لڑکپن اور جوانی کی نادانیاں
لڑکپن کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے معصوم دورہوتا ہے
لڑکپن کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے معصوم دورہوتا ہے۔ اسی زمانے کی کچھ کم علمی ہی نادانیوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب لڑکے فلمیں بھی دیکھتے ہیں۔ جب بارش کا منظر ہوتا ہے تو ایک غلط فہمی جنم لیتی ہے۔ عموماً دیہات کے لوگوں کو بارش کے برسنے پر خوش ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔کراچی میں ویسے ہی بارش کم ہوتی ہے، اس لیے شہر قائد کے لوگ کچھ زیادہ ہی خوش ہوتے ہیں۔
لڑکپن میں کسی فلم یا ڈرامے کے کسی منظر میں بھیگتے ہوئے لوگوں کو خوش ہوتے دیکھ کر پہلی نادانی نے جنم لیا۔ ہم سمجھتے رہے کہ ان کو نہانے کو مل رہا ہے اس لیے یہ خوش ہورہے ہیں۔ بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ پانی زندگی ہے۔ تمام انسانوں کا انحصار اسی پر ہے جب کہ دیہی زندگی کا بہت بڑا دارومدار اس نعمت پر ہے۔ ان کے گھر میں دانے اور خوراک کے لیے لازمی ہے کہ بارش برسے۔ اب جب ایسی فلمیں بالخصوص عامرخان کی ''لگان'' دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ یہ دیہاتی بارش برسنے پرکیوں اس قدر خوش ہوتے ہیں۔
RS:14.99 یعنی چودہ روپے ننانوے پیسے جب بچپن میں جوتے کی یہ قیمت دیکھی تو بڑی حیرانی ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سیدھے سیدھے پندرہ روپے قیمت کیوں نہ مقررکردی۔ دکاندار اس زمانے میں گاہک کو ایک پیسہ واپس بھی کرتے ۔ یہ ایسی بات ہے جیسے آج کل چپل اور جوتے وغیرہ چودہ سونوے روپے کے ملتے ہیں اور دکاندار دس روپے واپس کرتے ہیں۔
اب پتہ چلا کہ حکومت کے ٹیکس کا سلیب (Slab) پندرہ سو، دوہزار، ڈھائی ہزارکا ہے۔ ٹیکس بچانے کے لیے کارخانے دار اور دکاندار اس طرح کی قیمتیں مقررکرتے ہیں جب کہ گاہک تو قیمت راؤنڈ فیگر میں ہی سمجھتا ہے۔ یہ بچپن کی دوسری نادانی تھی۔ بسوں کی ریس پر ہم سمجھتے تھے کہ بڑے بھی بچوں کی طرح آگے نکل جانے کے لیے ریس لگاتے ہیں۔ پھر پتہ چلا کہ یہ ریس کیوں لگتی ہے اپنے گاہک یعنی مسافروں کو اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ اپنی بس میں بٹھانے کے لیے یہ بھاگم دوڑ ہوتی ہے۔ یوں بچپن کی یہ تین نادانیاں جوانی کا دور آتے آتے دور ہوگئیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح چوتھی غلط فہمی بھی بڑے ہونے پر دور ہوگئی۔
''یحییٰ خان نے اخبار والوں پر پابندی لگادی ہے یا بھٹوکا اخبار والوں سے بڑا جھگڑا چل رہا ہے'' بارہ پندرہ سال کی عمر میں یہ تو علم تھا کہ یحییٰ اور بھٹو پاکستان کے حکمران ہیں لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔اس معصوم دور میں اگرکسی کو اخبار والا سمجھتے تھے تو وہ ہاکر تھے۔
وہ ہاکر جو گھروں پر اخبار دے جاتے یا ان کے اسٹال ہوتے۔ والد اور چچا کی سیاسی گفتگو کے دوران اس جملے نے بہت پریشان کیا۔کسی سے پوچھا بھی نہیں کہ پاکستان کے طاقتور حکمران کیوں کر ان غریب ہاکروں کے پیچھے پڑگئے ہیں؟ لڑکپن کی نادانی کا زمانہ گزرا تو پتہ چلا کہ اخبار والوں پر پابندی اور ان کا حکمرانوں سے جھگڑا کیا تھا۔ اخبار والوں کا وسیع مطلب واضح ہوا کہ اس میں اخبار کے مالک، مدیر ، رپورٹر کالم نگار، فوٹوگرافر سمیت بہت سارے لوگ شامل ہیں۔ یہ اخبار والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام کو سچ بتانا چاہتے ہیں۔ کڑوا سچ اکثر حکمرانوں سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ مختلف بہانوں سے اخبار والوں کو پکڑنا اور جکڑنا چاہتے ہیں۔ یہ تھیں لڑکپن کی چار معصومانہ نادانیاں۔
جوانی کی دو نادانیاں کیا ہیں؟ممکن ہے نادانیاں زیادہ ہوں لیکن اس وقت دو یاد آرہی ہیں۔ اگر نادانیوں کو Sadmaa صدمہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بچپن کی ان چار نادانیوں یعنی بارش، بسوں کی ریس، جوتوں کی قیمت اور اخبار والے سے کبھی صدمہ نہ ہوا۔ ان نادانیوں کو زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں کہا جاسکتا ہے لیکن جوانی کی دو نادانیوں کو یقیناً صدمے کا نام دیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے بارے میں پتہ چلا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان یہ جھگڑا آزادی کے وقت سے چلا آرہا ہے۔
برطانوی وائسرائے لارڈماؤنٹ بیٹن نے گورداسپورکو بھارت کے حوالے کرکے انھیں کشمیر کے لیے راستہ دیا۔ ایک طرف انڈیا کی عیاری تو دوسری طرف مہاراجہ ہری سنگھ کی الجھن تو تیسری جانب مجاہدین کی پیش قدمی۔ یوں ایک تہائی کشمیر پر پاکستان کا قبضہ ہوگیا تو دو تہائی پر بھارت کا۔ ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ سلامتی کونسل نے قرار دیا کہ کشمیر میں ریفرنڈم کروایا جائے اور وہاں کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ۔ اسی کو ہم تقسیم ہندکا نامکمل ایجنڈا کہتے ہیں۔ چوہدری رحمت علی نے لفظ پاکستان میں K رکھا ہی کشمیر کے لیے تھا۔ یہاں تک تو ساری بات ایک تاریخ ہے۔
پھر نادانی یا کم علمی کیا ہے ؟ وہ کم علمی جو صدمے میں بدل چکی ہے۔ چھوٹے سے صدمے میں کہ یہ پانچویں نادانی ہے۔ بڑا صدمہ تو چھٹی نادانی پر ہوگا۔ ہم پاکستانی اپنے کشمیر کو آزاد کشمیرکہتے ہیں اور بھارت کے قبضے والے حصے کو مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔ یہ جوانی کی نادانی تھی۔ کبھی یہ نہ سوچا کہ ہندوستانی اس کوکس طرح لیتے ہیں۔ وہ اپنے قابض حصے کو کشمیر اور ہمارے آزاد کشمیر کو Pok کہتے ہیں۔ جب کچھ وقت گزرا تو پتہ چلا کہ اس کا مطلب ہےpakistan occupied kashmir یقیناً یہ جوانی کی پہلی اور زندگی کی بظاہر پانچویں نادانی تھی جس نے چھٹا صدمہ پہنچایا کہ چھٹی نادانی کا صدمہ زیادہ بڑا ہے۔
پاکستان آزاد تو ہوا لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا عجیب و غریب ملک تھا کہ دونوں حصوں کے درمیان سولہ سوکلو میٹرکا فاصلہ تھا۔ ہم مغربی ومشرقی پاکستان کہلائے۔ آزادی سے پہلے کے دور کی بات ہوتی تو اسے غیر منقسم ہندوستان کہا جاتا۔ ہماری ناانصافی اور بنگالیوں کی جلد بازی کے علاوہ بھارت کی عیاری نے پاکستان کو دولخت کردیا۔ یہ معاملہ کبھی نہ کبھی تو ہونا تھا لیکن اگر سمجھ داری سے کام لیا جاتا تو یہ جدائی پرسکون انداز میں کنفیڈریشن کی شکل میں بھی ہوسکتی تھی۔ جس طرح جی ہاں جس طرح ''کیبنیٹ مشن پلان'' کو مان کر نہرو اورکانگریس تقسیم ہند کو روک سکتے تھے۔اسی طرح ہم مجیب کو اقتدار سونپ کر تقسیم پاکستان روک سکتے تھے۔ صدمے بھری نادانی یہ ہے کہ آزادی سے پہلے برٹش انڈیا کے دورکو UNDIVIDED INDA بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان مصنفین کی درجنوں کتابوں اور قلم کاروں کے سیکڑوں مضامین میں یہ جملہ طالب علموں، صحافیوں اورکالم نگاروں نے پڑھا ہوگا۔
یہ پڑھنے پر راقم کو کبھی کچھ نہ ہوا ۔ نہ صدمہ ہوا اور نہ کوئی جھٹکا لگا۔ نہ رنج ہوا اور نہ ہتک محسوس کی۔ جب بھارتی لکھاریوں، سیاست دانوں اور تاریخ دانوں کی کتابوں میں ایک جملہ پڑھنے کا موقع ملا تو عجیب محسوس ہوا۔ یہ صدمے ، یہ جھٹکے، یہ رنج زیادہ محسوس تب ہوئے جب انسان ان کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ ہو۔ اس عدم تیاری کو ہی نادانی کہا جاسکتا ہے۔
وہ کیا لفظ تھا جسے سن کر محسوس ہوا کہ کسی نے سر پر بم مارا ہے۔ شاید پہلی دفعہ یہ لفظ کوئی بھی پاکستانی سنے تو اس کو یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ ''غیر منقسم پاکستان'' ایک صدمہ انگیز جملہ تھا۔ سینتالیس(47) سے اکہتر (71) تک کے زمانے کے واقعات کو بیان کرنا ہو تو یہ ایک جملہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان جو کبھی متحد تھا۔ وہ تقسیم کا صدمہ برداشت کرچکا ہے۔
ہماری ہزار سالہ تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہماری تاریخ کی سب سے بڑی نادانی۔ بڑے لوگوں کی غلطیاں، بڑے عذاب لاتی ہیں۔ لمحے خطا کرتے ہیں اور صدیاں سزا پاتی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے سبب ہی ہمیں غیر منقسم پاکستان کا صدمہ انگیز جملہ سننا پڑتا ہے۔ دسمبر71ء تک آتے آتے ہمارے سیاستدانوں اور افسران کو سیکڑوں نادانیوں نے یہ دن دکھایا ہوگا ۔ اتنی بڑی بڑی نادانیاں کہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں ایک عام آدمی کے لڑکپن اورجوانی کی نادانیاں۔
لڑکپن میں کسی فلم یا ڈرامے کے کسی منظر میں بھیگتے ہوئے لوگوں کو خوش ہوتے دیکھ کر پہلی نادانی نے جنم لیا۔ ہم سمجھتے رہے کہ ان کو نہانے کو مل رہا ہے اس لیے یہ خوش ہورہے ہیں۔ بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ پانی زندگی ہے۔ تمام انسانوں کا انحصار اسی پر ہے جب کہ دیہی زندگی کا بہت بڑا دارومدار اس نعمت پر ہے۔ ان کے گھر میں دانے اور خوراک کے لیے لازمی ہے کہ بارش برسے۔ اب جب ایسی فلمیں بالخصوص عامرخان کی ''لگان'' دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ یہ دیہاتی بارش برسنے پرکیوں اس قدر خوش ہوتے ہیں۔
RS:14.99 یعنی چودہ روپے ننانوے پیسے جب بچپن میں جوتے کی یہ قیمت دیکھی تو بڑی حیرانی ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سیدھے سیدھے پندرہ روپے قیمت کیوں نہ مقررکردی۔ دکاندار اس زمانے میں گاہک کو ایک پیسہ واپس بھی کرتے ۔ یہ ایسی بات ہے جیسے آج کل چپل اور جوتے وغیرہ چودہ سونوے روپے کے ملتے ہیں اور دکاندار دس روپے واپس کرتے ہیں۔
اب پتہ چلا کہ حکومت کے ٹیکس کا سلیب (Slab) پندرہ سو، دوہزار، ڈھائی ہزارکا ہے۔ ٹیکس بچانے کے لیے کارخانے دار اور دکاندار اس طرح کی قیمتیں مقررکرتے ہیں جب کہ گاہک تو قیمت راؤنڈ فیگر میں ہی سمجھتا ہے۔ یہ بچپن کی دوسری نادانی تھی۔ بسوں کی ریس پر ہم سمجھتے تھے کہ بڑے بھی بچوں کی طرح آگے نکل جانے کے لیے ریس لگاتے ہیں۔ پھر پتہ چلا کہ یہ ریس کیوں لگتی ہے اپنے گاہک یعنی مسافروں کو اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ اپنی بس میں بٹھانے کے لیے یہ بھاگم دوڑ ہوتی ہے۔ یوں بچپن کی یہ تین نادانیاں جوانی کا دور آتے آتے دور ہوگئیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح چوتھی غلط فہمی بھی بڑے ہونے پر دور ہوگئی۔
''یحییٰ خان نے اخبار والوں پر پابندی لگادی ہے یا بھٹوکا اخبار والوں سے بڑا جھگڑا چل رہا ہے'' بارہ پندرہ سال کی عمر میں یہ تو علم تھا کہ یحییٰ اور بھٹو پاکستان کے حکمران ہیں لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔اس معصوم دور میں اگرکسی کو اخبار والا سمجھتے تھے تو وہ ہاکر تھے۔
وہ ہاکر جو گھروں پر اخبار دے جاتے یا ان کے اسٹال ہوتے۔ والد اور چچا کی سیاسی گفتگو کے دوران اس جملے نے بہت پریشان کیا۔کسی سے پوچھا بھی نہیں کہ پاکستان کے طاقتور حکمران کیوں کر ان غریب ہاکروں کے پیچھے پڑگئے ہیں؟ لڑکپن کی نادانی کا زمانہ گزرا تو پتہ چلا کہ اخبار والوں پر پابندی اور ان کا حکمرانوں سے جھگڑا کیا تھا۔ اخبار والوں کا وسیع مطلب واضح ہوا کہ اس میں اخبار کے مالک، مدیر ، رپورٹر کالم نگار، فوٹوگرافر سمیت بہت سارے لوگ شامل ہیں۔ یہ اخبار والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام کو سچ بتانا چاہتے ہیں۔ کڑوا سچ اکثر حکمرانوں سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ مختلف بہانوں سے اخبار والوں کو پکڑنا اور جکڑنا چاہتے ہیں۔ یہ تھیں لڑکپن کی چار معصومانہ نادانیاں۔
جوانی کی دو نادانیاں کیا ہیں؟ممکن ہے نادانیاں زیادہ ہوں لیکن اس وقت دو یاد آرہی ہیں۔ اگر نادانیوں کو Sadmaa صدمہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بچپن کی ان چار نادانیوں یعنی بارش، بسوں کی ریس، جوتوں کی قیمت اور اخبار والے سے کبھی صدمہ نہ ہوا۔ ان نادانیوں کو زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں کہا جاسکتا ہے لیکن جوانی کی دو نادانیوں کو یقیناً صدمے کا نام دیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے بارے میں پتہ چلا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان یہ جھگڑا آزادی کے وقت سے چلا آرہا ہے۔
برطانوی وائسرائے لارڈماؤنٹ بیٹن نے گورداسپورکو بھارت کے حوالے کرکے انھیں کشمیر کے لیے راستہ دیا۔ ایک طرف انڈیا کی عیاری تو دوسری طرف مہاراجہ ہری سنگھ کی الجھن تو تیسری جانب مجاہدین کی پیش قدمی۔ یوں ایک تہائی کشمیر پر پاکستان کا قبضہ ہوگیا تو دو تہائی پر بھارت کا۔ ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ سلامتی کونسل نے قرار دیا کہ کشمیر میں ریفرنڈم کروایا جائے اور وہاں کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ۔ اسی کو ہم تقسیم ہندکا نامکمل ایجنڈا کہتے ہیں۔ چوہدری رحمت علی نے لفظ پاکستان میں K رکھا ہی کشمیر کے لیے تھا۔ یہاں تک تو ساری بات ایک تاریخ ہے۔
پھر نادانی یا کم علمی کیا ہے ؟ وہ کم علمی جو صدمے میں بدل چکی ہے۔ چھوٹے سے صدمے میں کہ یہ پانچویں نادانی ہے۔ بڑا صدمہ تو چھٹی نادانی پر ہوگا۔ ہم پاکستانی اپنے کشمیر کو آزاد کشمیرکہتے ہیں اور بھارت کے قبضے والے حصے کو مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔ یہ جوانی کی نادانی تھی۔ کبھی یہ نہ سوچا کہ ہندوستانی اس کوکس طرح لیتے ہیں۔ وہ اپنے قابض حصے کو کشمیر اور ہمارے آزاد کشمیر کو Pok کہتے ہیں۔ جب کچھ وقت گزرا تو پتہ چلا کہ اس کا مطلب ہےpakistan occupied kashmir یقیناً یہ جوانی کی پہلی اور زندگی کی بظاہر پانچویں نادانی تھی جس نے چھٹا صدمہ پہنچایا کہ چھٹی نادانی کا صدمہ زیادہ بڑا ہے۔
پاکستان آزاد تو ہوا لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا عجیب و غریب ملک تھا کہ دونوں حصوں کے درمیان سولہ سوکلو میٹرکا فاصلہ تھا۔ ہم مغربی ومشرقی پاکستان کہلائے۔ آزادی سے پہلے کے دور کی بات ہوتی تو اسے غیر منقسم ہندوستان کہا جاتا۔ ہماری ناانصافی اور بنگالیوں کی جلد بازی کے علاوہ بھارت کی عیاری نے پاکستان کو دولخت کردیا۔ یہ معاملہ کبھی نہ کبھی تو ہونا تھا لیکن اگر سمجھ داری سے کام لیا جاتا تو یہ جدائی پرسکون انداز میں کنفیڈریشن کی شکل میں بھی ہوسکتی تھی۔ جس طرح جی ہاں جس طرح ''کیبنیٹ مشن پلان'' کو مان کر نہرو اورکانگریس تقسیم ہند کو روک سکتے تھے۔اسی طرح ہم مجیب کو اقتدار سونپ کر تقسیم پاکستان روک سکتے تھے۔ صدمے بھری نادانی یہ ہے کہ آزادی سے پہلے برٹش انڈیا کے دورکو UNDIVIDED INDA بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان مصنفین کی درجنوں کتابوں اور قلم کاروں کے سیکڑوں مضامین میں یہ جملہ طالب علموں، صحافیوں اورکالم نگاروں نے پڑھا ہوگا۔
یہ پڑھنے پر راقم کو کبھی کچھ نہ ہوا ۔ نہ صدمہ ہوا اور نہ کوئی جھٹکا لگا۔ نہ رنج ہوا اور نہ ہتک محسوس کی۔ جب بھارتی لکھاریوں، سیاست دانوں اور تاریخ دانوں کی کتابوں میں ایک جملہ پڑھنے کا موقع ملا تو عجیب محسوس ہوا۔ یہ صدمے ، یہ جھٹکے، یہ رنج زیادہ محسوس تب ہوئے جب انسان ان کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ ہو۔ اس عدم تیاری کو ہی نادانی کہا جاسکتا ہے۔
وہ کیا لفظ تھا جسے سن کر محسوس ہوا کہ کسی نے سر پر بم مارا ہے۔ شاید پہلی دفعہ یہ لفظ کوئی بھی پاکستانی سنے تو اس کو یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ ''غیر منقسم پاکستان'' ایک صدمہ انگیز جملہ تھا۔ سینتالیس(47) سے اکہتر (71) تک کے زمانے کے واقعات کو بیان کرنا ہو تو یہ ایک جملہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان جو کبھی متحد تھا۔ وہ تقسیم کا صدمہ برداشت کرچکا ہے۔
ہماری ہزار سالہ تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہماری تاریخ کی سب سے بڑی نادانی۔ بڑے لوگوں کی غلطیاں، بڑے عذاب لاتی ہیں۔ لمحے خطا کرتے ہیں اور صدیاں سزا پاتی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے سبب ہی ہمیں غیر منقسم پاکستان کا صدمہ انگیز جملہ سننا پڑتا ہے۔ دسمبر71ء تک آتے آتے ہمارے سیاستدانوں اور افسران کو سیکڑوں نادانیوں نے یہ دن دکھایا ہوگا ۔ اتنی بڑی بڑی نادانیاں کہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں ایک عام آدمی کے لڑکپن اورجوانی کی نادانیاں۔