نظریے پہ تنقیدی جائزہ
انسان کا شعوری نظریاتی سفربہت طویل ہے
PESHAWAR:
انسان کا شعوری نظریاتی سفربہت طویل ہے۔ معلوم تاریخ کے تناظر میں پچاس ہزارسال کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ نظریات بھی جدلیاتی مادیت کی طرح تغیر پزیرہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر مصدق حسین کی ایک کتاب ''بائیں بازوکے منحرفین اورمارکسی نظریات '' کے نام سے ایک تاریخی وتحقیقی مطا لعہ میرے ہاتھ آیا۔ مصدق حسین نے بڑی جرات ، صاف گوئی اورسادگی سے یہ کتاب لکھی ہے۔
انھوں نے جیسا سمجھا اوردیکھا ویسا ہی لکھ دیا۔اس کتاب کے مطالعے سے پا کستان کے محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کے نظریات اور زندگی کے عملی اقدام میں تقویت ملے گی ۔ ڈاکٹر مصدق نے سابقہ کمیونسٹ جمال نقوی کے حوالہ سے کہا کہ وہ کنفیوژن اورگما شتہ سرمایہ داری کی جانب رجوع ہوگئے ہیں۔آگے چل کر وہ کہتے ہیںجمال نقوی نے نظریاتی انحراف اور غداری کی ہے ۔ مصنف کے اس خیال کا میں مکمل حامی اور یک زبان ہوں سوائے لفظ غداری کے بلکہ یوں کہناغلط نہ ہو گا کہ وہ موقع پرستی اورمفاد پرستی کے تابع ہوگئے۔
جب کمیونسٹ پارٹی میں تھے تب بشمول اپنے خاندان ماسکوکا خوب دورہ کرتے تھے اوراب امریکا کے دورے میں مصروف عمل ہیں۔ کیا جمال نقوی صاحب کو نہیں معلوم تھا کہ سوویت یو نین میں علاج ، تعلیم اوررہا ئش وغیرہ مفت تھیں ۔ پینتیس سال تک اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ منشیات نوشی، عصمت فروشی، خودکشی، بے روزگاری، جہالت اورافلاس کا خاتمہ بل الخیر ہوگیا تھا۔کیا وہاں لوگوں کی اوسط عمر اٹھترسال نہیں تھی، جواب باون سال کی ہوگئی ہے۔
یہ سب کچھ جمال نقوی کو پتہ تھا اور ہے۔ صرف یہ پتہ نہیں تھا کہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی کال پر اٹھارہ کروڑ انسان ہڑتال میں حصہ لیں گے ۔ میکسیکو میں پچاس لاکھ کا جلوس نکلے گا۔ پھرایک بار نیپال، تریپورہ اورکریلا میں کمیونسٹ پارٹی جیت جائے گی، برطانیہ کا اپوزیشن لیڈرسوشلسٹ ہوگا۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک میں اٹھاسی ملکوں کے نو سو شہروں میں مظاہرے ہونگے۔اقوام متحدہ میں جان لینن کا گانا ' قیاس توکرو' شکیرا گائیں گی ۔
مصنف نے گوربا چوف پہ درست تنقیدکی ہے کہ بڑی مکاری کے ساتھ روس میں طبقاتی نظام یعنی سرمایہ داری کو واپس لائے اورسامراجی آلہ کاربن کر لیکچرزکی رقوم وصول کرتے رہے، مگراس میں وہاں کی پارٹی اورکارکنوں کی بھی غلطیاں تھیں۔سوشلزم اگر راہ گذر ہے اورمنزل کمیونسٹ سماج ہے تو پھر یہ عبو ری دورکوکیا صدیوں بتانا ہے،اگر زیادہ دیرکرینگے توکمیونسٹ سماج کے قیام کے بجائے رد انقلاب یعنی سرمایہ داری کا لوٹ کر آنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ مصنف سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بہت پیاری مثال روبن سن کروسوکی دی ہے ۔
جب دانیل دیفوکے ناول کے ہیرو روبن سن کروسوکو غیرآباد جزیرے میں تن تنہا جاپڑتا ہے، تو اس کے لیے بحری جہازسے بچی ہوئی ساری چیزیں سوائے زرکے کارآمد ثابت ہو تی ہیں۔ روبن کروسو وہاں کسی سے اس کا تبادلہ نہیں کرسکتا اورزرجو سرمایہ دارانہ معاشرے کی اتنی قیمتی وگراں بہا چیز ہے اپنی طا قت کھوبیٹھتا ہے، معمولی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کربیکارہوجاتا ہے ۔'یہ فضول خرافات' روبن سن کرنسی کے با رے میں کہتا ہے کہ'' تومیرے کس کام کی، تواس قابل بھی نہیں کہ میں تجھ پر نظر ڈالوں اورتجھ کو زمین سے اٹھاؤں۔''
سرمایہ داری کے عام بحران پر مصنف نے جاپان کی بہت اچھی مثال پیش کی ہے۔ جس میں کہا ہے کہ ایک چھوٹے سے کمرے کا کرایہ ان کی کل تنخواہ سے زائد ہے ۔ دوسرے یہ کہ روزانہ آمدورفت پر رقم خرچ کرنا ان کی گنجائش سے باہر ہے ۔کمپنی نے انھیں کبرڈ مہیاکیے ہوئے تھے جس میں ان کے کپڑے اور دیگر ضروری سامان ہوتا ہے۔ ساتھ ہی غسل خانے ہیںاورعملے کو اجازت ہے کہ رات وہ دفترکی کرسی بطور بستراستعمال کرلیں ۔کھا نے کے لیے اسی عمارت میںکیفے ٹیریا موجود ہے ۔اس عملے کے اکثر افراد اور دفتری اوقات کے بعد باہر نکل جانے اوروقت سے پہلے رات کو واپس آکر سوجاتے اورصبح دفتری اوقات سے پہلے تیارہوکرکرسی پر بیٹھ جاتے۔
مصنف نے چین کی کمیونسٹ پارٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ترانحرافات اورخامیوں کے باوجود اپنے وجود کو بر قرار رکھا ہوا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی،کمیونسٹ ہے اور نہ پارٹی۔ حسین خان نام رکھنے سے کوئی حسین نہیں بن جاتا۔ ماؤژے تنگ کے دور میں چین میں کوئی سرمایہ دار تھا، بے روزگار تھا، مہنگائی تھی،جہالت تھی، منشیات نوشی تھی، افلاس تھا اورنہ بھو ک ، مگرآج کے چین کی پیپلزاسمبلی میں تراسی ارب پتی ( ڈالروں میں ) موجود ہیں تو دوسری طرف ستائیس کروڑ عوام بے روزگار ہیں ۔ مصنف ڈاکٹر مصدق حسین نے ایک مہذب کمیونسٹ ہوکر بھی میخائل الیکذنڈر وچ باکونن کو ا یک جگہ سازشی کہا جو خود ان کی مہذبانہ اندازکی نفی کرتا ہے۔
باکونن ساری زندگی انقلاب کے لیے وقف کیے۔ وہ اٹھارہ سو اڑسٹھ میں مزدوروں اورٹریڈ یونین کی فیڈریشن کی جانب سے انٹرنیشنل ورکنگ مینزایسو سی ایشن ( سوشلسٹ) میں شامل ہوئے۔ باکونن،کارل مارکس کے دوست اورہیگلین فلسفے کے حامی تھے۔ان کی پرودھون سے بھی ملاقاتیں رہیں َ ۔اٹھارہ سواڑتالیس میں چیک باغیوں کی حمایت کرنے پر انھیں اٹھارہ سوانچاس میں جرمنی سے گرفتارکرکے روس بھیج دیا گیا۔بعد ازاں سینٹ پٹریس برگ میں پیٹریال قلع میں مقیدکردیا گیا۔وہ یہاں اٹھارہ سوانچاس سے اٹھارہ سوستاون تک مقید رہے۔
پھر مشقتی کیمپ سائیبیریا میں بھیج دیا گیا ۔ وہاں سے چھپ کرجاپان چلے گئے، بعد ازاں امریکا اورکچھ عرصے کے لیے لندن مقیم رہے۔اٹھارہ سوترسٹھ میں'کولوکول' نامی رسالے کے لیے کام کرتے رہے۔ وہ پولینڈ پرجارحیت کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے ۔مارکس یہ دلیل دیتے تھے کہ ریاست کو استعمال کرتے ہوئے سوشلزم لایا جاسکتا ہے جب کہ باکونن ا نارکسٹ دھڑا ریاست کو ختم کرکے خودکار فیڈریشن کی تشکیل اورکام وا لی جگہوں پہ کمیون قائم کرنے کی تجویزدی تھی۔اس وقت انارکسٹ سیکشن دنیا کا سب سے بڑا فیکشن بن گیا۔ باکونن نے اٹھارہ سوستر میں لیون، فرانس میں حکومت مخالف بغاوت میں حصہ لیا جوکہ پیرس کمیون کا پیش خیمہ تھا ۔
پیرس کمیون نے باکونن انارکسٹوں کے پروگرام سے قریبی رابطہ رکھا ہوا تھا جس میں خودکار انتظام ، مستند نمایندے ، ملیشیا کے نظام ،منتخب افسران اورعدم مر کزیت پر مشتمل تھا ۔باکونن کی خرابی صحت اوربارہا قید رہنے سے اور اٹلی میں نسلی فسادات کے خلاف بغاوت میں ملوث ہونے کی وجہ سے انھیں بھیس بدل کرسویٹزرلینڈ بھیجا گیا ۔ وہ مزدوروں کسانوں کی تحریک میں ہمیشہ شریک رہے ۔مصر اورلا طینی امریکا کی تحریکوں میں زبردست متا ثرکن شخصیت تھے۔
انقلاب فرانس انیس سونواسی پر اب تک لکھی جا نے وا لی کتابوں میں مصدقہ اورمستندکتاب باکونن کی ہی دنیا تسلیم کرتی ہے۔ دنیا میں ایسے بے شمارکارکنان اور رہنماؤں نے اپنی زندگی مزدوروں اورکسانوں کے لیے وقف کیا جواس طبقاتی نظام کو ختم کرنے،ہمواری، برابری،امداد باہمی اورایسے نسل انسانی کا مساوات کے سماج کی تشکیل کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔ وہ سقراط ہوں، ایپی کیورس ہوں، فئیر باخ ہوں، ہیگل ہوں،باکونن ہوں،کارل مارکس ہوں، پرودھون ہوں، ڈاروین ہوں،اینگلزہوں،ایماگولڈ مان ہوںِ، پریترکرو پوتکین ہوں یا اکیس ویں صدی کی وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے کارکنان ہوں، یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک نے اورایک غیرطبقاتی نظام کے لیے متفق ہیں۔
انسان کا شعوری نظریاتی سفربہت طویل ہے۔ معلوم تاریخ کے تناظر میں پچاس ہزارسال کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ نظریات بھی جدلیاتی مادیت کی طرح تغیر پزیرہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر مصدق حسین کی ایک کتاب ''بائیں بازوکے منحرفین اورمارکسی نظریات '' کے نام سے ایک تاریخی وتحقیقی مطا لعہ میرے ہاتھ آیا۔ مصدق حسین نے بڑی جرات ، صاف گوئی اورسادگی سے یہ کتاب لکھی ہے۔
انھوں نے جیسا سمجھا اوردیکھا ویسا ہی لکھ دیا۔اس کتاب کے مطالعے سے پا کستان کے محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کے نظریات اور زندگی کے عملی اقدام میں تقویت ملے گی ۔ ڈاکٹر مصدق نے سابقہ کمیونسٹ جمال نقوی کے حوالہ سے کہا کہ وہ کنفیوژن اورگما شتہ سرمایہ داری کی جانب رجوع ہوگئے ہیں۔آگے چل کر وہ کہتے ہیںجمال نقوی نے نظریاتی انحراف اور غداری کی ہے ۔ مصنف کے اس خیال کا میں مکمل حامی اور یک زبان ہوں سوائے لفظ غداری کے بلکہ یوں کہناغلط نہ ہو گا کہ وہ موقع پرستی اورمفاد پرستی کے تابع ہوگئے۔
جب کمیونسٹ پارٹی میں تھے تب بشمول اپنے خاندان ماسکوکا خوب دورہ کرتے تھے اوراب امریکا کے دورے میں مصروف عمل ہیں۔ کیا جمال نقوی صاحب کو نہیں معلوم تھا کہ سوویت یو نین میں علاج ، تعلیم اوررہا ئش وغیرہ مفت تھیں ۔ پینتیس سال تک اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ منشیات نوشی، عصمت فروشی، خودکشی، بے روزگاری، جہالت اورافلاس کا خاتمہ بل الخیر ہوگیا تھا۔کیا وہاں لوگوں کی اوسط عمر اٹھترسال نہیں تھی، جواب باون سال کی ہوگئی ہے۔
یہ سب کچھ جمال نقوی کو پتہ تھا اور ہے۔ صرف یہ پتہ نہیں تھا کہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی کال پر اٹھارہ کروڑ انسان ہڑتال میں حصہ لیں گے ۔ میکسیکو میں پچاس لاکھ کا جلوس نکلے گا۔ پھرایک بار نیپال، تریپورہ اورکریلا میں کمیونسٹ پارٹی جیت جائے گی، برطانیہ کا اپوزیشن لیڈرسوشلسٹ ہوگا۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک میں اٹھاسی ملکوں کے نو سو شہروں میں مظاہرے ہونگے۔اقوام متحدہ میں جان لینن کا گانا ' قیاس توکرو' شکیرا گائیں گی ۔
مصنف نے گوربا چوف پہ درست تنقیدکی ہے کہ بڑی مکاری کے ساتھ روس میں طبقاتی نظام یعنی سرمایہ داری کو واپس لائے اورسامراجی آلہ کاربن کر لیکچرزکی رقوم وصول کرتے رہے، مگراس میں وہاں کی پارٹی اورکارکنوں کی بھی غلطیاں تھیں۔سوشلزم اگر راہ گذر ہے اورمنزل کمیونسٹ سماج ہے تو پھر یہ عبو ری دورکوکیا صدیوں بتانا ہے،اگر زیادہ دیرکرینگے توکمیونسٹ سماج کے قیام کے بجائے رد انقلاب یعنی سرمایہ داری کا لوٹ کر آنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ مصنف سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بہت پیاری مثال روبن سن کروسوکی دی ہے ۔
جب دانیل دیفوکے ناول کے ہیرو روبن سن کروسوکو غیرآباد جزیرے میں تن تنہا جاپڑتا ہے، تو اس کے لیے بحری جہازسے بچی ہوئی ساری چیزیں سوائے زرکے کارآمد ثابت ہو تی ہیں۔ روبن کروسو وہاں کسی سے اس کا تبادلہ نہیں کرسکتا اورزرجو سرمایہ دارانہ معاشرے کی اتنی قیمتی وگراں بہا چیز ہے اپنی طا قت کھوبیٹھتا ہے، معمولی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کربیکارہوجاتا ہے ۔'یہ فضول خرافات' روبن سن کرنسی کے با رے میں کہتا ہے کہ'' تومیرے کس کام کی، تواس قابل بھی نہیں کہ میں تجھ پر نظر ڈالوں اورتجھ کو زمین سے اٹھاؤں۔''
سرمایہ داری کے عام بحران پر مصنف نے جاپان کی بہت اچھی مثال پیش کی ہے۔ جس میں کہا ہے کہ ایک چھوٹے سے کمرے کا کرایہ ان کی کل تنخواہ سے زائد ہے ۔ دوسرے یہ کہ روزانہ آمدورفت پر رقم خرچ کرنا ان کی گنجائش سے باہر ہے ۔کمپنی نے انھیں کبرڈ مہیاکیے ہوئے تھے جس میں ان کے کپڑے اور دیگر ضروری سامان ہوتا ہے۔ ساتھ ہی غسل خانے ہیںاورعملے کو اجازت ہے کہ رات وہ دفترکی کرسی بطور بستراستعمال کرلیں ۔کھا نے کے لیے اسی عمارت میںکیفے ٹیریا موجود ہے ۔اس عملے کے اکثر افراد اور دفتری اوقات کے بعد باہر نکل جانے اوروقت سے پہلے رات کو واپس آکر سوجاتے اورصبح دفتری اوقات سے پہلے تیارہوکرکرسی پر بیٹھ جاتے۔
مصنف نے چین کی کمیونسٹ پارٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ترانحرافات اورخامیوں کے باوجود اپنے وجود کو بر قرار رکھا ہوا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی،کمیونسٹ ہے اور نہ پارٹی۔ حسین خان نام رکھنے سے کوئی حسین نہیں بن جاتا۔ ماؤژے تنگ کے دور میں چین میں کوئی سرمایہ دار تھا، بے روزگار تھا، مہنگائی تھی،جہالت تھی، منشیات نوشی تھی، افلاس تھا اورنہ بھو ک ، مگرآج کے چین کی پیپلزاسمبلی میں تراسی ارب پتی ( ڈالروں میں ) موجود ہیں تو دوسری طرف ستائیس کروڑ عوام بے روزگار ہیں ۔ مصنف ڈاکٹر مصدق حسین نے ایک مہذب کمیونسٹ ہوکر بھی میخائل الیکذنڈر وچ باکونن کو ا یک جگہ سازشی کہا جو خود ان کی مہذبانہ اندازکی نفی کرتا ہے۔
باکونن ساری زندگی انقلاب کے لیے وقف کیے۔ وہ اٹھارہ سو اڑسٹھ میں مزدوروں اورٹریڈ یونین کی فیڈریشن کی جانب سے انٹرنیشنل ورکنگ مینزایسو سی ایشن ( سوشلسٹ) میں شامل ہوئے۔ باکونن،کارل مارکس کے دوست اورہیگلین فلسفے کے حامی تھے۔ان کی پرودھون سے بھی ملاقاتیں رہیں َ ۔اٹھارہ سواڑتالیس میں چیک باغیوں کی حمایت کرنے پر انھیں اٹھارہ سوانچاس میں جرمنی سے گرفتارکرکے روس بھیج دیا گیا۔بعد ازاں سینٹ پٹریس برگ میں پیٹریال قلع میں مقیدکردیا گیا۔وہ یہاں اٹھارہ سوانچاس سے اٹھارہ سوستاون تک مقید رہے۔
پھر مشقتی کیمپ سائیبیریا میں بھیج دیا گیا ۔ وہاں سے چھپ کرجاپان چلے گئے، بعد ازاں امریکا اورکچھ عرصے کے لیے لندن مقیم رہے۔اٹھارہ سوترسٹھ میں'کولوکول' نامی رسالے کے لیے کام کرتے رہے۔ وہ پولینڈ پرجارحیت کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے ۔مارکس یہ دلیل دیتے تھے کہ ریاست کو استعمال کرتے ہوئے سوشلزم لایا جاسکتا ہے جب کہ باکونن ا نارکسٹ دھڑا ریاست کو ختم کرکے خودکار فیڈریشن کی تشکیل اورکام وا لی جگہوں پہ کمیون قائم کرنے کی تجویزدی تھی۔اس وقت انارکسٹ سیکشن دنیا کا سب سے بڑا فیکشن بن گیا۔ باکونن نے اٹھارہ سوستر میں لیون، فرانس میں حکومت مخالف بغاوت میں حصہ لیا جوکہ پیرس کمیون کا پیش خیمہ تھا ۔
پیرس کمیون نے باکونن انارکسٹوں کے پروگرام سے قریبی رابطہ رکھا ہوا تھا جس میں خودکار انتظام ، مستند نمایندے ، ملیشیا کے نظام ،منتخب افسران اورعدم مر کزیت پر مشتمل تھا ۔باکونن کی خرابی صحت اوربارہا قید رہنے سے اور اٹلی میں نسلی فسادات کے خلاف بغاوت میں ملوث ہونے کی وجہ سے انھیں بھیس بدل کرسویٹزرلینڈ بھیجا گیا ۔ وہ مزدوروں کسانوں کی تحریک میں ہمیشہ شریک رہے ۔مصر اورلا طینی امریکا کی تحریکوں میں زبردست متا ثرکن شخصیت تھے۔
انقلاب فرانس انیس سونواسی پر اب تک لکھی جا نے وا لی کتابوں میں مصدقہ اورمستندکتاب باکونن کی ہی دنیا تسلیم کرتی ہے۔ دنیا میں ایسے بے شمارکارکنان اور رہنماؤں نے اپنی زندگی مزدوروں اورکسانوں کے لیے وقف کیا جواس طبقاتی نظام کو ختم کرنے،ہمواری، برابری،امداد باہمی اورایسے نسل انسانی کا مساوات کے سماج کی تشکیل کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔ وہ سقراط ہوں، ایپی کیورس ہوں، فئیر باخ ہوں، ہیگل ہوں،باکونن ہوں،کارل مارکس ہوں، پرودھون ہوں، ڈاروین ہوں،اینگلزہوں،ایماگولڈ مان ہوںِ، پریترکرو پوتکین ہوں یا اکیس ویں صدی کی وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے کارکنان ہوں، یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک نے اورایک غیرطبقاتی نظام کے لیے متفق ہیں۔