وہ ہرنیاں کہاں گئیں
گاؤں کی گلیوں میں بچپن کی بھاگ دوڑ کی یادیں اور دوستیاں اب تک زندہ ہیں اور یہ عمر بھر یاد رہیں گی
PESHAWAR:
میں لاہور میں کب سے ہوں یہ مجھے یاد نہیں۔ لاہور اور گاؤں کی یادیں اس قدر گڈ مڈ ہیں کہ ان کے مقام و مکان کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے۔ لاہور تعلیم کے سلسلے میں مجھے قبول کرنا پڑا اور یہ قبولیت کچھ ایسی ناگوار نہیں تھی کہ میں اس سے الگ ہو جاتا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور میں لاہوری بھی ہوں لیکن میں اپنے گاؤں کو ہر حال میں یاد رکھتا ہوں کیونکہ اس کے بغیر میں کچھ نہیں۔
گاؤں کی گلیوں میں بچپن کی بھاگ دوڑ کی یادیں اور دوستیاں اب تک زندہ ہیں اور یہ عمر بھر یاد رہیں گی وہ سب لوگ بھی یادوں میں محفوظ رہیں گے جن سے زندگی میں سابقہ پڑتا رہا۔ میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ میں ایک پہاڑی جمع میدانی علاقے وادی سون کا باسی ہوں۔ یہ بارانی علاقہ ہے اور بارش یہاں کی زندگی ہے۔
کھیت ہوں یا پہاڑ ان سب کی زندگی انھی بارشوں پر منحصر ہے جو بہت کم برستی ہیں لیکن یہ سب کسی کے اختیار میں نہیں یہ قدرت ہے جو مہربانی کر دیتی ہے اور سب کچھ جی اٹھتا ہے۔ ان دنوں اگرچہ آس پاس بارشیں ہو رہی ہیں لیکن وادی سون ان بارشوں سے محروم ہے اور ہر روز اطلاع ملتی ہے کہ آج موسم کا کیا حال ہے۔ یہ اطلاع مجھے زندہ کر دیتی ہے یا پژمردہ لیکن یہ ایک ایسا معمول ہے جو ہماری عادت بن چکا ہے اور ہم اس کے سہارے جیتے ہیں۔
وادی سون سے پہلی بار ایک خبر موصول ہوئی ہے جو اس کالم کا موضوع ہے اور جس نے زندگی کی لہر دوڑا دی ہے وہی بارش کی لیکن اس بار ایک اور خبر بھی اس کے ساتھ موصول ہوئی ہے اور ایسی خبر پہلی بار ملی ہے کہ وادی سون کے ایک پہاڑی سلسلے میں ڈاکوؤں نے ڈیرہ ڈال دیا ہے اور ظاہر ہے کہ انھوں نے وارداتیں بھی کی ہیں لیکن مقامی آبادی نے پولیس کو سرگرم کر لیا ہے اور خبر کے مطابق ڈاکو فرار ہو گئے ہیں یا کچھ پکڑے گئے ہیں یعنی یہ پرامن وادی بدامنی سے بچ گئی ہے۔
میں اس انتظار میں تھا کہ وادی سون میں ڈاکو کیوں نہیں گئے اور کب وہ ادھر کا رخ کریں گے چنانچہ فی الحال یہ انتظار ختم ہوا اور وادی کے مرکزی قصبے نوشہرہ سے متصل پہاڑی میں انھوں نے اپنا اڈہ قائم کر لیا لیکن یہ اڈہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ جھیلوں کی دلفریب دنیا میں آباد زمینوں کے باسیوں نے ڈاکوؤں کو یہاں ٹکنے نہ دیا۔ کچھ پکڑے گئے اور کچھ بھاگ گئے خیال ہے کہ اب وادی سون کی دنیا ان ڈاکوؤں سے محفوظ ہے جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اس وادی کا رخ بھی کر لیا تھا۔
یہاں کی پولیس اور عوام نے ان بدامن لوگوں کو یہاں قیام نہ کرنے دیا اور اس وادی کے غریب لوگ اپنی لوٹ کھسوٹ سے بچ گئے۔ درست ہے کہ وادی سون سپاہیوں کا علاقہ ہے لیکن ڈاکوؤں کے سامنے وہ لوگ کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ہاں کبھی اسلحہ بہت ہوا کرتا تھا ایک بار حکومتی پالیسی کے مطابق جو کوئی فوج سے ریٹائر ہوتا اسے بندوق کا لائسنس مل جاتا اور ان دنوں سیالکوٹ کی بنی ہوئی ایک نالی بندوق مناسب قیمت پر مل جاتی تھی چنانچہ اس اسلحہ نے جس کے مالک نیم فوجی تھے نشانہ باز تھے اور اسلحے کے شوقین۔
انھوں نے ہماری پہاڑوں کی آزاد زندگی کی تباہی کر دی اور ہرنوں کے ریوڑ انھوں نے شکار کر لیے اب ہمارے جنگلات ان خوبصورت ریوڑوں سے خالی ہیں لیکن پھر بھی شکار جاری رہتا ہے اور کچھ نہ ملے تو چھوٹے موٹے جانور مل ہی جاتے ہیں۔ ان میں کوئی ہرن بھی ہو سکتا ہے۔ میں ایک درد ناک منظر دیکھا تھا کہ ایک ہرنی کے نوزائیدہ بچے کو کسی نے گولی مار دی وہ تڑپتا ہوا مر گیا اور المیہ یہ ہے کہ اس کی موت اس کی ماں کے سامنے ہوئی۔ میں نے پھر کیا دیکھا۔
اس کی ماں پتھروں سے ٹکریں مارتی رہی لیکن ظاہر ہے کہ ایک ماں کا غم ان ٹکروں میں کیسے کم ہو سکتا تھا۔ جانوروں کے المیے بھی انسانوں کی طرح تڑپانے والے ہوتے ہیں۔ وہ ہرنی کچھ وقت بعد ان پتھروں میں کہیں غائب ہو گئی لیکن وہ چرواہا جو اس علاقے میں اپنے مویشی چرا رہا تھا اس ہرنی کی حالت دیکھ کر اونچا اونچا رونے لگا لیکن وہ ہرنی کسی بے تابی کے عالم میں نہ جانے ان پہاڑوں میں کہاں گم ہو گئی۔ اس چرواہے نے بھی اسے تلاش نہ کیا کہ وہ مل جاتی تو اس کے غم کو برداشت کون کرتا۔
بات میں اپنے پہاڑوں میں موجود شکار کی کر رہا تھا جو انسانوں نے رفتہ رفتہ ختم یا کم کر دیا ہے اور پہاڑ بے رونق ہو گئے ہیں۔ میں نے ان پہاڑوں کی گھاٹیوں میں ہرنیوں کے جھرمٹ دیکھے ہیں جو امن کی تلاش میں یہاں چھپی ہوتی تھیں۔ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور کوشش ہوتی کہ انھیں ہمارا پتہ نہ چلے اور وہ پرامن رہیں لیکن انسان کسی کو کہاں پرامن رہنے دیتے ہیں۔ یونہی شوقیہ ایک پتھر پھینکا اور ہرنیاں آناً فاناً منتشر ہو گئیں۔
میں لاہور میں کب سے ہوں یہ مجھے یاد نہیں۔ لاہور اور گاؤں کی یادیں اس قدر گڈ مڈ ہیں کہ ان کے مقام و مکان کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے۔ لاہور تعلیم کے سلسلے میں مجھے قبول کرنا پڑا اور یہ قبولیت کچھ ایسی ناگوار نہیں تھی کہ میں اس سے الگ ہو جاتا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور میں لاہوری بھی ہوں لیکن میں اپنے گاؤں کو ہر حال میں یاد رکھتا ہوں کیونکہ اس کے بغیر میں کچھ نہیں۔
گاؤں کی گلیوں میں بچپن کی بھاگ دوڑ کی یادیں اور دوستیاں اب تک زندہ ہیں اور یہ عمر بھر یاد رہیں گی وہ سب لوگ بھی یادوں میں محفوظ رہیں گے جن سے زندگی میں سابقہ پڑتا رہا۔ میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ میں ایک پہاڑی جمع میدانی علاقے وادی سون کا باسی ہوں۔ یہ بارانی علاقہ ہے اور بارش یہاں کی زندگی ہے۔
کھیت ہوں یا پہاڑ ان سب کی زندگی انھی بارشوں پر منحصر ہے جو بہت کم برستی ہیں لیکن یہ سب کسی کے اختیار میں نہیں یہ قدرت ہے جو مہربانی کر دیتی ہے اور سب کچھ جی اٹھتا ہے۔ ان دنوں اگرچہ آس پاس بارشیں ہو رہی ہیں لیکن وادی سون ان بارشوں سے محروم ہے اور ہر روز اطلاع ملتی ہے کہ آج موسم کا کیا حال ہے۔ یہ اطلاع مجھے زندہ کر دیتی ہے یا پژمردہ لیکن یہ ایک ایسا معمول ہے جو ہماری عادت بن چکا ہے اور ہم اس کے سہارے جیتے ہیں۔
وادی سون سے پہلی بار ایک خبر موصول ہوئی ہے جو اس کالم کا موضوع ہے اور جس نے زندگی کی لہر دوڑا دی ہے وہی بارش کی لیکن اس بار ایک اور خبر بھی اس کے ساتھ موصول ہوئی ہے اور ایسی خبر پہلی بار ملی ہے کہ وادی سون کے ایک پہاڑی سلسلے میں ڈاکوؤں نے ڈیرہ ڈال دیا ہے اور ظاہر ہے کہ انھوں نے وارداتیں بھی کی ہیں لیکن مقامی آبادی نے پولیس کو سرگرم کر لیا ہے اور خبر کے مطابق ڈاکو فرار ہو گئے ہیں یا کچھ پکڑے گئے ہیں یعنی یہ پرامن وادی بدامنی سے بچ گئی ہے۔
میں اس انتظار میں تھا کہ وادی سون میں ڈاکو کیوں نہیں گئے اور کب وہ ادھر کا رخ کریں گے چنانچہ فی الحال یہ انتظار ختم ہوا اور وادی کے مرکزی قصبے نوشہرہ سے متصل پہاڑی میں انھوں نے اپنا اڈہ قائم کر لیا لیکن یہ اڈہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ جھیلوں کی دلفریب دنیا میں آباد زمینوں کے باسیوں نے ڈاکوؤں کو یہاں ٹکنے نہ دیا۔ کچھ پکڑے گئے اور کچھ بھاگ گئے خیال ہے کہ اب وادی سون کی دنیا ان ڈاکوؤں سے محفوظ ہے جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اس وادی کا رخ بھی کر لیا تھا۔
یہاں کی پولیس اور عوام نے ان بدامن لوگوں کو یہاں قیام نہ کرنے دیا اور اس وادی کے غریب لوگ اپنی لوٹ کھسوٹ سے بچ گئے۔ درست ہے کہ وادی سون سپاہیوں کا علاقہ ہے لیکن ڈاکوؤں کے سامنے وہ لوگ کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ہاں کبھی اسلحہ بہت ہوا کرتا تھا ایک بار حکومتی پالیسی کے مطابق جو کوئی فوج سے ریٹائر ہوتا اسے بندوق کا لائسنس مل جاتا اور ان دنوں سیالکوٹ کی بنی ہوئی ایک نالی بندوق مناسب قیمت پر مل جاتی تھی چنانچہ اس اسلحہ نے جس کے مالک نیم فوجی تھے نشانہ باز تھے اور اسلحے کے شوقین۔
انھوں نے ہماری پہاڑوں کی آزاد زندگی کی تباہی کر دی اور ہرنوں کے ریوڑ انھوں نے شکار کر لیے اب ہمارے جنگلات ان خوبصورت ریوڑوں سے خالی ہیں لیکن پھر بھی شکار جاری رہتا ہے اور کچھ نہ ملے تو چھوٹے موٹے جانور مل ہی جاتے ہیں۔ ان میں کوئی ہرن بھی ہو سکتا ہے۔ میں ایک درد ناک منظر دیکھا تھا کہ ایک ہرنی کے نوزائیدہ بچے کو کسی نے گولی مار دی وہ تڑپتا ہوا مر گیا اور المیہ یہ ہے کہ اس کی موت اس کی ماں کے سامنے ہوئی۔ میں نے پھر کیا دیکھا۔
اس کی ماں پتھروں سے ٹکریں مارتی رہی لیکن ظاہر ہے کہ ایک ماں کا غم ان ٹکروں میں کیسے کم ہو سکتا تھا۔ جانوروں کے المیے بھی انسانوں کی طرح تڑپانے والے ہوتے ہیں۔ وہ ہرنی کچھ وقت بعد ان پتھروں میں کہیں غائب ہو گئی لیکن وہ چرواہا جو اس علاقے میں اپنے مویشی چرا رہا تھا اس ہرنی کی حالت دیکھ کر اونچا اونچا رونے لگا لیکن وہ ہرنی کسی بے تابی کے عالم میں نہ جانے ان پہاڑوں میں کہاں گم ہو گئی۔ اس چرواہے نے بھی اسے تلاش نہ کیا کہ وہ مل جاتی تو اس کے غم کو برداشت کون کرتا۔
بات میں اپنے پہاڑوں میں موجود شکار کی کر رہا تھا جو انسانوں نے رفتہ رفتہ ختم یا کم کر دیا ہے اور پہاڑ بے رونق ہو گئے ہیں۔ میں نے ان پہاڑوں کی گھاٹیوں میں ہرنیوں کے جھرمٹ دیکھے ہیں جو امن کی تلاش میں یہاں چھپی ہوتی تھیں۔ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور کوشش ہوتی کہ انھیں ہمارا پتہ نہ چلے اور وہ پرامن رہیں لیکن انسان کسی کو کہاں پرامن رہنے دیتے ہیں۔ یونہی شوقیہ ایک پتھر پھینکا اور ہرنیاں آناً فاناً منتشر ہو گئیں۔