تحریک انصاف مشکلات کا شکار اندرونی اختلافات بڑھ رہے ہیں

تحریک انصاف کی سونامی کو سب سے بڑا دھچکا پشاور کی ریلی کی کم حاضری...

تحریک انصاف خیبر پختونخواہ کی 20 سے زائد سیٹوں پر کامیابی کیلیے پرامید ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

KARACHI:
تحریک انصاف کیلئے پچھلے چند ہفتے پریشان کن رہے ہیں۔ گوجرانوالہ میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف عمران خان کی قیادت میں نکالی جانے والی ریلی اور اس کے اختتام پر جلسے میں حاضری توقعات سے کم رہی تھی۔تحریک انصاف کی سونامی کو سب سے بڑا دھچکا پشاور کی ریلی کی کم حاضری سے ہوا۔خیبر پختونخوا کو تحریک انصاف کا بہت مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے تاہم پشاور کی ریلی نے تحریک انصاف سمیت سیاسی حلقوں کو بھی حیران کردیا ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت خیبر پختونخوا کی 36 میں سے20 سے زائد سیٹوں پر کامیابی کیلئے پر امید ہے ۔تحریک انصاف کے دعووں کے مطابق پشاور سے آئندہ الیکشن میں عمران خان،قمر زمان،ہاشم خان بابر مضبوط امیدوار قرار دیئے جا رہے ہیں اسی طرح مردان سے محمد خان ہوتی،کوہاٹ سے افتخار گیلانی،مانسہرہ سے اعظم سواتی امیدوار ہوں گے ۔

بٹ گرام،کوہستان،بونیر ،چترال،بنوں اور شانگلہ ہل کی نشستوں پر تحریک انصاف خود کو کمزور سمجھتی ہے ۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور اے این پی تحریک انصاف کے دعووں کو مسترد کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں خیبر پختونخوا کے پہاڑوں سے ٹکرا کر سونامی دم توڑ دے گی۔ بلوچستان میں ''کامیاب''جلسے کے باوجود تحریک انصاف وہاں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ یہی صورتحال سندھ کی ہے۔ اربن سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی بہت مضبوط پوزیشن ہے جبکہ اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ قوم پرست جماعتوں کا پلڑا بھاری ہے۔

وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف میں اپنی زوردار شمولیت کیلئے ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہاں ان کی کامیابی کے امکانات خطرات کی سرحد سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔شاہ محمود قریشی کے بھائی مرید حسین قریشی نے پیپلزپارٹی میں شامل ہو کر اپنے بھائی کی پارٹی پوزیشن کو شدید متاثر کیا ہے ۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جاوید ہاشمی کی جس دھوم دھڑکے سے تحریک انصاف میں شمولیت کروائی گئی تھی

اسے ''بیلنس''کرنے کیلئے مرید حسین قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو مجبور کیا تھا کہ وہ خود چل کر ان کے ملتان میں واقع آبائی گھر آئیں اور مرید حسین کو شمولیت کی دعوت دیں۔ پارٹی کے اندر بھی شاہ محمود قریشی کیلئے ناپسندیدگی بہت بڑھ گئی ہے اور پارٹی کے نظریاتی پرانے کارکن ان پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ وہ برملا اپنے ان خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی دھیرے دھیرے پارٹی کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ڈر ہے کہ ایک دن عمران خان کے ساتھ وہی کچھ نہ ہو جو میاں اظہر کے ساتھ ہوا تھا۔


پنجاب کے بڑے شہروں میں تحریک انصاف کی مقبولیت ضرور موجود ہے لیکن الیکشن میں اس مقبولیت کو ''کیش''کروانے کیلئے مضبوط اور غیر متنازعہ امیدوار درکار ہیں۔

تحریک انصاف کی اپنی جمع تفریق کے مطابق تحریک انصاف کو پنجاب کے44 حلقوں میں برتری حاصل ہے ۔پنجاب کی دو سیٹوں جن میں سے ایک این اے122 لاہور جبکہ دوسری این اے72 میانوالی پر عمران خان الیکشن لڑ سکتے ہیں ۔انعام اللہ نیازی ممکنہ طور پر این اے71 میانوالی،این اے73 بھکرسے نجیب اللہ نیازی ،این اے 75 سے غلام رسول ساہی،این اے94 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے حیدر کھرل،

این اے60 چکوال سے غلام عباس،این اے65 سرگودھا سے خالق لک اور این اے68 سرگودھا سے مظہر قریشی کو پارٹی ٹکٹ مل جائے گا ۔این اے133 شیخوپورہ سے سعید ورک،این اے139 قصور سے خورشید قصوری، این اے140 سے سردار آصف احمد علی امیدوار ہیں۔راولپنڈی کے حلقہ این اے53 میں چوہدری نثار کا مقابلہ کرنے کیلئے تحریک انصاف کے پاس مضبوط امیدوار نہیں ہے

لیکن اگر شیخ رشید ''انصاف پسند'' ہو جاتے ہیں تو صورتحال بدل سکتی ہے۔لاہور سے الیکشن لڑنے کیلئے احسن رشید، فاروق امجد میر، حماد اظہر،عبدالعلیم خان ،میاں محمود الرشید، عمر چیمہ، جمشید اقبال چیمہ،ڈاکٹر یاسمین راشد ،حامد معراج ، میاںاظہر، رشید بھٹی، کھوکھر فیملی اور ولید اقبال امیدوار ہیں لیکن ماسوائے چند ایک کے سب کی پوزیشن بہت کمزور ہے ۔میاں محمود الرشید اور جمشید اقبال چیمہ نے اپنے حلقوں میںحالیہ دنوں میں کامیاب ورکرز کنونشن منعقد کئے ہیں۔

این اے124کے ورکرز کنونشن میں مرکزی رہنمائوں اعجاز احمد چوہدری، حفیظ اللہ خان نیازی، میاں محمود الرشید، ظہیر عباس کھوکھر، جمشید اقبال چیمہ اور چوہدری اصغر گجر سمیت کرامت کھوکھر، شبیرسیال ، ڈاکٹر عاطف الدین، عقیل احمد صدیقی، حاجی جہانگیر ، عبیدالرحمن ، اصغر بٹ، مسرت چیمہ ، افتخار شاہ، مجیب شمسی ، نعیم خان، اعظم چیمہ، اصغر اعوان، عرفان احمد سمیت سینکڑوں کارکنوں نے شرکت کی ۔

تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں ۔فرانس اور بعض دوسرے ملکوں کے رہنما پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ(ن) میں جا چکے ہیں۔ سردار آصف احمد علی نے اعظم سواتی کے خلاف کیس کردیا ہے ۔ابرار الحق اپنی من مانی روکے جانے پر ناراض ہیں جبکہ شعبہ خواتین میں سلونی بخاری، ڈاکٹر نوشین اور ثروت روبینہ کے گروپ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔
Load Next Story