تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی فول پروف بنائی جائے
تمام صوبائی حکومتوں اور بشمول وفاقی حکومت تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے از سر نو سیکیورٹی پلان بنانا چاہیے
پنجاب کی صوبائی حکومت نے ایک معروف سرکاری جامعہ پر ممکنہ دہشتگردانہ حملے کے خدشات کے پیش نظر ایک مراسلے کے ذریعے سیکیورٹی کے انتظامات مزید بہتربنانے کی ہدایت جاری کی ہے۔
ذرایع کے مطابق ایک ایس ایم ایس بھی اس حوالے سے موصول ہوا ہے، دراصل کوئی بھی تعلیمی درسگاہ انسانیت کے لیے ایک مقدس حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ معاشرے میں علم کی روشنی پھیلانے کا سبب بنتی ہے جس سے جہل کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے جہل کے راستے پرچلنے والے شعور وآگہی کے مراکزکو ختم کرنا چاہتے ہیں، ماضی قریب میں پشاورکے ایک اسکول کو مقتل بنایا گیا اور مردان کی ایک یونیورسٹی پر بھی دہشتگردوں نے حملہ کیا اور خون کی ہولی کھیلی گئی، آپریشن ضرب عضب کا انتقام معصوموں سے لینا چینگزی مظالم کو شرمانے والی حرکت ہے۔
اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ خدانخواستہ ملک کے کسی بھی تعلیمی درسگاہ پر سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث دہشتگرد کوئی مذموم کارروائی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ بہت بڑا دھچکا ثابت ہوگا، پہلے بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ایسی اطلاعات قبل از وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مشتہرکی جاتی رہی ہیںکہ کسی شہر یا صوبے کے فلاں فلاں اہم مقامات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ واقعہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے، متوشش حلقے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر جب پہلے پتا چل جاتا ہے تو پھر کیونکر ان حملوں کو روکا نہیں جاتا ہے ۔خامی جو سامنے ابھر کر آتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کے درمیان محکمانہ ہم آہنگی اور اطلاعات کی ایک دوسرے سے شیئرنگ اور مضبوط میکنزم کا فقدان ہے۔
جس کی وجہ سے دہشتگرد اپنے مذموم کارروائیوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ایجنسیز منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، ضرب عضب سے یقینا دہشتگردوں کی قوت کمزور ہوئی ہے لیکن ابھی تک ہٹ اینڈ رن والی حکمت عملی ان کی کامیاب چل رہی ہے لہٰذا ملک بھرکی جامعات اور دیگرصوبائی اداروں کو بھی پیچھے حملے سے پیشگی انتظامات موثر سیکیورٹی کے حوالے سے کریں ، تمام صوبائی حکومتوں اور بشمول وفاقی حکومت تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے از سر نو سیکیورٹی پلان بنانا چاہیے، تاکہ طالبان ِعلم کی جانوں کو بچایا جائے ظالمان کے ظلم و بربریت سے ۔
ذرایع کے مطابق ایک ایس ایم ایس بھی اس حوالے سے موصول ہوا ہے، دراصل کوئی بھی تعلیمی درسگاہ انسانیت کے لیے ایک مقدس حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ معاشرے میں علم کی روشنی پھیلانے کا سبب بنتی ہے جس سے جہل کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے جہل کے راستے پرچلنے والے شعور وآگہی کے مراکزکو ختم کرنا چاہتے ہیں، ماضی قریب میں پشاورکے ایک اسکول کو مقتل بنایا گیا اور مردان کی ایک یونیورسٹی پر بھی دہشتگردوں نے حملہ کیا اور خون کی ہولی کھیلی گئی، آپریشن ضرب عضب کا انتقام معصوموں سے لینا چینگزی مظالم کو شرمانے والی حرکت ہے۔
اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ خدانخواستہ ملک کے کسی بھی تعلیمی درسگاہ پر سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث دہشتگرد کوئی مذموم کارروائی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ بہت بڑا دھچکا ثابت ہوگا، پہلے بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ایسی اطلاعات قبل از وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مشتہرکی جاتی رہی ہیںکہ کسی شہر یا صوبے کے فلاں فلاں اہم مقامات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ واقعہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے، متوشش حلقے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر جب پہلے پتا چل جاتا ہے تو پھر کیونکر ان حملوں کو روکا نہیں جاتا ہے ۔خامی جو سامنے ابھر کر آتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کے درمیان محکمانہ ہم آہنگی اور اطلاعات کی ایک دوسرے سے شیئرنگ اور مضبوط میکنزم کا فقدان ہے۔
جس کی وجہ سے دہشتگرد اپنے مذموم کارروائیوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ایجنسیز منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، ضرب عضب سے یقینا دہشتگردوں کی قوت کمزور ہوئی ہے لیکن ابھی تک ہٹ اینڈ رن والی حکمت عملی ان کی کامیاب چل رہی ہے لہٰذا ملک بھرکی جامعات اور دیگرصوبائی اداروں کو بھی پیچھے حملے سے پیشگی انتظامات موثر سیکیورٹی کے حوالے سے کریں ، تمام صوبائی حکومتوں اور بشمول وفاقی حکومت تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے از سر نو سیکیورٹی پلان بنانا چاہیے، تاکہ طالبان ِعلم کی جانوں کو بچایا جائے ظالمان کے ظلم و بربریت سے ۔