جنگ ایک آتشیں عفریت
برصغیر کے طول و عرض میں اس وقت جنگ کے ڈنکے پر چوٹ پڑ رہی ہے۔
برصغیر کے طول و عرض میں اس وقت جنگ کے ڈنکے پر چوٹ پڑ رہی ہے۔ سنکھ پھونکے جارہے ہیں، طبل بج رہے ہیں اور خوفناک ہتھیاروں کی نمائش ہورہی ہے۔
گلوکاروں اور اداکاروں کے ٹوٹے کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور ہر وہ شخص جو امن اور آشتی کی بات کرتا ہے، وہ غدار ہے اور اس کے ساتھ اسی سلوک کی بات کی جارہی ہے، جو غدار کا مقدر ہے۔ دریاؤں کا رخ بدلنے کی باتیں ہیں، گویا کھیتوں اور کھلیانوں کی سیرابی اور شادابی نچوڑنے کے منصوبے ہیں۔ گیہوں کی بالیاں اور دھان کے پودے کیوں لہلہائیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں جنگ سنہرے غبار میں لپٹی ہوئی کوئی دیوی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ پونے دو ارب انسانوں کی بستیوں کو کھنڈر کردیں اور لاشوں کا ایسا پہاڑ اٹھائیں جو ہمالہ کی بلندیوں کا ہم سر ہو۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جنہوں نے جنگ کا ذائقہ نہیں چکھا، جن کے جگر کے ٹکڑے کسی مسلح تصادم کا نوالہ نہیں بنے۔ جنہوں نے اپنے بیٹوں، بھائی بھتیجوں کا نام ''گم شدہ افراد'' کی فہرست میں نہیں پڑھا اور جن کی بیویاں اور بیٹیاں اور بہنیں بے حرمت نہیں کی گئیں۔
برصغیر آج سے نہیں گزشتہ 70 برس سے جس سماجی اور اخلاقی بحران سے دو چار ہے، جس سے دنیا پناہ مانگتی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ دونوں طرف کی اکثریت صلح جُو ہے اور اسے ایک دوسرے کے سروں پر سینگ نظر نہیں آتے۔ وہ ایک دوسرے کی فلمیں اور ڈرامے دیکھتی ہے، کتابیں پڑھتی ہے، گیت گنگناتی ہے اور اچھے کھیل پر دوسری طرف کے کھلاڑیوں کو بھی جی کھول کر داد دیتی ہے۔ یہی وہ خاموش اکثریت ہے جس کی اخلاقی قوت نے برصغیر کو کورو کشتیر کا میدان نہیں بننے دیا اور یہاں جب چند روزہ لڑائیاں ہوئیں تو وہ بھی محدود پیمانے پر ہوئیں۔
جنگ اور امن کے بیچ نوری سال کے فاصلے ہیں جسے سمجھنے کے لیے برصغیر کی مثالیں مناسب نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امن اور جنگ کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے، اسے شاید جانتے نہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو شعوری سطح پر اس کا ادراک کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں اگر ہم شام کی مثال سامنے رکھیں تو اس لیے زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کے تاریخی اور تہذیبی شہروں میں جو قتل عام ہو رہا ہے، جس طرح وہ کھنڈر بن رہے ہیں۔
اس میں دونوں فریق مسلمان ہیں اور دونوں ہمارے متعدد دانشوروں اور سیاست دانوں کے کہنے کے مطابق 'مسلم امہ' کا حصہ ہیں۔ دمشق اور الپو، حلب اور حمص کے شہری جنہوں نے جنگ کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا، وہ اپنے گھروں، قہوہ خانوں اور شراب خانوں میں قہقہے لگاتے ہوئے، لطیفے سناتے ہوئے اور ادبی موضوعات پر بحثیں کرتے ہوئے اپنی شام اور رات گزارتے تھے، وہ جنگ کا لقمہ اس طرح بنے کہ دشمن بھی ان کا حال تائسف سے سنتے ہیں جب کہ دوست غم کھاتے ہیں اور لہو پیتے ہیں۔
جنگ کیا ہوتی ہے اور دلوں کو کس طرح پتھر کردیتی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ شام کے ایک قصبے ارم الکبریٰ میں ہلال احمر کے 20 ٹرک محصورین کے لیے جان بچانے والی دوائیں اور خوراک کی امداد لے کر آئے تھے اور سیکڑوں امید بھری آنکھیں ان کی طرف دیکھتی تھیں۔ سب کو یقین تھا کہ شامی حکومت اور ان کے حمایتی روسی طیارے اس امدادی سامان کو 'بخش' دیں گے لیکن افسوس صد افسوس کہ حاکم شام نے اور ان کے حمایتی روسیوں نے، 'انسانی امداد' کے تصور کو پارہ پارہ کردیا۔ ڈرون اڑے اور ہلال احمر کے یہ ٹرک تہس نہس کردیے گئے۔
30 دھماکے سنے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 20 میں سے صرف 2 ٹرک سلامت رہے اور ہزاروں محصورین، خوراک اور دوا کے لیے ترستے ہوئے وجود ٹھٹھر کر رہ گئے۔ طرفہ ستم یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ان حملوں کا شکار ہوئے تھے، ان کی لاشیں اٹھانے یا ملبے میں سے زخمیوں کو نکالنے کی کوششیں بھی ناکام بنادی گئیں۔
برصغیر کے وہ لوگ جنھیں جنگ کی حمایت میں اپنی طلاقتِ لسانی کے جوہر دکھانے سے فرصت نہیں ملتی، ان سے کون کہے کہ تاریخ کی راہداریوں میں پھرنے اور جنگ کے میدانوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے جس طرح افغانستان اور عراق میں انسانوں کو قتل کیا گیا، انھیں ان کی بستیوں سے کھدیڑا گیا اور ان پر دانہ و پانی حرام ہوا، رات میں شمعوں کی روشنی ان سے چھینی گئی اور زخموں سے بہتے ہوئے لہو کے ساتھ زندگی بھی بہنے دی گئی۔
یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد ہوا اور ہورہا ہے۔ یہ وہ عالم ہے کہ جب بغداد پر ہلاکو خان کی ہلاکت اتری تو شیخ سعدی شیرازی نے کہا تھا کہ بغداد پر زوال آنے کے بعد یہ جائز ہے کہ آسمان، زمین پر خون کے آنسو روئے۔ اور شیخ نے خود سے یہ سوال بھی کیا کہ یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے میں زندہ کیوں رہا۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر جنگ جب شرقِ اوسط پر نازل کی گئی اور امریکی ضمیر نے اپنی حکومت کے اس ظلم و بربریت کو مسترد کردیا تو ایک دس سالہ امریکی بچی میڈلین اسٹیل نے جنگ کے بارے میں ایک نظم لکھی تھی:
اس نے لکھا:
جنگ خاکستری رنگ کی ہوتی ہے
سخت آزردہ کرنے والے دکھ کی طرح
بار بار چبھنے والے درد کی طرح
جیسے خون میں بھرا چاقو
اس کی مہک... سڑی ہوئی گوبھی کے مانند
اس کا ذائقہ، پھپھوندی لگے اکھوؤں کی طرح
اس کی آواز، کرب ناک چیخ کی طرح
جنگ کتنی بُری چیز ہے!
اور امن
شفاف، دودھیارنگ کا
جیسے اڑتی ہوئی سفید فاختہ
اس کا احساس... نوخیز اور سبک لمس جیسا
اس کی مہک، خوشبودار پھولوں جیسی
اس کا ذائقہ، اسٹرابیری اورکریم سے ملتا جلتا
امن...
دور تک پھیلے خاموش سمندر کی طرح پُر سکون
دل میں اترتا ہوا
خوشیاں بانٹتا ہوا...
دس سالہ اس امریکی بچی کی نظم ہماری معتبر شاعرہ شاہدہ حسن نے اپنے الفاظ میں بیان کی۔ اسے پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اگر محفوظ ومامون اورخوش باش ماحول میں رہتی ہوئی ایک بچی جنگ کو خاکستری رنگ کا دیکھتی ہے اور امن اسے دودھیا رنگ کی اڑتی ہوئی سفید فاختہ محسوس ہوتی ہے تو برصغیر کے عاقل و بالغ اور سرد و گرم چشیدہ مدبرین جنگ کو سنہری رنگ میں کیسے رنگ دیتے ہیں اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو جنگ کی مار کیسے مار سکتے ہیں۔ کیا اس طرح ان کے ملکوں میں غربت کم ہوجائے گی یا وہ اپنے غریبوں کی تعداد کم کرنا چاہتے ہیں؟
اس بچی کی نظم پڑھتے ہوئے وہ گم نام سمیری عورت یاد آتی ہے جس نے اب سے 2300 برس قبل مسیح ایک جنگ مخالف نظم لکھی تھی اور جنگ کو رد کر دیا تھا۔ اسے فہمیدہ ریاض نے اردو میں منتقل کیا :
ہر شے کو نیست و نابود کرتا
پارہ پارہ کرتا زمین کو
بپھرتے طوفان کا روپ دھارے
تُو گرجتی آندھی کی طرح غرّا رہا ہے
اے چنگھاڑتے بلا خیز طوفان
یہ تیری گرج، تیری دھمک! تیرے نقارے
تو قہر کا ایک بھیانک جھکڑ ہے
تو ہوائے شر ہے
تیرے قدم سبز اور بداندیش...
اے آتشیں عفریت!
تُونے ہر سمت زمین میں زہر ہی زہر بھر دیا ہے
تو ہر طرف دھاڑتا ہوا گھوم رہا ہے
ہمارے شجر تیرے مقابل زمیں بوس ہوگئے ہیں
ایک دریائے خوں کی طرح
تو پہاڑ سے نشیب کی جانب بہہ رہا ہے
نفرت، طمع اور غیض و غضب کی بد روحوں نے
زمین و آسمان پر اپنا تسلط جما لیا ہے
تیری آگ ہوا کی مانند
ہمارے قبیلے پر سرسراتی گزر رہی ہے
ایک بھیانک درندے کی پیٹھ پر سوار
تُو گھوم رہا ہے زمین پر
حکم جاری کرتا ہوا
فیصلے کرتا ہوا تقدیروں کے
تُو نے ہماری ہر رسم کو مٹا ڈالا ہے
آہ! تجھے کون سمجھ سکتا ہے!
ذرا سوچیے تو سہی کہ 2300 قبل مسیح میں سانس لینے والی اس گمنام عورت اور اکیسویں صدی کی ابتدا میں جنگ کے خلاف آواز اٹھاتی ہوئی میڈلین اسٹیل کے احساسات میں کیا واقعی کوئی فرق ہے؟
گلوکاروں اور اداکاروں کے ٹوٹے کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور ہر وہ شخص جو امن اور آشتی کی بات کرتا ہے، وہ غدار ہے اور اس کے ساتھ اسی سلوک کی بات کی جارہی ہے، جو غدار کا مقدر ہے۔ دریاؤں کا رخ بدلنے کی باتیں ہیں، گویا کھیتوں اور کھلیانوں کی سیرابی اور شادابی نچوڑنے کے منصوبے ہیں۔ گیہوں کی بالیاں اور دھان کے پودے کیوں لہلہائیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں جنگ سنہرے غبار میں لپٹی ہوئی کوئی دیوی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ پونے دو ارب انسانوں کی بستیوں کو کھنڈر کردیں اور لاشوں کا ایسا پہاڑ اٹھائیں جو ہمالہ کی بلندیوں کا ہم سر ہو۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جنہوں نے جنگ کا ذائقہ نہیں چکھا، جن کے جگر کے ٹکڑے کسی مسلح تصادم کا نوالہ نہیں بنے۔ جنہوں نے اپنے بیٹوں، بھائی بھتیجوں کا نام ''گم شدہ افراد'' کی فہرست میں نہیں پڑھا اور جن کی بیویاں اور بیٹیاں اور بہنیں بے حرمت نہیں کی گئیں۔
برصغیر آج سے نہیں گزشتہ 70 برس سے جس سماجی اور اخلاقی بحران سے دو چار ہے، جس سے دنیا پناہ مانگتی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ دونوں طرف کی اکثریت صلح جُو ہے اور اسے ایک دوسرے کے سروں پر سینگ نظر نہیں آتے۔ وہ ایک دوسرے کی فلمیں اور ڈرامے دیکھتی ہے، کتابیں پڑھتی ہے، گیت گنگناتی ہے اور اچھے کھیل پر دوسری طرف کے کھلاڑیوں کو بھی جی کھول کر داد دیتی ہے۔ یہی وہ خاموش اکثریت ہے جس کی اخلاقی قوت نے برصغیر کو کورو کشتیر کا میدان نہیں بننے دیا اور یہاں جب چند روزہ لڑائیاں ہوئیں تو وہ بھی محدود پیمانے پر ہوئیں۔
جنگ اور امن کے بیچ نوری سال کے فاصلے ہیں جسے سمجھنے کے لیے برصغیر کی مثالیں مناسب نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امن اور جنگ کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے، اسے شاید جانتے نہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو شعوری سطح پر اس کا ادراک کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں اگر ہم شام کی مثال سامنے رکھیں تو اس لیے زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کے تاریخی اور تہذیبی شہروں میں جو قتل عام ہو رہا ہے، جس طرح وہ کھنڈر بن رہے ہیں۔
اس میں دونوں فریق مسلمان ہیں اور دونوں ہمارے متعدد دانشوروں اور سیاست دانوں کے کہنے کے مطابق 'مسلم امہ' کا حصہ ہیں۔ دمشق اور الپو، حلب اور حمص کے شہری جنہوں نے جنگ کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا، وہ اپنے گھروں، قہوہ خانوں اور شراب خانوں میں قہقہے لگاتے ہوئے، لطیفے سناتے ہوئے اور ادبی موضوعات پر بحثیں کرتے ہوئے اپنی شام اور رات گزارتے تھے، وہ جنگ کا لقمہ اس طرح بنے کہ دشمن بھی ان کا حال تائسف سے سنتے ہیں جب کہ دوست غم کھاتے ہیں اور لہو پیتے ہیں۔
جنگ کیا ہوتی ہے اور دلوں کو کس طرح پتھر کردیتی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ شام کے ایک قصبے ارم الکبریٰ میں ہلال احمر کے 20 ٹرک محصورین کے لیے جان بچانے والی دوائیں اور خوراک کی امداد لے کر آئے تھے اور سیکڑوں امید بھری آنکھیں ان کی طرف دیکھتی تھیں۔ سب کو یقین تھا کہ شامی حکومت اور ان کے حمایتی روسی طیارے اس امدادی سامان کو 'بخش' دیں گے لیکن افسوس صد افسوس کہ حاکم شام نے اور ان کے حمایتی روسیوں نے، 'انسانی امداد' کے تصور کو پارہ پارہ کردیا۔ ڈرون اڑے اور ہلال احمر کے یہ ٹرک تہس نہس کردیے گئے۔
30 دھماکے سنے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 20 میں سے صرف 2 ٹرک سلامت رہے اور ہزاروں محصورین، خوراک اور دوا کے لیے ترستے ہوئے وجود ٹھٹھر کر رہ گئے۔ طرفہ ستم یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ان حملوں کا شکار ہوئے تھے، ان کی لاشیں اٹھانے یا ملبے میں سے زخمیوں کو نکالنے کی کوششیں بھی ناکام بنادی گئیں۔
برصغیر کے وہ لوگ جنھیں جنگ کی حمایت میں اپنی طلاقتِ لسانی کے جوہر دکھانے سے فرصت نہیں ملتی، ان سے کون کہے کہ تاریخ کی راہداریوں میں پھرنے اور جنگ کے میدانوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے جس طرح افغانستان اور عراق میں انسانوں کو قتل کیا گیا، انھیں ان کی بستیوں سے کھدیڑا گیا اور ان پر دانہ و پانی حرام ہوا، رات میں شمعوں کی روشنی ان سے چھینی گئی اور زخموں سے بہتے ہوئے لہو کے ساتھ زندگی بھی بہنے دی گئی۔
یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد ہوا اور ہورہا ہے۔ یہ وہ عالم ہے کہ جب بغداد پر ہلاکو خان کی ہلاکت اتری تو شیخ سعدی شیرازی نے کہا تھا کہ بغداد پر زوال آنے کے بعد یہ جائز ہے کہ آسمان، زمین پر خون کے آنسو روئے۔ اور شیخ نے خود سے یہ سوال بھی کیا کہ یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے میں زندہ کیوں رہا۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر جنگ جب شرقِ اوسط پر نازل کی گئی اور امریکی ضمیر نے اپنی حکومت کے اس ظلم و بربریت کو مسترد کردیا تو ایک دس سالہ امریکی بچی میڈلین اسٹیل نے جنگ کے بارے میں ایک نظم لکھی تھی:
اس نے لکھا:
جنگ خاکستری رنگ کی ہوتی ہے
سخت آزردہ کرنے والے دکھ کی طرح
بار بار چبھنے والے درد کی طرح
جیسے خون میں بھرا چاقو
اس کی مہک... سڑی ہوئی گوبھی کے مانند
اس کا ذائقہ، پھپھوندی لگے اکھوؤں کی طرح
اس کی آواز، کرب ناک چیخ کی طرح
جنگ کتنی بُری چیز ہے!
اور امن
شفاف، دودھیارنگ کا
جیسے اڑتی ہوئی سفید فاختہ
اس کا احساس... نوخیز اور سبک لمس جیسا
اس کی مہک، خوشبودار پھولوں جیسی
اس کا ذائقہ، اسٹرابیری اورکریم سے ملتا جلتا
امن...
دور تک پھیلے خاموش سمندر کی طرح پُر سکون
دل میں اترتا ہوا
خوشیاں بانٹتا ہوا...
دس سالہ اس امریکی بچی کی نظم ہماری معتبر شاعرہ شاہدہ حسن نے اپنے الفاظ میں بیان کی۔ اسے پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اگر محفوظ ومامون اورخوش باش ماحول میں رہتی ہوئی ایک بچی جنگ کو خاکستری رنگ کا دیکھتی ہے اور امن اسے دودھیا رنگ کی اڑتی ہوئی سفید فاختہ محسوس ہوتی ہے تو برصغیر کے عاقل و بالغ اور سرد و گرم چشیدہ مدبرین جنگ کو سنہری رنگ میں کیسے رنگ دیتے ہیں اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو جنگ کی مار کیسے مار سکتے ہیں۔ کیا اس طرح ان کے ملکوں میں غربت کم ہوجائے گی یا وہ اپنے غریبوں کی تعداد کم کرنا چاہتے ہیں؟
اس بچی کی نظم پڑھتے ہوئے وہ گم نام سمیری عورت یاد آتی ہے جس نے اب سے 2300 برس قبل مسیح ایک جنگ مخالف نظم لکھی تھی اور جنگ کو رد کر دیا تھا۔ اسے فہمیدہ ریاض نے اردو میں منتقل کیا :
ہر شے کو نیست و نابود کرتا
پارہ پارہ کرتا زمین کو
بپھرتے طوفان کا روپ دھارے
تُو گرجتی آندھی کی طرح غرّا رہا ہے
اے چنگھاڑتے بلا خیز طوفان
یہ تیری گرج، تیری دھمک! تیرے نقارے
تو قہر کا ایک بھیانک جھکڑ ہے
تو ہوائے شر ہے
تیرے قدم سبز اور بداندیش...
اے آتشیں عفریت!
تُونے ہر سمت زمین میں زہر ہی زہر بھر دیا ہے
تو ہر طرف دھاڑتا ہوا گھوم رہا ہے
ہمارے شجر تیرے مقابل زمیں بوس ہوگئے ہیں
ایک دریائے خوں کی طرح
تو پہاڑ سے نشیب کی جانب بہہ رہا ہے
نفرت، طمع اور غیض و غضب کی بد روحوں نے
زمین و آسمان پر اپنا تسلط جما لیا ہے
تیری آگ ہوا کی مانند
ہمارے قبیلے پر سرسراتی گزر رہی ہے
ایک بھیانک درندے کی پیٹھ پر سوار
تُو گھوم رہا ہے زمین پر
حکم جاری کرتا ہوا
فیصلے کرتا ہوا تقدیروں کے
تُو نے ہماری ہر رسم کو مٹا ڈالا ہے
آہ! تجھے کون سمجھ سکتا ہے!
ذرا سوچیے تو سہی کہ 2300 قبل مسیح میں سانس لینے والی اس گمنام عورت اور اکیسویں صدی کی ابتدا میں جنگ کے خلاف آواز اٹھاتی ہوئی میڈلین اسٹیل کے احساسات میں کیا واقعی کوئی فرق ہے؟