شہرت اور دولت کے لیے اداکار بنا عمران ہاشمی
اگرچہ میرا تعلق فلمی گھرانے سے ہے لیکن میں فلمی شخصیات سے ہمیشہ دور رہا۔
GILGIT:
عمران ہاشمی کو بولی وڈ میں ایک عشرہ گزرچکا ہے۔ اس عرصے میں وہ ایک لااُبالی، کھلنڈرے اداکار سے ایک سنجیدہ اداکار میں ڈھل گیا ہے۔
عمران نے غیرروایتی فلموں کے ذریعے بولی وڈ میں اپنی الگ شناخت قائم کی۔ اس کے کیریر کو مستحکم بنانے میں مہیش بھٹ کا اہم کردار رہا ہے۔ عمران نے زیادہ تر اسی بینر کی فلمیں کی ہیں۔ دو تین برس پہلے تک عمران کو ایک ایسا اداکار سمجھا جاتا تھا جو مخصوص قسم کے رول کرسکتا ہے لیکن اب اس کا امیج بدل چکا ہے۔ اس نے کئی نان گلیمرس فلموں میں سنجیدہ کردار بے حد مہارت سے ادا کرکے خود پر لگی چھاپ سے نجات حاصل کرلی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے دیگر ہدایت کاروں کی فلموں میں بھی اداکاری شروع کردی ہے۔ عمران کا تازہ انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔
٭آپ فلم اسٹار کیوں بننا چاہتے تھے؟
میں شہرت پانا اور اچھا کام کرنا چاہتا تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ مجھے توقع تھی کہ اداکار بن کر میں بہت زیادہ پیسے کما پاؤں گا۔ اداکاری کی جانب آتے ہوئے میرے ذہن میں بس یہی باتیں تھیں۔
٭دلیپ کمار اور سنجے دت آپ کے ہمسائے ہیں، ان سے ملنا جلنا ہوتا ہے؟
بہت کم، اگرچہ میرا تعلق فلمی گھرانے سے ہے لیکن میں فلمی شخصیات سے ہمیشہ دور رہا۔ میرے دونوں انکل ( مہیش بھٹ اور مکیش بھٹ ) شوبز سے تعلق رکھتے تھے لیکن میں ان کا معاون بننے سے پہلے کبھی سیٹ پر نہیں گیا۔ میرے لیے بالکل اجنبی دنیا تھی جسے میں نے صرف سنیما ہال میں لگی فلموں یا ڈی وی ڈیز میں دیکھا تھا۔
٭ آپ نے زیادہ تر درمیانے بجٹ کی فلموں میں اداکاری کی جو آپ کے انکل کے پروڈکشن ہاؤس نے بنائی تھیں۔ اسی لیے آپ کو '' وَن مین انڈسٹری'' کہا جانے لگا تھا لیکن اب آپ اس دائرے سے باہر نکل آئے ہیں۔ اب آپ کا مقابلہ متعدد اداکاروں سے ہے۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟
میں نہیں سمجھتا کہ میرا کسی سے مقابلہ ہے۔ اس سلسلے میں میری سوچ مختلف ہے۔ اگر میں وہی سب کروں جو دوسرے کررہے ہیں تو پھر میں کچھ منفرد نہیں کرسکوں گا۔
٭ اپنی بات کی وضاحت کردیجیے۔۔۔
دراصل فلم انڈسٹری میں ہر کوئی ایک ہی دوڑ میں شامل ہے۔ اور وہ دوڑ ہے سو کروڑ ، دوسو کروڑ کلب کی دوڑ! اور جب آپ اس دوڑ میں شامل ہوجائیں تو پھر آپ رسک نہیں لے سکتے، جس کے نتیجے میں آپ روایتی اداکار بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ میں روایتی فارمولا فلموں سے دور رہنا چاہتا ہوں، میں یہ فلمیں بھی ضرور کروں گا مگر اس کے ساتھ ساتھ میں آرٹ فلموں میں بھی رول کرنا چاہوں گا تاکہ منفرد کام کرنے کی خواہش کی بھی تسکین ہوسکے۔ دوسری بات یہ کہ میں ہمیشہ رسک لیتا رہوںگا کیوں کہ یہ میرے لیے ہمیشہ فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ لہٰذا میرا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔
٭ بولی وڈ اسٹارز تشہیری دنیا میں آج کل کچھ زیادہ ہی سرگرم نظر آنے لگے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے اشتہارات میں زیادہ تر وہ اداکار نظر آتے ہیں جن کا امیج رومانوی مزاحیہ اداکار کا ہے۔ میں نے اپنی فلموں میں نہ تو کبھی درختوں کے درمیان دوڑتے بھاگتے ہوئے گیت فلم بند کروائے ہیں اور نہ کبھی چاکلیٹی ہیرو کے رول کیے ہیں۔ اس لیے مجھے ماڈلنگ ورلڈ سے بہت زیادہ آفرز نہیں ہوئیں، اور اگر ہوئیں بھی تو وہ مجھے پسند نہیں آئیں۔
٭ آپ خود کو اداکار کہلوانا پسند کرتے ہیں یا اسٹار؟
اداکار اور ایک اسٹار میں فرق ہوتا ہے۔ اداکار اسکرپٹ لیتا ہے اور اپنے آپ کو کردار میں ڈھال لیتا ہے۔ جب کہ اسکرپٹ جب ایک اسٹار کے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس میں اپنی مرضی کے مطابق کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ میں تھوڑا سا اداکار اور تھوڑا سا اسٹار ہوں ( مسکراہٹ) میں نے ایک فلم شنگھائی کی تھی جس میں اپنے آپ کو اسکرپٹ کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ یہ میرے لیے بہت مشکل ثابت ہوا تھا۔ میں نے زیادہ تر فلمیں اسٹار کی حیثیت سے کی ہیں۔ میں اسکرپٹ میں حسب منشا تبدیلیاں کرتا رہا ہوں۔ اداکاری کی اہمیت، شہرت کی نسبت بلاشبہ زیادہ ہے لیکن مجھے ان دونوں کی ضرورت ہے کیوں کہ مجھے اپنا گھر بھی چلانا ہے۔
٭ اس شہرت کی آپ کو کیا قیمت چکانی پڑی ہے؟
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو میں پندرہ سال پہلے بہ آسانی خرید سکتا تھا لیکن اب نہیں۔ میں دوستوں کے ساتھ عوامی مقامات پر بیٹھ کر خوش گپیاں کیا کرتا تھا لیکن اب یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔
٭ بچپن میں کبھی آپ کی سنجے دت سے ملاقات ہوئی؟
وہ فلم '' نام'' ( 1986ء) میں میری نانی کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ میری نانی نے، جن کا نام پورنما ورما تھا، اس فلم میں سنجے دت کی دادی کا رول کیا تھا۔ انھی نے مجھے سنجو سے متعارف کروایا تھا۔ اب میں اور سنجو رینزل ڈی سوزا ( ڈائریکٹر ) کی فلم '' اُنگلی'' میں کام کررہے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ کام کرنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا رویہ میرے ساتھ بہت مشفقانہ رہا۔ وہ بلاشبہ ایک عظیم انسان ہیں۔
٭ آپ کی فلموں کو کام یاب بنانے میں موسیقی کا اہم کردار رہا ہے۔ اب آپ مختلف ہدایت کاروں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ کیا آپ اب بھی اچھی موسیقی پر انحصار کریں گے؟
موسیقی بلاشبہ کسی بھی فلم کا بہت اہم حصہ ہوتی ہے لیکن صرف اس کی بنیاد پر کوئی فلم کام یاب نہیں ہوسکتی۔ میں فلم کا انتخاب کہانی کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ اسکرپٹ پڑھتے ہوئے میں اس فلم کے گیت نہیں سنتا۔کبھی کبھی تو مجھے شوٹنگ شروع ہونے سے صرف ایک دن پہلے اس فلم کے گیت سننے کا موقع ملتا ہے۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ میری فلموں کے گیت بہت مقبول ہوئے۔
عمران ہاشمی کو بولی وڈ میں ایک عشرہ گزرچکا ہے۔ اس عرصے میں وہ ایک لااُبالی، کھلنڈرے اداکار سے ایک سنجیدہ اداکار میں ڈھل گیا ہے۔
عمران نے غیرروایتی فلموں کے ذریعے بولی وڈ میں اپنی الگ شناخت قائم کی۔ اس کے کیریر کو مستحکم بنانے میں مہیش بھٹ کا اہم کردار رہا ہے۔ عمران نے زیادہ تر اسی بینر کی فلمیں کی ہیں۔ دو تین برس پہلے تک عمران کو ایک ایسا اداکار سمجھا جاتا تھا جو مخصوص قسم کے رول کرسکتا ہے لیکن اب اس کا امیج بدل چکا ہے۔ اس نے کئی نان گلیمرس فلموں میں سنجیدہ کردار بے حد مہارت سے ادا کرکے خود پر لگی چھاپ سے نجات حاصل کرلی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے دیگر ہدایت کاروں کی فلموں میں بھی اداکاری شروع کردی ہے۔ عمران کا تازہ انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔
٭آپ فلم اسٹار کیوں بننا چاہتے تھے؟
میں شہرت پانا اور اچھا کام کرنا چاہتا تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ مجھے توقع تھی کہ اداکار بن کر میں بہت زیادہ پیسے کما پاؤں گا۔ اداکاری کی جانب آتے ہوئے میرے ذہن میں بس یہی باتیں تھیں۔
٭دلیپ کمار اور سنجے دت آپ کے ہمسائے ہیں، ان سے ملنا جلنا ہوتا ہے؟
بہت کم، اگرچہ میرا تعلق فلمی گھرانے سے ہے لیکن میں فلمی شخصیات سے ہمیشہ دور رہا۔ میرے دونوں انکل ( مہیش بھٹ اور مکیش بھٹ ) شوبز سے تعلق رکھتے تھے لیکن میں ان کا معاون بننے سے پہلے کبھی سیٹ پر نہیں گیا۔ میرے لیے بالکل اجنبی دنیا تھی جسے میں نے صرف سنیما ہال میں لگی فلموں یا ڈی وی ڈیز میں دیکھا تھا۔
٭ آپ نے زیادہ تر درمیانے بجٹ کی فلموں میں اداکاری کی جو آپ کے انکل کے پروڈکشن ہاؤس نے بنائی تھیں۔ اسی لیے آپ کو '' وَن مین انڈسٹری'' کہا جانے لگا تھا لیکن اب آپ اس دائرے سے باہر نکل آئے ہیں۔ اب آپ کا مقابلہ متعدد اداکاروں سے ہے۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟
میں نہیں سمجھتا کہ میرا کسی سے مقابلہ ہے۔ اس سلسلے میں میری سوچ مختلف ہے۔ اگر میں وہی سب کروں جو دوسرے کررہے ہیں تو پھر میں کچھ منفرد نہیں کرسکوں گا۔
٭ اپنی بات کی وضاحت کردیجیے۔۔۔
دراصل فلم انڈسٹری میں ہر کوئی ایک ہی دوڑ میں شامل ہے۔ اور وہ دوڑ ہے سو کروڑ ، دوسو کروڑ کلب کی دوڑ! اور جب آپ اس دوڑ میں شامل ہوجائیں تو پھر آپ رسک نہیں لے سکتے، جس کے نتیجے میں آپ روایتی اداکار بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ میں روایتی فارمولا فلموں سے دور رہنا چاہتا ہوں، میں یہ فلمیں بھی ضرور کروں گا مگر اس کے ساتھ ساتھ میں آرٹ فلموں میں بھی رول کرنا چاہوں گا تاکہ منفرد کام کرنے کی خواہش کی بھی تسکین ہوسکے۔ دوسری بات یہ کہ میں ہمیشہ رسک لیتا رہوںگا کیوں کہ یہ میرے لیے ہمیشہ فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ لہٰذا میرا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔
٭ بولی وڈ اسٹارز تشہیری دنیا میں آج کل کچھ زیادہ ہی سرگرم نظر آنے لگے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے اشتہارات میں زیادہ تر وہ اداکار نظر آتے ہیں جن کا امیج رومانوی مزاحیہ اداکار کا ہے۔ میں نے اپنی فلموں میں نہ تو کبھی درختوں کے درمیان دوڑتے بھاگتے ہوئے گیت فلم بند کروائے ہیں اور نہ کبھی چاکلیٹی ہیرو کے رول کیے ہیں۔ اس لیے مجھے ماڈلنگ ورلڈ سے بہت زیادہ آفرز نہیں ہوئیں، اور اگر ہوئیں بھی تو وہ مجھے پسند نہیں آئیں۔
٭ آپ خود کو اداکار کہلوانا پسند کرتے ہیں یا اسٹار؟
اداکار اور ایک اسٹار میں فرق ہوتا ہے۔ اداکار اسکرپٹ لیتا ہے اور اپنے آپ کو کردار میں ڈھال لیتا ہے۔ جب کہ اسکرپٹ جب ایک اسٹار کے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس میں اپنی مرضی کے مطابق کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ میں تھوڑا سا اداکار اور تھوڑا سا اسٹار ہوں ( مسکراہٹ) میں نے ایک فلم شنگھائی کی تھی جس میں اپنے آپ کو اسکرپٹ کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ یہ میرے لیے بہت مشکل ثابت ہوا تھا۔ میں نے زیادہ تر فلمیں اسٹار کی حیثیت سے کی ہیں۔ میں اسکرپٹ میں حسب منشا تبدیلیاں کرتا رہا ہوں۔ اداکاری کی اہمیت، شہرت کی نسبت بلاشبہ زیادہ ہے لیکن مجھے ان دونوں کی ضرورت ہے کیوں کہ مجھے اپنا گھر بھی چلانا ہے۔
٭ اس شہرت کی آپ کو کیا قیمت چکانی پڑی ہے؟
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو میں پندرہ سال پہلے بہ آسانی خرید سکتا تھا لیکن اب نہیں۔ میں دوستوں کے ساتھ عوامی مقامات پر بیٹھ کر خوش گپیاں کیا کرتا تھا لیکن اب یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔
٭ بچپن میں کبھی آپ کی سنجے دت سے ملاقات ہوئی؟
وہ فلم '' نام'' ( 1986ء) میں میری نانی کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ میری نانی نے، جن کا نام پورنما ورما تھا، اس فلم میں سنجے دت کی دادی کا رول کیا تھا۔ انھی نے مجھے سنجو سے متعارف کروایا تھا۔ اب میں اور سنجو رینزل ڈی سوزا ( ڈائریکٹر ) کی فلم '' اُنگلی'' میں کام کررہے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ کام کرنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا رویہ میرے ساتھ بہت مشفقانہ رہا۔ وہ بلاشبہ ایک عظیم انسان ہیں۔
٭ آپ کی فلموں کو کام یاب بنانے میں موسیقی کا اہم کردار رہا ہے۔ اب آپ مختلف ہدایت کاروں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ کیا آپ اب بھی اچھی موسیقی پر انحصار کریں گے؟
موسیقی بلاشبہ کسی بھی فلم کا بہت اہم حصہ ہوتی ہے لیکن صرف اس کی بنیاد پر کوئی فلم کام یاب نہیں ہوسکتی۔ میں فلم کا انتخاب کہانی کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ اسکرپٹ پڑھتے ہوئے میں اس فلم کے گیت نہیں سنتا۔کبھی کبھی تو مجھے شوٹنگ شروع ہونے سے صرف ایک دن پہلے اس فلم کے گیت سننے کا موقع ملتا ہے۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ میری فلموں کے گیت بہت مقبول ہوئے۔