امریکا بھارت گٹھ جوڑ
بھارتی پارلیمنٹ، ممبئی اور پٹھانکوٹ کے بعد اب اڑی حملے کے ڈرامے نے بھارت کی چالاکیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے
ISLAMABAD:
بھارتی پارلیمنٹ، ممبئی اور پٹھانکوٹ کے بعد اب اڑی حملے کے ڈرامے نے بھارت کی چالاکیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ ان تمام ڈراموں کا مقصد صرف اور صرف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے عالمی توجہ ہٹانا تھا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے کیس کو جس مدبرانہ اور بے باکانہ طریقے سے پیش کیا ہے اس پرکشمیریوں سمیت پوری پاکستانی قوم کو اطمینان نصیب ہوا ہے مگر تشنگی یہ رہ گئی کہ پاکستان کے طول وعرض میں بھارت نے جو دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کا انھوں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔
بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان اورکراچی میں دہشتگردی سے جو تباہی ڈھا رہا ہے اس کا درد وہاں کے عوام ہی جانتے ہیں خاص طور پر اس نے کراچی کی معیشت کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ روز روز کی ہڑتالوں اور قتل و غارتگری اور بھتہ خوری نے کراچی کی کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں پر جمود طاری کردیا جس سے کراچی کے بیشتر خاندانوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس شہرکو شہر مہاجرین ہونے کا اعزاز حاصل ہے چنانچہ سراسر نقصان مہاجرین کا ہوا۔
افسوس اس امر پر ہے کہ دشمن کے اشارے پر مہاجروں کو درپردہ پاکستان بنانے کا سبق سکھایا گیا۔ یہ تو حقیقت ہے کہ مہاجروں نے قیام پاکستان میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اور ہندو سامراج کو وہ شکست دی تھی جس کا بدلہ لینے کے لیے وہ برسوں سے تڑپ رہا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجر بزرگ پاکستان کی انمٹ محبت دل میں لیے آہستہ آہستہ گزرتے گئے۔ دشمن نے موقع غنیمت جان کر مہاجرین کی نئی نسل کے کچھ لوگوں کو ورغلا کر کراچی اور پاکستان کو وہ نقصان پہنچادیا جس کی بھر پائی برسوں بعد ہی ہو سکے گی۔
بظاہر دشمن نے اپنا بوجھ ہلکا کرلیا ہے لیکن اس کی پیاس ابھی بھی نہیں بجھی ہے وہ آدھا پاکستان توڑنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بھی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں اس نے کراچی میں جو سرمایہ کاری کر رکھی تھی وہ اب یقینا ضایع ہوچکی ہے اس لیے کہ اب محب وطن مہاجر نوجوانوں نے بھارتی مکروہ عزائم کو خاک میں ملاکر رکھ دیا ہے۔
22 اگست کے بعد پاکستان مردہ باد کہنے والوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب پاکستان مردہ باد کہنے والوں کا ساتھ دینا ملک سے غداری کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کی نئی قیادت کو اب بھٹکایا نہیں جاسکتا اس لیے کہ اب وطن پرستی اور عوامی خدمات کا حقیقی دور شروع ہو چکا ہے۔ لندن سے التجائیں کی جا رہی ہیں کہ مینڈیٹ تو ان کا ہے چنانچہ ان کے حکم سے استعفیٰ دے دیے جائیں مگر خواجہ اظہار الحسن نے کیا خوب جواب دیا ہے کہ مینڈیٹ تو صرف پاکستان زندہ باد کا ہے پھر ایم کیو ایم کے ہر دلعزیز رہنما فیصل سبزواری نے تو وہ جواب دیا ہے کہ باہر والوں کو لاجواب کرکے رکھ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو نعرہ 22 اگست کو لگایا گیا اگر وہ الیکشن کے وقت لگایا جاتا تو لوگ ہمیں ووٹ دینے کے بعد جوتے ہی مارتے۔ اس جواب نے مہاجروں کے دلوں کی ترجمانی کی ہے جس پر وہ فیصل سبزواری کے بے حد شکرگزار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 22 اگست کے بعد ہی مہاجروں نے سکون کا سانس لیا ہے۔ وہ یرغمالی کیفیت جو گزشتہ تیس برسوں سے چھائی ہوئی تھی ختم ہوئی جس کے دوران وہ اپنے دل کی بات تک نہیں کہہ سکتے تھے وہ پاکستان سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کرنا تو کجا اپنے گھروں پر قومی پرچم کو لہراتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔
اب مہاجرین قائد فاروق ستار بھائی کی جانب بڑی آس سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنا کردار بولڈ طریقے سے ادا کریں مہاجرین پر ملک سے بیزاری کا جو تاثر پیدا کردیا گیا تھا اسے مٹانے کے ساتھ ساتھ مہاجروں اور پاکستان کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردیں۔ اب جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں کے عوام بھارت نواز سرداروں کو پہلے ہی الوداع کہہ چکے ہیں۔ بھارت کے اشارے پر وہاں جو بھی تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں ان ہی سرداروں کے نوکر چاکر حصہ لے رہے ہیں اور وہ نوجوان جو ملک کے باہر پاکستان کی مخالف اور بھارت کے حق میں بیانات داغ رہے ہیں وہ بھی ان ہی سرداروں کی اولاد ہیں۔
عام بلوچ اس لیے بھی ان سے ہمیشہ دور رہے ہیں کیونکہ ان کی پسماندگی کی اصل وجہ یہی مفاد پرست سردار ہیں۔ براہمداغ اور دیگر بلوچ باغی نوجوانوں کو بھارت کی جانب سے شہریت دینے کی پیشکش سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ بلوچوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پہلے وہ بلوچستان میں اپنی تخریب کاری سے صاف انکار کردیتا تھا مگر اب اس کے ''را'' کے ایک افسر کے بلوچستان سے گرفتار ہونے کے بعد بھارت کی تخریب کاری کے نیٹ ورک کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ وزیر اعظم کو ''را'' کی پاکستان میں کھلی دہشتگردی کا کھل کر ذکر کرنا چاہیے تھا۔
کشمیر کا بدلہ بلوچوں سے لینے کے لیے انھیں پاکستان سے بدظن کرنے کے لیے وہ جو دیدہ دلیرانہ سازشیں کر رہا ہے وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے اگر دنیا میں یہی طریقہ چل پڑا تو دنیا کا نظام ہی درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ پھر اڑی ڈرامے کو بہانہ بناکر پاکستان پر حملے کی صرف دھمکیاں ہی نہیں دی جا رہی ہیں بلکہ وہ اپنی فوجوں اور بھاری فوجی ساز و سامان کو سرحدوں پر لے آیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے اس طرح مودی نے اپنے جنگی جنون سے جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگادیا ہے۔
مودی کو اپنی بدحواسی کو قابو میں رکھنا چاہیے کیونکہ صرف بھارت ہی نہیں پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے اگر ان کی حماقتوں کی وجہ سے دونوں ممالک میں جنگ چھڑ گئی تو نوبت ایٹمی جنگ تک جاسکتی ہے جس سے کروڑوں لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کو جنگجو مودی کو ان کے سابقہ انسانیت کش ریکارڈ کی بنیاد پر ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دینا چاہیے۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر پاکستان کی سفارتکاری کی کمزوری اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اپنی تقریر میں دنیا کے سارے مسائل کا ذکر کیا مگر اس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہ تھا۔ یہ دراصل بھارتی سفارتکاروں کی محنت کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی سفارتکار ایسے اہم موقعے پرکیوں خواب غفلت میں غلطاں تھے؟
بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کی جس خوش فہمی میں مبتلا ہے اس کا جنازہ نکل گیا۔ دنیا کے کئی ملکوں کے سربراہوں نے میاں نواز شریف سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو سنجیدگی سے سنا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی علامات واضح ہوگئی ہیں۔ بھارت کے امریکا کی گود میں بیٹھ جانے نے روس کو پاکستان کی جانب مائل کردیا ہے۔ خطے میں امریکا بھارت گٹھ جوڑ نے امن کے لیے جو خطرات پیدا کردیے ہیں پاکستان روس اور چین مل کر اس کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔
بھارتی پارلیمنٹ، ممبئی اور پٹھانکوٹ کے بعد اب اڑی حملے کے ڈرامے نے بھارت کی چالاکیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ ان تمام ڈراموں کا مقصد صرف اور صرف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے عالمی توجہ ہٹانا تھا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے کیس کو جس مدبرانہ اور بے باکانہ طریقے سے پیش کیا ہے اس پرکشمیریوں سمیت پوری پاکستانی قوم کو اطمینان نصیب ہوا ہے مگر تشنگی یہ رہ گئی کہ پاکستان کے طول وعرض میں بھارت نے جو دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کا انھوں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔
بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان اورکراچی میں دہشتگردی سے جو تباہی ڈھا رہا ہے اس کا درد وہاں کے عوام ہی جانتے ہیں خاص طور پر اس نے کراچی کی معیشت کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ روز روز کی ہڑتالوں اور قتل و غارتگری اور بھتہ خوری نے کراچی کی کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں پر جمود طاری کردیا جس سے کراچی کے بیشتر خاندانوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس شہرکو شہر مہاجرین ہونے کا اعزاز حاصل ہے چنانچہ سراسر نقصان مہاجرین کا ہوا۔
افسوس اس امر پر ہے کہ دشمن کے اشارے پر مہاجروں کو درپردہ پاکستان بنانے کا سبق سکھایا گیا۔ یہ تو حقیقت ہے کہ مہاجروں نے قیام پاکستان میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اور ہندو سامراج کو وہ شکست دی تھی جس کا بدلہ لینے کے لیے وہ برسوں سے تڑپ رہا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجر بزرگ پاکستان کی انمٹ محبت دل میں لیے آہستہ آہستہ گزرتے گئے۔ دشمن نے موقع غنیمت جان کر مہاجرین کی نئی نسل کے کچھ لوگوں کو ورغلا کر کراچی اور پاکستان کو وہ نقصان پہنچادیا جس کی بھر پائی برسوں بعد ہی ہو سکے گی۔
بظاہر دشمن نے اپنا بوجھ ہلکا کرلیا ہے لیکن اس کی پیاس ابھی بھی نہیں بجھی ہے وہ آدھا پاکستان توڑنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بھی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں اس نے کراچی میں جو سرمایہ کاری کر رکھی تھی وہ اب یقینا ضایع ہوچکی ہے اس لیے کہ اب محب وطن مہاجر نوجوانوں نے بھارتی مکروہ عزائم کو خاک میں ملاکر رکھ دیا ہے۔
22 اگست کے بعد پاکستان مردہ باد کہنے والوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب پاکستان مردہ باد کہنے والوں کا ساتھ دینا ملک سے غداری کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کی نئی قیادت کو اب بھٹکایا نہیں جاسکتا اس لیے کہ اب وطن پرستی اور عوامی خدمات کا حقیقی دور شروع ہو چکا ہے۔ لندن سے التجائیں کی جا رہی ہیں کہ مینڈیٹ تو ان کا ہے چنانچہ ان کے حکم سے استعفیٰ دے دیے جائیں مگر خواجہ اظہار الحسن نے کیا خوب جواب دیا ہے کہ مینڈیٹ تو صرف پاکستان زندہ باد کا ہے پھر ایم کیو ایم کے ہر دلعزیز رہنما فیصل سبزواری نے تو وہ جواب دیا ہے کہ باہر والوں کو لاجواب کرکے رکھ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو نعرہ 22 اگست کو لگایا گیا اگر وہ الیکشن کے وقت لگایا جاتا تو لوگ ہمیں ووٹ دینے کے بعد جوتے ہی مارتے۔ اس جواب نے مہاجروں کے دلوں کی ترجمانی کی ہے جس پر وہ فیصل سبزواری کے بے حد شکرگزار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 22 اگست کے بعد ہی مہاجروں نے سکون کا سانس لیا ہے۔ وہ یرغمالی کیفیت جو گزشتہ تیس برسوں سے چھائی ہوئی تھی ختم ہوئی جس کے دوران وہ اپنے دل کی بات تک نہیں کہہ سکتے تھے وہ پاکستان سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کرنا تو کجا اپنے گھروں پر قومی پرچم کو لہراتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔
اب مہاجرین قائد فاروق ستار بھائی کی جانب بڑی آس سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنا کردار بولڈ طریقے سے ادا کریں مہاجرین پر ملک سے بیزاری کا جو تاثر پیدا کردیا گیا تھا اسے مٹانے کے ساتھ ساتھ مہاجروں اور پاکستان کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردیں۔ اب جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں کے عوام بھارت نواز سرداروں کو پہلے ہی الوداع کہہ چکے ہیں۔ بھارت کے اشارے پر وہاں جو بھی تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں ان ہی سرداروں کے نوکر چاکر حصہ لے رہے ہیں اور وہ نوجوان جو ملک کے باہر پاکستان کی مخالف اور بھارت کے حق میں بیانات داغ رہے ہیں وہ بھی ان ہی سرداروں کی اولاد ہیں۔
عام بلوچ اس لیے بھی ان سے ہمیشہ دور رہے ہیں کیونکہ ان کی پسماندگی کی اصل وجہ یہی مفاد پرست سردار ہیں۔ براہمداغ اور دیگر بلوچ باغی نوجوانوں کو بھارت کی جانب سے شہریت دینے کی پیشکش سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ بلوچوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پہلے وہ بلوچستان میں اپنی تخریب کاری سے صاف انکار کردیتا تھا مگر اب اس کے ''را'' کے ایک افسر کے بلوچستان سے گرفتار ہونے کے بعد بھارت کی تخریب کاری کے نیٹ ورک کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ وزیر اعظم کو ''را'' کی پاکستان میں کھلی دہشتگردی کا کھل کر ذکر کرنا چاہیے تھا۔
کشمیر کا بدلہ بلوچوں سے لینے کے لیے انھیں پاکستان سے بدظن کرنے کے لیے وہ جو دیدہ دلیرانہ سازشیں کر رہا ہے وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے اگر دنیا میں یہی طریقہ چل پڑا تو دنیا کا نظام ہی درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ پھر اڑی ڈرامے کو بہانہ بناکر پاکستان پر حملے کی صرف دھمکیاں ہی نہیں دی جا رہی ہیں بلکہ وہ اپنی فوجوں اور بھاری فوجی ساز و سامان کو سرحدوں پر لے آیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے اس طرح مودی نے اپنے جنگی جنون سے جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگادیا ہے۔
مودی کو اپنی بدحواسی کو قابو میں رکھنا چاہیے کیونکہ صرف بھارت ہی نہیں پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے اگر ان کی حماقتوں کی وجہ سے دونوں ممالک میں جنگ چھڑ گئی تو نوبت ایٹمی جنگ تک جاسکتی ہے جس سے کروڑوں لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کو جنگجو مودی کو ان کے سابقہ انسانیت کش ریکارڈ کی بنیاد پر ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دینا چاہیے۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر پاکستان کی سفارتکاری کی کمزوری اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اپنی تقریر میں دنیا کے سارے مسائل کا ذکر کیا مگر اس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہ تھا۔ یہ دراصل بھارتی سفارتکاروں کی محنت کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی سفارتکار ایسے اہم موقعے پرکیوں خواب غفلت میں غلطاں تھے؟
بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کی جس خوش فہمی میں مبتلا ہے اس کا جنازہ نکل گیا۔ دنیا کے کئی ملکوں کے سربراہوں نے میاں نواز شریف سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو سنجیدگی سے سنا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی علامات واضح ہوگئی ہیں۔ بھارت کے امریکا کی گود میں بیٹھ جانے نے روس کو پاکستان کی جانب مائل کردیا ہے۔ خطے میں امریکا بھارت گٹھ جوڑ نے امن کے لیے جو خطرات پیدا کردیے ہیں پاکستان روس اور چین مل کر اس کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔