بے ربط قومی نصاب

تعلیمی ترقی کے لیے علاقائی صورت حال اور ضروریات اور جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ادھورے تدریسی عمل کی وجہ سے نصاب میں شامل مضامین کے بہت سے اہم موضوعات تشنہ رہ جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

تعلیمی نظام اور مربوط تعلیمی پالیسی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ ہمارے ملک میں تعلیمی اصلاحات اور قومی نصاب کو بچوں کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر تشکیل نہیں دیا جاتا۔

تعلیمی ترقی کے لیے علاقائی صورت حال اور ضروریات اور جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا نصاب جدید رجحانات اور معیارات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ اساتذہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے اورتربیت کے لیے بھی مختلف پروگراموں کا انعقاد ضروری ہے تاکہ وہ نئی نسل کو روز مرہ ہونے والی ترقی اور دریافتوں کے تناظر میں وا ہونے والے علمی دریچوں سے فیض یاب کراسکیں۔

ادھورے تدریسی عمل کی وجہ سے نصاب میں شامل یکجا مختلف مضامین کے بہت سے اہم موضوعات تشنہ رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے سیکنڈری، انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی سطح تک پہنچ کر بھی طلبہ و طالبات مضمون کے آخری حصے میں موجود موضوعات سے بہرہ ور نہیں ہو پاتے۔ اس سے ایک طرف طلبا کا نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف نصاب کے اس مخصوص حصے سے متعلق اساتذہ کی تدریسی مہارت بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ مزید معلومات میں کمی اور اپنے مضمون پر عبور آخرکار کم زور ہو جاتا ہے، نتیجتاً اعلا تعلیم کے حصول میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنے کی وجہ سے ہمارے پاس معیاری، تربیت یافتہ اور صلاحیتوں کے مالک طلبا و طالبات کم پڑ جانے سے ہمارے ملک میں اعلا تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بجائے بتدریج کمی ہو رہی ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں کے نصاب اور کتابوں خاص کر پرائمری اور مڈل کی سطح پر سائنس، ریاضی اور انگریزی مضامین کی ترتیب و تدوین اور مہارت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔




نصاب میں شامل سائنسی مضامین پرائمری سطح پر بنیادی سائنسی تصورات کا اعادہ کرتے ہیں جب کہ مڈل میں ایک ہی مضمون میں مختلف ابواب کے ذریعے مختلف مضامین کے موضوعات کو ایک ہی جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ جماعت ششم سے لے کر جماعت ہشتم تک سائنس کے مضامین میں ایک ہی فہرست میں لگ بھگ 16 ابواب ہیں۔ جن میں سے پہلے پانچ ابواب حیاتیات، تقریباً چار ابواب کیمیا، پانچ ابواب طبعیات، اوسطاً صرف ایک مضمون، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ایک ایک باب فلکیات، اور سمندری حیات کے بارے میں شامل ہیں۔ اب دوران تدریس ہمارے تعلیمی اداروں میں بہ مشکل 10 ابواب پڑھائے جاتے ہیں جن میں صرف حیاتیات اور کسی حد تک کیمیا کا احاطہ ہوتا ہے اور باقی اہم موضوعات اکثر عدم تسلسل کی وجہ سے رہ جاتے ہیں جس سے طلبہ و طالبات کی نصابی ضرورت پوری نہیں ہو پاتی۔

اس طرح طبعیات، ٹیکنیکل ایجوکیشن، فلکیات جیسے اہم موضوعات اور مضامین رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے آئندہ تعلیمی مدارج بالخصوص سیکنڈری، انٹر میڈیٹ اور گریجویشن پر الگ الگ مضامین اور نصاب براہ راست اُردو سے انگریزی میڈیم میں تبدیل ہونے سے مشکلات میں مزید اضافہ اور تدریسی عمل میں رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا قومی نصاب اور مختلف مضامین میں ربط اور ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ پورے ملک میں یکساں تعلیمی پالیسی پر عملدرآمد کرایا جائے۔ نصاب کو تعلیمی اداروں میں مقررہ دورانیے میں پڑھانے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کی جائے۔ اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی، تربیت، مؤثر تدریسی حکمت عملی، جدید سائنسی مہارتیں، باہمی اشتراک، انفرادی اور اجتماعی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ طالب علموں اور اساتذہ کی جدید طرز پر تربیت کی جائے تاکہ ہمارے طالب علموں کی تعمیر سوچ، تخلیق، تنقید، جستجو اور مہارتوں کو بہتر بنایا جا سکے۔

ترقی کے لیے ایک ایسی تعلیمی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں اسکول کے بہترین تدریسی ماحول اور مختلف روایات کے برعکس مثبت اور انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے بچوں کی تعلیمی آموزش و معیار کو بلند کیا جا سکے۔ تعلیمی اداروں کے لیے انفرادی حکمت عملی اور فیصلوں کے بجائے اجتماعی حکمت عملی اور ہر حال میں اوپن میرٹ کے نفاذ کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی تاکہ تعلیمی مقاصدکے حصول کے لیے اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کے درمیان بہترین روابط کو فروغ دیا جا سکے۔ قومی نصاب میں موجود تمام مضامین کو پڑھانے پر توجہ دی جائے۔ سیکنڈری، انٹرمیڈیٹ، گریجویشن کی سطح پر مختلف مضامین میں مشکلات کو دور کیا جائے اور پڑھائی میں تسلسل پر زور دیا جائے۔ پرائمری، مڈل اور سیکنڈری لیول پر مقررہ وقت میں اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درس گاہوں کی سطح پر جائزہ و رہنمائی کا طریقۂ کار وضع کیا جائے۔
Load Next Story