سانا کنونشن

سانا (سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا) کنونشن ہر سال امریکا کے کسی نہ کسی شہر میں منعقد ہوتی ہے

shabnumg@yahoo.com

سانا (سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا) کنونشن ہر سال امریکا کے کسی نہ کسی شہر میں منعقد ہوتی ہے۔ امریکا و کینیڈا میں رہائش پذیر سندھی دور دراز کے علاقے سے سفر کرکے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ پردیس میں عید کا سماں دکھائی دیتا ہے۔

اس سال سانا کا کنونشن امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں منعقد ہوا۔ سانا کے صدر جمیل داؤدی ودیگر ساتھیوں اعجاز الحق، نورالنسا گھانگھرو، علی حسن بھٹو، ذوالفقار شیخ، محمد علی مہر، عزیز ناریجو اور سنی پنہور نے اس بار بھی فکر انگیز پروگرام ترتیب دیا۔

پاکستان سے شکاگو ایئرپورٹ پر اترے اور دوسری فلائٹ سے ڈیٹرائٹ روانہ ہوئے۔ رات کو شہر خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے محسوس ہوا۔ ماحول سے شہر اور مکینوں کے مزاج کا پتا چل جاتا ہے۔ بشیر شاہانی اور مالک ڈنو نے ہوٹل کے گیٹ پر خوش آمدید کہا۔ ڈیٹرائٹ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے میرے بیٹے نے کہا کہ امی ڈیٹرائٹ شہر میں رات کو دیر سے باہر مت نکلیے گا۔ نیٹ پر جاکر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔ 2015 میں یہ امریکا کا دوسرا شہر تھا جہاں زیادہ قتل کی وارداتیں رونما ہوئی تھیں۔

یہ شہر آٹو انڈسٹری کی وجہ سے موٹر سٹی کہلاتا ہے، یہاں افریقی، امریکن زیادہ دکھائی دیے۔ مگر ایشیا، ہسپانوی ودیگر قومیں بھی آباد ہیں۔ رات دیر سے پہنچے، لہٰذا شاعری کی نشست اختتام پذیر ہوچکی تھی، جس میں مجھے بھی شرکت کرنی تھی۔ اس نشست کو اکبر لغاری، جامی چانڈیو، عبدالغفار تبسم نے خوبصورت شاعری وگفتگو سے جلا بخشی۔ دوسرے دن سانا کے وجود اور کام پر سنی پنہور، خالد ہاشمانی، ڈاکٹر مظہر لاکھو اور مظہر حسن شاہ نے روشنی ڈالی۔ گفتگو کے لیے موضوع تھا ''سانا کا ماضی، حال اور مستقبل''۔

دو سے چار بجے والی نشست میں عزیز ناریجو اور ڈاکٹر ولید شیخ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سانا کے وژن، امیج، طریقہ کار و حکمت عملی کے حوالے سے ڈاکٹر مظہر خواجہ کی تقریر اہم اور موضوع کا مکمل احاطہ کیے ہوئے تھی، میڈیا سیشن میں سندھ کی صحافت کے بڑے نام عبدالرزاق سروہی، ایاز میر، نثار کھوکھر اور مشتاق راجپر شامل تھے۔ سندھ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا نے اپنا معیار برقرار رکھا ہے، جس کے بعد چائے کا وقفہ تھا۔ شام کے رنگ ڈیٹرائٹ شہر پر اترے تو ہر سمت روشنیاں جھلملانے لگیں۔ ڈنر اور محفل موسیقی کے دوران بچے اور خواتین کی دلچسپی قابل دید تھی۔

سانا ایک ایسی سماجی و ادبی تنظیم ہے جو اپنے اخراجات خود اٹھاتی ہے، مالی تعاون میں غیر ممبر حضرات کا کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ بتیس سال تک کسی تنظیم کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے، اپنی دھرتی سے مربوط رشتہ اور مادری زبان کو فروغ دینے کی کوشش کا جذبہ پس پردہ کار فرما ہے، علاوہ ازیں سانا فیم اینڈ فنڈ (ڈاکٹر فیروز احمد میموریل ایجوکیشنل فنڈ) کے توسط سے سندھ کے متوسط طلبا کو اسکالر شپس فراہم کی جاتی ہیں۔ 58 اسکالر شپس کے لیے 32,000 ڈالرز مختص کیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سانا کے منتظمین ہمیشہ ایسے موضوع اور مسائل سامنے لے کر آتے ہیں جن سے ان کے حل میں مدد مل سکے۔

سندھ میں تعلیم کے مواقع جیسے اہم موضوع پر، مقررین پروفیسر فیاض علی میمن کی تقریر انتہائی جاندار تھی، اس موقع پر پروفیسر ڈیوڈ بٹلر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس سے اندازہ ہوا کہ فکر کی نئی جہتیں، تبدیلی کی طرف رواں دواں ہیں۔مہمان مقررین نے بعد میں سندھ کی تاریخ ، تازہ ترین صورت حال اور سندھ میں ڈائسپورا کے کردار پر روشنی ڈالی۔


ڈاکٹر روبینہ شیخ، اشتیاق انصاری، جامی چانڈیو، شبنم گل، ذوالفقار ہالیپوٹو نے مختلف موضوعات پر خیالات کا اظہار کیا۔ اشتیاق انصاری کو ان کی آثار قدیمہ کی بحالی پر مبنی پریزنٹیشن کو بے حد سراہا اور سب لوگوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ تھر میں پانی مہیا کرنے جیسی نیک مہم میں حصہ لینے والے سماجی ورکر ندیم صاحب کی بھی بے حد پذیرائی کی گئی۔

جہاں تک سندھی زبان کا تعلق ہے تو زبان کو زندہ رکھنے کا مربوط حوالہ ادب ہے، اس وقت سندھی ادب میں آثار قدیمہ تاریخ اور تخلیقی عوامل پر سنجیدگی سے کام ہورہا ہے، سندھ کو ہر دور میں چند ایسے حد درجہ محنتی اور مخلص ادیب ملے ہیں جن کے کام نے ادب کو زندہ جاوید کردیا ہے۔ زبان کو زندہ رکھنے کا اہم ذریعہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں مہیا کرنا ہے یا انگریزی کے ساتھ مادری زبان کا مضمون بھی شامل ہونا چاہیے۔

جب تک ماں بچوں کے ساتھ اپنی زبان میں بات نہیں کرے گی بچہ زبان نہیں سیکھ سکتا، میں نے یہ بات نوٹ کی کہ وہاں اکثر مائیں بچوں کے ساتھ انگریزی میں بات کررہی تھیں، اکثر بچے مادری زبان میں بات نہیں کر پارہے تھے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ دنیا کی بہت سی قومیں انگریزی زبان نہیں جانتیں، ان ملکوں کا رخ کرنے سے پہلے طلبا کو اس ملک کی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ اپنی زبان کو بچانے یا فروغ دینے کی اچھی حکمت عملی ہے۔ ہمارے یہاں اردو قومی زبان ہے جب کہ سکہ انگریزی زبان کا چلتا ہے، کیوںکہ تحریری طور پر انگریزی زبان استعمال کی جاتی ہے۔

آخری دن گلوبلائزیشن اور گلوبل سندھ جیسے اہم موضوعات پر ڈاکٹر مٹھل وقاص، ڈاکٹر مقبول ہالیپوٹو، محمد علی مہر، فہمیدہ میمن اور جامی چانڈیو نے مباحثے میں حصہ لیا، جب کہ کراچی سے براہ راست لائیو ٹاک میں حمید آخوند، سید مجیب اﷲ شاہ، ڈاکٹر غزالہ رحمن اور ڈاکٹر سلیمان شیخ شامل گفتگو تھے۔ جب کہ گزشتہ رات ایوارڈز تقسیم کیے گئے اور صوفی میوزک ڈنر کے بعد رات گئے تک جاری رہا، سانا کی جنرل سیکریٹری نورالنسا گھانگھرو ہمہ وقت مصروف دکھائی دیں۔

میری ملاقات ان دوستوں سے بھی ہوئی جو ہاسٹل میں میرے ساتھ ہوا کرتی تھیں، بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں تو خیال کے نئے زاویے، سوچ کی منفرد سمتیں ذہن طے کرنے لگتا ہے، کیوںکہ ہجوم ہمیشہ مثبت اور متحرک توانائی کو جنم دیتا ہے اور ہم لوگ بھی بڑے کنبوں، محلوں، شہروں ودیہاتوں کے ہجوم سے نشوونما پانے والے لوگ ہیں۔ ہم یکجہتی اور بھائی چارے سے بخوبی واقف ہیں، ویسی فضا کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، لہٰذا اس امر سے ساتھ مل بیٹھنے کے مواقع، تخلیقی سوچ کو بخوبی پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ بھی احساس ہوا کہ اپنی زمین سے دور جب لوگ ساتھ مل بیٹھتے ہیں تو احساس پر پڑی بے اعتنائی کی برف پگھلنے لگتی ہے۔

دوسرے دن ڈاؤن ٹاؤن دیکھنے گئے، نارتھ امریکا میں شہر کے مرکز کو ڈاؤن ٹاؤن کہا جاتا ہے، جب کہ برطانیہ وغیرہ میں سٹی سینٹر وغیرہ جہاں واقع خوبصورت دریا کے اس پار کینیڈا کی عمارتیں نظر آرہی تھیں، شہر اسپورٹس کی وجہ سے بھی مشہور ہے اور یہاں بڑے خوبصورت اسپورٹس کمپلیکس دیکھے۔

یہ شہر سبزے کا پیرہن اوڑھے اپنی دھن میں کھویا رہتا ہے، انیسویں صدی میں اسے درختوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ امریکا کی سرزمین پر اترتے ہی سب سے پہلے سبزے اور درختوں نے خوش آمدید کہا، پھر وہ سرزمین کہیں سے بھی اجنبی نہ تھی، اپنائیت اور سرشاری ان درختوں کا خاصا ہے، یہ پرندوں کے ساتھ فطرت کے شیدائیوں کو جلد اپنا دوست بنالیتے ہیں۔
Load Next Story