تمنا لگائے بیٹھے ہیں
یہ کشمیر پراُس کے غاصبانہ قبضے کی طویل داستان ہے جو اُس نے 69 سالوں سے قائم کیا ہوا ہے۔
KARACHI:
حزب المجاہدین کے ایک کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے نتیجے میں ہونے والے فسادات نے مقبوضہ کشمیرکے لوگوں میں جذبہ آزادی کی ایک نئی روح پھونک دی ہے اور وہ دو ڈھائی مہینوں سے مسلسل بھارتی افواج کی درندگی اور روح فرسا ظلم وستم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف کئی بار تحریکیںجنم لیتی رہی ہیں مگر ہر بار بھارت نے اُسے طاقت کے زور پر دبا دیا اور دنیا کو کسی حد تک یہ باورکرانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے کہ یہ اُس کا اندرونی معاملہ ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھارت کا ہرگز اندرونی معاملہ نہیں ہے۔
یہ کشمیر پراُس کے غاصبانہ قبضے کی طویل داستان ہے جو اُس نے 69 سالوں سے قائم کیا ہوا ہے اور مورد الزام پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ 1999ء کے بعد آنے والی پرویز مشرف حکومت نے بیرونی دباؤ کے تحت یہ اثر زائل کرنے کی کوششوں میں کشمیریوں کی مدد اور حمایت سے مکمل لاتعلقی اختیارکر لی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا نے اُن کی آواز پر توجہ دینا ہی چھوڑ دی اور وہ بالکل بے آسرا اور بے یارو مددگار ہو کر رہ گئے۔ لیکن اُن کے اندرکا جذبہ آزادی پھر بھی دب نہ سکا اور کسی طرح بھی بھارت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر تیار نہ ہوئے۔
اُنہیں جب جب موقعہ ملتا وہ اُس کا اظہار بلاخوف وخطرکرتے رہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اُٹھنے والی یہ تحریک اُن کے اُسی جذبہ آزادی کا ایک مظہر ہے۔ وہ بھارت کی مسلح افواج کے ہر ظلم وستم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو چکے ہیں۔ آنسوگیس، پیلیٹس گن اور براہ راست فائرنگ اُن کے جذبہ آزادی کو دبا نہ سکی اور وہ اب کھل کر اُس کے خلاف میدانِ جنگ میں لڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔
ایسے مشکل اور کڑے وقت میں جب اُنہیں دنیا کی بھرپورمدد اورحمایت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کوئی ملک اُن کا یارو مددگار نہیں۔ لٰہذا ہمارے وزیراعظم نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے مدلل اور مدبرانہ خطاب میں کشمیریوں کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے کشمیرکا مدعا ایک بار پھر دنیا کے سامنے اُٹھایا اور اِس عالمی مسئلے کا حل صرف اور صرف اقوامِ متحدہ کی پاس کی ہوئی قرارداد کے مطابق ہی حل کرنے پر زور دیا۔ اُنہوں نے ایک بار پھر یاد دلایا کہ کشمیر کا مسئلہ شروع سے ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ یہ کوئی بھارت کا اندرونی مسئلہ ہرگز نہیں ہے کہ دنیا اُسے نظر اندازکر دے۔
اُدھر بھارت نے اِس متوقع خطاب کے پیشِ نظر پہلے سے تیاری کر لی تھی اور سرینگر میں بھارت کی فوجی اڈے '' اُڑی'' میں ہونے والے دھماکے کا الزام صرف دس بارہ گھنٹوں میں ہی پاکستان کی سر تھوپ دیا۔ پھر کیا تھا بھارت کاسرکاری اور پرائیویٹ میڈیا اپنا تمام سامانِ حرب لے کر پاکستان پر ہر طرح سے حملہ آور ہو گیا۔ لفظوں اور جملوں کی سنگباری کی گئی۔ دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا اور پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں شروع کر دی گئیں۔ دوسری جانب وہاں کی حکومت نے بھی اِسے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے جارحانہ طرز عمل اختیار کر لیا اور پاکستان سے ملحقہ سرحدوں پر فوج تعینات کر دی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی جنگجوانہ طبیعت کی تسکین کے لیے فضائی اور بری مشقیں بھی شروع کر دیں۔
اُڑی میں ہونے والے دھماکوں کی ابھی مکمل تحقیقات بھی نہیں ہو پائیں تھیں کہ اُس نے سارا الزام پاکستان کے سر لگا کر دنیا کی توجہ کشمیر میں اپنے ظلم وستم سے ہٹانے کی بڑی عیارانہ اور مکارانہ کوششیں کی۔ بھارت اِس سے پہلے بھی ممبئی اور پٹھان کوٹ پر ہونے والی دہشتگردی کا الزام اِسی طرح پاکستان پر لگاتا رہا ہے۔ جب کہ وہ خود براہ راست ہمارے بلوچستان اور کراچی کی دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ ہماری کوتاہی اور بدقسمتی رہی ہے کہ ہم بھارت کے اِن معاندانہ اور جارحانہ رویوں کے خلاف کوئی پر اثر ردِعمل دکھا نہیں پائے۔
ہم دنیا کو یہ باورکرانے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ بھارت میں ہونے والی دہشتگردی کا تعلق پاکستان سے قطعاً نہیں۔ دوسری جانب ہم نے بھارت کی خفیہ ایجنسی'' را'' کے ایک اہم کارندے کلبھوشن یادیو کی گرفتا ری کو بھی انٹر نیشنل میڈیا پر موثر طریقے سے اُجاگر نہیں کر پائے بلکہ عالمی فورمز پر ہم اُس کا ذکر بھی کرنا ضروری تصور نہیں کرتے۔ نجانے ہماری کونسی مجبوریاں اور مصلحتیں ہیں کہ وزیرِ اعظم نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے اِس سنہری موقعے پر بھی بلوچستان میں بھارت کی کھلی مداخلت کا ذکر کرنا بھی ضروری نہ جانا۔
ہم ویسے تو اپنے ملک کے اندر بہت شور مچاتے رہتے ہیں لیکن جب اقوامِ عالم کے سامنے اُن کاتذکرہ کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ آخر ہماری خارجہ پالیسی اور حکمتِ عملی ہندوستان کے ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈے کے مقابلے کی صحیح طور پر کیوں متحمل نہیں ہو پائی۔ ہم ہمیشہ بھارت کے جھوٹے الزامات کے جواب میں دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے خود کو بچانے میں لگ جاتے ہیں۔ جب کہ بھارتی حکومت اور وہاں کا الیکٹرانک میڈیا ہمارے خلاف ہمیشہ ہرزہ سرائی اور نفرت کی آگ اُگلتا رہتا ہے۔
ہم اپنے طور پر'' امن کی آشا'' کا پرچار کرتے ہوئے یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ بھارت میں بھی لوگ ہمارے ساتھ امن ودوستی کے ساتھ رہنا پسند فرماتے ہیں۔ بھارت میں ہندو ازم اور انتہا پسند جماعتوں کو وہاں کے عوام اور حکومت کی درپردہ حمایت حاصل ہے تبھی وہ جب چاہتے ہیں ہمارے فنکاروں اور کھلاڑیوں پر یکطرفہ ناجائز پابندیاں لگاتے رہتے ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں ہوتا اور دوسری جانب ہمیں اُن کے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے سے فرصت نہیں۔ کرکٹ میچوں سے قبل اور بعد ازاں ٹی وی پر بیٹھ کر ہم اُن کے اینکروں کے ساتھ ''ٹاکرہ ٹاکرہ'' کھیل کر دوستی اور محبت کے اظہار کے یکطرفہ شوق میں انتہائی نچلی سطحوں تک گرے جا رہے ہوتے ہیں جب کہ وہ ہماری تذلیل اور تضحیک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔
ہمیں اب تو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ ہندوستان کبھی ہمارا دوست اور مہربان نہیں ہو سکتا۔1947ء میں دونوں کے بیچ تقسیم کی جو لکیریںڈال دی گئی تھیں اُنہیں اب کوئی بھی مٹا نہیں سکتا۔ وقت نے ثابت کر دیاکہ یہ تقسیم برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے بہت ضروری تھی۔ ورنہ آج جو حال وہاں کے باقی مسلمان علاقوں اور کشمیرکا ہے وہی حال ہمارا بھی ہوتا۔ ہم آج کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تو کہہ کر وہاں کی تحریک آزادی کی حمایت تو کر سکتے ہیں اگر پاکستان نہ بنتا تو پھر یہ بھی ممکن نہ ہوتا۔ ہندوستان کا متنفر اور تعصب پسند ہندو ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہوتا اور دنیا اِسے ہندوستان کااندرونی معاملہ کہہ کر نظر انداز کر رہی ہوتی۔
ہندوستان کے ساتھ ''امن کی آشا'' کی خواہش اور تمنا رکھنے والوں کو اب یہ کھیل بند کرنا ہو گا۔ جب بھارت ماتا کا ہندو ہم سے دوستی کا متمنی نہیں ہے تو پھر ہم کیوں اُس سے محبت کی آرزو میں مرے جا رہے ہیں۔ بھارت1971ء میں ہمارے وطن کو دولخت کر چکا ہے او ر فخریہ اُس کا اعتراف بھی کرتا ہے مگر افسوس کہ ہم پھر بھی اُس سے دوستی اور محبت کی تمنا لگائے بیٹھے ہیں۔ کشمیر میں اُبھرنے والی حالیہ تحریک اور اُس کے نتیجے میں بھارتی ردِ عمل کے بعد ''امن کی آشا'' کا لاشہ گر چکا ہے اور اب اُسے دفن کر دینے کا وقت آن پہنچاہے۔ ہمیںاگر ایک خود مختار، جواں ہمت اور باعزت قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنا مقصود ہے تو پھر ہمیں اُس سے اُسی کی زبان میں بات کرنا ہو گی۔
حزب المجاہدین کے ایک کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے نتیجے میں ہونے والے فسادات نے مقبوضہ کشمیرکے لوگوں میں جذبہ آزادی کی ایک نئی روح پھونک دی ہے اور وہ دو ڈھائی مہینوں سے مسلسل بھارتی افواج کی درندگی اور روح فرسا ظلم وستم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف کئی بار تحریکیںجنم لیتی رہی ہیں مگر ہر بار بھارت نے اُسے طاقت کے زور پر دبا دیا اور دنیا کو کسی حد تک یہ باورکرانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے کہ یہ اُس کا اندرونی معاملہ ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھارت کا ہرگز اندرونی معاملہ نہیں ہے۔
یہ کشمیر پراُس کے غاصبانہ قبضے کی طویل داستان ہے جو اُس نے 69 سالوں سے قائم کیا ہوا ہے اور مورد الزام پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ 1999ء کے بعد آنے والی پرویز مشرف حکومت نے بیرونی دباؤ کے تحت یہ اثر زائل کرنے کی کوششوں میں کشمیریوں کی مدد اور حمایت سے مکمل لاتعلقی اختیارکر لی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا نے اُن کی آواز پر توجہ دینا ہی چھوڑ دی اور وہ بالکل بے آسرا اور بے یارو مددگار ہو کر رہ گئے۔ لیکن اُن کے اندرکا جذبہ آزادی پھر بھی دب نہ سکا اور کسی طرح بھی بھارت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر تیار نہ ہوئے۔
اُنہیں جب جب موقعہ ملتا وہ اُس کا اظہار بلاخوف وخطرکرتے رہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اُٹھنے والی یہ تحریک اُن کے اُسی جذبہ آزادی کا ایک مظہر ہے۔ وہ بھارت کی مسلح افواج کے ہر ظلم وستم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو چکے ہیں۔ آنسوگیس، پیلیٹس گن اور براہ راست فائرنگ اُن کے جذبہ آزادی کو دبا نہ سکی اور وہ اب کھل کر اُس کے خلاف میدانِ جنگ میں لڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔
ایسے مشکل اور کڑے وقت میں جب اُنہیں دنیا کی بھرپورمدد اورحمایت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کوئی ملک اُن کا یارو مددگار نہیں۔ لٰہذا ہمارے وزیراعظم نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے مدلل اور مدبرانہ خطاب میں کشمیریوں کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے کشمیرکا مدعا ایک بار پھر دنیا کے سامنے اُٹھایا اور اِس عالمی مسئلے کا حل صرف اور صرف اقوامِ متحدہ کی پاس کی ہوئی قرارداد کے مطابق ہی حل کرنے پر زور دیا۔ اُنہوں نے ایک بار پھر یاد دلایا کہ کشمیر کا مسئلہ شروع سے ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ یہ کوئی بھارت کا اندرونی مسئلہ ہرگز نہیں ہے کہ دنیا اُسے نظر اندازکر دے۔
اُدھر بھارت نے اِس متوقع خطاب کے پیشِ نظر پہلے سے تیاری کر لی تھی اور سرینگر میں بھارت کی فوجی اڈے '' اُڑی'' میں ہونے والے دھماکے کا الزام صرف دس بارہ گھنٹوں میں ہی پاکستان کی سر تھوپ دیا۔ پھر کیا تھا بھارت کاسرکاری اور پرائیویٹ میڈیا اپنا تمام سامانِ حرب لے کر پاکستان پر ہر طرح سے حملہ آور ہو گیا۔ لفظوں اور جملوں کی سنگباری کی گئی۔ دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا اور پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں شروع کر دی گئیں۔ دوسری جانب وہاں کی حکومت نے بھی اِسے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے جارحانہ طرز عمل اختیار کر لیا اور پاکستان سے ملحقہ سرحدوں پر فوج تعینات کر دی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی جنگجوانہ طبیعت کی تسکین کے لیے فضائی اور بری مشقیں بھی شروع کر دیں۔
اُڑی میں ہونے والے دھماکوں کی ابھی مکمل تحقیقات بھی نہیں ہو پائیں تھیں کہ اُس نے سارا الزام پاکستان کے سر لگا کر دنیا کی توجہ کشمیر میں اپنے ظلم وستم سے ہٹانے کی بڑی عیارانہ اور مکارانہ کوششیں کی۔ بھارت اِس سے پہلے بھی ممبئی اور پٹھان کوٹ پر ہونے والی دہشتگردی کا الزام اِسی طرح پاکستان پر لگاتا رہا ہے۔ جب کہ وہ خود براہ راست ہمارے بلوچستان اور کراچی کی دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ ہماری کوتاہی اور بدقسمتی رہی ہے کہ ہم بھارت کے اِن معاندانہ اور جارحانہ رویوں کے خلاف کوئی پر اثر ردِعمل دکھا نہیں پائے۔
ہم دنیا کو یہ باورکرانے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ بھارت میں ہونے والی دہشتگردی کا تعلق پاکستان سے قطعاً نہیں۔ دوسری جانب ہم نے بھارت کی خفیہ ایجنسی'' را'' کے ایک اہم کارندے کلبھوشن یادیو کی گرفتا ری کو بھی انٹر نیشنل میڈیا پر موثر طریقے سے اُجاگر نہیں کر پائے بلکہ عالمی فورمز پر ہم اُس کا ذکر بھی کرنا ضروری تصور نہیں کرتے۔ نجانے ہماری کونسی مجبوریاں اور مصلحتیں ہیں کہ وزیرِ اعظم نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے اِس سنہری موقعے پر بھی بلوچستان میں بھارت کی کھلی مداخلت کا ذکر کرنا بھی ضروری نہ جانا۔
ہم ویسے تو اپنے ملک کے اندر بہت شور مچاتے رہتے ہیں لیکن جب اقوامِ عالم کے سامنے اُن کاتذکرہ کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ آخر ہماری خارجہ پالیسی اور حکمتِ عملی ہندوستان کے ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈے کے مقابلے کی صحیح طور پر کیوں متحمل نہیں ہو پائی۔ ہم ہمیشہ بھارت کے جھوٹے الزامات کے جواب میں دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے خود کو بچانے میں لگ جاتے ہیں۔ جب کہ بھارتی حکومت اور وہاں کا الیکٹرانک میڈیا ہمارے خلاف ہمیشہ ہرزہ سرائی اور نفرت کی آگ اُگلتا رہتا ہے۔
ہم اپنے طور پر'' امن کی آشا'' کا پرچار کرتے ہوئے یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ بھارت میں بھی لوگ ہمارے ساتھ امن ودوستی کے ساتھ رہنا پسند فرماتے ہیں۔ بھارت میں ہندو ازم اور انتہا پسند جماعتوں کو وہاں کے عوام اور حکومت کی درپردہ حمایت حاصل ہے تبھی وہ جب چاہتے ہیں ہمارے فنکاروں اور کھلاڑیوں پر یکطرفہ ناجائز پابندیاں لگاتے رہتے ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں ہوتا اور دوسری جانب ہمیں اُن کے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے سے فرصت نہیں۔ کرکٹ میچوں سے قبل اور بعد ازاں ٹی وی پر بیٹھ کر ہم اُن کے اینکروں کے ساتھ ''ٹاکرہ ٹاکرہ'' کھیل کر دوستی اور محبت کے اظہار کے یکطرفہ شوق میں انتہائی نچلی سطحوں تک گرے جا رہے ہوتے ہیں جب کہ وہ ہماری تذلیل اور تضحیک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔
ہمیں اب تو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ ہندوستان کبھی ہمارا دوست اور مہربان نہیں ہو سکتا۔1947ء میں دونوں کے بیچ تقسیم کی جو لکیریںڈال دی گئی تھیں اُنہیں اب کوئی بھی مٹا نہیں سکتا۔ وقت نے ثابت کر دیاکہ یہ تقسیم برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے بہت ضروری تھی۔ ورنہ آج جو حال وہاں کے باقی مسلمان علاقوں اور کشمیرکا ہے وہی حال ہمارا بھی ہوتا۔ ہم آج کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تو کہہ کر وہاں کی تحریک آزادی کی حمایت تو کر سکتے ہیں اگر پاکستان نہ بنتا تو پھر یہ بھی ممکن نہ ہوتا۔ ہندوستان کا متنفر اور تعصب پسند ہندو ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہوتا اور دنیا اِسے ہندوستان کااندرونی معاملہ کہہ کر نظر انداز کر رہی ہوتی۔
ہندوستان کے ساتھ ''امن کی آشا'' کی خواہش اور تمنا رکھنے والوں کو اب یہ کھیل بند کرنا ہو گا۔ جب بھارت ماتا کا ہندو ہم سے دوستی کا متمنی نہیں ہے تو پھر ہم کیوں اُس سے محبت کی آرزو میں مرے جا رہے ہیں۔ بھارت1971ء میں ہمارے وطن کو دولخت کر چکا ہے او ر فخریہ اُس کا اعتراف بھی کرتا ہے مگر افسوس کہ ہم پھر بھی اُس سے دوستی اور محبت کی تمنا لگائے بیٹھے ہیں۔ کشمیر میں اُبھرنے والی حالیہ تحریک اور اُس کے نتیجے میں بھارتی ردِ عمل کے بعد ''امن کی آشا'' کا لاشہ گر چکا ہے اور اب اُسے دفن کر دینے کا وقت آن پہنچاہے۔ ہمیںاگر ایک خود مختار، جواں ہمت اور باعزت قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنا مقصود ہے تو پھر ہمیں اُس سے اُسی کی زبان میں بات کرنا ہو گی۔