے)
تیسری قسط
(7)
طاقت حاصل کرنے کے بعد، اور اچھے خاصے پیسے اکٹھے کرنے کے بعد، خاص کر اپنے باپ کی موت کے بعد۔۔۔ وکی کو ایسی کوئی رکاوٹ دِکھائی نہیں دیتی تھی، جو اس کے اور القا کے درمیان دیوار بن سکے۔
مگر اس نئی اور پُرقوت زندگی میں بھی حیرت اُس کی منتظر تھی۔
لڑکی کے باپ نے رشتے کی بات سن کر اس شدت اور جواں مردی سے نفی میں گردن ہلائی کہ وکی کو گمان گزرا، شاید بڈھا اس کی قمیص کے ابھار کو اُس کا بڑھا ہوا پیٹ سمجھ بیٹھا ہے۔
وہ اسے بتانا چاہتا تھا: ''الو کے پٹھے، یہ ٹی ٹی ہے!'' مگر اس کی ماں یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئی تھی کہ ''تم جولاہوں سے رشتہ مانگ کر احسان کیا تھا، ہم دلی کے مغل ہیں۔ تمھاری لڑکی کی اوقات کیا ہے۔''
بات بگڑ چکی تھی۔
گلی میں دھوپ بھر گئی۔ لڑکی اب پہلی منزل کی کھڑکی میں دکھائی دیتی، تو اجنبی معلوم ہوتی۔ لڑکے کے رقعوں کے جواب میں خالی ورق آتے۔ زندگی اب چُپ تھی۔
ماں کو منانے کی کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب وہ اپنی ماں کو تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ میری قمیص کا ابھار بڑھا ہوا پیٹ نہیں، بلکہ پتلون میں اڑسی ہوئی ٹی ٹی ہے۔
تنگ گلیوں، ان سیلن زدہ مکانات میں وکی کا دم گھٹنے لگا تھا۔ وہ علاقے کے اجڑے پارک میں، کسی درخت کے نیچے بیٹھا چرس پیتا رہتا۔ اور فلم ''شرابی'' کے گیت گاتا۔ اُس نے اڈے پر جانا بھی کم کر دیا۔
پہلے بڈھے نے اوزی کے ذریعے پیغام بھجوایا۔ ''ٹائم کھوٹا مت کر۔ بہت کام پڑا ہے۔''
جواب نہیں آیا، تو ایک پرانے کارکن کو بھیجا۔ ''سالے، کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے، اگر استاد یہاں آگیا تو۔۔۔''
مگر وہ محبت کا مارا تھا۔ اندیشوں سے بے پروا، ناسمجھ اور نکما۔ وہ یوں ہی پیڑ کے نیچے پڑا چرس پیتا رہا۔ اس کے باپ کی قبر پر لگا پودا مرجھا گیا تھا۔ قائداعظم کے پورٹریٹ پر گرد جم گئی۔
آخر میں بڈھا خود آن دھمکا۔ گو ایک ہی تھپڑ نے وکی کا نشہ ہرن کردیا، مگر بڈھے نے اُسے کافی نہ جانا۔ بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔ کپڑے پھاڑ دیے۔ بیلٹ سے مار مار کر لہولہان کر دیا۔ وہ تو اوزی نے بڈھے کے پاؤں پکڑ لیے، ورنہ حکم عدولی کی سزا موت تھی۔
وکی کی ماں کو قائل کرنے کے لیے کہ یہ زخم تشدد کے نہیں، موٹرسائیکل ایکسیڈنٹ کے ہیں، اوزی کو دلائل کا انبار لگانا پڑا۔ عورت آخر تک اپنے بیٹے کے دوست کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔
روزانہ ایک ڈاکٹر لڑکے کی مرہم پٹی کرنے آتا۔ اس نے کبھی فیس نہیں لی کہ اسے اپنی جان عزیز تھی۔ مشکی خود ڈاکٹر کے کلینک آیا تھا، یہ کہنے کہ بڈھے کا حکم ہے، ڈاکٹر لڑکے کی دوا دارو کا انتظام کرے، ورنہ۔۔۔
اس دھمکی کے ساتھ مشکی نے اپنے پوتے کے مستقل علاج کا بھی بندوبست کرلیا، جو جنم سے معذور تھا۔
جب وکی بستر پر پڑا، کراہتے ہوئے اپنے زخم مندمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا، اوزی نے ایک خوابیدہ رات، گندی گلی میں القا کے باپ کے سر پر پستول رکھ دیا: ''جا، اور لڑکے کی ماں سے معافی مانگ، اور اس کے ٹھیک ہوتے ہی منگنی کر دے۔''
آدمی سر جھکائے آیا۔ ہاتھ جوڑے، رٹے رٹائے جملے ادا کیے، اور الٹے قدموں لوٹ گیا۔
وکی کی ماں کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا، مگر جب وہ اپنے بیٹے کو نیم بے ہوشی کی حالت میں القا القا پکارتے ہوئے سنتی، تو غصے کے ساتھ کچھ کچھ ہم دردی اور کرب بھی محسوس کرتی تھی۔ بہ ہرحال، یہ اوزی کی کوشش تھی، جس نے عورت کو، وزیر ریلوے کے قتل سے تین ماہ پہلے قائل کرلیا کہ القا اچھی بہو ثابت ہوگی۔
عورت کبھی اس بات کو پرکھ نہیں سکی۔۔۔۔
(8)
منگنی تک سب ٹھیک رہا، مگر منگنی کے بعد جو ہوا، اس کی اوزی اور وکی کو تو کیا، خود بڈھے کو بھی توقع نہیں تھی۔
وزیر ریلوے کے اچانک قتل کے بعد اس سے منسوب ایک خط منظر عام پر آیا۔ خط وزیرداخلہ کے نام تھا، جس میں اُسے ''جان سے عزیز بھائی'' کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا۔
قتل ہونے والے نے خط کا عنوان، غالباً اپنی پارٹی کے بانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ''اگر میں قتل کر دیا جاؤں'' رکھا تھا۔ اس نے اپنی جان کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے حلیف جماعت کے چند ارکان کی نشان دہی کی تھی، اور لکھا تھا:
''اگر راقم الحروف شہادت کے درجے پر فائز ہو، تو حضور ان عاقبت نااندیشوں پر ہاتھ ڈالیے، جو شہر کو صوبے سے جدا کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اللہ رب العزت پاکستان کی حفاظت فرمائے۔''
حلیف جماعت کے سربراہ نے اِس خط پر پہلا اعتراض تو یہ کیا کہ مرحوم وزیر ایسی شستہ اردو لکھنے کے اہل ہی نہیں تھے۔ اپنے لہجے پر آخر دم تک مقامیت طاری رکھنا اُن کی شعوری کوشش نہیں، بلکہ مجبوری تھی کہ وہ ٹنڈو آدم سے بمشکل میٹرک کر سکے تھے۔
کچھ اور پُرمزاح اعتراضات بھی کیے گئے، مگر وہ کافور ہوئے، شگفتگی کا زمانہ لد گیا تھا۔ چند حلقے شہر میں بھرپور آپریشن کا پروگرام بنا چکے تھے۔ یا تو وہ روز روز گرنے والی لاشوں سے تنگ آچکے تھے، یا یوں ہی بیٹھے بیٹھے اُکتا گئے تھے۔
چھاپوں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل اعلیٰ قیادت روپوش ہوگئی کہ انھیں چھے گھنٹے پہلے خبر ہوگئی تھی، البتہ انھوں نے کارکنوں کو خبردار نہیں کیا۔
اس کا نتیجہ گھاتک نکلا۔ کتنے ہی لڑکے اٹھائے گئے۔ کتنے ہی غائب ہوئے۔ چند کی لاشیں ملیں۔ جو خوش قسمت تھے، وہ ناقابل بیان تشدد کے بعد عدالت میں پیش کر دیے گئے۔ انھیں وہیل چیئر پر عدالت لایا گیا تھا۔ کچھ ایسے بھی تھے، جو ہنستے مسکراتے، پٹاخے چلاتے ہوئے فوراً ہی لوٹ آئے۔ مگر انھیں خوش قسمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب وہ اپنا اعتماد اور ساتھیوں میں اپنا بھروسا کھو چکے تھے۔ مشکوک ہوگئے تھے۔ سب ان سے دور دور رہتے۔
بڈھے کو پولیس میں موجود اپنے بہنوئی کی وجہ سے ایک گھنٹے پہلے، ایک گھنٹے بعد رونما ہونے والے سانحے کی خبر ہوگئی تھی۔ وہ چند ہی لڑکوں کو چوکنا کر پایا کہ اُس رات بہت دھند تھی۔ اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔
ان چند لڑکوں میں، جو اگلے ڈیڑھ برس اندرون صوبہ قہر کی علامت سمجھے جانے والے بچل ڈاکو کی پناہ میں گزارنے والے تھے، اوزی اور وکی بھی شامل تھے۔
وہیں۔۔۔ ان میدانی علاقوں کے ریتیلے غاروں اور کم گھنے جنگلات میں، چرس کے دھویں، شراب اور مقامی ناچنے والیوں کے درمیان وکی کی بدنی خواہشات نے پہلی بار انگڑائی لی۔
آنے والے دونوں میں اُس نے کتنی بار اس خواہش کو پورا کیا، اِس کا وہ کبھی حساب نہیں رکھ سکا۔ وہ گنتی بھول چکا تھا، اور ہر سو تاریکی تھی۔ وہاں کی عورتوں کے چہرے کرخت تھے۔ ان کی آنکھوں میں ویرانی کا بسیرا تھا۔
وکی کی بدنی خواہش زوروں پر تھی۔ البتہ اوزی کی دل چسپی شباب اور شراب سے زیادہ شکار میں رہی۔ اِس کا سبب جذبۂ خیر یا کوئی اخلاقی رکاوٹ نہیں تھی، بلکہ معیار تھا۔ جب اِس قسم کی محفل جمتی، تو ماتھے پر بل ڈال کر، بھنویں سکیڑ کر وہ زمین پر تھوکتا۔ اور نفی میں گردن ہلاتا رہتا۔
تو اس کی دل چسپی شکار میں رہی۔ انسانی شکار میں۔۔۔
وہ ڈاکوؤں کی ٹولی کے ساتھ منہ پر ڈھاٹا باندھے نکلتا۔ چاند کی روشنی میں سڑک تک جاتا۔ وہاں پیشاب کرتا۔ جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھا رہتا۔ اور پھر اچانک فائرنگ کرتا ہوا سڑک سے گزرتی بس کے سامنے آجاتا۔
یوں تو ڈاکوؤں کی توجہ کا محور لوٹ کا مال ہوتا، مگر بچل کا مقصد صرف دولت کا حصول نہیں تھا۔ وہ علاقے پر اپنی دہشت قائم کرنا چاہتا تھا۔ گبر سے بھی بڑا ڈاکو بننا چاہتا تھا۔ اِسی باعث وقفے وقفے سے لوٹی جانے والی بسوں کے چند مسافروں کو قتل کرنے کی رسم بھی ادا کی جاتی۔ اور قتل ہونے والوں کی روحیں ڈاکوؤں کی ساتھی بن جاتیں۔
یہی وہ رسم تھی، جو اوزی کے جسم میں بجلی بھر دیتی۔ اُسے شہر کی اُن گلیوں کی یاد دلاتی، جہاں اس نے آتشی کھلونے سے پہلے پہل کھیلنا سیکھا تھا۔ اور پھر ان لڑکوں کو سکھایا تھا، جن کے بدن لچک دار اور پھرتیلے تھے۔
اوزی شکار کی وارداتوں اور وکی خواہشوں کے بے انت سلسلوں میں، اُن بے رونق پہاڑوں اور گدلے چشموں کے دیس میں خوش تھے کہ ایک روز سول حکومت کا تختہ الٹ دیے جانے کی غیرمتوقع خبر آئی۔
ملک میں ایک اور مارشل لا لگ چکا تھا۔۔۔
نئی حکومت کی نئی ترجیحات کے باعث آپریشن روک دیا گیا۔ البتہ شہر میں سیاسی سرگرمیاں یک سر تھم گئی تھیں۔ یوں، جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ سب ٹھہر سا گیا تھا۔ اخباروں پر جمود چھایا تھا۔ سیاسی لیڈر مذہب اور جینیات پر بیانات دینے لگے۔
کونوں کھدروں میں چھپے لڑکے دھیرے دھیرے اپنے علاقوں میں لوٹنے لگے تھے۔ البتہ جب اُن کی ماؤں، بیویوں اور اور معشوقاؤں نے اُنھیں دیکھا، تو پہلے پہل پہچان نہیں پائیں کہ وہ بہت بدل گئے تھے، اور دیہی زندگی کا اکھڑ پن ساتھ لائے تھے۔
القا کے لیے یہ وکی اجنبی تھا۔ اُن کے درمیان بے نام فاصلوں کی دیوار کھڑی تھی۔ پت جھڑ شروع ہوچکا تھا۔
فضا میں اکتاہٹ تھی۔ اڈا ویران تھا۔ بڈھا اب تک نہیں پلٹا تھا۔ دو رویہ سڑک، جو کبھی لسانی فسادات کا نقطۂ آغاز ہوا کرتی تھی، اب اس پر دھول اڑا کرتی۔ نیکر پہنے بچے اُدھر دن بھر کرکٹ کھیلتے۔ اور معصومیت سے لبریز حرکتیں کرتے۔
وہ دونوں اپنے پیسے عیاشیوں میں اڑانے لگے۔ مگر پیسے دھیرے دھیرے ختم ہو رہے تھے۔ اور اس کا احساس وکی اور اوزی دونوں کو تھا۔
بڈھا لوٹ تو آیا، مگر سیاسی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑتے ہی عسکری ونگ بے معنی ہو گئے تھے۔ ہتھیاروں کو زنگ لگ گیا، اور اُنھیں چلانے والے بے کار ہوئے۔ ان کے منہ ٹیڑھے ہوگئے تھے۔ اور رنگت جل گئی۔
وہ دھول زدہ درختوں کے درمیان گھومتے، اور کچرا کنڈیوں میں چھپ کر چرس پیتے۔ ذخیرہ ختم ہونے کے بعد تلچھٹ چاٹی گئی۔ ادھار لیا گیا، اور اسے اڑا دیا گیا۔ فاقوں کے خوف کے بجائے یہ عیاشیوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں تھیں، جنھوں نے دونوں دوستوں کو نئی راہ سجھائی۔ اسٹریٹ کرائم!
یہ فیصلہ سہولت لے کر آیا۔۔۔یہ تو سہل تھا۔ اور پھر بلا کا پُرلطف۔ جہاں زندگی کی گاڑی چلانے والا ایندھن ہاتھ آرہا تھا، وہیں وہ درشتی اور نامعلوم کے روبرو ہونے کا تجسس بھی لوٹ آیا، جس سے وہ دونوں محبت کرنے لگے تھے۔
اس راہ پر قدم رکھتے ہی ان کے دن پھر گئے۔ پستول کے سامنے منمناتے، گڑگڑاتے آدمی۔۔۔اللہ رسول کا واسطہ دیتی عورتیں۔۔۔ اور ڈرے ہوئے بچے اُنھیں سیاہ توانائی بخشتے۔
(9)
وقت نے کروٹ لی۔ سوکھی ہوئی سیاسی جڑوں کو پانی ملنے لگا تھا۔ مرجھائی ہوئی ٹہنیوں پر کچھ زندگی لوٹ آئی۔ اور ماضی کی سیاہی بہتی ہوئی حال میں داخل ہوئی۔
جب فوجی حکومت نے اقتدار کو طول دینے کا فیصلہ کیا، اور ریفرنڈم ہو چکا، تو وہ مرحلہ آیا، جب سیاسی جماعتیں سرکار کی جھولی میں یوں گریں، جیسے پکا ہوا پھل زمین پر گرتا ہے۔ اور ضایع ہو جاتا ہے۔
سرکار کے پرچم تلے ایک سیاسی ڈھانچا تشکیل دیا گیا۔ ساحلی شہر کی بابت کچھ اہم فیصلے کیے گئے۔ یہ جانے بغیر کہ یہ اِسے مزید تباہ کردیں گے۔
پرانی جڑوں کو پانی ملنے لگا تھا۔۔۔
فرید بڈھا پھر اڈے پر بیٹھنے لگا۔ اس کے انداز میں عجب شان تھی۔ بکھری ہوئی بھیڑیں گڈریے کی طرف بڑھتی تھیں کہ اب اُس پر تحفظ کا بادل تھا۔ اور اس کی جیب میں ان کے درد کی دوا تھی۔
اوزی اور وکی اب پرانے چاول تھے۔ جو ذمے داریاں انھیں سونپی گئیں، ان میں بسیں جلانے اور بھتے لینے جیسے چھوٹے موٹے کام شامل نہیں تھے۔ وہ جست لگا کر اگلے زینے پر جا پہنچے تھے کہ ان کے بدن سخت اور جھلسے ہوئے تھے۔ اور ان سے وحشت کی بو اٹھتی تھی۔
بلدیاتی انتخابات میں ان میں سے کوئی ایک منظورنظر قرار پانے والا تھا، اور دوسرے کو اس پر اعتراض نہیں تھا۔
جب انجینئر لطیف کے بیٹے وکی کا انتخاب ہوا، تو اوزی یوں سینہ چوڑا کر کے محلے میں کھڑا ہوا تھا، جیسے کونسلر کے لیے اُسے نام زد کیا گیا ہو۔ جیسے وہ منظور نظر ہو۔ جیسے وہ منتخب کردہ ہو۔ وہ اپنے باپ کا غم بھی بھول گیا، جو ٹی بی کے ہاتھوں جیل میں ہلاک ہوچکا تھا۔
وہ دونوں تاحال ایک تھے۔ اور ایک رہنا چاہتے تھے۔
القا، جو ایک اسکول میں کم تن خواہ کے عوض آنے والی نسل کو فرسودہ نصاب کے ٹیکے لگا رہی تھی، بلدیاتی انتخابات کے فوراً بعد اسکول کی شفٹ انچارج لگا دی گئی کہ اس کا منگیتر کونسلر ہوگیا تھا۔ اگلے روز جب شام ہو چلی تھی، اور وہ کھڑکی کی چوکھٹ پر بازو ٹکائے کھڑی تھی، تو ٹھیک ویسی ہی لاابالی اور حسین معلوم ہوتی تھی، جیسے اس روز تھی، جب مینہ برس رہا تھا، اور وکی نے اُسے پہلی بار دیکھا تھا، اور راون کا من للچایا تھا۔
گلی سے گزرتا وکی، جس نے اب مونچھیں رکھ لی تھیں، اسے دیکھ کر مسکرایا۔ اس مسکراہٹ کے پیچھے وہ خوشی تھی، جس کی جڑیں ماضی میں تھیں۔ وہ اب یہ سمجھنے لگا تھا کہ گھر بسانے کو ایک ستھری نکھری گھریلو عورت درکار ہوتی ہے کہ گھر سنبھالنا پڑتا ہے، بگاڑا نہیں جاتا۔
نہ تو القا جانتی تھا، نہ ہی وکی کو علم تھا کہ لڑکی کی ترقی کا سبب اس کا کونسلر بننا نہیں تھا، اس کا پُرقوت ہونا بھی نہیں، یہاں تک کہ مغل ہونا بھی نہیں۔۔۔ بلکہ اس کی وجہ اوزی کا وہی حربہ ہے، جس کے ذریعے اس نے چند برس پہلے لڑکی کے باپ کو، ایک تنگ گلی میں روک کر رشتہ دینے پر راضی کیا تھا۔
اس نے ایک تنگ گلی میں اسکول کے مالک کو روک لیا تھا۔ اور اس کے سر پر بندوق رکھ دی تھی۔۔۔ اب اسلحہ حاکم تھا۔
وقت نے کروٹ لی تھی۔ اور اس کی رفتار کچھ تیز ہوگئی تھی۔ ماہ و سال گزرتے گئے۔ انھوں نے اپنے پیچھے کوئی نشان نہیں چھوڑا۔
شہر کا حلیہ بدلنے لگا۔ سرمایے کی آمد ہوئی۔ سڑکوں میں کچھ پختگی آگئی۔ نظام میں کچھ بالیدگی ظاہر ہوئی۔ شہری انتظامیہ پہاڑ کاٹ کر ایک نیا راستہ بنا رہی تھی، جو مستقبل میں شہر کی پہچان بننے والا تھا۔
اوزی، وکی اور اُن جیسے بہت سوں کے جیون میں سدھار آگیا تھا کہ ان کے دشمن یا تو روپوش ہوگئے تھے، یا قتل کر دیے گئے تھے، یا پھر جیلوں میں تھے۔ اب طاقت کا مرکز ایک تھا۔ اور وہ اس کے جھنڈے تلے تھے۔ ہرسوں پرسکون جمود تھا۔ اُنھیں یوں لگتا تھا، زندگی اپنی ڈگر پر آگئی ہے۔ جیسے سب ٹھیک ہے۔ گو یہ فقط دھوکا تھا۔
یہ سچ نہیں تھا۔ زندگی کا سفر افقی یا عمودی نہ تھا۔
یہ تو ایک دائرہ تھا۔۔۔
یہ ایک ون وے روڈ تھا۔۔۔
(جاری ہے)