حکومت کو سوئس مقدمات کھولنے کے فیصلے کا انتظار

مقدمات کھولے گئے تو ہم بین الاقوامی وکلا کی خدمات حاصل کریں گے ، سیکریٹری قانون

مقدمات کھولے گئے تو ہم بین الاقوامی وکلا کی خدمات حاصل کریں گے ، سیکریٹری قانون. فوٹو: فائل

سوئس حکام کو خط لکھے جانے کے ایک ماہ بعد بھی حکومت ابھی تک صدر آصف زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کھولنے کے فیصلے کی منتظر ہے۔

وفاقی سیکریٹری قانون و انصاف یاسمین عباسی نے ''ایکسپریس ٹربیون''کو بتایا کہ حکومت پاکستان کو سوئٹزرلینڈ کے اٹارنی جنرل کی طرف سے خط کا اب بھی انتظار ہے۔ اگر سوئس حکام مقدمات کھولنے کا اعلان کرتے ہیں تو ہم یقیناً بین الاقوامی وکلا کی خدمات حاصل کریں گے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم اور سفارتخانے کے لیگل ڈائریکٹر اس خط کے مندرجات پر غور کے معاملے پر سوئس حکام کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔




وزارت قانون نے سوئٹزرلینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی معاونت کیلیے 2اعلیٰ افسر بھی جنیوا بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم وزیر قانون فاروق نائیک کے قریبی عزیز کے انتقال کی وجہ سے روانگی مئوخر کرنا پڑی۔ سفارتخانے کو پہلے ہی نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا کی طرف سے ایڈوائس موصول ہوچکی ہے جو قبل ازیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ اس وقت کے کے آغا نے سابق چیئرمین نیب نوید احسن کے ساتھ اس کیس میں معاونت کی تھی۔

نوید احسن نے ہی سوئس اٹارنی جنرل کو پہلے خط بھجوا کر مشترکہ قانونی معاونت کی درخواست کی تھی۔ دریں اثنا معروف قانون دان احمر بلال صوفی نے بتایا کہ صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ سوئس حکام پاکستان کی درخواست پر اپنے قوانین کے مطابق غور کریں گے۔ سوئس قوانین کے تحت اگر متعلقہ اتھارٹی کی درخواست پر کوئی کیس بند کردیا جائے تو پھر اس کا دوبارہ کھلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ احمر بلال صوفی کی اس بات کو سوئس حکومت کے خط سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ '' یہ سربراہان مملکت/سربراہان حکومت کے قانونی حقوق اور تحفظ جو انہیں آئین دیتا ہے سے متصادم ہوگا''۔

Recommended Stories

Load Next Story