جامعہ کراچی ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ

بدقسمتی سے بین الاقوامی امور سے جڑا یہ اہم شعبہ فقط ایک سال ہی ایم اے پروگرام جاری رکھ سکا۔

کراچی یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ کے مجوزہ ایم اے پروگرام کا نصاب اپ ڈیٹ کردیا گیاہے۔ فوٹو : فائل

دور جدید میں ہونے والی ترقی اور دریافتیں براہ راست مختلف علوم کے پھیلائو کا باعث بنیں۔

ایک طرف نت نئے سائنسی مضامین سامنے آئے تو دوسری طرف سماجی علوم کی بھی مختلف شاخوں کو فروغ حاصل ہوا۔ سائنسی مضامین نے ایجادات اور دریافتوں کے حوالے سے علم کے نئے در وا کیے تو سماجی علوم نے اس ترقی کے نتیجے میں برپا ہونے والی تبدیلیوں اور نئے امکانات کی بنیاد پر سامنے آنے والے مسائل کے حوالے سے دریچے کھولنے کی کوشش کی۔ ان ہی تبدیلیوں کی بنیاد پر مختلف تعلیمی ادارے اور ان میں شعبے قائم کیے گئے تاکہ طالب علم ان سے مکمل طور پر استفادہ کر سکیں۔

انہی علوم کی نظیر جامعہ کراچی میں قائم ہونے والا ''ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ'' تھا، جس کے تحت 76/1975ء میں ماسٹرز پروگرام شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد براعظم یورپ کی مجموعی صورت حال، ثقافت اور سیاسی رجحانات سے لے کر بین الاقوامی معاملات کو زیر مطالعہ لانا تھا، 1976ء میں اس پروگرام سے 10 طلبہ فارغ التحصیل ہوئے۔ اس وقت ڈاکٹر شیریں مزاری اور سلیم مصطفیٰ جیسے اساتذہ بھی اس شعبے سے وابستہ تھے لیکن بدقسمتی سے بین الاقوامی امور سے جڑا یہ اہم شعبہ فقط ایک سال ہی ایم اے پروگرام جاری رکھ سکا۔ سابق ڈائریکٹر ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ ڈاکٹر مونس احمر کے مطابق 1976ء سے 1990ء کے دوران اس شعبے میں کسی قسم کی تدریسی سرگرمیاں جاری نہ رہ سکیں۔ ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ میں 1990ء میں اس وقت کے ڈائریکٹر احمد عبد القدیر کی زیر نگرانی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگراموں کا آغاز ہوا لیکن 22 برس کے عرصے میں صرف15 طالب علموں نے پی ایچ ڈی کی ہے، جس سے اس کی سست روی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

گذشتہ دنوں ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ میں تحقیق کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے ایم اے پروگرام دوبارہ شروع کرنے کی خبر آئی جس کے مطابق 2013 ء کے تعلیمی سیشن میں اس شعبے میں 36 برس کے طویل عرصے بعد ماسٹرز پروگرام شروع ہونا تھا جو کہ بوجوہ شروع نہ ہوسکا۔ اس پروگرام کے تحت شروع ہونے والے نصاب میں یورپی تاریخ' زبانیں' ثقافت اور معیشت کے حوالے سے کئی اہم مضامین شامل کیے گئے تاکہ طالب علم یورپ کے حوالے سے تحقیق میں اس خطے کی بنیادی چیزوں سے باقاعدہ آگاہ ہوسکے۔ ساتھ ہی یورپی یونین کے تحت عالمی سطح پر یورپ کا نیا کردار ، اس یونین کے رکن ممالک کی مشترکہ کرنسی اور مشترکہ پارلیمان سمیت بہت سے ایسے امور ہیں جو موجودہ دور میں ایک اہم رخ اختیار کرچکے ہیںجس کی وجہ سے سماجی علوم میں ان کی اہمیت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔



ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ کے مجوزہ ایم اے پروگرام کے نصاب کا جائزہ لیا جائے تو تبدیل ہوتی سیاسی اور بین الاقوامی صورت حال کے تحت اسے پوری طرح اپ ڈیٹ کردیا گیاہے، 36 سال قبل یورپ کی تقسیم اور اختلافات اور تنازعات کا زور تھا۔ اب یورپ ''یورپی یونین'' کی چھتری تلے متحد ہو چکا ہے، لہٰذا نصاب بھی اس ہی بنیاد پر تبدیل کیا گیا ہے جس میں برطانیہ فرانس اور جرمنی سے لے کر اسپین، اٹلی، پرتگال اور مالٹا، چیک ریپبلک اور روس اور ترکی سمیت پورے یورپ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

چار سیمسٹرپرمشتمل دوسالہ ماسٹرزپروگرام میں یورپی زبانوں اطالوی، فرانسیسی اور جرمن کی تدریس لازمی ہوگی، دیگر مضامین میں یورپی تاریخ، یورپی شناخت کانظریہ، دفاع، سیاست، معیشت اوراہم عالمی معاملات، یورپی یونین کا طرز حکومت، جدید یورپ میں انقلاب اورجنگ، یورپی یونین کی خارجہ حکمت عملی، امن اورتنازعات میں یورپی کردار، یورپی یونین اورخطے کے دیگرادارے، انسانی حقوق، ماحولیات، دہشت گردی اورانسانی تحفظ کے بارے میں یورپی یونین کی پالیسیاں، یورپی یونین کے جنوبی ایشیا سے تعلقات، یورپ اور مشرق وسطیٰ، یورپ اور ایشیا، یورپ اورافریقا، یورپ اور وسطی ایشیا وغیرہ شامل ہیں۔


اس پروگرام سے فارغ التحصیل طلبہ محکمہ خارجہ اور سفارت کاری کے امور میں اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ ذرایع ابلاغ کے علاوہ، این جی اوز، ملٹی نیشنل کارپوریٹ سیکٹرمیں بھی ان کی کھپت ہے۔ تجارت کے شعبے میں بھی یورپی امور کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا یورپی زبانوں، ثقافت، معاشرت اور بودوباش کے بارے میں مہارت ہو تو مختلف کثیر القومی اداروں میں بھی خدمات کا موقع مل سکتا ہے۔

ایم اے پروگرام کی تدریس کے لیے سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات اور جغرافیہ وغیرہ کے اساتذہ کی خدمات لی جانی تھیں لیکن بدقسمتی سے 36 برس بعد شروع ہونے والا یہ پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی بحران کا شکار ہوگیا۔ مستقل ڈائریکٹر ڈاکٹر نوین طاہر رواں سال کے شروع میں ریٹائر ہوچکی ہیںجس کے بعد کسی مستقل ڈائریکٹر کے بجائے ڈاکٹر مونس احمر کو ذمہ داری دی گئی، لیکن اب یہ عہدہ ان کے پاس نہیں رہا۔ اس وقت جامعہ کراچی میں مختلف شعبہ جات میں داخلوں کا سلسلہ جاری ہے اور طالب علم اپنے رجحان کے مطابق مختلف شعبوں میں داخلے کی غرض سے جامعہ کراچی کا رخ کر رہے ہیں لیکن ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ میں 36 سال بعد بھی ایم اے پروگرام میں داخلے نہیں دیے جا رہے، یوں جامعہ کراچی میں قائم ملک بھر میں اپنی نوعیت کے واحد شعبے میں ایک بار پھر ایم اے پروگرام کا آغاز ممکن نہیں ہوسکا۔

سماجی علوم سے بے اعتنائی
جامعہ کراچی کے ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ میں 36 سال سے ایم اے پروگرام کی عدم موجودگی سے ایک بار پھر سماجی علوم سے بے اعتنائی کی صورت سامنے آئی ہے اور سماجی علوم کی طلبہ میں قبولیت اور پذیرائی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ تعلیم اور شرح خواندگی کی غیر تسلی بخش صورت حال کے باوجود عملاً سماجی علوم کے بہت سے شعبوں کو ''فضول'' مضامین کا درجہ حاصل ہے اور طالب علم حلقوں میں ان کی تعلیم حاصل کرنا سراسر وقت اور پیسے کا ضیاع ہے کیوں کہ ہمارے یہاں عدم منصوبہ بندی اور ناعاقبت اندیشی کے باعث ان علوم سے فارغ التحصیل طلبہ سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے طلبہ ان شعبوں کا رخ نہیں کرتے۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے یہاں جامعات تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد ایک فی صد ہے، اس کے باوجود یہ حالت ہے کہ ریاستی سطح پر ان سے استفادہ کرنے کی سنجیدہ کوششیں موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ معاشرے کی علم سے دوری اور جہل آمادگی کی صورت میں برآمد ہورہا ہے، لہٰذا خصوصاً ہم جیسے معاشروں میں سماجی علوم سے متعلق سوچ بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ان علوم کی درس گاہیں اور شعبہ جات ویران ہونے کے بجائے آباد ہوسکیں۔

شعبے کی ترقی کے لیے ایم اے پروگرام کی بھاگ دوڑ کی،ڈاکٹر مونس احمر
ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر مونس احمر کا کہنا ہے کہ 17مارچ کو جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تو سینٹر شدید مالی بحران کا شکار تھا، انہوں نے اسے اس بحران سے نکالا۔ غیر ضروری اخراجات کی روک تھام کی، شعبے کے تحت شام میں یورپی زبانوں کے پروگرام شروع کرائے تاکہ ایریا اسٹڈی سینٹر برائے یورپ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ میری کوشش تھی کہ شعبے میں ایم اے پروگرام بھی دوبارہ شروع کیا جائے کیوں کہ اس کی اہمیت مسلم ہے۔

ایم اے کے لیے 20کورسز بنائے اور اسے ایریا اسٹڈی سینٹر کی بورڈ آف اسٹڈیز کے سامنے رکھا جس میں پشاور یونی ورسٹی سے عدنان سرور خان اور لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ڈاکٹر محمد وسیم شامل ہیں۔ یوں ایم ا ے کا نصاب اکتوبر 2012ء میں منظورہوا، جسے رئیس کلیہ فنون کو بھیجا تا کہ وہاں سے منظوری کے بعد باقاعدہ جنوری سے اس کی تدریس شروع ہوجائے لیکن پھر کچھ معاملات کے بعد ایریا اسٹڈی سینٹر میں نئے نگراں کا تقرر کردیا گیا چوں کہ مجھے سینٹر کے بورڈ آف گورننس نے یہ ذمہ داری تفویض کی تھی لہٰذا میں نے ابھی تک استعفا دیا نہ ہی یہ چارج چھوڑا ۔ا
Load Next Story